پاکستان بنگلہ دیش ماڈل انقلاب
پاکستان میں رائج آمریت اور جمہوریت نے ایک خاص طبقے کو ان کے مخصوص مفادات کے ساتھ جنم دیا
یہاں بنگلہ دیش ماڈل انقلاب کیوں نہیں آسکتا؟ تاریخی اعتبار سے ہمارے ہاں ایسا کوئی انقلاب برپا نہیں ہوا کہ عوام سڑکوں پر نکل آئے ہوں اور وہاں کی حکومت و ایوان شش و پنج میں ہوں کہ وہ اس سیلاب کو کیسے روکیں۔ ایسا انقلاب سری لنکا میں بھی آیا کہ تمام عوام حکومت و حکمرانوں کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ ہماری تمام ماضی کی تحاریک جیسا کہ 1983 میں ایم آر ڈی تحریک، جنرل ایوب کے خلاف تحریک، جنرل مشرف کے خلاف وکلاء کی تحریک ان کو اس پیمانے پر نہیں تولا جاسکتا۔ ان کو ملک گیر تحاریک نہیں کہا جاسکتا۔ جنرل مشرف کے خلاف وکلاء تحریک ایک بھرپور تحریک ضرور تھی مگر اس میں عوام کی شرکت اور نمایندگی نہ تھی۔ وکلا تحریک نے جنرل مشرف کوکمزورکیا، مگر وہ آمر تھے۔
1983 میں ایم آر ڈی کی تحریک کا آغاز توکراچی سے ہوا، لیکن بعد ازاں یہ تحریک سندھ کے دوسرے شہروں اور دیہاتوں میں چلی گئی۔ ایسی تحاریک کا نہ ہونا شاید اس وجہ سے بھی ہے کہ ہمارے ملک مختلف قومیتیں بستی ہیں، سب کی ثقافت، زبان اور تاریخ جدا جدا ہے۔ ان 77 برسوں میںہم ایک ملک گیر ثقافت اور تاریخ سے نہیں جڑے، چونکہ یہ ملک سیاسی اعتبار سے عدم استحکام کا شکار رہا، جمہوریت پروان نہ چڑھ سکی، ملک آئین پر نہ چل سکا، عوام میں احساسِ محرومی نے جنم لیا، اقلیتوں نے اعتماد کھویا، عورتوں کو مساوی حقوق سے محروم رکھا گیا، مذہبی فرقہ واریت کی اجارہ داری ہوئی، لٰہذا اگرکوئی سیاسی جماعت جیسے کہ پی ٹی آئی ملک گیر تحریک چلانا بھی چا ہے تو اس موقعے پر، ان کے ساتھ نہ ہی جماعت اسلامی کھڑی ہے اور نہ ہی جمعیت علمائے اسلام (ف)۔ اے این پی، ایم کیوایم،فنگشنل لیگ بھی ساتھ نہیں دیں گی۔شیرپاؤ گروپ بھی ساتھ نہیں چلے گا۔
پی ڈی ایم نے ملک گیر تحریک چلائی، بلاول بھٹو نے لانگ مارچ بھی کیا لیکن اسے بھی عوام کے عوام کی تحریک قرار نہیں دیا جاسکتا، اس وقت عمران خان کو حکومت سے ہٹانے کے محرکات کچھ اور تھے۔ خان صاحب کی مقبولیت کتنی ہے، اس بات کا اندازہ ابھی نہیں لگایا جا سکتا،کیونکہ یہ معلوم نہیں ہو پا رہا ہے کہ 2018 کے الیکشن کو جنرل فیض حمید اور ٹی ٹی پی نے یرغمال بنایا اور بالکل اسی طرح سے 2024 کے الیکشن مین بھی یہی جوہر دکھائے گئے۔
