وزیر اعلی کے حلقے میں مسلح افراد سرکاری ملازمین کو ناکے لگاکر اغوا کرتے ہیں گورنر کے پی
جلد وقت بتائے گا کہ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کے لیے کیا مشکلات سامنے آئیں گی، فیصل کریم کنڈی
گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ صوبے میں قانون کی عمل داری کے لیے وفاقی حکومت کے تعاون کی ضرورت ہو گی اور وفاق ہر قسم کی سپورٹ دینے کے لیے تیار ہو گا۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام سینٹر اسٹیج میں میزبان رحمان اظہر کے ساتھ گفتگو میں گورنر فیصل کریم کنڈی نے صوبے کی سیکیورٹی اور سیاسی صورت حال سمیت مختلف معاملات پر گفتگو کی۔ خیبرپختونخوا میں سیکیورٹی کی صورتحال سے متعلق بات کرتے ہوئے گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ وزیر اعلی ٰ کے اپنے حلقے میں سرکاری ملازم سفر نہیں کر سکتا، مین ہائی ویز پر ٹولے آتے ہیں اور چیک کرتے ہیں کہ ان میں کون سرکاری ملازم ہے اور اغوا کرلیتے ہیں، کے پی میں گورنمنٹ ملازمین کو سرکاری گاڑیوں پر سفر نہ کرنے کا کہا گیا اس لیے انہیں پبلک ٹرانسپورٹ سے سفر کرنا پڑتا ہے ، ٹولے سڑکوں پر نکلتے ہیں ناکے لگاتے ہیں۔
صوبائی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ چینی سیاحوں کو روک دیتے ہیں کہ سیکیورٹی کا ایشو ہے، اس کا مطلب ہے کہ کے پی میں نو گو ایریاز ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر آپ کہہ رہے ہیں کہ صوبے میں نو گو ایریا نہیں ہے تو چین کے شہریوں کو کیوں روک رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے صوبے میں حکومت کی کوئی رٹ نہیں ہے اور یہ تو سمجھ رہے ہیں کہ صوبے میں سب سکھ چین ہے، ان کو سمجھ ہی نہیں ہے کہ صوبے میں کیا ہو رہا ہے۔ گورنر فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ کیا کسی نے سنا کہ سیکیورٹی کی صورتحال پر کابینہ کی میٹنگ بلائی گئی ہو؟ جن لوگوں کو انہوں نے لا کر بسایا انہوں نے اسلحہ اٹھا لیا تو یہ کیا کریں گے، اگر ہتھیار اٹھا لیے تو یہ پھر کس کو پکڑیں گے؟۔
فیصل کریم کنڈی کا مزید کہنا تھا کہ صوبے میں سرکاری افسران اور پولیس پر حملے ہو رہے ہیں ۔ کسٹم، انٹیلی جنس، فوج کے اہلکار شہید ہو رہے ہیں، کے پی کے میں ججز محفوظ نہیں ہیں۔ گورنر خیبر پختونخوا نے کہا کہ سیکیورٹی صورتحال پر سنجیدگی سے غور کیا جانا چاہیے، ان کے بس میں نہیں ہے کہ امن و امان قائم کر سکیں، ان کو وفاقی حکومت کے تعاون کی ضرورت ہو گی کیونکہ یہ امن و امان بحال نہیں کر سکتے البتہ اس کے قیام کیلیے مرکز سے سپورٹ مانگ سکتے ہیں۔ ان سے معاملات کنٹرول نہیں ہوں گے، وفاق صوبے کو ہر قسم کی سپورٹ دینے کے لیے تیار ہو گا، ہم بالکل سپورٹ کریں گے ، میں خود صوبے کی عوام کا وکیل بنوں گا۔
پروگرام اینکر رحمان اظہر کے سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جو بھی آئین و قانون کو نہیں مانتا اس سے بات چیت نہیں ہو سکتی، جو پاکستان کے آئین و قانون کو مانے گا ان کے ساتھ بات چیت ہو سکتی ہے ۔
گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ 9مئی کا اگر ایشو ہے تو پھر بانی پی ٹی آئی کا معاملہ ضرور فوجی عدالتوں میں جائے گا، ہم نے دیکھا کہ ریاست میں کیا کیا چیزیں ہوئی ہیں،9 مئی کے واقعات کی تہہ میں جانا ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر سزائیں نہ دیں تو خدا نخواستہ کل اس سے بڑے واقعات ہو ں گے۔
