ڈیڈ پچ پر چار پیسرز کھلانے کا تجربہ بری طرح ناکام
مینجمنٹ کو امید تھی کہ بنگلہ دیش ٹیم 2 اننگز کھیل کر بھی ان کے برابر اسکور نہیں کرپائے گی
پاکستان کے بمپر کرکٹ سیزن کا آغاز انتہائی مایوس کن انداز میں ہوا ہے، جس بنگلہ دیشی ٹیم کو پاکستانی مینجمنٹ نے شاید'حلوہ' سمجھا اس نے بیٹنگ میں ایسا جلوہ دکھایا کہ سب دنگ رہ گئے، راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم کی 'مختلف' قرار دی جانے والی پچ پر پیسرز نے پسینے بہا دیے مگر پورے میچ میں 20 وکٹیں اڑانے کا خواب کہاں پورا ہوتا الٹا ایک اننگز میں حریف ٹیم کی 10 وکٹیں اڑانے کے ہی لالے پڑگئے۔ ایک پرانی کہاوت ہے کہ 'کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا' شاید پاکستان کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہورہا ہے، دوسروں کی کنڈیشنز اپنانے کی کوشش میں اپنا ہوم ایڈوانٹیج بھی ضائع کردیا گیا۔
پچز کی تیاری کیلئے ٹونی ہیمنگ کی بطور چیف کیوریٹر خدمات حاصل کی گئیں، پہلے ٹیسٹ کیلئے راولپنڈی اسٹیڈیم کی پچ پر گھاس چھوڑی گئی ، پہلے سے ہی کہا جارہا تھا کہ یہ بیٹرز کیلئے موزوں ثابت ہوگی مگر پاکستان ٹیم مینجمنٹ، نئے ہیڈ کوچ جیسن گلیسپی اور کپتان شان مسعود خاصے پْراعتماد تھے کہ پیس بیٹری ناتواں بنگلہ دیشی بیٹنگ لائن کو کھنڈر بنا دے گی، یہاں تک دعویٰ کیا گیا کہ پاکستانی اٹیک میچ میں حریف ٹیم کی تمام 20 وکٹیں اڑانے کی صلاحیت رکھتا ہے ، پھر خوش فہمی کی انتہا دیکھیں کہ پہلی اننگز 6 وکٹ 448 رنز پر ڈیکلیئرڈ بھی کردی، محمد رضوان کی ڈبل سنچری مکمل ہونے کا انتظار بھی نہیں کیا گیا جبکہ ایسے مواقع بہت کم میسر آتے ہیں۔
مینجمنٹ کو امید تھی کہ بنگلہ دیش ٹیم 2 اننگز کھیل کر بھی ان کے برابر اسکور نہیں کرپائے گی مگر ہوا اس کے بالکل برعکس، جس پچ پر صائم ایوب نے ففٹی کردی وہاں پر بنگلہ دیشی بیٹرز کیسے نہ چلتے، جب تک پاکستان کی جانب سے آزمائے گئے 7 بولرز حریف ٹیم پر قابو پاتے وہ ساڑھے 5 سو کی نفسیاتی حد عبور کرچکے تھے۔
اس میچ کا نتیجہ کچھ بھی رہے، یہ حقیقت نہیں جھٹلائی جاسکتی کہ ابتدائی 4 دن کا کھیل پاکستان کی توقعات کے بالکل الٹ ثابت ہوا، میچ کا نتیجہ اگر ڈرا کی صورت میں نکلا تو یہ ٹیسٹ چیمپئن شپ فائنل کھیلنے کی امیدوں کیلئے نقصان دہ ثابت ہوگا۔ پاکستان ٹیم کو اس سیزن میں مجموعی طور پر 9 ٹیسٹ میچز کھیلنے ہیں، ان میں سے 7 ہوم گراؤنڈز پر شیڈول ہیں، پہلا میچ اگر ڈرا ثابت ہوا تو قیمتی چیمپئن شپ پوائنٹس کا بنگلہ دیش کے ساتھ بٹورا ہوگا، پرسنٹیج میں بھی بہتری نہیں آئے گی۔
چھٹے نمبر سے اوپر آنے کیلئے پاکستان کو فتوحات کی ضرورت ہے، بنگلہ دیش کے خلاف دوسرا ٹیسٹ بھی راولپنڈی میں ہی شیڈول ہے، اکتوبر میں انگلش ٹیم کو3 ٹیسٹ میچز کیلئے پاکستان کا دورہ کرنا ہے، اپنے گذشتہ ٹور میں بھی وہ پاکستان میں ہی3-0سے کلین سوئپ فتح حاصل کرگئی تھی، ایسے میں اس کے خلاف بھی کامیابی کو یقینی سمجھنے کی غلطی نہیں کی جاسکتی، جنوبی افریقہ کا 2 ٹیسٹ میچز کا مشکل ترین ٹور اور ویسٹ انڈیز سے بھی اتنے ہی ٹیسٹ میچز کی سیریز ہوگی۔
