اردو پاکستان اور بابائے اردو مولوی عبدالحق
تقسیم کے وقت انجمن کا دفتر دہلی میں تھا۔ حالات حوصلہ شکن تھے، انجمن کی اچھی خاصی بربادی ہوچکی تھی
کسی بھی ملک کی شناخت، اس کی علمی و ادبی سرمائے اور تہذیب و ثقافت سے ہوتی ہے۔ تہذیب و ثقافت میں زبان بھی شامل ہے۔ قومی تشخص اور پہچان کے لیے زبان کا ہونا لازمی ہے۔ جب پاکستان کی بات ہوگی تو قومی زبان اردو کا نام آئے گا اور جہاں اردو کا نام آئے گا، وہیں بابائے اردو مولوی عبدالحق کا ذکر بھی ضرور ہوگا کیوں کہ اردو اور مولوی صاحب لازم و ملزوم ہیں۔
اردو کو پاکستان کی قومی زبان بنانے والے ہراول دستے کے سالار مولوی عبدالحق ہی تھے۔مولوی صاحب کی اردو کے لیے جدوجہد کوئی ایک دن، مہینا یا سال پر مشتمل نہیں ہے بلکہ یہ برس ہا برس کی عزم و ہمت کی ایک ایسی داستان ہے جس کے لیے جتنے بھی الفاظ قرطاس پر منتقل کیے جائیں، کم ہیں۔ مولوی صاحب ایک شخصیت نہیں، ادارہ تھے۔
اُنھوں نے اردو زبان کی ترویج و اشاعت کے لیے جتنی کوششیں تنِ تنہا کی ہیں، اتنی تو ادارے مل کر بھی نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے اُنھیں آہنی ارادوں، مضبوط اعصاب، بلا کی خود اعتمادی اور غیر معمولی صلاحیتیں دے کر پیدا کیا تھا۔ اُنھوں نے اردو زبان کی اہمیت کو پہچانا اور اس کے فروغ اور جائز مقام دلوانے کے لیے تن من دھن سے کوششیں کیں۔
وہ بلاشبہ کاروانِ اردو کے سرخیل کہے جاسکتے ہیں اور یہی اُن کا مقصدِ حیات بھی تھا۔ اس معاملے میں وہ کبھی کسی سے سمجھوتا نہیں کرتے تھے، نہ حکمرانِ وقت سے، نہ زمانے کے فرعونوں سے وہ اپنی دھن کے پکّے اور لگن کے سچے تھے۔مولوی عبدالحق غیر منقسم ہندوستان، میرٹھ (ہاپڑ) میں 1870ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے میں حاصل کی اور پھر علی گڑھ چلے گئے جہاں سے بی اے کیا۔ وہیں رہتے ہوئے سرسیّد احمد خان کے قریب ہوگئے۔
ان کے علمی و ادبی معاملات میں ساتھ کی وجہ سے بہت کچھ سیکھا۔ اور ان کی شخصیت سے متاثر ہوئے۔ مختلف شہروں میں ملازمتیں کیں، حیدرآباد دکن میں رہے اور وہاں مدرسہ آصفیہ میں ہیڈ ماسٹر کے عہدے پہ فائز رہے، اورنگ آباد میں محکمہ تعلیمات کے صدر مہتمم رہے۔ حیدرآباد دکن میں موجود جامعہ عثمانیہ کے موسسین میں شامل رہے۔ آپ کا شمار جامعہ عثمانیہ کے معماروں اور منصوبہ سازوں میں ہوتا ہے۔
وہاں ایک بین الاقوامی معیار کا دارالترجمہ قائم کیا جس کے پہلے ناظم بنے ، جسے مولوی صاحب نے جدید سائنسی انداز میں منظم کیا اور دنیا بھر کے تمام علوم و فنون کا اردو ترجمہ کروایا۔ جامعہ عثمانیہ میں تمام تدریس اردو میں ہوا کرتی تھی اس جامعہ کو ایک ماڈل اردو یونی ورسٹی کے طور پر چلا کر ثابت کیا کہ اردو ایک ایسی بھرپور زبان ہے جس میں تمام علوم و فنون کی تعلیم نہایت کامیابی سے دی جاسکتی ہے۔ اور بعد میں یہ بات جامعہ عثمانیہ کے فارغ التحصیل طلبہ نے دنیا میں بہترین ڈاکٹر، انجینئر، سائنس دان، فلسفی اور دانش ور بن کر ثابت کی۔
بلکہ قیامِ پاکستان کے بعد ایک نئے ملک میں مختلف اہم شعبوں کے عہدوں پر خدمات انجام دیں۔ مختلف اداروں کے سربراہوں سے لے کر تعلیمی ادارے قائم کرنے والوں میں شامل رہے۔ ان میں میں معروف سرجن سیّد عبداللہ حسینی (لیاقت نیشنل اسپتال)، ڈاکٹر رضی الدین (سائنس دان)، پروفیسر سیّد اکبر حسنی، ڈاکٹر نعمت اللہ شریف، خواجہ معین الدین (ڈراما نگار) شاہ بلیغ الدین وغیرہ۔مولوی صاحب کا اصل کام انجمن ترقی اردو سے وابستگی ہے جب تک وہ ہندوستان میں رہے، انجمن کی ترقی کے لیے کوشاں رہے۔