پی ٹی آئی میں اختلافات سے متعلق بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی والوں نے اپنے محسنوں سے کیا کیا ہے ؟ پی ٹی آئی میں 5 گروپ بنے ہوئے ہیں اور یہ دراصل فرنچائزز ہیں، سمجھ نہیں آتی کون کس کو نکال رہا ہے۔
پی ٹی آئی کے جلسے ملتوی ہونے سے متعلق پروگرام میں بات کرتے ہوئے گورنر کے پی کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی نے ایک دن پہلے پیغام دیا تھا کہ ہم جلسہ نہیں کر سکتے، پی ٹی آئی نے جلسے کا بس شور مچایا ہوا تھا، پی ٹی آئی والوں کی جانب سے پہلے سے ہی کہہ دیا گیا تھا کہ ہم جلسہ نہیں کریں گے جبکہ علی امین گنڈا پور نے کہا کہ جلسہ نہ ہوا تو سیاست چھوڑ دوں گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ حالات خراب ہونے کے خطرے کا بہانہ بنایا گیا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ جب چینی صدر کو دورہ منسوخ کرایا تھا تب انہیں حالات کا خطرہ نہیں تھا ؟ پی ٹی آئی اور مولانا فضل الرحمان سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فیصل کریم کنڈی کا کہنا تھا کہ ہم مولانا فضل الرحمان کو داد دیتے ہیں کہ وہ پی ٹی آئی والوں سے چُن چُن کر بدلہ لے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کی ناراضی آسانی سے حل ہو سکتی ہے، بس انہیں لوٹا ہوا مال غنیمت واپس کر دیا جائے۔ مولانا صاحب کہتے ہیں کہ انتخابات میں ان کے مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالا گیا، اگر مولانا صاحب کے حق پہ ڈاکا ڈالا گیا تو مال غنیمت کس میں تقسیم ہوا؟ جلسے میں مولانا کیا کہیں گے کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ، پی ٹی آئی بھی کہتی ہے کہ کے پی کے علاوہ سب جگہ دھاندلی ہوئی۔
اُن کا کہنا تھا کہ آج بھی مولانا فضل الرحمان نے صدر آصف زرداری سے ملاقات کی، ہمیں امید ہے کہ وہ واپس آجائیں گے ۔ مولانا صاحب نے ماضی میں جمہوریت کے لیے بڑی جدوجہد کی، اب بھی مولانا صاحب اپنا کردار ادا کریں گے۔ مولانا بالکل ٹھیک سیاست کر رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان اور پی ٹی آئی والے اکٹھے سڑکوں پر نہیں نکل سکتے۔
علی امین گنڈا پور سے صلح کرنے کے سوال کا جواب دیتے ہوئے فیصل کریم کنڈی کا کہنا تھا کہ وزیر اعلی کے پی سے صلح کس بات کی؟ پُل کے نیچے سے بہت پانی گزر چکا ہے اور اب میری طرف سے اس حوالے سے کوئی امید نہ رکھی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب میں گورنر بنا تو علی امین گنڈا پور نے بڑھ چڑھ کر بیانات دیے، اس کے ردعمل میں مجھے جوابات دینے پڑے، عزت کرانا تو ہر کسی کے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے تو کوئی سیاسی بیانات نہیں دیے، کرپشن پر سوالات اٹھانا کیا سیاسی بیان ہے ؟ کیا پوسٹنگ ٹرانسفر ، نوکریاں بیچنے پر سوال اٹھانا سیاسی بیان ہے ؟ پی ٹی آئی نے چوروں کو پکڑنے کے لیے ڈاکووں کی کمیٹی بنا دی ہے، میں تو کہوں گا کہ وزیر اعلیٰ کے پی اعتماد کا ووٹ لیں، ان کے ممبران ان پر اعتماد نہیں کرتے ہیں، پی ٹی آئی کے پاس تو اعتماد ہے لیکن وزیر اعلیٰ کے پاس اعتماد کا ووٹ نہیں ہے۔
فیصل کریم کنڈی نے مزید کہا کہ جلد وقت بتائے گا کہ وزیر اعلیٰ کے لیے کیا مشکلات سامنے آئیں گی ، ان کے اپنے لوگ ان پر کرپشن کے الزامات لگا رہے ہیں، کلاس فور کی نوکریاں بیچی جا رہی ہیں، ٹرانسفر پوسٹنگ پر رشوت لی جا رہی ہے ، جو الیکشن پر پیسے لگا کر آئے گا وہ پھر کرپشن کر کے ہی پیسے پورے کرے گا، اس کرپشن میں وزیر اعلیٰ ملوث ہیں۔