اردوکی ادبی تحریکیں ایک جائزہ

سائنس مادہ کی ماہیت پر یقین رکھتی ہے ادب مادہ کی صفات پر نظر رکھتا ہے

jabbar01@gmail.com

ادب کا تعلق ہمارے جذبات سے ہے، ادب انسانی جذبات کو احساس کی قوت عطا کرکے اسے خوبصورت بناتا ہے۔ لطیف جذبات خوبصورت زندگی کے ضامن ہوتے ہیں۔ ہر معاشرے کے کچھ مسائل ہوتے ہیں جن کا تعلق جذبات سے ہوتا ہے۔ جب یہ مسائل اجتماعی مسائل کی صورت اختیارکر لیتے ہیں تو ادبی تحریکیں وجود میں آتی ہیں۔ اردو ادب میں بھی ایسی تحریکوں کا وجود رہا ہے جنھوں نے مختلف نظریات کے تحت اپنی اپنی تخلیقات پیش کیں اور معاشرے کو متاثرکیا۔ آئیے! ان کا مختصراً جائزہ لیتے ہیں۔

اردو ادب کی اولین تحریکوں میں ادب برائے ادب کے نظریے سے وابستہ تحریکیں شامل ہیں۔ ان کے نزدیک ادب کا تعلق جمالیات سے ہے جس کا مقصد قلب انسانی کے لطیف اور حسِ احساسات کو بیان کرنا ہے۔ اس نظریہ ادب میں فرد کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ ان کے نزدیک ادب کو کسی مذہبی، سیاسی اور معاشی نظریے کا پابند نہیں ہونا چاہیے۔

جب ایک ادیب خود کو کسی نظریے کیساتھ منسلک کر لیتا ہے تو وہ آزادی سے نہیں لکھ سکتا۔ اس لیے ادب کو کسی نظریے کا پابند نہیں ہونا چاہیے۔ ان کے نزدیک آزادی فکر اور سچائی کے ساتھ لکھی جانے والی تحریریں ہی دلکش اور خوبصورت ہوتی ہیں بلکہ پراثر بھی۔ اس لیے ادیب کو شعوری مقاصد سے بے نیاز ہو کر اپنے اندر کی آواز سننی چاہیے۔

ادب برائے ادب کے برعکس جس ادبی فکر نے جنم لیا، اسے ادب برائے زندگی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان کے نزدیک شعر و ادب کا کام محض ادبی تخلیقات میں کھو جانے کا نام نہیں اور نہ ہی سماج کے تلخ حقائق سے گھبرا کر حسن و عشق کے سایہ میں پناہ لینے کا نام ہے بلکہ ادب کو زندگی کا ترجمان ہونا چاہیے۔ ان کے نزدیک انسانی زندگی پر خارجی اثرات اور تبدیلیاں اثرانداز ہوتی ہیں ان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

اس لیے جب تک ہم زندگی کی ناہمواریوں، انفرادی اور اجتماعی دکھوں کے عکس کے حوالے سے بنیادی تصورات اور خیالات کو تبدیل نہیں کریں گے اس وقت تک سماج کے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ اس تحریک نے ادب کو گل و بلبل، عشق و محبت، لب و رخسار، شمع و پروانہ کی تصوراتی فضا سے نکال کر زندگی کا ترجمان بنا دیا اور بالخصوص معاشرے کے طبقاتی فرق کو نشان زد کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

ادب برائے ادب نے انسان کو اپنی شخصیت کی جانب متوجہ کیا، اس کے برعکس ادب برائے زندگی نے اجتماعیت کو اولین حیثیت دی ان تحریکوں سے وابستہ بعض ادیب اور شعرا نے جب لادینی نظریات اور افکارکو فروغ دینے کیلئے ادب کو ذریعہ بنایا اور دو وقت کی روٹی کے حصول کو مقصد حیات قرار دے کر ایک خاص نظریے کے فروغ کیلئے آلہ کار بن کر مذہب کو ادب سے خارج کرنے کی کوشش کی تو مذہبی اور دینی حلقوں میں اس کے خلاف ردعمل پیدا ہوا جس کے نتیجے میں ادب برائے بندگی کے نظریے نے جنم لیا۔


اس نظریے کے تحت اسلامی فکر رکھنے والے ادیبوں اور شعرا میں اسلامی ادب کا شعور بیدار ہوا۔اسلامی ادب سے مراد کسی بھی زبان میں لکھا جانے والا ایسا ادب جو دینی افکار اور اسلامی موقف کی ترجمانی کرتا ہو، اسلامی ادب کہلایا۔ اس تحریک سے بیش تر لوگ ایک دینی جماعت سے منسلک تھے لہٰذا اس کا ایک سیاسی پہلو بھی تھا۔ اس تحریک نے بہت اچھی تحریریں دیں اور ادبی فکرکی مثبت راہیں متعین کیں۔ تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں، یہ تحریک ادب برائے زندگی کے مقابل کوئی غیر معمولی ادیب اور شاعر یا نقاد پیدا نہ کرسکی۔

