باکونن ایک عظیم انقلابی

دنیا کے معروف ترین سوشل انارکسسٹ میخائل الیگزینڈروچ باکونن جو 30 مئی 1818 کو روس میں پیدا ہوئے

zb0322-2284142@gmail.com

دنیا کے معروف ترین سوشل انارکسسٹ میخائل الیگزینڈروچ باکونن جو 30 مئی 1818 کو روس میں پیدا ہوئے اور یکم جولائی 1876 میں سوئٹزرلینڈ میں وفات پاگئے۔ وہ انقلابی انارکسسٹ تھے اور اشتراکی انارکسزم کے بانی۔ انارکسزم خیالات کے طاقتور ترین رہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ وہ یورپ کے مشہور ترین نظریہ داں اور باعمل رہنما تھے۔ انھوں نے فرانسیسی فلسفے کا گہرا مطالعہ کیا۔ باکونن ہیگل کے فلسفے سے متاثر تھے۔ اس وقت جرمنی کے سب سے زیادہ متاثرکن فلسفی ہیگل تھے۔

جرمن فلسفہ، ہیگلین فلسفہ کے طور پر بھی جانا جاتا تھا۔ ہیگل کا یہ مشہور مضمون بہت مقبول ہوا کہ 'ہر وہ چیز جو وجود رکھتی ہے، وہ حقیقت ہے'۔ 1840 میں باکونن نے ماسکو یونیورسٹی میں پروفیسر بننے کے لیے تاریخ یا فلسفے کی تربیت و تیاری کے لیے پیٹرس برگ اور برلن کا سفر کیا۔ 1842 میں باکونن برلن سے ڈریسڈین منتقل ہوگئے۔ بعد ازاں وہ پیرس چلے گئے جہاں انھوں نے پیریس جوزف پرودھون اور کارل مارکس سے ملاقاتیں کیں۔ مشرق اور وسطی یورپ پر روسی اور دیگر سامراجی قوتوں کی جارحیت پر ان ملکوں کے حزب اختلاف کی جماعتوں کے سخت موقف نے باکونن پر بے حد اثر ڈالا، جس نے ان کی زندگی کو بدل دیا۔

انھوں نے اپنی زندگی کے پیشہ ور مقصد کی امید چھوڑ دی۔ پولینڈ پر روس کے استحصال کے خلاف بولنے پر انھیں فرانس سے نکال دیا گیا۔ 1848 میں چیک باغیوں کی حمایت کرنے پر انھیں 1849 میں ڈریسڈین، جرمنی سے گرفتار کرکے روس بھیج دیا گیا اور سینٹ پیٹرس برگ میں پیٹریال قلعے میں قید کردیا گیا۔ وہاں وہ 1849 سے 1857 تک مقید رہے۔ جب انھیں مشقتی کیمپ سائیبریا میں جلاوطن کرکے بھیجا گیا تو وہاں سے چھپ کر جاپان چلے گئے اور بعد ازاں امریکا اور اختتام میں کچھ عرصہ لندن میں مقیم رہے۔ وہاں وہ 1863 میں ہرزن کے ساتھ مل کر 'کولوکول' نامی رسالے کے لیے کام کرتے رہے، وہ پولینڈ پر جارحیت کے خلاف جدوجہد میں کچھ عرصہ پولینڈ میں رہے، مگر وہاں وہ اپنے مقاصد حاصل نہیں کرپائے، پھر کچھ عرصے کے لیے سوئٹزرلینڈ اور اٹلی چلے گئے۔

1868 میں باکونن انٹرنیشنل ورکنگ مینز ایسوسی ایشن (سوشلسٹ) میں شامل ہوگئے۔ انھوں نے مزدوروں اور ٹریڈ یونینوں کی فیڈریشن کی جانب سے انٹرنیشنل میں شمولیت اختیار کی،جس کی شاخیں یورپ کے بہت سے ملکوں میں موجود تھیں، اسی طرح لاطینی امریکا میں بھی اور 1872 کے بعد شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں بھی سیکشن موجود تھے۔ باکونیسٹ یا انارکو سوشلسٹ رحجان کو تیزی سے پھیلانے لگا اور انٹرنیشنل کا بہت بڑا سیکشن بن گیا۔


