اچھی کہانی کے بنا ڈرامہ یا فلم کی کامیابی ممکن نہیں

شوبزکی دنیا میں 18برس بعد واپس آنے والے اداکاروگلوکاراسدنذیرکی دلچسپ گفتگو

ماصی میں فنکار اسکرپٹ یاد کرنے کے ساتھ ریہرسلزبھی کرتے تھے لیکن آج کل ریس لگی ہوئی ہے، اسد نذیر۔ فوٹو : فائل

پاکستان کی دھرتی ایسے فنکاروں سے مالامال ہے جوفنون لطیفہ کے ایک نہیں بلکہ کئی شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کے جوہردکھانے کی مہارت رکھتے ہیں۔

ایسے فنکاروںکی تعداد بہت کم ہے لیکن یہ انمول فنکاراپنی صلاحیتوں کے بل پرجب بھی کوئی کام کرتے ہیں تواپنی مثال آپ بن جاتے ہیں۔ اداکاری، صداکاری ، شاعری اورگلوکاری کے شعبوں میں اپنے فن کا لوہا منوانے والے منفرد فنکاراسد نذیرہیں، جو کسی تعارف کے محتاج نہیں۔

پاکستان ٹیلی ویژن اورفلم انڈسٹری کے سنہرے دور کا تذکرہ کیاجائے تواسد نذیر کی فنی خدمات کوکبھی فراموش نہیں کیاجاسکتا۔ پاکستان میں فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں میں ایک کامیاب اورطویل اننگز کھیلنے کے بعد وہ امریکا منتقل ہوگئے تھے لیکن اب ایک مرتبہ پھر18برس بعد پرائیویٹ پروڈکشنز کی ڈرامہ سیریلز کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کا اظہارکررہے ہیں۔ وہ ان دنوں کراچی میں قیام پذیر ہیں اورگزشتہ دنوں ان سے وہاں ملاقات ہوئی۔ اس دوران انہوں نے جہاں اپنے سُنہری دورکاتذکرہ کیا تووہیں انہوں نے موجودہ دورمیں بننے والے ڈراموں اورفلموں کے حوالے سے بھی دلچسپ گفتگوکی، جوقارئین کی نذر ہے۔



اسد نذیر نے بتایا کہ وہ اٹھارہ سال قبل جب اپنے کیریئر کو خیرباد کہہ کرامریکا جانے کی تیاری میں تھے تواس وقت بھی انہوں نے کراچی میں 1995 ء میں کاظم پاشا کے سیریل میں کام کیا تھا اور اب جب دوبارہ اپنی دوسری اننگزکا آغازکیا ہے توبھی کراچی میں ہی کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں پی ٹی وی ایک واحد چینل تھا لیکن وہاں پربہت معیاری کام کیا جاتا تھا۔ اس وقت فنکار سکرپٹ یاد کرنے کے ساتھ ریہرسلزبھی کرتے تھے۔ جبکہ آج کل ریس لگی ہوئی ہے، فنکار ڈائیلاگ بولتے ہیں لیکن چہرے پرکسی قسم کے تاثرات دکھائی نہیں دیتے۔

پہلے تین کیمروں سے ڈرامہ شوٹ کیاجاتا تھا اوراب فلموںکی طرح ایک ہی کیمرہ کے ساتھ شوٹنگ کی جاتی ہے۔ ماضی میںبہت معیاری کام ہوتا تھا ۔ اب توریہرسلز کا تصورہی ختم ہوچکا ہے۔ نئی نسل موجودہ انداز میں کام کرتے ہوئے بہترمحسوس کرتی ہے۔ کیونکہ انہوںنے اسی انداز میں اپنا کیرئیرشروع کیا ہے۔ جہاں تک میری بات ہے تومیں پہلے سکرپٹ پڑھتاہوں اور پھر اپنا کردارتیارکرتا ہوں۔ میرے کردارکی ضرورت کے مطابق کپڑے ، ہیئر سٹائل اوردیگرچیزیں حقیقت کا رنگ بھرنے کیلئے ضروری ہیں۔ میں شلوارقمیص، پینٹ شرٹ اورسوٹ کردار کی ڈیمانڈ کے بغیراستعمال نہیں کرتا۔ میں نے ہمیشہ اپنے کرداروں کی Continuty کا خیال رکھا ہے۔

