بجھتی قندیلیں
آج کے اس پرفتن دور میں لوگ ایک دوسرے کے کام آنے سے کتراتے ہیں
آتا ہے یاد مجھ کوگزرا ہوا زمانہ
وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانہ
'' بچپن'' ایک ایسا منفرد لفظ ہے، جس کے ذہن میں ابھرنے سے ہی عجیب سی خوشگوار نایاب یادوں کا مجموعہ بیشتر انسانوں کو ایسی راحت فراہم کرتا ہے جس سے سوچ کر ہی ہم تر و توانا ہوجاتے ہیں۔ انمول محبتوں اور ہر طرح کی بے فکری کا زمانہ۔ ہمارا شمار ان آخری خوش نصیب لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے وہ دور دیکھا جس میں تربیت ہر شے پر مقدم ہوتی محبتوں روایاتوں، اقدار اور اخلاقیات کی بھی پاسداری ہوتی۔
بڑوں کے سامنے چھوٹے زبان توکیا نظریں بھی نہیں اٹھا سکتے تھے۔ صحبتوں کا زمانہ جب آپ بزرگوں کے پاس بیٹھ کر اخلاقیات، ادب و احترام زمانے کے نشیب و فراز سے متعلق حکمتیں سیکھتے اور سمجھتے۔ خدائے بزرگ اور سرکار دو عالمﷺ کی اطاعت کے بعد والدین اورگھر بھر ہی کی نہیں بلکہ اہل محلہ کے بزرگوں کا بھی اس دور میں احترام ہوتا۔ ہر بزرگ آتے جاتے کوئی نہ کوئی نصاب زندگی سے متعلق نصیحت کرتے، جو نہ جانے کہاں کہاں وہ آج ہمیں نفع دیتی ہیں۔
اہل محلہ کے درمیان خاندان بھرکے افراد بلکہ ان سے بڑھ کر محبت ہوتی دکھ درد غم خوشی میں عزیزواقارب رشتے داروں کے دور دراز کے علاقوں سے آنے میں وقت لگتا جب تک اہل محلہ دلجوئی داد رسی کے ساتھ سارے امور سنبھال لیتے۔ ایک وقت تھا لوگ اپنے پڑوسیوں میں دین داری، دردمندی، اخلاص، محبت، علم دوستی وغیرہ جیسی عظیم الشان صفات تلاش کرتے اور ایک دوسرے سے کہتے، ان کا پڑوس کتنا اچھا ہے ان کے گھر سے جو نکلتا سامنے کھڑے احباب کو سلام کرتے ہوئے جاتا ہے، کتنے پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ ان کے گھر والے کتابوں سے محبت کرتے ہیں، ان کے گھر میں لائبریری ہے اور دور حاضر میں لوگوں کی سوچ یہ ہوگئی کہ ان کا پڑوس کتنا مالدار ہے، ان کے گھر میں گاڑیوں کی نت نئی اقسام ہیں۔
کہاں ناپید ہوگئیں، ہمارے معاشرے کی وہ انمول خوبیاں جب لوگ ہمسائے کے دکھ تکلیف کو اپنا درد سمجھتے، انہی نایاب گھڑیوں کا ایک ذکر ہے کہ ہمارے خانوادے کے سرپرست اعلیٰ کو ان کے ہم محلہ نے کہا کہ '' پروفیسر صاحب فلاں محکمے میں میرا ایک کام ہے وہ صاحب جامعہ علی گڑھ کے فارغ التحصیل ہیں، اگر آپ مناسب سمجھیں تو ان سے بات کر لیں میرا کام بن جائے گا'' پروفیسر صاحب نے کہا '' ضرورکیوں نہیں،کل چل کر بات کر لیتے ہیں، ان صاحب کا نام کیا ہے؟'' پڑوسی صاحب نے ان کا نام بتایا۔
