شام میں صدارتی انتخابات استحکام کی امید …
مشرق وسطی میں جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے انتہائی اہم ملک
مشرق وسطی میں جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے انتہائی اہم ملک اور اسرائیل کے خلاف واضح موقف رکھنے والی صف اول کی عرب ریاست شام حالیہ صدارتی انتخابات کے بعد متوقع امن واستحکام کے نئے عہد میں داخل ہوگئی ہے جہاں باغیوں کے بظاہر پسپا ہونے کے بعد عوام انتخابی عمل میں شامل ہو کر انھیں مسترد کر چکے ہیں۔
باغیوں کی شام کے بیشتر علاقوں سے پسپائی کے بعد وہاں ہونیوالے انتخابات میں عوام کی بھرپور اور پرجوش شرکت کے بعد شامی صدر بشارالاسد مزید اعتماد کے ساتھ نئی حکومت کے قیام میں کامیاب ہوگئے ہیں اس بات کا عملی تجربہ شام میں رواں ماہ ہونیوالے صدارتی انتخابات کے موقع پر ''بین الاقوامی مبصر مشن'' کے ہمراہ دارالحکومت اور اس کے نواحی شہروں وقصبوں کے دورے کے موقع پر ہوا جو شام کے صدارتی انتخابات کے موقع پر انتخابات سے صرف ایک روز قبل 2جون کو دمشق پہنچا تھا اور پاکستانی و بھارتی صحافیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے افراد بھی 32 ممالک پر مشتمل اس مبصر مشن کا حصہ تھے جس میں ایک صحافی اور پاکستان کے صف اول کے قومی روزنامے ''روزنامہ ایکسپریس'' کے اس نمایندے کو بھی شامل ہونے کا موقع ملا اور انتخابات کے روز اسی مبصر مشن میں شامل پاکستانی وبھارتی صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے ہمراہ شام کے دارالحکومت دمشق اوراس کے مضافاتی شہروں وقصبوں کے پولنگ اسٹیشنز کا دورہ کیا تو شام کے عوام پولنگ اسٹیشن پر یہ کہتے نظر آئے کہ یہ انتخابات اور ان کا ووٹ دراصل شام میں عدم استحکام پیداکرنیوالے جنگجوؤں اور ان کی پشت پناہ طاقتوں کے خلاف ہے وہ اپنے ووٹ سے شام میں امن، سکیورٹی پائیدار جمہوری عمل اورسیاسی استحکام دیکھنا چاہتے ہیں۔
دہشت اور خوف کی علامت سمجھے جانے والے ملک شام کے حالات کے بارے میں جو کچھ سنا اور پڑھا تھا اس کے عین برعکس وہاں کے عوام بے خوف، مطمئن اور پرجوش نظر آئے اور انتخابات کے روز پولنگ اسٹیشن پر عوام کا رش دیکھنے کے بعد شام میں دہشت اور خوف کے حوالے سے ہمارا وہ نظریہ یکسر تبدیل ہو گیا جو ہم پاکستان سے اپنے ساتھ لے کر چلے تھے۔ شام میں انتخابات کے مشاہدے کے لیے ہم 2جون کی رات دمشق انٹرنیشنل ایئرپورٹ اترے تو وہاں شامی پارلیمنٹ کے اسپیکر کے نمایندوں نے پاکستانی وبھارتی وفد کا استقبال کیا جو دبئی سے وہاں پہنچا تھا اس مبصر مشن میں روس، ایران، برازیل، ونیزویلا، بولیویا، تاجکستان، شمالی کوریا، یوگینڈا اور زمبابوے کے سرکاری جب کہ امریکا اورکینیڈا سمیت دیگر ممالک کے غیرسرکاری وفود شامل تھے اور ہمارے دمشق پہنچنے سے کچھ دیر قبل ہی ایئرپورٹ پر اسی مشن کے دیگر وفود بیروت سے آنیوالی فلائیٹ سے وہاں پہنچے تھے۔