اس وقت پرائیوٹ پروڈکشنزاس قدرہورہی ہیں کہ ایک فنکارکے پاس اتنا بھی وقت نہیں کہ وہ اپنے کردار کو منفرد بنانے پرغورکرسکے۔ کراچی میں دن رات شوٹنگز کا سلسلہ جاری ہے اورہرایک فنکار تین سے چار سیریلزکی ریکارڈنگ میں مصروف ہے۔ اس لئے نوجوان فنکاروں کے پاس ریہرسل کا وقت ہی نہیں جبکہ ہمارے دور میں ایک طرف ریہرسل کرنے سے کردارمیں نکھارآتا تھا اوردوسرا فنکار دوستانہ ماحول میں کام کرتے تھے۔ مگرآج تو سیٹ پرنوجوان فنکارموبائل فون پرمسیج کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔

اسی لئے آج اداکاری کا معیار متاثرہوا ہے۔ موجودہ دور میں بہت سے نوجوان لڑکے اورلڑکیاں بہترین کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن ان کے پاس وقت کی کمی کے باعث اپنے کرداروں کوباہمی مشاورت کے ساتھ بہتر بنانے کا وقت نہیں ہے۔ یہ لوگ ایک سیٹ پر شوٹنگ ختم کرتے ہیں تودوسرے سیٹ پرپہنچ جاتے ہیں۔ ایسے میں تخلیقی کام کی توقع کرنا درست نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک فنکارکے دس ڈراموں میں ایک ہی طرح کے کرداراورایکٹنگ دیکھ کرلوگ تنگ آجاتے ہیں اورپھر وہ اس کا ڈرامہ دیکھنا بند کردیتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں اسد نذیر نے کہا کہ اس وقت ہمارے ڈراموں میں چندموضوعات کوزیادہ پیش کیاجارہا ہے۔ ایک طرف بیوہ خواتین ہیں تودوسری جانب بچیوں کے ساتھ زیادتی کودکھایا جا رہاہے۔ سٹارپلس نے جو کچھ دکھایا ، وہی کچھ یہاں اب ہمارے ہاں دکھایا جارہا ہے۔میں نے حال ہی میں تین ڈراموں میں باپ کے کرداراداکئے ہیں۔ لیکن میں نے اپنے تجربے کی بناء پران کرداروںکو ایک دوسرے سے مختلف بنادیا ہے۔ دوسری جانب لکھنے والے بھی ایک ہی طرح کی کہانیاں تحریر کررہے ہیں۔

ہمیں سب سے بڑا نقصان یہ ہورہا ہے کہ ہمارے ڈراموں میں صرف ایک خاص طبقہ دکھایا جا رہاہے۔ ناظرین کی اکثریت کیلئے ڈرامے نہیں بنائے جارہے۔ ایسی کہانیوں کو موضوع نہیں بنایا جا رہا جوہمارے معاشرے کی عکاسی کرتی ہیں۔ جب تک ایسے موضوعات کاانتخاب نہیں کیا جائے گا اورمحنت کے ساتھ ڈرامے نہیں لکھے جائیں گے اس وقت تک گھرگھر پہنچنا آسان نہیں ہوگا۔ ریڑھی والے، دکان والے کی زندگی کوموضوع بنا کرجب ڈرامہ لکھا جائے گا تووہ پاکستان کی عوام کی اکثریت کی کہانی ہوگی۔ سب کواس میں اپنا آپ دکھائی دے گا۔ یہی اصل کام ہے جس کے ذریعے معاشرے میں سدھار لایا جاسکتا ہے۔ مگرہم شادیوں اورطلاق کے موضوعات پرڈرامے بنائے چلے جارہے ہیں۔