پروفیسر صاحب کہنے لگے '' ہاں! اس نام کے ایک صاحب سے تو ہماری واقفیت ہے۔'' اگلے دن پڑوسی، پروفیسر صاحب کے ہمراہ اس دفتر پہنچے۔ پروفیسر صاحب کی نظر جیسے ہی ان افسر پر پڑی تو وہ تھوڑا فکر مند ہوگئے اور یہ بات پڑوسی بھانپ گئے اور کہا '' کیا بات ہے پروفیسر صاحب کو ئی مسئلہ ہے کیا؟ '' جس پر پروفیسر صاحب نے کہا '' نہیں،کچھ ایسا خاص نہیں، بس جن صاحب کا سوچ کر ہم آئے ہیں جو ہمارے علی گڑھ کے واقف کار تھے وہ یہ نہیں ہیں'' یہ سن کر پڑوسی صاحب بھی پریشانی میں آگئے اور کہا '' تو اب کیا پروفیسرصاحب ہم واپس ہوجائیں؟'' اس پر پروفیسر صاحب نے کہا '' نہیں، جب آئے ہیں تو مسئلہ بیان کر کے جائیں گے، اللہ مالک ہے'' پھر پروفیسر صاحب، پڑوسی صاحب کے ساتھ افسر صاحب کے کمرے میں گئے اور اپنے آنے کا مدعا من و عن بتا دیا اور یہ بھی کہ کیا سوچ کر آئے تھے، اس پر افسر صاحب کہنے لگے'' ارے! پروفیسر صاحب آج سے ہم بھی آپ کے واقف کار ہیں اور یہ لیجیے آپ کا کام ہوگیا۔'' اس واقعے کو بیان کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ جب نیت صاف ہو تو منزل خود بخود مل جاتی ہیں اور خدائے بزرگ کی طرف سے رحمت و برکت ہو ہی جاتی ہے۔
آج کے اس پرفتن دور میں لوگ ایک دوسرے کے کام آنے سے کتراتے ہیں، کسی پر مشکل وقت پڑجائے تو اس سے منہ چھپاتے ہیں، اس سے ملنا جلنا تو درکنار بات کرنا بھی ترک کردیتے ہیں جبکہ کسی دولت مند یا اثر و رسوخ والے کے آگئے، پیچھے پھرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔ گزشتہ زمانے کے لوگوں کے ایمان بڑے کامل ہوتے تھے، وہ جب کسی سے کلام کرتے تو دعائیہ کلمات ایک دوسرے پر بھیجتے ہوئے کلام کا آغاز کرتے، بڑے چھوٹے امیر غریب کے فرق سے مبرا ہوتے، یہ دعائیہ کلمات جس کے حاصلات اتنے دل خوش کن ہوتے کہ سامنے والا اپنی تمام مشکلات تکلیفوں کو فراموش کرکے اخلاق سے پیش آتا، اس کے اندرکی تمام تلخی دور ہوجاتی، ان کلمات کے زیر اثر۔
جبکہ آج یہ عالم ہوگیا ہے کہ ہم اپنی انا پرستی کے خمار میں ان دعائیہ کلمات میں پہل کرنے سے گریزکرتے ہیں۔ خلق خدا نے ذات پات امیر غریب کے حوالے سے آپس میں ایک دوسرے سے دوری بنا لی ہے، ان سب کی ایک بہت بڑی وجہ والدین کی اپنے بچوں سے دوری ہے، بچوں کی بزرگوں سے دوری ہے کیونکہ موبائل تمام تر اچھائیوں اور مثبت کاموں کے درمیان حائل ہوگیا ہے۔ اس میں موجود انٹرنیٹ جو سوشل میڈیا کی رسائی کا ذریعہ ہے جس میں ہر عمل کی لائیک ہوجاتی ہے، اس لیے بچے اس مصنوعی دنیا کے ساتھ کو حقیقی لوگوں کے ساتھ پر فوقیت دیتے ہیں چونکہ یہاں بہتری کے لیے کوئی آپ کا حقیقی اپنا موجود نہیں ہوتا جو آپ کا قرار واقعی بھلا چاہتا ہو، آپ سے اخلاص رکھتا ہو۔
