جہازی سیاست

جب تک شیر پنجاب سلطان راہی زندہ تھے، مار دھاڑ سینما اسکرینوں پر نظر آتی تھی۔

جب تک شیر پنجاب سلطان راہی زندہ تھے، مار دھاڑ سینما اسکرینوں پر نظر آتی تھی ۔ ایک گنڈاسا بردار شیر کھلا پھرتا تھا، اور مار دھاڑ کرتا اور دشمنوں کو سبق سیکھاتا تھا لیکن افسوس بلکہ صد افسوس کہ مسلم لیگ ن کے شیر گلوبٹ نے جس کو ماڈل ٹاؤن کے میدان کار زار میں لانچ (Launch) کیا گیا عوام کو پہلے حیرت زدہ پھر مایوس کردیا۔ اس کے چہرے پر مونچھیں سوا نو بجا رہی تھیں اور وہ ڈنڈے سے کاروں کے بارہ بجا رہا تھا۔ پولیس اس کو گلے لگا رہی تھی اور وہ پولیس کو (دکان کا تالا توڑ کر) کولڈڈرنک پلارہا تھا۔

گلوبٹ فورس کا حوصلہ بڑھا رہا تھا جو پہلے PAT کے کارکن کے سر پر ڈنڈا رسید کرتے جب وہ چکرا کر زمین پر گرتا تو گھیر کر لاٹھی چارج کرتے تھے، سفید ریش باباؤں کی پہلے دھنائی کرتے پھر ان کی بغلوں میں ہاتھ ڈال کر موبائل میں ڈالتے اس طرح لے جا رہے تھے جیسے وہ اپنے پیروں پر چل کر جا رہے ہوں، خواتین بھی محفوظ نہیں تھیں ، سونے پر سہاگہ سیدھا نشانہ لے کر ایک درجن لاشیں (بشمول مرد و خواتین) گرادی گئیں جس کا آسیب نواز حکومت کی جان کا عذاب بن جائے گا۔ یہ سارا تماشا عوام نے کلوز اپ میں، مختلف زاویوں سے سرخ دائروں میں اپنی آنکھوں سے دیکھا بلکہ بار بار دیکھا۔ ہر ایک کے ذہن میں ایک ہی سوال گردش کر رہا تھا کہ آخر گلوبٹ ہے کیا؟ نادان دوست ہے یا۔۔۔۔۔؟

19 جون کو گلوبٹ کے سر پر سرخ بنارسی ڈوپٹہ ڈال کر رکشے میں ریمانڈ کے لیے عدالت لایا گیا۔ وکیلوں اور عوام کو شک ہوا انھوں نے زبردستی دوپٹہ کھینچ لیا۔ پولیس حسب معمول تماشا دیکھتی رہی وکیلوں اور عوام نے جی بھر کے کٹائی کی۔ تھک گئے تو چھوڑ کر چلے گئے۔ پولیس نے زمین پر پڑے ''لم لیٹ'' گلو بٹ کو سمیٹ کر دوبارہ رکشے میں ڈالا اور واپس لے گئے۔ اگر یہ گلوبٹ کو مظلوم بنانے کا ڈرامہ نہیں تھا تو سمجھ لیں اب گلو بٹ شیر نہیں رہا بلکہ کالا ناگ بن گیا۔

پاکستان کے چاروں وزرائے اعلیٰ میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہبازشریف انتظامی صلاحیت کے اعتبار سے سب سے بہتر تھے لیکن سانحہ ماڈل ٹاؤن نے پلک جھپکتے میں ان کی شہرت کو دھندلادیا۔ ساتھ ساتھ نواز شریف حکومت کی ایک سالہ قابل ستائش کارکردگی ، میگا پروجیکٹ کی منصوبہ بندی، توانائی کے منصوبوں پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا۔

مرد مومن مرد حق نے نہ صرف پاکستانی معاشرے کو ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر کا تحفہ دیا بلکہ ارکان اسمبلی کو کروڑوں روپے کی سرکاری رشوت ترقیاتی فنڈز کے نام پر دینے کی روایت بھی ڈالی۔ اس کے علاوہ سیاست دانوں کو جہازی سیاست اور جہازی سیاست جیسے دو عطیات عنایت فرمائے۔ جہازی سیاست بولے تو آگے آگے جہاد فی سبیل اللہ اور پیچھے پیچھے ڈالر فی سبیل اللہ۔ جہازی سیاست کو سمجھنے کے لیے دو واقعات سے واقفیت ضروری ہے۔