تعلیم، سپورٹس پرڈرامے بنائے جائیں۔ ایسے ڈراموں کی اس وقت اشد ضرورت ہے جس سے نوجوانوں کوآگے بڑھنے کا پیغام مل سکے۔ اس وقت ناامید نوجوانوں میں امید پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی سپورٹس کو بہتر بنانے کیلئے خصوصی ڈرامے بنانے چاہئیں۔ ہاکی ہمارا قومی کھیل ہے اوراس وقت یہ کھیل جس بحران کا شکارہے اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ ہمیں ہاکی کے کھیل کے فروغ کیلئے خصوصی ڈرامے بنانے چاہئیں۔ ایک کھلاڑی کی کہانی پرجب ڈرامہ بنایا جائے گا توبہت سے نوجوان ہاکی کی جانب آئیں گے۔

میرے والد نذیراحمد سیفی نے ہاکی کے کھیل کو 70برس دیئے۔ لیکن ان کی خدمات کوکبھی نہیں سراہا گیا۔ اختررسول اورقاسم ضیاء جیسے بہت سے کھلاڑیوں کو قومی ٹیم تک پہنچانے میں میرے والد نے اہم کردار ادا کیا۔ مگران کی گراں قدرخدمات پرانہیں صدارتی ایوارڈ تک سے نوازا نہ گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم اپنے اوریجنل ڈرامے سے ہٹ کرسٹارپلس کے ڈراموں سے متاثر ہونے لگے تھے۔ حالانکہ ان کے ڈراموں میں جوکچھ دکھایا جاتا تھا اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ بھارتی چینلز پرپیش کئے جانے والے ڈراموں میں گلیمر کے علاوہ سبق آموز کوئی بات نہ تھی۔ مگرپھر بھی ہمارے ہاں ان ڈراموں کو نہ صرف دکھایا گیا بلکہ بہت سے لوگوںنے توان ڈراموں کوکاپی بھی کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگرکسی کردارکی ڈیمانڈ ہے تواس کوپوراکرنے کیلئے مغربی انداز کے ملبوسات کا استعمال ضرورکرنا چاہئے لیکن رات کے تین بجے اگرکوئی خاتون یا لڑکی اپنے گھر میں سج دھج کے گھوم پھر رہی ہو تویہ بات ہضم نہیں ہوتی اوراس کا حقیقی زندگی سے کوئی میل بھی نہیں بنتا۔

یہی وجہ ہے کہ بھارتی چینلز کے ڈراموں میں مصنوعی پن نمایاں تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ڈائریکٹر بھی اپنی ذمہ داری بھلا بیٹھے ہیں۔ اگرکوئی لڑکی صُبح اٹھنے کا سین کرتی دکھائی دیتی ہے تواس کے ہونٹ پرسرخی اوربال بھی بنے ہوتے ہیں۔ جس کودیکھ کرناظرین ہنستے اور مذاق اڑاتے ہیں بلکہ بہت سے لوگ توفقرے بھی کستے ہیں۔ یہ ایک بہت ہی سنجیدہ پروفیشن ہے اور اس سے وابستہ لوگوں پربہت سی ذمہ داریاں ہیں۔

یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم معاشرے کے مسائل کواس اندازسے اجاگر کریں کہ لوگ ایک طرف ہمارے ڈرامے دیکھ کرانٹرٹین ہوں اوردوسری جانب وہ اپنے مسائل کو سمجھ سکیں اوراس کوحل بھی کریں۔ اس کے لئے ڈائریکٹرکوچاہئے کہ وہ بھی سکرپٹ پڑھ کر سیٹ پرآئے تاکہ وہ کردارکے مطابق لوکیشن کا انتخاب کرسکیں اورپھر اس کوبہترانداز سے شوٹ کرے۔ اکثراوقات ڈائریکٹروں کو سکرپٹ کا علم نہیں ہوتا توان کے اسسٹنٹ انہیں سین کے بارے بریفنگ دے رہے ہوتے ہیں۔ یہی نہیں اب توبہت سے نان پروفیشنل ڈائریکٹرسین کے وقت ضروری کام کا بہانہ بنا کر سیٹ سے باہر چلے جاتے ہیں، کیمرہ مین یا اسسٹنٹ سین شوٹ کرواتے ہیں۔

