عزت

عوام اب سمجھ دار ہو چکے ہیں اور ایسے مجرموں کے لیے پھانسی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے

اسلام نے عورت کو بہت بڑا مقام دیا ہے، اس کی ایک عظیم مثال ماں ہے کہ جس کے قدموں تلے جنت ہے۔ رب العزت کی محبت بندے سے کس قدر ہے اس کے لیے ایک کلیہ بھی مقرر کر دیا گیا ہے۔ اس کلیے کو جب سمجھنا چاہا تو آسان نہیں بلکہ بہت پیچیدہ پایا۔ کیا ہم اپنی ماں کی محبت کو ناپ سکتے ہیں؟ تو اس کا جواب ہے، نہیں۔

پھر غورکریں کہ اس بے انتہا محبت کا ستر گنا زیادہ محبت کا پیمانہ۔ عورت کی عظمت کے لیے ماں کا کلیہ نہایت خوبصورت ہے لیکن صد افسوس دنیا بھر کے کرائم چاہے وہ سیاسی نوعیت کے ہوں یا غیر سیاسی نوعیت کے ہوں جنگی ہوں یا گھریلو قسم کے، ہر ایک میں عورت کی تذلیل دیکھی گئی ہے۔ ابھی حال ہی میں بھارت میں کلکتہ میں لیڈی ڈاکٹر کے ساتھ جوکچھ ہوا اس کی بلند و بانگ چیخیں آج پورے بھارت میں گونج رہی ہیں۔

صرف یہی نہیں چودہ اگست کو مہاراشٹر کے ایک اسکول میں صفائی ستھرائی کرنے والے ایک ملازم اکشے شندھے نے نرسری جماعت کی دو چار سالہ بچیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑکی، جب معصوم بچیاں ٹوائلٹ میں تھیں، یہ بچیاں اس قدر خوفزدہ ہیں کہ وہ اسکول جانا ہی نہیں چاہتیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ ملازم پہلی اگست کو ہی اس اسکول میں رکھا گیا تھا اور چودہ اگست کو ہی اس نے اپنی گندی حرکتوں سے نہ صرف بمبئی بلکہ پورے بھارت کو دہلا دیا ہے۔

بدلہ پور میں اس وقت پورے گھمسان کی جنگ چھڑ گئی جب عوام کو لگا کہ پولیس اس کیس میں بے پرواہی برت رہی ہے۔ یہ ساری صورت حال اس پس منظر کے ساتھ ابھری جب کولکتہ میں ٹرینی ڈاکٹر کے ریپ اور بہیمانہ تشدد کے بعد موت پر عوام گھروں سے باہر نکل کر احتجاج کر رہی تھی۔ ایسے میں دو کم سن بچیوں کے ساتھ بدسلوکی کا یہ واقعہ اور پولیس کے ساتھ اسکول انتظامیہ کی لاپرواہی کیا یہ ثابت کر رہی تھی کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔

عوام اب سمجھ دار ہو چکے ہیں اور ایسے مجرموں کے لیے پھانسی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، ویسے بھی بھارت میں ریپ کے واقعات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق 2020 اور 2015 کے درمیان ریپ کے واقعات میں 45 فی صد دلت خواتین تھیں، اس طرح کے مقدمات نچلی قوم کے ساتھ بدسلوکی کے علاوہ جو معاملات چلتے رہے، ان کی عدالتی کارروائیوں میں کتنے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا، یہ الگ داستان ہے۔


بلقیس بانو ریپ کیس میں گیارہ ملزمان کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا تھا، اس پوری تفصیل میں 2012 میں دہلی کی گنجان سڑکوں پر نربھایا کو چلتی بس میں گینگ ریپ کا نشانہ بنایا گیا تھا اور بعد میں اسے بس سے باہر مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا۔ نربھایا کی ماں کی کلکتہ کی ٹرینی ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے بارے میں رائے لی گئی تو ان کا اس سلسلے میں کہنا تھا کہ ان کی بیٹی کے قاتلوں کو پھانسی ہونے کے بعد بھی کچھ نہ بدلا۔