1872 کے ہیگ کانگریس پر مارکس اور ان کے رفقاء حاوی تھے، جو یہ دلیل دیتے تھے کہ ریاست کو استعمال کرتے ہوئے سوشلزم لایا جاسکتا ہے، جب کہ باکونن نے انارکسسٹ فکشن ریاست کو ختم کرکے خودکار فیڈریشن کی تشکیل اور کام والی جگہوں پر کمیون قائم کرنے کی تجویز دی تھی۔ باکونن کانگریس میں شرکت نہیں کرپائے اور وہ نیدرلینڈ نہ پہنچ پائے جس کی وجہ سے ان کے فکشن کو اس کانفرنس میں نقصان اٹھانا پڑا۔ مارکس کے موقف کے مطابق باکونن کو انٹرنیشنل سے اس لیے نکال دیا گیا کہ انھوں نے انٹرنیشنل میں ایک خفیہ تنظیم بنا رکھی تھی۔ بہرحال انارکسسٹ اس بات پر زور دیتے رہے کہ یہ کانگریس غیر نمایندہ ہے اور اس نے اپنے اختیار کو ناجائز استعمال کیا۔

اس لیے انھوں نے انٹرنیشنل کی متبادل کانفرنس 1872 میں ایمئر سوئٹزرلینڈ میں منعقد کی۔ انارکسسٹ فکشن سب سے بڑا فکشن بن گیا۔ باکونن نے سینڈیکیزم اور انارکسزم کے بنیادی نکات کی وضاحت کی۔ انھوں نے اپنے نوجوانوں کو سامراج مخالف قوم پرستی کرنے کو منع کیا۔ (ان کے مطابق، اس لیے کہ اب یہ قوم پرستی تنگ نظری میں بدل گئی ہے)۔ ان کا طویل وقت دو کتابوں کے لکھنے پر صرف ہوا، جس میں 'اٹیٹیزم اینڈ انارکی' اور 'گوڈ اینڈ اسٹیٹ'۔ بہرحال انھوں نے براہ راست جدوجہد میں حصہ لیا۔

1870 میں لیون، فرانس میں حکومت مخالف بغاوت میں حصہ لیا جو کہ پیرس کمیون کا پیش خیمہ تھا۔ پیرس کمیون نے باکونن انارکسسٹوں کے پروگرام سے قریبی رابطہ رکھا ہوا تھا، جس میں خودکار انتظام، مستند نمایندے، ملیشیا کے نظام، منتخبہ افسران اور عدم مرکزیت پر مشتمل تھا۔ الیسی ری کلز اور پیری جوزف پرودھون جنھوں نے باکونن کو بے حد متاثر کیا تھا، جن کا پیرس کمیون میں کلیدی کردار تھا، باکونن کی خرابی صحت اور بارہا قید رہنے سے اور بولوگنا، اٹلی میں نسلی فسادات کے خلاف حکومت مخالف بغاوت میں ملوث ہونے کی وجہ سے انھیں بھیس بدلوا کر سوئٹزرلینڈ واپس بھیجا گیا، جہاں وہ لوگانو میں مقیم رہے۔

وہ یورپ کے مزدوروں اور کسانوں کی تحریک میں ہمیشہ سرگرم رہے، مصر اور لاطینی امریکا کی تحریکوں میں زبردست متاثر کن شخصیت تھے۔ دنیا میں ایسے بے شمار کارکن اور رہنمائوں نے اپنی زندگی مزدوروں اور کسانوں کے لیے وقف کی، جو اس طبقاتی نظام کو ختم کرکے ہموار، برابری، امداد باہمی اور مساوات کے سماج کی تشکیل کے لیے اپنے آپ کو تیاگ دیا۔

وہ سقراط ہوں، ایپی کیورس ہوں، فیرئباخ ہوں، ہیگل ہوں، باکونن ہوں، کارل مارکس ہوں، پرودھون ہوں، ایما گولڈ مان ہوں یا 21 ویں صدی کی وال اسٹریٹ قبضہ تحریک کے کارکنان ہوں، یہ سب اس سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکنے اور ایک غیر طبقاتی نظام کے قیام کے لیے متفق ہیں۔ لیکن باکونن کی برسی کے موقع پر ان کے اس موقف کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ریاست بنیادی طور پر جبر کا ادارہ ہے، یعنی ریاست کے جبر سے آزادی اور سرمایہ کے تسلط سے آزادی حاصل کیے بغیر کوئی بھی آزادی پائیدار ہوسکتی ہے اور نہ ممکن ہے۔
Load Next Story