پاکستان میں رائج آمریت اور جمہوریت نے ایک خاص طبقے کو ان کے مخصوص مفادات کے ساتھ جنم دیا اور ان مخصوص مفادات کے گرد گھومتی ہے ہماری اشرافیہ۔ اقتدار وہ طاقت تھی جس کے بغیر اشرافیہ کی بقاء نہ تھی۔ بے نظیر بھٹوکے بعد پیپلز پارٹی اپنی تحریک چلانے کی طاقت کھوچکی ہے، اس کی وجہ یہ تھی پیپلزپارٹی عام لوگوں کی نہیں، سندھ کے وڈیروں اور پیروں کی پارٹی بن چکی ہے، لٰہذا اس کی سیاست پاور گیم کے گرد گھوم رہی ہے ۔ پیپلز پارٹی ہوا کے رخ کو بھانپ گئی۔ آصف علی زرداری کو یہ بات سمجھ آگئی کہ یہ دورمزاحمت کا نہیں مفاہمت کا ہے۔ ان کی سیاست میر غوث بخش بزنجوکے طرزکی تھی، مگر دونوں کی شخصیات میں زمین اور آسمان کا فرق تھا کیونکہ دونوں مختلف طبقات کی نمایندگی کرتے تھے۔ سو اعتراضات درست سہی زرداری صاحب پر، لیکن وہ ایک جمہوری قوت ہیں۔ جب پی ڈی ایم نے عمران خان اور اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تحریک کا آغازکیا تو نواز شریف نے کھل کر ایک موقف رکھا۔ ان تمام سیاسی جماعتوں میں مولانا فضل الرحمان نے بھرپور تحریک چلائی اور دھرنا دیا۔
حکومت ختم ہونے کے بعد عمران خان نے اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا اور اس لانگ مارچ میں ان کی معاونت جسٹس اعجاز الحسن اور دوسرے جج صاحبان نے کی، ان کو اسلام آباد میں داخل ہونے کی اجازت دی۔ اسلام آباد کو بے پناہ نقصان پہنچا، پورے کیپیٹل کو یرغمال بنایا گیا۔درختوں تک کو آگ لگا دی گئی۔ اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان نے کبھی ایسا قدم نہیں اٹھایا تھا، مگر اس عمران خان کی تحریک کو سسٹم میں موجود طاقتور لوگوں کی بھرپور حمایت و تعاون کے باوجود کامیابی نہیں ملی کیونکہ اس میں پاکستان کے عوام کی شرکت نہ ہونے کے برابر تھی لہٰذا انقلاب محض خواب ہی رہا، جیسا کہ بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد کے خلاف آیا یا پھر سری لنکا میں۔
چھبیس نومبر 2022 کو عمران خان نے جنرل عاصم منیر کے چیف بننے سے ایک دن پہلے راولپنڈی میں جلسہ کیا۔ وہاں بھی لوگوں کی تعداد اتنی نہ ہو سکی کہ عمران خان انقلاب کی کال دیتے۔ اس سے پہلے عمران خان نے لاہور سے راولپنڈی کی طرف لانگ مارچ شروع کیا، لوگوں کی تعداد بہت کم تھی، مشکل سے وزیرآباد تک پہنچے اور اپنے پاؤں کو زخمی کروا کر چائے کی پیالی میں انقلاب برپا کرتے رہے مگر انقلاب لا نہ سکے اور پھر آیا نو مئی کا سانحہ برپا کیا گیا ۔ فوج کی تنصیبات پر دھاوا بولا گیا، شہدا کے مجسمے گرائے گئے ، لوٹ مار کی گئی اور اس کے ساتھ فوج میں بغاوت کرانے کی کوشش کی گئی مگر ناکام ٹھہرے۔کیونکہ یہاں بھی پاکستان کے عوام نے اس انتشار کی حمایت نہیں کی اور نہ وہ باہر نکلے۔
نو مئی کے واقعے میں ملوث لوگوں کو سزا نہ ہو سکی،بلکہ عدلیہ سے ضمانتیں ملنے لگیں، کئی لوگوں کو مقدمات سے بری کیا گیا، ان ملزموں کو تاحال سزا نہیں مل سکی ہے۔ اس تحریک کو دوبارہ آکسیجن فراہم کی گئی اور طالبان نے حملے بھی کرنا شروع کردیے۔ پھر بھی انقلاب نہ آسکا،کیوں ہم بنگلہ دیش نہ بن سکے؟ کیوں ہم کولمبو نہ بن سکے؟ باوجود اس کے کہ ہماری قوم پر مہنگائی کی شکل میں ایک عذاب نازل کیا گیا۔ بجلی اورگیس کے بلوں نے کمر توڑ دی ہے، بے روزگاری کا راج ہے، مگر انقلاب نہ آسکا۔
