عورت کی دوسری شادی معیوب نہیں

ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ مطلقہ یا بیوہ عورت پر دوسری شادی کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں

بیوہ یا مطلقہ سے نکاح کرنا سنت رسولؐ ہے۔ (فوٹو: فائل)

اسلام دین فطرت ہے، مرد و زن کے حقوق کا یکساں محافظ۔ عبادات کا معاملہ ہو یا معاشی، معاشرتی یا اقتصادی معاملات، ہر شعبہ زندگی میں عورت کو مرد کی طرح مکمل حقوق فراہم کرتا ہے۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام مرد اور عورت دونوں کے برابر حقوق کا ضامن ہے تو یہ بات بالکل درست ہے، اس میں کسی شک اور شبہ کی گنجائش نہیں۔


بحیثیت انسان ہم جب بھی برابری کی بات کرتے ہیں وہاں پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ حقائق کیا ہیں، وہ اصناف جن کو ہم برابری کے ترازو میں تول رہے ہیں کیا وہ ہر لحاظ سے برابر ہیں، تو مرد و زن کے دائرہ میں دیکھ سکتے ہیں کہ یہ دونوں اصناف جسمانی، ذہنی اور روحانی ہر اعتبار سے ایک دوسرے کے مختلف ہیں۔ اللہ تبارک تعالیٰ نے ان دو مختلف اصناف کے دائرہ کار حقوق و فرائض کے اعتبار سے ہر لحاظ سے مختلف رکھے ہوئے ہیں، لیکن اس میں بھی مکمل عدل ہے، کہیں پر عورت کے حقوق مرد سے زیادہ ہیں جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے کہ ماں کے حق کے بارے میں پوچھنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی تین مرتبہ ماں کے حقوق کے بارے میں فرمایا اور چوتھی بار باپ کے حق کے بارے میں کہا گیا۔ اور کئی میدان زندگی میں مرد کے حقوق زیادہ ہیں اور عورت پر زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے۔


اس لحاظ سے یہ کہنا کہ اسلام مکمل مساوات کا دین ہے اور اس نے مرد اور عورت کے حقوق و فرائض کے معاملے میں مکمل عدل سے کام لیا ہے۔ زندگی کے کچھ دائرہ میں عورت کے حقوق زیادہ رکھ دیے اور کچھ دائرہ کار میں مرد کے، تو یہ عدل و انصاف کی اعلیٰ مثال ہے، جس کی ذرہ برابر جھلک بھی آپ کو کسی اور مذہب یا سوسائٹی میں نہیں ملے گی۔


عائلی زندگی کے معاملات میں جہاں مرد کو مشروط چار شادیوں کی اجازت دی گئی ہے تو وہاں پر عورت کو یکسر نظر انداز نہیں کردیا گیا، اور نہ ہی ہمیں یہ حکم نظر آتا ہے کہ عورت ایک نکاح کے بعد دوسرا نکاح نہیں کرسکے گی، بلکہ اسلام ہی وہ واحد دین ہے جو مطلقہ یا بیوہ سے نکاح کو مستحسن قرار دیتا ہے۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اللہ کے حکم سے آپؐ کے تمام نکاح مطلقہ (حضرت زینب بنت جحشؓ) اور بیوہ عورتوں (حضرت خدیجہؓ، حضرت سودہؓ، حضرت حفصہؓ، حضرت زینب بنت خزیمہؓ، حضرت ام سلمہؓ، حضرت جویریہؓ، حضرت صفیہؓ، حضرت ام حبیبہؓ، حضرت میمونہؓ) سے ہوئے، سوائے ایک کنواری لڑکی (حضرت عائشہؓ) کے۔


آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپؐ کے صحابہ کی بھی یہی سنت رہی کہ وہ بیوہ یا مطلقہ عورت سے شادی کرنے میں کوئی ملامت محسوس نہ کرتے۔ اسلام کی نامور خواتین کے بھی ہمیں متعدد نکاح نظر آتے ہیں۔ سب سے پہلی مثال تو ازواج رسولؐ ہی ہیں۔ حضرت خدیجہؓ اور حضرت جویریہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تیسرے نکاح میں آپ کے عقد میں آئیں، باقی خواتین مطلقہ یا بیوہ ہونے کی صورت میں آپؐ کے نکاح میں آئیں، سوائے حضرت عائشہؓ کے۔ اس کے علاوہ نامور صحابیات ہیں جن کے متعدد نکاح ہوئے، ان میں سے حضرت اسما بنت عمیسؓ کا پہلا نکاح حضرت جعفر طیار کے ساتھ ہوا، ان کی شہادت کے بعد دوسرا نکاح حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ساتھ ہوا، ان کی وفات کے بعد ان کا تیسرا نکاح حضرت علیؓ کے ساتھ ہوا۔