ناکامیوں سے بچ بھی گئے تب بھی بے نتیجہ میچز ٹیسٹ چیمپئن شپ میں ترقی کا باعث نہیں بن سکیں گے۔ اگر فائنل کھیلنا ہے تو پھر پاکستان کو ہر صورت تمام میچز میں فتح حاصل کرنی ہے، ساتھ میں دیگر ٹیموں کے نتائج کا بھی انتظار کرنا ہوگا۔ ٹی 20 ورلڈکپ میں شرمناک شکست کے بعد شائقین کا غصہ ٹھنڈا کرنے کیلئے یہ باتیں پھیلائی گئیں کہ بنگلہ دیش سے ہوم ٹیسٹ سیریز میں نئے کھلاڑیوں کو موقع دیا جائے گا مگر سوائے انجرڈ عامر جمال کے تمام فرسٹ چوائس پلیئرز کو ہی منتخب کیا گیا۔
پاکستان نے بنگلہ دیش کے خلاف جاری ٹیسٹ سے قبل 3 برس میں 8 میچز اپنے ملک میں کھیلے اور ایک میں بھی فتح حاصل نہیں ہوئی، 4 میں ناکامی ہاتھ آئی جبکہ باقی 4 میں بڑی مشکل سے شکست کو ٹالتے ہوئے ڈرا پر اکتفا کیا۔ اسی طرح گذشتہ 3 برس کے دوران پیسرز بھی اپنے ملک میں کمال دکھانے میں ناکام رہے ہیں، سلمان آغا میں ٹیم مینجمنٹ کو ایک اسپیشلسٹ بیٹر، اسپیشلسٹ اسپنر اور اسپیشلسٹ آل راؤنڈر کی خصوصیات دکھائی دیتی ہیں مگر وہ ان تینوں شعبوں میں کسی ایک میں بھی اپنی مہارت کا ثبوت نہیں دے سکے ہیں۔
پاکستان کو ایک بار پھر خود کومضبوط بنانا ہو گا، سب سے پہلے تو یہ سمجھنا چاہیے کہ ہوم کنڈیشنز کوئی بْری چیز نہیں ہیں، اگر یہ بْری ہیں تو پھر آسٹریلیا اپنی فاسٹ اور باؤنسی کنڈیشنز کو تبدیل کرکے ایشیائی ممالک کے ساتھ سلو اور ڈیڈ پچز پر میچز کیوں نہیں کھیلتا، آپ کو کنڈیشنز تبدیل کرنے کے بجائے ایسے پلیئرز کی ضرورت ہے جو تمام کنڈیشنز میں پرفارم کرسکیں یا پھر کنڈیشنز کے لحاظ سے ٹیم منتخب کریں۔ غیرملکی کیوریٹر ضرور لائیں مگر انھیں یہ بھی بتائیں کہ وہ آپ کی جو طاقت ہے اس پر کام کریں نہ کہ آسٹریلیا اور انگلینڈ جیسی پچز بنانے کی کوششوں میں لگ جائیں، ورنہ پھر وہی ہوگا کہ کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی بھی بھول گیا۔
پچز کی تیاری کیلئے ٹونی ہیمنگ کی بطور چیف کیوریٹر خدمات حاصل کی گئیں، پہلے ٹیسٹ کیلئے راولپنڈی اسٹیڈیم کی پچ پر گھاس چھوڑی گئی ، پہلے سے ہی کہا جارہا تھا کہ یہ بیٹرز کیلئے موزوں ثابت ہوگی مگر پاکستان ٹیم مینجمنٹ، نئے ہیڈ کوچ جیسن گلیسپی اور کپتان شان مسعود خاصے پْراعتماد تھے کہ پیس بیٹری ناتواں بنگلہ دیشی بیٹنگ لائن کو کھنڈر بنا دے گی، یہاں تک دعویٰ کیا گیا کہ پاکستانی اٹیک میچ میں حریف ٹیم کی تمام 20 وکٹیں اڑانے کی صلاحیت رکھتا ہے ، پھر خوش فہمی کی انتہا دیکھیں کہ پہلی اننگز 6 وکٹ 448 رنز پر ڈیکلیئرڈ بھی کردی، محمد رضوان کی ڈبل سنچری مکمل ہونے کا انتظار بھی نہیں کیا گیا جبکہ ایسے مواقع بہت کم میسر آتے ہیں۔
مینجمنٹ کو امید تھی کہ بنگلہ دیش ٹیم 2 اننگز کھیل کر بھی ان کے برابر اسکور نہیں کرپائے گی مگر ہوا اس کے بالکل برعکس، جس پچ پر صائم ایوب نے ففٹی کردی وہاں پر بنگلہ دیشی بیٹرز کیسے نہ چلتے، جب تک پاکستان کی جانب سے آزمائے گئے 7 بولرز حریف ٹیم پر قابو پاتے وہ ساڑھے 5 سو کی نفسیاتی حد عبور کرچکے تھے۔