اس کی واحد وجہ پاکستان کے عوام کا بلند سیاسی شعور ہے۔پاکستان کے باشعور عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ انقلاب کوئی جمہوری قوت نہیں لا رہی تھی۔ یہ فسطائی سنڈیکٹ ہے اور اس کے ڈیفیکٹو سربراہ تھے جنرل فیض حمید اوردیگر گروہ تھے جب کہ پاکستان کے لوگوں کو دکھانے کے لیے ایک پلے بوائے پس منظر کے حامل کرکٹ سیلبیرٹی کو پاپولر لیڈر میدان میں اتار گیا تھا ۔ یہ انقلاب نہ تھا بلکہ یہ تھا شبِ خون۔ فسطائیت اور نازیت کے پیروکاروں کا جس کا منشور اور مقصد پاکستان کے وسائل ، ہر قسم کی سرکاری زمینوں سے لے کر اعلیٰ سرکاری عہدوں پر قبضہ کرنا اور عام پاکستانیوں کو تیسرے درجے کے شہری بنانا تھا۔ پاکستان کی تاریخ کا واحد شبِ خون تھا جو ناکام ٹھہرا کیونکہ یہ شبِ خون فوج کو بھی بہا لے جا رہا تھا۔
جو انقلاب بنگلہ دیش میں آیا وہ حیران کن تھا کیونکہ ان کی معیشت تیزی سے بڑھ رہی تھی۔آئینی اعتبار سے شیخ حسینہ آمر نہ تھیں، وہ ایک منتخب وزیرِاعظم تھیں، جمہوری وزیرِاعظم تھیں، مگر بنگلہ دیش میں تبدیلی آیندہ بیلٹ باکس کے ذریعے ممکن نہ تھی۔ بنگلہ دیش کی عوام سڑکوں پر نکلے، 2014 میں بھی ڈی چوک پر عمران خان نے دھرنا دیا۔ آہستہ آہستہ لوگ غائب ہونا شروع ہوگئے، بلآخر دھرنا ختم کرنا پڑا۔ اور اب تو پتا یہ بھی چل رہا ہے کہ عمران خان اصل طاقت نہیں بلکہ جنرل فیض حمید اصل طاقت تھے اور ان سے پہلے وہ جنرل پاشا کے زیرِ سایہ رہے اور عمران خان ان کے کٹھ پتلی پلیئر تھے جو ان کے اشاروں پر چلتے تھے جو ہر وقت انقلاب ، ہر وقت تحریک اور ہر وقت نو مئی برپا کرنا چاہتے تھے۔ پاکستان کی سیاست کو ٹی ٹوئنٹی کا میچ بنا دیا، وہ بین الاقوامی پاکستانی دہشت گرد قوتیں جنھوں نے اس منصوبے پر سرمایہ کاری کی تھی، ان کو منہ کی کھانی پڑی۔
1983 میں ایم آر ڈی کی تحریک کا آغاز توکراچی سے ہوا، لیکن بعد ازاں یہ تحریک سندھ کے دوسرے شہروں اور دیہاتوں میں چلی گئی۔ ایسی تحاریک کا نہ ہونا شاید اس وجہ سے بھی ہے کہ ہمارے ملک مختلف قومیتیں بستی ہیں، سب کی ثقافت، زبان اور تاریخ جدا جدا ہے۔ ان 77 برسوں میںہم ایک ملک گیر ثقافت اور تاریخ سے نہیں جڑے، چونکہ یہ ملک سیاسی اعتبار سے عدم استحکام کا شکار رہا، جمہوریت پروان نہ چڑھ سکی، ملک آئین پر نہ چل سکا، عوام میں احساسِ محرومی نے جنم لیا، اقلیتوں نے اعتماد کھویا، عورتوں کو مساوی حقوق سے محروم رکھا گیا، مذہبی فرقہ واریت کی اجارہ داری ہوئی، لٰہذا اگرکوئی سیاسی جماعت جیسے کہ پی ٹی آئی ملک گیر تحریک چلانا بھی چا ہے تو اس موقعے پر، ان کے ساتھ نہ ہی جماعت اسلامی کھڑی ہے اور نہ ہی جمعیت علمائے اسلام (ف)۔ اے این پی، ایم کیوایم،فنگشنل لیگ بھی ساتھ نہیں دیں گی۔شیرپاؤ گروپ بھی ساتھ نہیں چلے گا۔