آج پورے بھارت میں عورت کی تذلیل اور بے حرمتی پر احتجاج ہو رہا ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے اتنی بڑی تعداد میں خواتین کو احتجاج کرتے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ کیا بھارت میں عورت کو اس کا اصل مقام مل جائے گا؟ کیا دنیا میں عورت کی عزت کی جائے گی؟ اسرائیل کی پرتشدد، ظالمانہ کارروائیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، کیا اسرائیل ظلم و بربریت میں خواتین کے تقدس کو پامال نہیں کر رہا، اسی طرح شام میں بھی یہ ظالمانہ کارروائیاں جاری ہیں۔ کیا اونچی اونچی آوازوں، بے ہنگم شور، ظلم و بربریت میں شام کی بیٹیاں محفوظ ہیں؟ کیا کشمیر میں ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے تقدس کو پارا پارا نہیں کیا گیا؟

قیام پاکستان کے دور سے لے کر سقوط ڈھاکہ تک خواتین کی کس قدر بے حرمتی کی گئی، کیا تاریخ اسے بھلا سکے گی؟ ہر دور میں ہر جنگ میں خواتین کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اگر ایک نظر پاکستان پر ڈالی جائے تو یہاں بھی عورت اور چار دیواری کے تقدس کو بار بار پامال کیا گیا ہے، معصوم زینب کا کیس ابھی بھی لوگوں کے ذہنوں سے محو نہیں ہوا ہے۔ 2020 میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام نے عدالتوں میں خواتین مخالف تعصب کے ساتھ پاکستان کو 75 ممالک میں سرفہرست رکھا۔

ورلڈ اکنامک فورم کی ایک رپورٹ میں بھی 146 ممالک کے سروے میں پاکستان کو صنفی برابری کے لحاظ سے بدترین ملک قرار دینے کے بعد اسے 145 نمبر پر رکھا گیا جس کے بعد صرف افغانستان کا نام درج تھا۔سوشل میڈیا کے اس دور میں اب وہ باتیں بھی نظر آ جاتی ہیں جن کے پہلے صرف قصے سنے جا سکتے تھے۔

کیا آپ نے اسلام آباد جیسے بڑے شہر کی وہ ویڈیو نہیں دیکھی جس میں ایک بھائی اپنی بہن کے ساتھ سڑک پر جاتا دکھائی دیتا ہے، اسی روڈ پر شلوار قمیض پہنے نوجوانوں کا ہجوم بھی نظر آتا ہے ان میں سے ایک کے ہاتھ میں ایک پارٹی کا جھنڈا بھی نظر آ رہا تھا۔ وہ گورے چٹے جوان ان بہن بھائی کو چھیڑنے کے سے انداز میں قریب جا رہے تھے، بھائی اپنی بہن کو اپنے تحفظ کا احساس دلاتے بازو سے تھامتا ہے، تب ہی لڑکی غصے سے پلٹ کر اس ہجوم کو کچھ کہتی ہے۔

بس یوں لگ رہا تھا کہ جیسے اگر کسی ایک جوان نے کچھ اور ہمت دکھا کر اس لڑکی کو چھوا تو جیسے سارے موقع کی تلاش میں پل ہی پڑیں گے۔اسی طرح ایک اور منظر کراچی کے سی ویو سے ابھرتا نظر آتا ہے۔ جب خواتین پولیس کانسٹیبل اپنا آپ بچاتی بھاگ رہی تھیں اور بالکل اسلام آباد کی طرح کا ایک ہجوم ان جوان لڑکیوں کے پیچھے تھا، اگر انھوں نے پولیس کی وردی پہنی تھی تو کیا وہ مرد تھیں؟ پر کوئی مائی کا لال نہ تھا کہ اپنی بہنوں کی حفاظت کے لیے یا دکھاوے کے لیے ہی ایک للکار لگاتا۔ ہم مسلمان ہیں، زندہ قوم ہیں، پر ہماری حرکتیں حرام گوشت کھانے والوں سے بھی بدتر ہو رہی ہیں۔ ہم کسی مخصوص علاقے، شہر یا ملک میں اسلامی شعائر کو لاگو کا واویلا کر کے دوغلے پن کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن اپنے بچوں کی تربیت میں ماں، بیٹی اور بہن کی عزت کرنا شامل کرتے کرتے دوسروں کی عزتیں بھول جاتے ہیں۔ اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے ہم عورت کو سب سے پہلے گھیر کر لاتے ہیں اور سر عام اسے رسوا کرتے ہیں۔
Load Next Story