اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی تقرری کا معاملہ ایوان صدر کی وزارت تعلیم کو کارروائی کی ہدایت

ڈاکٹر جہاں بخت نے اردو یونیورسٹی کے چانسلر صدر آصف علی زرداری کو خط میں فیصلے پر نظرثانی کی درخواست کی ہے

ایوان صدر نے اردویونیورسٹی کے وائس چانسلر کی تقرری کے معاملے پر کارروائی کی ہدایت کردی ہے—فوٹو: فائل

وفاقی اردویونیورسٹی کے لیے میرٹ پر تیسرے نمبر کے امیدوار کی وائس چانسلرکے طور پر تقرری کا معاملہ پیچیدگی اختیار کرگیا ہے اور ڈاکٹر ضابطہ خان شنواری کی تقرری کے تقریباً 6 ماہ بعد ایوان صدر نے اس معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے وفاقی وزارت تعلیم کو قانون، قواعد اور پالیسی کے تناظر میں باقاعدہ کارروائی کی ہدایت جاری کردی ہے۔

ایوان صدر کی جانب سے وفاقی سیکریٹری تعلیم کو جاری کی گئی ہدایت میں وفاقی اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے لیے تلاش کمیٹی(سرچ کمیٹی) سے سب سے زیادہ مارکس لے کر امیدواروں میں نمایاں زرعی یونیورسٹی پشاور کے موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر جہاں بخت کی جانب سے صدر مملکت اور اردو یونیورسٹی کے چانسلر آصف علی زرداری کو لکھے گئے خط کا حوالہ بھی دیا گیا ہے جو ایک یادداشت کے طور پر 5 جولائی کو لکھا گیا تھا۔

ڈاکٹر جہاں بخت نے خط میں موقف اختیار کیا تھا کہ اردو یونیورسٹی کی سینیٹ نے تین امیدواروں میں ڈاکٹر جہاں بخت کو میرٹ پر اور ٹاپ گریڈنگ کے ساتھ پہلے نمبر پر رکھا تھا تاہم تیسرے نمبر کے امیدوار کو وائس چانسلر مقرر کردیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ڈاکٹر ضابطہ خان شنواری وفاقی اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر مقرر

خط میں اردو یونیورسٹی کے ایکٹ اور اسی طرح کے معاملات پر سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ بھی دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ بحیثیت وائس چانسلر زرعی یونیورسٹی پشاور کے ساتھ ساتھ میرے تجربے اور تعلیم کو سامنے رکھتے ہوئے مذکورہ فیصلے پر نظر ثانی کی جائے۔

واضح رہے کہ سابق صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے تیسرے نمبر کے امیدوار ڈاکٹر ضابطہ خان شنواری کو وائس چانسلر اردو یونیورسٹی تعینات کیا گیا تھا۔

اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی تقرری کو اب تقریبا 6 ماہ گزر چکے ہیں تاہم اس عرصے میں یونیورسٹی کے مسائل یامشکلات میں خاطر خواہ کمی یاکوئی بڑی تبدیلی رونما نہیں ہوپائی ہے، تنخواہوں کی عدم ادائیگی یا تاخیر سے ادائیگیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے جبکہ ہاؤس سیلنگ کا روکا جانا اور کنٹریکٹ ملازمین کی یونیورسٹی سے برطرفی کاسلسلہ بھی چل نکلا ہے۔

اردویونیورسٹی کی ان مشکلات کی کلیدی وجوہات ملکی سطح پر متعلقہ حکام کی اردو یونیورسٹی کے معاملات میں انتہا درجے کی بے اعتنائی، لاپرواہی اور لاتعلقی بتائی جا رہی ہے، جس میں بنیادی کردار یونیورسٹی کے چانسلر سیکریٹریٹ /ایوان صدر، وفاقی وزارت تعلیم اور ایچ ای سی اسلام آباد کا ہے جو یونیورسٹی کی کسی بھی مالی مشکل کے تدارک کے لیے تیارہی نہیں ہیں۔

مزید پڑھیں: اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر کیلئے5 امیدواروں کے نام یونیورسٹی کی سینیٹ کو ارسال


بتایا جا رہا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ مالی ابتری اور ادائیگیوں کی مشکلات کے حوالے سے متعلقہ اتھارٹیز کو کئی کئی خطوط لکھ چکی ہے تاہم ان خطوط کا جواب تک نہیں دیا جاتا، دوسری جانب یونیورسٹی کی مشکلات کے نہ ختم ہونے کی ایک اور اہم ترین وجہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹرضابطہ خان شنواری کی نہ صرف یونیورسٹی بلکہ اکثر وبیشتر پاکستان میں ہی عدم موجودگی کو قرار دیا جا رہا ہے۔