پی ڈی ایم نے ملک گیر تحریک چلائی، بلاول بھٹو نے لانگ مارچ بھی کیا لیکن اسے بھی عوام کے عوام کی تحریک قرار نہیں دیا جاسکتا، اس وقت عمران خان کو حکومت سے ہٹانے کے محرکات کچھ اور تھے۔ خان صاحب کی مقبولیت کتنی ہے، اس بات کا اندازہ ابھی نہیں لگایا جا سکتا،کیونکہ یہ معلوم نہیں ہو پا رہا ہے کہ 2018 کے الیکشن کو جنرل فیض حمید اور ٹی ٹی پی نے یرغمال بنایا اور بالکل اسی طرح سے 2024 کے الیکشن مین بھی یہی جوہر دکھائے گئے۔
پاکستان میں رائج آمریت اور جمہوریت نے ایک خاص طبقے کو ان کے مخصوص مفادات کے ساتھ جنم دیا اور ان مخصوص مفادات کے گرد گھومتی ہے ہماری اشرافیہ۔ اقتدار وہ طاقت تھی جس کے بغیر اشرافیہ کی بقاء نہ تھی۔ بے نظیر بھٹوکے بعد پیپلز پارٹی اپنی تحریک چلانے کی طاقت کھوچکی ہے، اس کی وجہ یہ تھی پیپلزپارٹی عام لوگوں کی نہیں، سندھ کے وڈیروں اور پیروں کی پارٹی بن چکی ہے، لٰہذا اس کی سیاست پاور گیم کے گرد گھوم رہی ہے ۔ پیپلز پارٹی ہوا کے رخ کو بھانپ گئی۔ آصف علی زرداری کو یہ بات سمجھ آگئی کہ یہ دورمزاحمت کا نہیں مفاہمت کا ہے۔ ان کی سیاست میر غوث بخش بزنجوکے طرزکی تھی، مگر دونوں کی شخصیات میں زمین اور آسمان کا فرق تھا کیونکہ دونوں مختلف طبقات کی نمایندگی کرتے تھے۔ سو اعتراضات درست سہی زرداری صاحب پر، لیکن وہ ایک جمہوری قوت ہیں۔ جب پی ڈی ایم نے عمران خان اور اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تحریک کا آغازکیا تو نواز شریف نے کھل کر ایک موقف رکھا۔ ان تمام سیاسی جماعتوں میں مولانا فضل الرحمان نے بھرپور تحریک چلائی اور دھرنا دیا۔
حکومت ختم ہونے کے بعد عمران خان نے اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا اور اس لانگ مارچ میں ان کی معاونت جسٹس اعجاز الحسن اور دوسرے جج صاحبان نے کی، ان کو اسلام آباد میں داخل ہونے کی اجازت دی۔ اسلام آباد کو بے پناہ نقصان پہنچا، پورے کیپیٹل کو یرغمال بنایا گیا۔درختوں تک کو آگ لگا دی گئی۔ اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان نے کبھی ایسا قدم نہیں اٹھایا تھا، مگر اس عمران خان کی تحریک کو سسٹم میں موجود طاقتور لوگوں کی بھرپور حمایت و تعاون کے باوجود کامیابی نہیں ملی کیونکہ اس میں پاکستان کے عوام کی شرکت نہ ہونے کے برابر تھی لہٰذا انقلاب محض خواب ہی رہا، جیسا کہ بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد کے خلاف آیا یا پھر سری لنکا میں۔