قیام پاکستان کے بعد فکری زاویے میں تبدیلی ہوئی تو ادب کے حوالے سے فکری، تاریخی، ثقافتی اور نظریاتی اساس کو تلاش کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس فکر کے نتیجے میں پاکستانی ادب کو تخلیق کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ پاکستانی ادب کی تحریک نے زمین کے حوالے سے نہ صرف ثقافتی عناصرکو قبول کیا بلکہ اس تحریک نے نسلی اور روحانی ادبی سرمایہ میں بھی اضافہ کیا۔

موجودہ دور سائنسی ترقی کا دور ہے، سائنس اور ٹیکنالوجی نے تمام مظاہر حیات کیساتھ انسان کے خارجی شعورکیساتھ داخلی شعور پر بھی غلبہ حاصل کر لیا۔ سائنس کا تعلق دماغ سے ہے جبکہ ادب کا تعلق دل سے ہے۔ ایک کی بنیاد مشاہدہ ہے تو دوسرے کی بنیاد جذبات ہیں یعنی دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ادب کے طالبعلم سائنس کو خشک اور بے لطیف علم کہتے ہیں۔

سائنس کے طالبعلم ادب کو بے مقصد سی چیز سمجھتے ہیں۔ تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ سائنس دان بھی دل، احساسات اور جذبات رکھتے ہیں۔ سائنس علم سے روشناس کراتی ہے، ادب ہمیں اس علم سے استفادہ کرنے کا شعور دیتا ہے۔ اسی فکر کے نتیجے میں سائنسی ادب کی تحریک نے جنم لیا جس کا مقصد سائنس اور ادب کی دوری کو ختم کر کے دونوں کو ہم آہنگ کرنا تھا۔ یہ تحریک سائنسی علوم کے فروغ میں کافی معاون ثابت ہوئی بالخصوص اس تحریک نے بچوں میں سائنسی علوم کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔

سائنس مادہ کی ماہیت پر یقین رکھتی ہے ادب مادہ کی صفات پر نظر رکھتا ہے۔ مثلاً بلبل کا لفظ ایک علامت ہے، سائنسی نقطہ نظر سے اس کا وجود حیوانی ہے۔ ادبی نقطہ نظر سے بلبل خوب صورتی کی علامت ہے جو باغ کی خوبصورتی میں اضافہ کرتا ہے یعنی بلبل کی علامت سائنس اور ادب میں علیحدہ علیحدہ تصور رکھتی ہیں، اس بنیاد پر ادب کو سائنسی بنیادوں پر تشکیل نہیں دیا جاسکتا۔

یہی وجہ ہے کہ یہ تحریک زیادہ کامیابی سے ہم کنار نہ ہو سکی۔ راقم اپنی متعدد ادبی تحریروں میں اس بات کا اظہار کر چکا ہے کہ کوئی بھی نظریاتی تحریک ہو، سیاسی ہو یا ادبی اس وقت تک زندہ اور فعال رہتی ہے جب تک وہ اپنے نظریات اور تخلیقات سے فرد اور معاشرے کو متاثر کرتی ہے، اگر وہ ایسا کرنا بند کر دے تو تحریک زوال کا شکار ہو کر اپنا وجود کھو دیتی ہے۔ موجودہ دور میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ مادیت کے فروغ کے باعث یہ تمام تحریکیں غیر موثر ہوگئی ہیں۔ اس وقت ہمارا معاشرہ زوال پذیر ہے وہ پہلے سے زیادہ عدم توازن کا شکار ہے۔

اس لیے ان ادبی تحریکوں کے وجود کی ضرورت جتنی زیادہ اب ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ اس لیے ادیب اور شعرا جس فکر سے بھی متاثر ہوں وہ میدان عمل میں آئیں اور اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ یاد رکھیں جس معاشرے میں ادب کو فروغ حاصل ہوتا ہے وہ معاشرے زیادہ مہذب ہوتے ہیں جن معاشروں میں مادیت کو فروغ حاصل ہوتا ہے وہاں خود غرضی اور لوٹ کھسوٹ کو زیادہ فروغ حاصل ہوتا ہے۔ اس وقت ہمارا معاشرہ مادہ پرستی کے سبب منفی قدروں میں گھرا ہوا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ تمام ادبی تحریکیں متحرک ہوں تاکہ معاشرے کو منفی قدروں سے محفوظ کیا جاسکے۔
Load Next Story