ہمارے بچپن میں ایک ہی چینل پی ٹی وی ہوا کرتا جس میں علم و ادب، تہذیب و اخلاق کا خاص خیال رکھا جاتا، بچوں کے لیے نصیحت آموز پروگرامز ہوتے لیکن آج مذہب کلچر، اخلاقی قدریں دور دور تک کہیں نہیں، صرف و صرف موبائل کی افادیت قوتوں کی تشہیر جس کے زیر اثر شادی شدہ مرد وخواتین کے غیر اخلاقی تعلقات مغرب کی طرح کے جس نے چادر اور چار دیواری کی حرمت کو تار تارکر دیا، ظاہری شان و شوکت نے گھروں کا سکون غارت کردیا، شوہر اور سسرال والوں کی ستائی ہوئی مظلوم عورت بس یہی چورن ہے۔
آج کل کے ڈراموں کا جو وہ ناظرین کو دکھاتے ہیں۔ ساس، بہو، نند کی سیاسی سازشی چالیں اور اوپر سے ریٹنگ کا ''جن''جس کے باعث مستند لکھاریوں نے لکھنا چھوڑ دیا۔ انہی ڈراموں کے زیر اثر اب مائیں بیٹیوں کے گھر پر نقب لگا کر بیٹھتی ہیں اور دامادوں کے گھر توڑکر بیٹی کو الگ ہونے کی ترغیب دیتیں ہیں، تاکہ بیٹی کے گھرکی مکھیائی بھی وہ خود بن جائیں۔دور حاضر کے تمام مسائل کا حل اچھی تربیت ہے، جو والدین اس امید پر دیں کہ کل ان کی بخشش کا ذریعہ بنے گی، بزرگوں کی صحبت کی طرف بچوں کو مائل کریں تاکہ بزرگ اپنے تجربے کی روشنی میں فانی اور ابدی دنیا سے متعلق حکمتیں انہیں سمجھا سکیں تاکہ وہ اپنی کل کی بے راہ روی سے بچ سکیں، جو روایتیں اقدار اخلاقیات اب مر چکی ہیں، وہ توجہ سے کی جانے والی بہترین تربیت سے ہی زندہ کی جاسکتی ہیں، خدا ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانہ
'' بچپن'' ایک ایسا منفرد لفظ ہے، جس کے ذہن میں ابھرنے سے ہی عجیب سی خوشگوار نایاب یادوں کا مجموعہ بیشتر انسانوں کو ایسی راحت فراہم کرتا ہے جس سے سوچ کر ہی ہم تر و توانا ہوجاتے ہیں۔ انمول محبتوں اور ہر طرح کی بے فکری کا زمانہ۔ ہمارا شمار ان آخری خوش نصیب لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے وہ دور دیکھا جس میں تربیت ہر شے پر مقدم ہوتی محبتوں روایاتوں، اقدار اور اخلاقیات کی بھی پاسداری ہوتی۔
بڑوں کے سامنے چھوٹے زبان توکیا نظریں بھی نہیں اٹھا سکتے تھے۔ صحبتوں کا زمانہ جب آپ بزرگوں کے پاس بیٹھ کر اخلاقیات، ادب و احترام زمانے کے نشیب و فراز سے متعلق حکمتیں سیکھتے اور سمجھتے۔ خدائے بزرگ اور سرکار دو عالمﷺ کی اطاعت کے بعد والدین اورگھر بھر ہی کی نہیں بلکہ اہل محلہ کے بزرگوں کا بھی اس دور میں احترام ہوتا۔ ہر بزرگ آتے جاتے کوئی نہ کوئی نصاب زندگی سے متعلق نصیحت کرتے، جو نہ جانے کہاں کہاں وہ آج ہمیں نفع دیتی ہیں۔