ایئرپورٹ لائونج میں کچھ دیر قیام اور خیرمقدمی کلمات کے بعد ہم گاڑیوں میں سوار ہوکر دمشق کے ایک فائیوسٹار ہوٹل پہنچنے تاہم رات کی تاریکی میں ایئرپورٹ سے دمشق کے مرکزی علاقے تک کے سفرمیں ہم پرخوف کی وہی صورت طاری تھی جس کے بارے میں ہم نے پڑھا اورسنا تھا لیکن دمشق کے مرکزی علاقے میں پہنچنے کے بعد رات کی تاریکی پر روشنیوں کا غلبہ نمایاں تھا اور شہر دمشق کی روشنیوں نے شام کی تاریکیوں کو اجالے میں تبدیل کر دیا تھا جہاں زندگی اپنی رمق دمق کے اتھ رواں دواں تھی ہمارے اسی مشن کے کچھ وفود کو ہوٹل سے کچھ مسافت پر دماروز ہوٹل میں ٹہرایا گیا تھا جو انتخابات کی سرگرمیوں کو مانیٹر کرنیوالے سماجی وانسانی حقوق کے کارکنوں، غیرملکی سرکاری وفود اور غیرملکی ذرایع ابلاغ کا مرکز بنا ہوا تھا اور اسی ہوٹل کی نویں منزل پر ایک وسیع ہال میں میڈیا مانیٹرنگ سینٹر قائم کیا گیا تھا جہاں دنیا کے مختلف خطوں سے آئے ہوئے ذرایع ابلاغ کے نمایندوں کو منعقدہ انتخابات کے حوالے سے اپنی رپورٹ تیار کرنے اور بجھوانے کی سہولت دی گئی تھی۔
اسی میڈیا مانیٹرنگ روم سے منسلک نیوز روم اور اسٹوڈیو بھی قائم کیا گیا تھا۔ 3جون کی صبح شام میں انتخابات کا دن تھا اور اس دن کے سورج کے طلوع ہوتے شامی عوام اپنے اور اپنے ملک کے مستقبل کا فیصلہ بندوق کے بجائے ووٹ سے کرنے کے لیے ہمیں سڑکوں پر پولنگ اسٹیشن کے اندر اور باہر نظر آئے اسی صبح ہم اپنے ہوٹل سے مبصر مشن کی سرگرمیوں کے مرکز دماروز ہوٹل پہنچے جہاں سے ہمیں دمشق اور اس سے باہر شام کے دیگر شہروں میں انتخابات کی آزادانہ مانیٹرنگ کے لیے پہنچنا تھا۔
یہاں پہنچنے کے بعد ہم اپنی صحافیانہ اذہان اور فکر کے مطابق یہی گمان کرتے رہے کہ شامی حکومت کے اہلکار ہمیں پہلے سے طے شدہ اپنے زیرتسلط ان علاقوں میں لے جائینگے جہاں انھی کے ووٹ بینک کا زور ہوگا تاہم ایسا نہیں ہوا بلکہ اس کے برعکس ہمارے مبصر مشن سے کوآرڈینیٹ کرنیوالے شامی افسران نے شہروں اور قصبوں کی ایک طویل فہرست ہمارے سامنے رکھ دی اور یہاں تک کہا گیا کہ پاکستان اور بھارت سے آنیوالے مبصر مشن میں شامل افراد علیحدہ علیحدہ بھی ان شہروں میں جا سکتے ہیں تاکہ ہم میں سے ہرشخص انتخابات کے حوالے سے اپنا مشاہدہ اور تجربہ کر سکے جس کے بعد ہمارے کچھ دوست بذریعہ طیارہ چند گھنٹوں کی مسافت طے کر کے طرطوس، لٹاکیہ اور بنیاس سمیت دیگر شہروں میں چلے گئے جب کہ دو بھارتی صحافیوں میں سینئر جرنلسٹ اور (پاکستان انڈیا پیپلز فورم فارپیس اینڈ ڈیموکریسی) کے رکن جتن دیسائی اور دی ٹائمز آف انڈیا گروپ کی اسسٹنٹ ایڈیٹر اور خاتون صحافی اناہیتھا مکرجی کے ہمراہ میں نے دمشق، الغزلانیہ، جرمانہ اور صحنایا کے پولنگ اسٹیشنزکا دورہ کیا اور انتہائی قریب سے وہاں جاری انتخابی عمل کا جائزہ لیا۔