اردو کا مقدمہ لڑتے رہے، دامے درمے قدمے سخنے ہر طرح سے اس کو صحیح مقام دلوانے کی کوششیں کرتے رہے۔ حکمرانوں، سیاست دانوں، دانش وروں تمام مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو اردو کے لیے خطوط لکھے، ملاقاتیں کیں، لمبے لمبے سفر کیے، اپنی تمام کتابیں انجمن کو دے دیں، پیسے جمع کیے، نادار طلبہ کی مدد کی، انجمن کی شاخیں کھولیں، اردو مدرسے قائم کیے۔ اُنھوں نے اردو کے لیے کہاں سرفروشی نہیں دکھائی۔ انجمن ترقی اردو ایک چھوٹے سے ادارے سے لے کر ہندوستان کے طول و عرض پر پھیل گئی۔ مولوی صاحب نے خود کو اردو کے لیے وقف کردیا تھا اور ایک فریضے کی طرح اردو کی خدمت کا کام انجام دیا۔
نوجوانوں کو انجمن اور اردو سے جوڑا۔ ان کا مقصد صرف اردو کا تحفظ اور ترقی تھا۔ مولوی صاحب ایک بہترین محقق، شان دار لغت نویس، بے باک نقاد، اعلیٰ پائے کے مدیر، مکتوب نگار، خاکہ نگار، کالم نگار اور اردو کا کون سا ایسا شعبہ نہ تھا جس پر اُنھوں نے خامہ فرسائی نہ کی ہو۔ اُنھوں نے جس شعبے کا انتخاب کیا، اس کو بامِ عروج پر پہنچایا۔قیامِ پاکستان کے بعد قائداعظم کی درخواست پر پاکستان ہجرت کی۔
تقسیم کے وقت انجمن کا دفتر دہلی میں تھا۔ حالات حوصلہ شکن تھے، انجمن کی اچھی خاصی بربادی ہوچکی تھی۔ ان مایوس کن حالات میں بچے کھچے علمی اثاثے کے ساتھ پاکستان تشریف لائے۔ یہاں آکر انجمن ترقی اردو کا احیا کیا اور ازسرِنو اسے ترقی دینے میں جُت گئے اور اسے اردو کا ایک فعال اور اہم ادارہ بنا دیا۔ مولوی صاحب صرف ایک ہی سمت پر نظر مرکوز نہیں رکھتے تھے۔ ان کی نظر ہر طرف رہتی تھی۔ ان کے ذہن میں حیدرآباد دکن کی جامعہ عثمانیہ بھی تھی اور پھر مولوی صاحب کی دیرینہ خواہش تھی کہ عثمانیہ کی طرز پر پاکستان میں بھی ایک جامعہ ہو جہاں تمام علوم کی تعلیم اردو میں دی جائے۔
قائداعظم محمد علی جناح نے ڈھاکہ میں اپنے خطبے میں فرمایا تھا کہ، ''پاکستان کی قومی زبان صرف اردو ہوگی۔'' مولوی صاحب کے پیشِ نظر یہی مقصد تھا کہ اردو کو پاکستان میں ہر جگہ نافذ کیا جائے کیوں کہ یہی ایک ایسی زبان ہے جو پورے ملک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اسی لیے اُنھوں نے اردو کالج قائم کیا جہاں ذریعۂ تعلیم اردو رکھی گئی۔ یہ تجربہ بہت کامیاب رہا۔ بعد ازاں اس کالج کو اس وقت انجمن کے منتظم جمیل الدین عالی صاحب کی کوششوں سے جامعہ کا درجہ ملا۔ پاکستان میں ان کے علمی سرمائے کے علاوہ انجمن ترقی اردو پاکستان اور وفاقی جامعہ اردو ایسے کارنامے ہیں جہاں سے تشنگانِ علم ہر وقت فیض اٹھا رہے ہیں۔ مولوی صاحب کے کارنامے اور خدمات کا احاطہ کرنا مشکل ہی نہیں، تقریباً ناممکن ہے۔ اُنھوں نے خود ایک بار کہا تھا:
''تصویر جس قدر بڑی، شان دار اور نفیس ہوتی ہے، اسے اسی قدر پیچھے ہٹ کر دیکھنا پڑتا ہے تاکہ اس کے خدوخال واضح طور پر نمایاں ہوسکیں اور صناع کے کمال اور تصویر کے حسن و قبح کا صحیح اندازہ ہوسکے۔ یہی حال بڑے لوگوں کا ہے جنھوں نے دنیا میں کسی نہ کسی حیثیت میں کار ہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔'' مولوی صاحب کے اپنے الفاظ ہی یہ کہنے کے لیے کافی ہیں کہ ان کی خدمات کا احاطہ کرنا کتنا مشکل ہے۔ آج وہ حیات ہوتے تو خود دیکھ لیتے کہ اُن کا ادارہ انجمن ترقی اردو کس طرح اردو کی خدمت کر رہا ہے۔ اور جیسے ان کی خواہش تھی کہ یہاں یہ کام سائنسی انداز سے ہوں تو انجمن میں بھی کتابوں، رسالوں، تحقیقی مجلّوں کی کمپوزنگ سے لے کر پرنٹنگ تک تمام مراحل انجمن میں ہی انجام دیے جا رہے ہیں۔