ایسے ہی حضرت عاتکہ بنت زید جو کہ شہیدوں کی بیوی کے نام سے بھی تاریخ میں مشہور ہیں، ان کا پہلا نکاح حضرت زید بن خطاب سے ہوا، بعد میں ان دونوں کی طلاق ہوگئی، جنگ یمامہ میں حضرت زید شہید ہوگئے، ان کا دوسرا نکاح حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بیٹے عبداللہ بن ابی بکر سے ہوا، غزوہ طائف میں تیر لگنے سے زخمی ہوئے اور اسی سے شہادت پائی، اس کے بعد ان کا تیسرا نکاح حضرت عمر سے ہوا، حضرت عمر کی شہادت کے بعد ان کا چوتھا نکاح حضرت زبیر بن عوام سے ہوا، جنگ جمل میں ان کی شہادت کے بعد ان کا پانچواں نکاح حضرت حسین بن علی سے ہوا مگر شہادت حسین سے پہلے ہی آپ وفات پاگئیں، اسی لیے تاریخ میں شہیدوں کی بیوی کی حیثت سے شہرت پائی۔


نکاح کا بنیادی مقصد نگاہ اور جسم کی پاکیزگی ہے اور اس سے عورت کو ایک معاشی حفاظت بھی مل جاتی ہے، کیونکہ اسلام نے معیشت کی ذمے داری مرد کے کندھوں پر ڈالی ہے، تاکہ عورت باہر کی مصیبتوں سے بچ سکے۔ نکاح کا مقصد ایک باوقار اور سنجیدہ زندگی گزارنا ہے، اس سے خاندانی نظام کی بنیاد رکھی جاتی ہے، اور نکاح کے اس کنٹریکٹ کو مکمل ذمے داری سے نبھانے کا اسلام تقاضا بھی کرتا ہے۔



لیکن اگر کسی وجہ سے یہ رشتہ صحیح طریقے سے نہیں نبھایا جارہا تو اس میں علیحدگی کا انتخاب بھی رکھا گیا ہے۔ اگر مرد کو طلاق کا حق دیا گیا ہے تو عورت بھی تنسیخ نکاح کرا سکتی ہے۔ اس حد تک بھی اسلام عورت کے حقوق کا ضامن ہے۔


آج بھی عرب معاشرے میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جیسے ہی کوئی عورت کسی بنا پر مطلقہ ہوتی ہے یا بیوہ تو اس کی عدت پوری ہونے کے بعد اس کے رشتے آنا شروع ہوجاتے ہیں، چاہے وہ کسی بھی عمر کی ہو اور وہ بھی جہاں چاہے نکاح کرسکتی ہے، کیونکہ اسلام بیوہ یا مطلقہ کو کنواری کی نسبت اس بات کا زیادہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنے بارے میں فیصلہ کرے، اور اس میں کوئی معیوب بات بھی نہیں۔


بعض اوقات پہلے نکاح سے عورتوں کے ساتھ بچے بھی ہوتے ہیں، ان کے معاش کی ذمے داری عورت کیسے سنبھالے، مگر ہماری سوسائٹی کا یہ المیہ ہے کہ یہاں پر جیسے ہی ایک عورت مطلقہ یا بیوہ ہوتی ہے اس پر زندگی کے تمام دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور اس پر لازم کردیا جاتا ہے کہ وہ پہلے شوہر کی یادوں کے سہارے ہی اپنی باقی زندگی مکمل کرے۔ اسی المیے کے پیش نظر وہ خواتین جن کے نکاح حیوان نما مردوں سے ہوجاتے ہیں وہ ان کو نبھانے میں اپنی جان تک سے چلی جاتی ہیں لیکن مطلقہ کا لیبل نہیں لگاتیں، کیونکہ انہیں اس بات کا اندازہ ہے کہ جیسے ہی اس پر یہ لیبل لگے گا ہر طرف سے انگلیاں اسی پر اٹھیں گی، ایک عورت ہی تمام گناہوں کی سزاوار ہوگی۔


یہ ہمارا معاشرہ ہے برصغیر پاک و ہند کا جہاں پر عورت کو ''ستی'' کے نام پر ختم کردیا جاتا ہے۔ اسلام میں ہمیں ایسی کوئی تعلیمات نہیں ملتیں، اور اگر کوئی عورت اپنے بارے میں دوسرے نکاح کا فیصلہ کرتی ہے تو سب سے پہلے اس سے اس کے بھائی باپ ہی لاتعلقی کا اظہار کردیتے ہیں جیسے کہ وہ بہت کوئی حرام کام کرنے جارہی ہے۔


اگر نکاح سنت رسولؐ ہے جیسا کہ فرمان ہے ''نکاح میری سنت ہے، جس نے نکاح نہ کیا وہ ہم میں سے نہیں''۔ تو بیوہ یا مطلقہ سے نکاح کرنا یا ان کا نکاح کرنا بھی تو سنت رسولؐ ہے۔ اس مبارک سنت کی طرف کسی باوقار مسلمان کا دھیان نہیں جاتا؟ کیا اپنے مطلب کی سنتوں پر عمل کرنا جس میں ہمارا فائدہ ہے اور باقی سنتوں کو یکسر نظر انداز کردینا منافقت نہیں؟ کیا صرف لباس اور وضع قطع میں سنتوں کو اختیار کرنا اور عمل کے دائرہ کار میں سنتوں سے اعراض کرنا منافقت نہیں؟


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔




اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔


Load Next Story