واضح رہے کہ شام کے صدارتی عہدے کی مدت 7برس ہے اور آیندہ 7برسوں کے لیے شام میں 3 صدارتی امیدواروں ''ماھر عبدالحفیظ حجار، بشار حافظ الاسد اور حسان عبداللہ النوری'' کے مابین مقابلہ تھا۔ دمشق، الغزلانیہ، جرمانہ اور صحنایا میں ہم نے مجموعی طور پر 9 مختلف پولنگ اسٹیشنزکا دورہ کیا جو اسکول، جمنازیم، کمیونٹی ہال اور اسپورٹس کلب میں قائم کیے گئے تھے شامی شہر جرمانہ ایک عیسائی اکثریتی علاقہ تھا جب کہ دیگر شہروں میں مسلم آبادی کی اکثریت تھی تاہم حیرت انگیز طور پر ہمیں ان چاروں شہروں میں پولنگ اسٹیشن پر موجود عوام کے منہ سے ایک ہی نعرہ سنا ''اللہ، سوریا، بشارالاسد'' اور چاروں شہروں میں یہ نعرہ خواتین اور بچوں میں مقبول اور تالیوں کی گونج کے ساتھ لگایا جا رہا تھا ایک پولنگ اسٹیشن پر ہم نے یہ سوال بھی کیا کہ کچھ عرصے قبل تک بشارالاسدکے خلاف بڑے عوامی مظاہرے کیے گئے۔
لوگوں نے مسلح باغیوں کی حمایت میں اجتماعات کیے آخر اب ایسا کیا ہو گیا کہ جہاں جا رہے ہیں ایک ہی امیدوار کی حمایت اور ایک ہی نعرہ ہر زبان پر ہے اس سوال کا جواب ایک خاتون نے ان الفاظ میں دیا ''ہم اپنے نظریات کے مطابق زندگی گزارنا چاہتے ہیں ہم نے بشارکی حکومت بھی دیکھی ہے اور باغیوں کا دور بھی دیکھنے کو ملا جس کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے فرد واحد کی دی ہوئی جمہوریت، ڈیموکریسی کے نام پر اکثریت کی مسلط کردہ آمریت سے کہیں بہتر ہے'' ایک اور نوجوان کا کہنا تھاکہ ''بشار کے دورمیں ہمیں سماجی ناانصافی کے چند ایک تجربات ضرور ہوئے تھے تاہم ظلم وبربریت کے قصے کہانیوں کی عملی شکل ہمیں باغیوں کے دور میں نظر آئی جس کے ہم براہ راست شکار ہوئے جس کے بعد ہم نے انتخابات میں ووٹ ڈال کر باغیوں کے مقابلے میں موجودہ نظام کو ہی اپنانے کا فیصلہ کیا ہے''۔
واضح رہے کہ شام میں بھی ووٹ ڈالنے والے شخص کی عمر کی کم سے کم حد 18برس ہے اور ووٹ ڈالنے کے لیے انھیں کمپیوٹرائز شناختی کارڈ ساتھ لانے کا پابند کیا گیا تھا جب کہ ووٹ ڈالنے کے لیے آنیوالوں کی شناخت اسٹیشن پر موجود ووٹر لسٹ سے بھی کی جا رہی تھی شام میں ووٹنگ کے اوقات صبح 7 بجے سے شام 7بجے تک مقررکیے گئے تھے تاہم غیرمعمولی ٹرن آئوٹ کو دیکھتے ہوئے شام کوووٹنگ کے اوقات میں 5 گھنٹے کی توسیع کا اعلان سامنے آیا اور رات 12بجے تک مختلف پولنگ اسٹیشن ووٹنگ کے لیے کھلے رہے ہرچندکے شام 7بجے کے بعد عوام کا وہ ویسا ہجوم اب پولنگ اسٹیشن پر نہیں تھا بحرحال اسی شور شرابے میں 3جون کا دن ختم ہوا اور اگلی صبح 9بجے ہمارے مبصر مشن میں شامل اراکین کا اجلاس شروع ہوا جس میں شامل تمام ممالک کے افراد نے اپنے اپنے تجربات سے ایک دوسرے کو آگاہ کیا۔