اہل محلہ کے درمیان خاندان بھرکے افراد بلکہ ان سے بڑھ کر محبت ہوتی دکھ درد غم خوشی میں عزیزواقارب رشتے داروں کے دور دراز کے علاقوں سے آنے میں وقت لگتا جب تک اہل محلہ دلجوئی داد رسی کے ساتھ سارے امور سنبھال لیتے۔ ایک وقت تھا لوگ اپنے پڑوسیوں میں دین داری، دردمندی، اخلاص، محبت، علم دوستی وغیرہ جیسی عظیم الشان صفات تلاش کرتے اور ایک دوسرے سے کہتے، ان کا پڑوس کتنا اچھا ہے ان کے گھر سے جو نکلتا سامنے کھڑے احباب کو سلام کرتے ہوئے جاتا ہے، کتنے پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ ان کے گھر والے کتابوں سے محبت کرتے ہیں، ان کے گھر میں لائبریری ہے اور دور حاضر میں لوگوں کی سوچ یہ ہوگئی کہ ان کا پڑوس کتنا مالدار ہے، ان کے گھر میں گاڑیوں کی نت نئی اقسام ہیں۔
کہاں ناپید ہوگئیں، ہمارے معاشرے کی وہ انمول خوبیاں جب لوگ ہمسائے کے دکھ تکلیف کو اپنا درد سمجھتے، انہی نایاب گھڑیوں کا ایک ذکر ہے کہ ہمارے خانوادے کے سرپرست اعلیٰ کو ان کے ہم محلہ نے کہا کہ '' پروفیسر صاحب فلاں محکمے میں میرا ایک کام ہے وہ صاحب جامعہ علی گڑھ کے فارغ التحصیل ہیں، اگر آپ مناسب سمجھیں تو ان سے بات کر لیں میرا کام بن جائے گا'' پروفیسر صاحب نے کہا '' ضرورکیوں نہیں،کل چل کر بات کر لیتے ہیں، ان صاحب کا نام کیا ہے؟'' پڑوسی صاحب نے ان کا نام بتایا۔
پروفیسر صاحب کہنے لگے '' ہاں! اس نام کے ایک صاحب سے تو ہماری واقفیت ہے۔'' اگلے دن پڑوسی، پروفیسر صاحب کے ہمراہ اس دفتر پہنچے۔ پروفیسر صاحب کی نظر جیسے ہی ان افسر پر پڑی تو وہ تھوڑا فکر مند ہوگئے اور یہ بات پڑوسی بھانپ گئے اور کہا '' کیا بات ہے پروفیسر صاحب کو ئی مسئلہ ہے کیا؟ '' جس پر پروفیسر صاحب نے کہا '' نہیں،کچھ ایسا خاص نہیں، بس جن صاحب کا سوچ کر ہم آئے ہیں جو ہمارے علی گڑھ کے واقف کار تھے وہ یہ نہیں ہیں'' یہ سن کر پڑوسی صاحب بھی پریشانی میں آگئے اور کہا '' تو اب کیا پروفیسرصاحب ہم واپس ہوجائیں؟'' اس پر پروفیسر صاحب نے کہا '' نہیں، جب آئے ہیں تو مسئلہ بیان کر کے جائیں گے، اللہ مالک ہے'' پھر پروفیسر صاحب، پڑوسی صاحب کے ساتھ افسر صاحب کے کمرے میں گئے اور اپنے آنے کا مدعا من و عن بتا دیا اور یہ بھی کہ کیا سوچ کر آئے تھے، اس پر افسر صاحب کہنے لگے'' ارے! پروفیسر صاحب آج سے ہم بھی آپ کے واقف کار ہیں اور یہ لیجیے آپ کا کام ہوگیا۔'' اس واقعے کو بیان کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ جب نیت صاف ہو تو منزل خود بخود مل جاتی ہیں اور خدائے بزرگ کی طرف سے رحمت و برکت ہو ہی جاتی ہے۔