اس میچ کا نتیجہ کچھ بھی رہے، یہ حقیقت نہیں جھٹلائی جاسکتی کہ ابتدائی 4 دن کا کھیل پاکستان کی توقعات کے بالکل الٹ ثابت ہوا، میچ کا نتیجہ اگر ڈرا کی صورت میں نکلا تو یہ ٹیسٹ چیمپئن شپ فائنل کھیلنے کی امیدوں کیلئے نقصان دہ ثابت ہوگا۔ پاکستان ٹیم کو اس سیزن میں مجموعی طور پر 9 ٹیسٹ میچز کھیلنے ہیں، ان میں سے 7 ہوم گراؤنڈز پر شیڈول ہیں، پہلا میچ اگر ڈرا ثابت ہوا تو قیمتی چیمپئن شپ پوائنٹس کا بنگلہ دیش کے ساتھ بٹورا ہوگا، پرسنٹیج میں بھی بہتری نہیں آئے گی۔
چھٹے نمبر سے اوپر آنے کیلئے پاکستان کو فتوحات کی ضرورت ہے، بنگلہ دیش کے خلاف دوسرا ٹیسٹ بھی راولپنڈی میں ہی شیڈول ہے، اکتوبر میں انگلش ٹیم کو3 ٹیسٹ میچز کیلئے پاکستان کا دورہ کرنا ہے، اپنے گذشتہ ٹور میں بھی وہ پاکستان میں ہی3-0سے کلین سوئپ فتح حاصل کرگئی تھی، ایسے میں اس کے خلاف بھی کامیابی کو یقینی سمجھنے کی غلطی نہیں کی جاسکتی، جنوبی افریقہ کا 2 ٹیسٹ میچز کا مشکل ترین ٹور اور ویسٹ انڈیز سے بھی اتنے ہی ٹیسٹ میچز کی سیریز ہوگی۔
ناکامیوں سے بچ بھی گئے تب بھی بے نتیجہ میچز ٹیسٹ چیمپئن شپ میں ترقی کا باعث نہیں بن سکیں گے۔ اگر فائنل کھیلنا ہے تو پھر پاکستان کو ہر صورت تمام میچز میں فتح حاصل کرنی ہے، ساتھ میں دیگر ٹیموں کے نتائج کا بھی انتظار کرنا ہوگا۔ ٹی 20 ورلڈکپ میں شرمناک شکست کے بعد شائقین کا غصہ ٹھنڈا کرنے کیلئے یہ باتیں پھیلائی گئیں کہ بنگلہ دیش سے ہوم ٹیسٹ سیریز میں نئے کھلاڑیوں کو موقع دیا جائے گا مگر سوائے انجرڈ عامر جمال کے تمام فرسٹ چوائس پلیئرز کو ہی منتخب کیا گیا۔
پاکستان نے بنگلہ دیش کے خلاف جاری ٹیسٹ سے قبل 3 برس میں 8 میچز اپنے ملک میں کھیلے اور ایک میں بھی فتح حاصل نہیں ہوئی، 4 میں ناکامی ہاتھ آئی جبکہ باقی 4 میں بڑی مشکل سے شکست کو ٹالتے ہوئے ڈرا پر اکتفا کیا۔ اسی طرح گذشتہ 3 برس کے دوران پیسرز بھی اپنے ملک میں کمال دکھانے میں ناکام رہے ہیں، سلمان آغا میں ٹیم مینجمنٹ کو ایک اسپیشلسٹ بیٹر، اسپیشلسٹ اسپنر اور اسپیشلسٹ آل راؤنڈر کی خصوصیات دکھائی دیتی ہیں مگر وہ ان تینوں شعبوں میں کسی ایک میں بھی اپنی مہارت کا ثبوت نہیں دے سکے ہیں۔
پاکستان کو ایک بار پھر خود کومضبوط بنانا ہو گا، سب سے پہلے تو یہ سمجھنا چاہیے کہ ہوم کنڈیشنز کوئی بْری چیز نہیں ہیں، اگر یہ بْری ہیں تو پھر آسٹریلیا اپنی فاسٹ اور باؤنسی کنڈیشنز کو تبدیل کرکے ایشیائی ممالک کے ساتھ سلو اور ڈیڈ پچز پر میچز کیوں نہیں کھیلتا، آپ کو کنڈیشنز تبدیل کرنے کے بجائے ایسے پلیئرز کی ضرورت ہے جو تمام کنڈیشنز میں پرفارم کرسکیں یا پھر کنڈیشنز کے لحاظ سے ٹیم منتخب کریں۔ غیرملکی کیوریٹر ضرور لائیں مگر انھیں یہ بھی بتائیں کہ وہ آپ کی جو طاقت ہے اس پر کام کریں نہ کہ آسٹریلیا اور انگلینڈ جیسی پچز بنانے کی کوششوں میں لگ جائیں، ورنہ پھر وہی ہوگا کہ کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی بھی بھول گیا۔