واضح رہے کہ اس اجلاس کی صدارت بھی شامی بحران کو سنبھالا دینے والے ممالک میں سے ایک اہم ملک روس کر رہا تھا اور روس کے الیکشن کمیشن کے سربراہ Anton Igorevich Lopatin, اس اجلاس میں خود موجود تھے جب کہ روس، ایران، برازیل، ونیزویلا، بولیویا، تاجکستان، شمالی کوریا، یوگینڈا اور زمبابوے سے سرکاری سطح جب کہ امریکا اور کینیڈا سے غیرسرکاری اداروں کے وفود اس عالمی مبصرمشن کے شرکاء کے طور پرکانفرنس کا حصہ تھے اجلاس کے بعد متفقہ طور پر ایک مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا جس میں 32 ممالک کے وفود نے شام میں منعقدہ صدارتی انتخابات کو آزادانہ اور شفاف قرار دیتے ہوئے اسے عوام کے لیے سنگ میل اور 3 سال سے مسلط جنگ میں استحکام کے راستے سے تعبیر کیا۔
روس کے سینٹرل الیکشن کمیشن کے سربراہ اور روسی وفد کے چیف Anton Igorevich Lopatin, نے شام کے صدارتی انتخابات اوراس کے نتائج کوایک حقیقت قرار دیا بین الاقوامی مبصرمشن کی منعقدہ کانفرنس اور مشترکہ اعلامیے کے اجراء کے بعد اسی روز شام میں صدارتی انتخابات کے نتائج کا سرکاری سطح پر اعلان کر دیا، اس دعوے کے مطابق شام میں 3 امیدواروں کے مابین منعقدہ انتخابات میں موجودہ صدر بشارالاسد ہی سادہ اکثریت کے ساتھ کامیاب ہوگئے شامی ذرایع ابلاغ میں صدر بشاالاسد کی فتح کا اعلان ہوتے ہی دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں لوگ مرد، خواتین اور بچے سڑکوں پر نکل آئے اورگویا ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ شام میں عید یا کسی بڑے فیسٹیول کا سماں ہو نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی بڑی بڑی ریلیاں دارالحکومت کی سڑکوں پر نظر آئیں جو سڑکوں پرمحورقص تھے اور بینڈباجوں کے ساتھ تالیوں کی گونج میں وہ اسے شامی عوام کی فتح سے تعبیر کر رہے تھے۔
شام میں انتخابی نتائج کے اعلان کے کچھ دیر بعد ہی جس ہوٹل میں ہم مقیم تھے اسی ہوٹل کی لابی میں ایک صدارتی امیدوار حسان نوری نے ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات میں مقابلہ اور فتح وشکست ہم امیدواروں کے مابین نہیں بلکہ شام کے عوام اور دہشتگردوں کے درمیان ہوئی ہے جس میں شام کے عوام کامیاب ہو گئے ہیں کہتے ہیں کہ ''زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو'' لہذا اگر اس محاورے کے مصداق شام کے عوام کی اکثریت کے فیصلے کا احترام کیا جائے تو دہشتگردوں کا سہارا لے کر شام پر جنگ مسلط کرنیوالی عالمی طاقتوں کو بھی اسے شامی عوام کا فیصلہ سمجھ کر قبول کر لینا چاہیے۔