آج کے اس پرفتن دور میں لوگ ایک دوسرے کے کام آنے سے کتراتے ہیں، کسی پر مشکل وقت پڑجائے تو اس سے منہ چھپاتے ہیں، اس سے ملنا جلنا تو درکنار بات کرنا بھی ترک کردیتے ہیں جبکہ کسی دولت مند یا اثر و رسوخ والے کے آگئے، پیچھے پھرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔ گزشتہ زمانے کے لوگوں کے ایمان بڑے کامل ہوتے تھے، وہ جب کسی سے کلام کرتے تو دعائیہ کلمات ایک دوسرے پر بھیجتے ہوئے کلام کا آغاز کرتے، بڑے چھوٹے امیر غریب کے فرق سے مبرا ہوتے، یہ دعائیہ کلمات جس کے حاصلات اتنے دل خوش کن ہوتے کہ سامنے والا اپنی تمام مشکلات تکلیفوں کو فراموش کرکے اخلاق سے پیش آتا، اس کے اندرکی تمام تلخی دور ہوجاتی، ان کلمات کے زیر اثر۔
جبکہ آج یہ عالم ہوگیا ہے کہ ہم اپنی انا پرستی کے خمار میں ان دعائیہ کلمات میں پہل کرنے سے گریزکرتے ہیں۔ خلق خدا نے ذات پات امیر غریب کے حوالے سے آپس میں ایک دوسرے سے دوری بنا لی ہے، ان سب کی ایک بہت بڑی وجہ والدین کی اپنے بچوں سے دوری ہے، بچوں کی بزرگوں سے دوری ہے کیونکہ موبائل تمام تر اچھائیوں اور مثبت کاموں کے درمیان حائل ہوگیا ہے۔ اس میں موجود انٹرنیٹ جو سوشل میڈیا کی رسائی کا ذریعہ ہے جس میں ہر عمل کی لائیک ہوجاتی ہے، اس لیے بچے اس مصنوعی دنیا کے ساتھ کو حقیقی لوگوں کے ساتھ پر فوقیت دیتے ہیں چونکہ یہاں بہتری کے لیے کوئی آپ کا حقیقی اپنا موجود نہیں ہوتا جو آپ کا قرار واقعی بھلا چاہتا ہو، آپ سے اخلاص رکھتا ہو۔
ہمارے بچپن میں ایک ہی چینل پی ٹی وی ہوا کرتا جس میں علم و ادب، تہذیب و اخلاق کا خاص خیال رکھا جاتا، بچوں کے لیے نصیحت آموز پروگرامز ہوتے لیکن آج مذہب کلچر، اخلاقی قدریں دور دور تک کہیں نہیں، صرف و صرف موبائل کی افادیت قوتوں کی تشہیر جس کے زیر اثر شادی شدہ مرد وخواتین کے غیر اخلاقی تعلقات مغرب کی طرح کے جس نے چادر اور چار دیواری کی حرمت کو تار تارکر دیا، ظاہری شان و شوکت نے گھروں کا سکون غارت کردیا، شوہر اور سسرال والوں کی ستائی ہوئی مظلوم عورت بس یہی چورن ہے۔
آج کل کے ڈراموں کا جو وہ ناظرین کو دکھاتے ہیں۔ ساس، بہو، نند کی سیاسی سازشی چالیں اور اوپر سے ریٹنگ کا ''جن''جس کے باعث مستند لکھاریوں نے لکھنا چھوڑ دیا۔ انہی ڈراموں کے زیر اثر اب مائیں بیٹیوں کے گھر پر نقب لگا کر بیٹھتی ہیں اور دامادوں کے گھر توڑکر بیٹی کو الگ ہونے کی ترغیب دیتیں ہیں، تاکہ بیٹی کے گھرکی مکھیائی بھی وہ خود بن جائیں۔دور حاضر کے تمام مسائل کا حل اچھی تربیت ہے، جو والدین اس امید پر دیں کہ کل ان کی بخشش کا ذریعہ بنے گی، بزرگوں کی صحبت کی طرف بچوں کو مائل کریں تاکہ بزرگ اپنے تجربے کی روشنی میں فانی اور ابدی دنیا سے متعلق حکمتیں انہیں سمجھا سکیں تاکہ وہ اپنی کل کی بے راہ روی سے بچ سکیں، جو روایتیں اقدار اخلاقیات اب مر چکی ہیں، وہ توجہ سے کی جانے والی بہترین تربیت سے ہی زندہ کی جاسکتی ہیں، خدا ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)