چھبیس نومبر 2022 کو عمران خان نے جنرل عاصم منیر کے چیف بننے سے ایک دن پہلے راولپنڈی میں جلسہ کیا۔ وہاں بھی لوگوں کی تعداد اتنی نہ ہو سکی کہ عمران خان انقلاب کی کال دیتے۔ اس سے پہلے عمران خان نے لاہور سے راولپنڈی کی طرف لانگ مارچ شروع کیا، لوگوں کی تعداد بہت کم تھی، مشکل سے وزیرآباد تک پہنچے اور اپنے پاؤں کو زخمی کروا کر چائے کی پیالی میں انقلاب برپا کرتے رہے مگر انقلاب لا نہ سکے اور پھر آیا نو مئی کا سانحہ برپا کیا گیا ۔ فوج کی تنصیبات پر دھاوا بولا گیا، شہدا کے مجسمے گرائے گئے ، لوٹ مار کی گئی اور اس کے ساتھ فوج میں بغاوت کرانے کی کوشش کی گئی مگر ناکام ٹھہرے۔کیونکہ یہاں بھی پاکستان کے عوام نے اس انتشار کی حمایت نہیں کی اور نہ وہ باہر نکلے۔
نو مئی کے واقعے میں ملوث لوگوں کو سزا نہ ہو سکی،بلکہ عدلیہ سے ضمانتیں ملنے لگیں، کئی لوگوں کو مقدمات سے بری کیا گیا، ان ملزموں کو تاحال سزا نہیں مل سکی ہے۔ اس تحریک کو دوبارہ آکسیجن فراہم کی گئی اور طالبان نے حملے بھی کرنا شروع کردیے۔ پھر بھی انقلاب نہ آسکا،کیوں ہم بنگلہ دیش نہ بن سکے؟ کیوں ہم کولمبو نہ بن سکے؟ باوجود اس کے کہ ہماری قوم پر مہنگائی کی شکل میں ایک عذاب نازل کیا گیا۔ بجلی اورگیس کے بلوں نے کمر توڑ دی ہے، بے روزگاری کا راج ہے، مگر انقلاب نہ آسکا۔
اس کی واحد وجہ پاکستان کے عوام کا بلند سیاسی شعور ہے۔پاکستان کے باشعور عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ انقلاب کوئی جمہوری قوت نہیں لا رہی تھی۔ یہ فسطائی سنڈیکٹ ہے اور اس کے ڈیفیکٹو سربراہ تھے جنرل فیض حمید اوردیگر گروہ تھے جب کہ پاکستان کے لوگوں کو دکھانے کے لیے ایک پلے بوائے پس منظر کے حامل کرکٹ سیلبیرٹی کو پاپولر لیڈر میدان میں اتار گیا تھا ۔ یہ انقلاب نہ تھا بلکہ یہ تھا شبِ خون۔ فسطائیت اور نازیت کے پیروکاروں کا جس کا منشور اور مقصد پاکستان کے وسائل ، ہر قسم کی سرکاری زمینوں سے لے کر اعلیٰ سرکاری عہدوں پر قبضہ کرنا اور عام پاکستانیوں کو تیسرے درجے کے شہری بنانا تھا۔ پاکستان کی تاریخ کا واحد شبِ خون تھا جو ناکام ٹھہرا کیونکہ یہ شبِ خون فوج کو بھی بہا لے جا رہا تھا۔
جو انقلاب بنگلہ دیش میں آیا وہ حیران کن تھا کیونکہ ان کی معیشت تیزی سے بڑھ رہی تھی۔آئینی اعتبار سے شیخ حسینہ آمر نہ تھیں، وہ ایک منتخب وزیرِاعظم تھیں، جمہوری وزیرِاعظم تھیں، مگر بنگلہ دیش میں تبدیلی آیندہ بیلٹ باکس کے ذریعے ممکن نہ تھی۔ بنگلہ دیش کی عوام سڑکوں پر نکلے، 2014 میں بھی ڈی چوک پر عمران خان نے دھرنا دیا۔ آہستہ آہستہ لوگ غائب ہونا شروع ہوگئے، بلآخر دھرنا ختم کرنا پڑا۔ اور اب تو پتا یہ بھی چل رہا ہے کہ عمران خان اصل طاقت نہیں بلکہ جنرل فیض حمید اصل طاقت تھے اور ان سے پہلے وہ جنرل پاشا کے زیرِ سایہ رہے اور عمران خان ان کے کٹھ پتلی پلیئر تھے جو ان کے اشاروں پر چلتے تھے جو ہر وقت انقلاب ، ہر وقت تحریک اور ہر وقت نو مئی برپا کرنا چاہتے تھے۔ پاکستان کی سیاست کو ٹی ٹوئنٹی کا میچ بنا دیا، وہ بین الاقوامی پاکستانی دہشت گرد قوتیں جنھوں نے اس منصوبے پر سرمایہ کاری کی تھی، ان کو منہ کی کھانی پڑی۔