وزیر اعظم پاکستان محمد خان جونیجو اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب کے ساتھ چین کے کامیاب دورے سے واپسی پر اسلام آباد ایئرپورٹ پر اترے۔ صدر ضیا الحق کی طرف سے ان کو برطرفی کا خط تھمادیا گیا۔ اس کے بعد وہ اکیلے ایئرپورٹ سے باہر آئے اپنی کار میں بیٹھ کر گھر چلے گئے۔12 اکتوبر کو آرمی چیف پرویز مشرف سری لنکا کے دورے سے واپس آرہے تھے ان کو بائی ایئر By Air برطرف کردیا گیا۔ پرویز مشرف کے ساتھی جرنیلوں نے فیصلہ قبول نہیں کیا۔ ملک میں مارشل لا نافذ ہوا اور منتخب وزیر اعظم گرفتار ہوئے اور بڑے گھر روانہ ہوئے۔


اس لیے سیاسی پنڈت ٹریفک کنٹرول ٹاور کے ریڈار پر جہازوں کی چال کا بغور جائزہ لے کر پیش گوئی کرتے ہیں کہ جہازی سیاست ملک کے وزیر اعظم پر ہی بھاری پڑتی ہے۔

23 جون کو عوامی تحریک کے رہنما طاہر القادری کو اسلام آباد پہنچنا تھا تاکہ اسلام آباد تا لاہور لانگ مارچ کی قیادت کرسکیں۔ ان کے طیارے کا رخ موڑ کر لاہور اتار لیا گیا۔ طیارہ غیرملکی تھا پرواز بین الاقوامی۔ جس میں روسی سفیر سمیت سو (100) غیر ملکی مسافر بھی تھے۔ طاہر القادری نے اترنے سے انکار کردیا۔ طیارہ پانچ گھنٹے تک ایئرپورٹ پر رکا رہا۔ گورنر پنجاب، گورنر سندھ، وزیر اعظم، وزیر داخلہ کی مشترکہ کوشش کام آئی اور طاہر القادری طیارے سے باہر آگئے۔

یہ Establish کرنے کے بعد کہ مسافروں کو دھوکہ دے کر ان کی مرضی کے خلاف زبردستی لاہور ایئرپورٹ لے جاکر 5 گھنٹے محبوس کیا گیا۔ اب ایک نیا طیارہ سازش سپریم کورٹ میں داخل کرنے کی کاغذی تیاریاں مکمل کی جا رہی ہیں بقول طاہر القادری صاحب بین الاقوامی قوانین کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے۔سوال یہ ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن سے لے کر طیارے کا رخ بدلنے تک سارے جھمیلے سے حکومت کو کیا فائدہ ہوا؟ صرف لانگ مارچ کچھ عرصے کے لیے ملتوی ہوا۔

اب یہ بعد رمضان لاہور سے اسلام آباد کی طرف روانہ ہونے جا رہا ہے۔ جس پر ماڈل ٹاؤن کی بارہ لاشوں کا آسیب سایہ فگن ہوگا اور PAT کے کارکن ہوں گے تو وہی جنھوں نے پچھلے سال اسلام آباد میں دھرنے کے دوران اسلام آباد کی ایک کھڑکی کا شیشہ یا پھولوں کا ایک گملہ نہیں توڑا تھا لیکن اب حالات ویسے نہیں رہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد انھوں نے راولپنڈی میں بقول وزیر اطلاعات پرویز رشید ڈنڈوں سے پولیس کی کھوپڑیوں کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں چالیس پولیس والوں کو اسپتال میں داخل کرنا پڑا۔

آخر میں (ن) لیگ کے انتہائی شائستہ مزاج نرم گفتار رہنما کا ایک افسوسناک بیان پیش کروں گا۔

''قادری کی حیثیت اس گورکن جیسی ہے جو دفنانے کے لیے لاش ڈھونڈتا ہے؟ پھر رات کو اس کا کفن چراتا ہے؟''

اخلاقیات پہ مٹی پاؤ! اور خدا لگتی کہو! کیا مذکورہ بیان پڑھ کر بھی عوام کو یقین نہیں آئے گا کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری ضرور کوئی ''توپ'' چیز ہے؟
Load Next Story