محتاط اندازے کے مطابق وہ ان 6 ماہ میں کم وبیش 4 غیرملکی دورے کرچکے ہیں جبکہ ان غیرملکی دوروں کے دوران جامعہ اردومیں کسی قائم مقام وائس چانسلر کی تقرری بھی نہیں کی جاتی بلکہ یونیورسٹی بظاہریا تووائس چانسلرکے بغیر کسی خود کارنظام کے تحت ہی چلتی رہتی ہے یا پھر خود مستقل وائس چانسلر اسے بیرون ملک سے اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر چلاتے ہیں۔

ایکسپریس نے اس سلسلے میں جامعہ اردوکے وائس چانسلر ڈاکٹرضابطہ خان شنواری سے بھی رابطہ کیا اور ان سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اب وہ مستقل وائس چانسلرکے طورپر تعینات ہوچکے ہیں پھر آخر کیا رکاوٹ ہے کہ یونیورسٹی کے مسائل ختم ہونے کانام ہی نہیں لیتے۔

یہ بھی پڑھیں: اردو یونیورسٹی؛ ووٹنگ کی بنیاد پر وائس چانسلر کی دوڑ سے سندھ کا امیدوار آؤٹ

اس سوال پر ان کا کہنا تھا کہ "وہ حکام کو مسلسل خطوط لکھ چکے ہیں، ایچ ای سی اور وزارت تعلیم کے ساتھ کئی کئی اجلاس ہوچکے ہیں اور حکومت سندھ سے بھی مالی تعاون کی گزارش کی ہے ہر چند کے اب تک کہیں سے کوئی حوصلہ افزا جواب نہیں ملا ہے لیکن وہ ناامید نہیں ہیں اورکوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ جب 2002 میں اردو کالج جامعہ اردو میں تبدیل ہوا تھا تو اس وقت کالج کے ریٹائرڈ ملازمین کا پینشن فنڈ ایک ارب روپے تھا، جسے یونیورسٹی کو منتقل نہیں کیا گیا اگر ہمیں یہ فنڈ ہی مل جائے تو ہم اپنے پینشنرز کو وقت پر ادائیگیاں کر سکتے ہیں لیکن یہ فنڈ بھی ہمیں نہیں مل رہا ہے۔

وائس چانسلر اردو یونیورسٹی نے کہا کہ جب حکومت سندھ سے ہم نے گزارش کی کہ صوبے کی دیگر جامعات کی طرح ہمیں بھی کچھ گرانٹ دے دی جائے۔ اردو یونیورسٹی کے دونوں بڑے کیمپسز کراچی میں ہیں، جس پر کم از کم سندھ حکومت نے ہمیں جواب ضرور دیا اور کہا کہ ہم وفاق کے زیر اہتمام آتے ہیں۔

ڈاکٹر ضابطہ خان شنواری نے کہا کہ اس وقت بھی ہماری حکومت سندھ سے بات چیت جاری ہے، اس سوال پر کہ کنٹریکٹ ملازمین کوکیوں بے روزگار کیا جا رہا ہے تو وائس چانسلر کا کہنا تھا کہ مستقل ملازمین کی تنخواہیں نہیں ہیں تو کنٹریکٹ ملازمین کو کہاں سے ادا کریں، صرف سوکے قریب توسیکیورٹی گارڈز ہیں اور ایک کا کام 4 لوگ کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں: وفاقی اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے فنڈز کیلئے وزیراعلیٰ سندھ سے مدد طلب کرلی

واضح رہے کہ ڈاکٹرضابطہ خان شنواری یونیورسٹی کے وائس چانسلرکے انتخاب کے سلسلے میں بنائی گئی تلاش کمیٹی کی جانب سے مجوزہ ناموں میں تیسرے نمبر پر تھے، سب سے زیادہ نمبر حاصل کرنے والے وائس چانسلرکے امیدوار ڈاکٹر جہاں بخت کو اس وقت کے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وائس چانسلرکے لیے بظاہر موزوں نہیں سمجھا حالانکہ انہوں نے تینوں امیدواروں میں سب سے زیادہ 78.7مارکس لیے تھے، دوسرے نمبر پر ڈاکٹر محمد علی نے 76.2 اور ڈاکٹرضابطہ خان شنواری نے 76مارکس لیے تھے۔
Load Next Story