لکشمی آئی ایم ایف یا کمپنی

آئی ایم ایف کے ساتھ ہم نے اپنا کھاتہ شاید بیس کروڑ ڈالر سے کھولا تھا

barq@email.com

ہم کسی چیزکوایک دم نہیں پہچانتے یا پورا نہیں پہچانتے جیسے ہم کسی بچے کو پہلے ''للا '' کہتے ہیں پھر کاکا کہہ کر بلاتے ہیں یا ماڈرن دنیا میں بابا کہتے ہیں پھر لڑکا پھر نوجوان اورجوان وغیرہ یا ماں کو مم ، مما پھر ماں پھر امی ،امی جان اورماں جنت کی ہوا وغیرہ، یعنی ہرچیز ''بیج'' سے لے کر پھر ''بیج'' تک کئی مراحل طے کرتی ہے یا چور لوگ پہلے انڈے چراتے ہیں پھر مرغیوں کو ہدف بنا لیتے ہیں پھر بھیڑ بکریاں پھر گائے بھینس ، پھر گھربار لوٹتے ہیں اورآخر میں ملک وقوم کو لوٹ کر ممتاز رہنما بن جاتے ہیں۔ قابل اجمیری نے بھی اس بات کو ایک اور پیرائے میں بیان کیا ہے کہ ؎


وقت کرتا ہے پرورش برسوں


حادثہ ایک دم نہیں ہوتا


چنانچہ یہ جو ہماری محترمہ ممدوحہ ، مہربانہ ،محسنہ، شیخہ، صوفیہ لکشمی دیوی عرف آئی ایم ایف کے ساتھ بھی ہم نے اپنا کھاتہ شاید بیس کروڑ ڈالر سے کھولا تھا جب ڈالر ساڑھے چار روپے کا ہوتا تھا اورسواچار روپے میں دومن گندم۔ایک من مکئی اورایک من جو آتا تھا ،چائے کی پتی تین روپے کلو، بناسپتی گھی تین روپے اوردیسی گھی دس روپے کلو نہیں بلکہ سیرآتا تھا۔


اوراب وہ بیس کروڑ کاتعلق اتنا گہرا ہوچکا ہے کہ کوئی ماہرترین غوطہ زن بھی اس کی گہرائی ناپ نہیں سکتا البتہ ''الوؤں'' کو اس کی گہرائی کا پتہ ہوتا ہے کیوں کہ ان محترمہ کو صرف الوؤں کی سواری پسند ہے بلکہ اب تو بات الوؤں سے آگے بڑھ کو الو کے پٹھوں کے پٹھوں تک بھی دراز ہوگئی ہے ۔ پہلے تو ہم اس بات کی معذرت کیے لیتے ہیں کہ اکثر لوگ اسے مذکر باندھتے ہیں لیکن ہمیں اس کے لیے صیغہ مذکر استعمال کرنا بالکل بھی اچھا نہیں کیوں کہ دولت کی دیوی ہر ہردیومالا میں مونث ہوتی ہے جسے ہند میں لکشمی اور وہ وشنومہا راج کی دھرم پتنی ہے ۔



بات ہم اس کی مرحلہ وار پہچان اورشناخت کی کرتے ہیں ابتداء میں جب ہم نے اس کا نام سنا تو سمجھے کہ ہوگی کوئی مخیر اورمہربان خاتون، جو الو کی سواری کرتے کرتے خود بھی اولوئین بن جاتی ہے یہ تو ہمیں معلوم ہی نہیں تھا کہ مشرق اورمغرب میں اتنا ہی فرق ہے جتنا طلوع وغروب میں ہوتا ہے ، ہم مشرق والے ''الو'' کو وہی سمجھتے ہیں جو خود کو سمجھتے ہیں اورمغرب والے بھی اسے وہی سمجھتے ہیں جو وہ خود ہوتے ہیں ۔


خیر تو ہم بھی اسے پہلے کوئی نہایت ہی مہربان، دیالو اورمخیر خاتون سمجھتے تھے جوشاید ہمارے لیڈروں کے بے پناہ ''گن''دیکھ کر ان پر عاشق ہوگئی جو اونچی اونچی دنیا کی ''دیواروں'' کی ساری رسمیں توڑ کر ہماری ہوگئی اورعشق کے بارے میں تو آپ جانتے ہیں کہ یہ نادان بھی ہوتا ہے، بے وقوف بھی اور احمق بھی بلکہ ساتھ ہی کمینہ بھی بدمعاش بھی اور ضدی ہٹ دھرم بھی ۔لیکن یہ ہماری نادانی بلکہ الوپن تھا ۔ سید محمد جعفری نے تو کہا تھا کہ ، جسے سمجھتے تھے انناس وہ عورت نکلی۔ لیکن یہاں ہم جسے عورت یا دیوی سمجھے تھے۔ وہ چڑیل ڈائن پشاچ (ڈراکیولا)) ڈاکنی اور نہ جانے کیا کیا نکلی۔


ہم حیران تھے کہ اتنی گن وتی شریتی کو اگر ایک نام دیں گے تو کیا دیں گے ، کیلوپیٹرا آف مصر زہرہ بائی ہاروت ماروت والی، افرودینی بائی ،یونان والی،وینس والی ،روم والی،عشاربائی، بابل والی، اناہتا بائی ، ایران والی۔ لیکن مسئلہ خود بخود اسی نے حل کردیا ہمارے ''بجٹوں'' میں اپنی خواہشات اور مطالبے ڈال کر اس نے جو نام کمایا ہے، وہ ہے ایسٹ انڈیا کمپنی بنگال والی۔


ایسٹ انڈیا کمپنی بھی اسی طرح وجود میں آئی تھی جب ایک فرنگی ڈاکٹر نے جہانگیرکی بیوی کا علاج کیا اور''مانگ کیا مانگتا ہے'' کے جواب میں اس نے بنگال کے ساحل پر ایک کوٹھی مانگی۔


لیکن ہردورکے الگ الگ ہتھیار ہوتے ہیں ، فی الحال تو ایسٹ انڈیا کمپنی جدید صرف بجٹ تک پہنچتی ہے، آگے آگے شاید بات ''مینو'' تک بھی پہنچ جائے یعنی پاکستانیوں کو کیا کھانا ہے کیا نہیں کھانا ہے کیا کرنا ہے کیا نہیں کرنا ہے ؟


یہ بھی ایسٹ انڈیا کمپنی عرف لکشمی بائی طے کرے گی۔

Load Next Story