اسدنذیر نے پاکستان فلم انڈسٹری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فلم انڈسٹری شدیدبحران کا شکارہے۔ جب تک گورنمنٹ سپورٹ نہیں کرے گی اس وقت تک فلم انڈسٹری کی بحالی ممکن نہیں۔ پوری دنیا میں فلم انڈسٹری کی سپورٹ کیلئے حکومت آسان قرضے دیتی ہیں۔ ہمارے ہاں ایک طرف توحکومت فلمسازی کے لئے قرضے نہیں دیتی اوردوسری جانب فنانسر بھی بھاگ چکے ہیں۔ دیکھا جائے تو گزشتہ دو دہائیاں گجربرادری نے فلم انڈسٹری میں گزاری ہیں۔ سلطان راہی مرحوم کے بعد فلمسٹار شان اور معمررانا سمیت دیگرنے بدمعاشوں کے کردار ہی ادا کئے ہیں۔ اب ہمیں فلم انڈسٹری کی بہتری کیلئے پڑھے لکھے رائٹرمتعارف کروانا ہوں گے جو اچھی کہانیاں لائیں اورمنفرد فلمیں بنیں۔ حسن طارق، ایس سلیمان، جاویدفاضل ، پرویزملک سمیت دیگرپڑھے لکھے ڈائریکٹرتھے اورانہوں نے بہترین کام کیا۔ یہ وہ ڈائریکٹرہیں جوباقاعدہ مطالعہ کرتے تھے۔

جب تک ہماری کہانی مضبوط نہیں ہوگی اس وقت تک فلم کی کامیابی کا سوچنا ممکن نہیں۔ اس موقع پرانہوں نے بھارتی فلم '' شعلے'' کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ اس فلم کی کہانی بہت مضبوط تھی۔ اس فلم کے ذریعے بہت سے شاہکارکردار متعارف کروائے گئے۔ امجد خان مرحوم کوجومقام اورشہرت ملی وہ صرف اورصرف اسی فلم میں ان کے کردار '' گبرسنگھ ''کی بدولت تھی۔ میرا تویہ ماننا ہے کہ ہالی وڈ ہویا بالی وڈ ، جس بھی فلم میں ولن کا کردار مضبوط ہوگا وہ فلم بہت کامیاب رہے گی اورلوگ ہمیشہ اسے یاد رکھیں گے۔



ماضی میں بننے والی فلموں اورڈراموں کے کردارآج بھی مقبول ہیں اور بہت سے فنکارانہی کرداروں کے ساتھ زندہ ہیں۔ مگرآج کی فلموں اور ڈراموں میں کسی بھی فنکار کا ایک بھی ڈائیلاگ کسی کویاد نہیں۔

انہوں نے کہا کہ بالی وڈسٹارنصیرالدین شاہ، نانا پاٹیکر اور عرفان خان جب ڈائیلاگ بولتے ہیں تو پھر کردار امر ہوجاتے ہیں۔ میں تویہ بات جانتا ہوں کہ '' ایک اچھی کہانی نالائق ڈائریکٹرکو مل جائے تووہ کامیاب فلم بنا سکتاہے لیکن ایک بری کہانی کسی قابل ترین ڈائریکٹر کودیدی جائے تووہ بھی فلم کوکامیابی دلوانے میں ناکام ہوجائے گا''۔ اگرہم پاکستان فلم انڈسٹری کے سُنہرے دورپرنظرڈالیں توماضی میں بننے والی فلمیں آج بھی آپ کو اچھی لگیں گی۔ میں نے 1988ء میں اداکارہ بابرہ شریف کے ساتھ فلم ''دشمنوں کے دشمن '' میں کام کیاجس کے ڈائریکٹر جاوید فاضل مرحوم تھے۔

انٹرویو کے آخرمیں اسدنذیر کا کہنا تھا کہ فنون لطیفہ کا شعبہ دنیا کا سب سے مشکل شعبہ ہے اوراس سے وابستہ لوگ عام نہیں بلکہ خاص ہیں۔ اس لئے ہمیں اپنے پروفیشن کے ذریعے معاشرے کے مسائل کواجاگرکرنے کے ساتھ لوگوں کے اداس چہروں پرمسکراہٹ لانے کا مشن جاری رکھنا ہوگا۔
Load Next Story