کیا ہے وحشت کا سبب آخر کار
ان چند ہفتوں کے دوران میں ہم نے بہت سی باتیں سنیں جیسے بہت کچھ ہونے والا ہے
بے چینی کافی بڑھ گئی۔پی ٹی آئی جس قسم کی سیاست کرتی ہے، کچھ تو اس کے آثار ہیں اور کچھ اس گروہ کے اندر کی کشمکش ہے جسے وفاقی وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے پارٹی پر قبضے کی جنگ قرار دیا ہے۔پارٹی پر قبضے کی جنگ تو اس گروہ میں روز اوّل سے ہی جاری ہے ۔ کچھ حالیہ واقعات کے بعد اس کی شدت میں اضافہ ہو گیا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ایک معاملہ اور بھی ہے جس نے اس گروہ کے اعصاب ہلا کر کر رکھ دیے ہیں۔ یہ معاملہ ہے فیض حمید کی گرفتاری کا۔
پی ٹی آئی اور خاص طور پر عمران خان کی تازہ بے چینی کا تعلق اسی سے ہے۔اس واقعے کے بعد اس گروہ نے پہلی بار محسوس کیا ہے کہ موجودہ صورت حال سے متصل قبل انھیں سسٹم کے اندر سے جو مدد میسر تھی، اب اس کے سوتے خشک ہو گئے ہیں ۔اس نئی صورت حال میں اسے نئے اور سخت چیلنجوں کا سامنا ہو گا۔ان چیلنجوں کے ذکر سے قبل ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ فیض حمید کی گرفتاری سے پہلے کی صورت حال اور پی ٹی آئی اور اس کے ہم دردوں کی طرف سے دیے گئے تاثرپر ایک نگاہ ڈال لی جائے۔
ان چند ہفتوں کے دوران میں ہم نے بہت سی باتیں سنیں جیسے بہت کچھ ہونے والا ہے۔ کہا جاتا تھا کہ یہ جو ان دنوں تھوڑی خاموشی ہے، یہ طوفان سے پہلے کی ہے۔یہ لوگ کس طوفان کے آثار دیکھتے تھے؟ ایک تو شاید یہ تھا جو عمران خان کی زبان سے سننے کو ملا۔ انھوں نے کہا تھا کہ حکومت کے پاس دو مہینے ہیں، میرے پاس بہت وقت ہے۔ اچھا یہ تو عمران خان نے کہا لیکن ان کے ساتھ ہمدردی رکھنے والوں نے اِس سے بھی بڑھ کر کہا جیسے دعویٰ کیا گیا کہ میاں محمد شہباز شریف ہاتھ کھڑے کر چکے ہیں اوروہ ایک بار صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کر کے انھیں استعفیٰ بھی پیش کر چکے ہیں۔ باقی باتیں بھی اسی قسم کی تھیں جن میں آنے والے دنوں میں موجودہ حکومت کے جان بر نہ ہونے جیسی پیشین گوئیاں کی گئیں۔ گویا سارا ملبہ ایک طرف گرتا ہی دکھائی دیتا تھا لیکن ہوا اس کے بالکل برعکس یعنی فیض حمید پکڑ لیے گئے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس گرفتاری کا پیغام کیا ہے؟
پرانے زمانے کی کہانیوں کے دیو کی جان طوطے میں ہوا کرتی تھی۔ اس کہانی کا طوطا ایک صورت حال میں ہے۔ یہ صورت حال ایک کشمکش کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے۔ اس کشمکش کے پنجے کہاں کہاں تک پھیلے ہوئے تھے یا پھیلے ہوئے ہیں؟ یہ کہانی طویل ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ 9 مئی کے واقعات اس کا نتیجہ تھے تو غلط نہ ہو گا۔ اگر کہا جائے کہ یہ جو ہمارے سیاسی میدان اور اقتصاد کے شعبے میں رہ رہ کر زلزلے کے جھٹکے آتے ہیں، ان کا تعلق بھی اسی سے ہے تو اس میں بھی کوئی غلط بات نہ ہوگی۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ہمارے نظام میں نئی اور پرانی سوچ کے درمیان ایک کشمکش جاری ہے۔ اس وقت ہم اسی کشمکش کے مختلف مناظر دیکھ رہے ہیں۔
یہ کشمکش کیا ہے؟ یہ کشمکش ہے 2022 سے پہلے اور بعد والے پاکستان کے مختلف کرداروں کی۔ لیجیے بات تحریک عدم اعتماد تک آ پہنچی۔ جن دنوں تحریک عدم اعتماد ہوئی، اس سے کچھ عرصہ پہلے اور کچھ بعد ایک بات ہم نے تواتر کے ساتھ سنی کہ پاکستان دیوالیہ پن کے دہانے پر آن کھڑا ہوا ہے۔ اس دیوالیہ پن کا ایک تعلق تو ان مالیاتی اعداد و شمار کے ساتھ تھا جس کی بنیاد پر عمران خان کے چیئرمین ایف بی آر نے تکرار کے ساتھ کہا کہ پاکستان دیوالیہ ہو چکا ہے لیکن ایک تعلق ایک احساس کے ساتھ بلکہ ایک خاص احساس کے ساتھ تھا۔ احساس یہ تھا کہ اس ملک اور اس کے عوام کو ظالم جتنا لوٹ سکتے تھے، لوٹ چکے۔ اب اس ملک اور اس کے عوام کی سکت ختم ہو چکی۔ یعنی بس، اب اور نہیں۔ یہ سبب تھا جس کی وجہ سے تحریک عدم اعتماد کی نوبت بھی آئی اور بہت سے دیگر اقدامات بھی ہوئے۔
سوال یہ ہے کہ اس سوچ کی بنیاد کیا تھی؟ اس سوچ کی بنیاد یہ تھی کہ سیاسی نظام میں مداخلت کے نتیجے ملک تباہی کے دہانے پر جا کھڑا ہوا ہے۔ یہ تباہی دو قسم کی تھی۔ ایک پہلو تو یہ تھا کہ ملک کی معیشت مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔ اس کا دوسرا نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت کچھ خطرناک لوگوں کے ہاتھ میں چلی گئی۔ اپنے اقتدار کے مختصر سے عرصے میں یہ لوگ ایسے بہت سے کام کر گزرے جن کی وجہ سے ریاستی مفاد متاثر ہوا۔ ان کاموں میں کشمیر پالیسی خاص طور پر قابل ذکر تھی جس کی وجہ سے بھارت کو من مانی کا موقع ملا۔ اسی طرح معیشت کی تباہی کے پس پشت منصوبہ بندی دکھائی دی جس کی وجہ سے آئین اور دفاعی اثاثے یعنی ایٹمی پروگرام خطرے میں پڑ گیا۔ ان واقعات نے ریاستی اداروں کی سوچ سر سے پاں تک بدل ڈالی۔ نتیجے میں کچھ بنیادی نوعیت کے فیصلے ہوئے۔
ان فیصلوں کو ایک نئے سوشل کنٹریکٹ کا نام بھی دیا جا سکتا ہے ۔ یہی سوشل کنٹریکٹ تھا جس کے خلاف 9 مئی کی بغاوت ہوئی۔ اس بغاوت کا چہرہ عمران خان تھے لیکن ان کے پیچھے بہت سے لوگ کھڑے تھے جو نئی سوچ سے خائف تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ ملک کو درست راہ پر گامزن جائے یعنی لوٹ مار اور مداخلت کا پرانا نظام ہی چلتا رہے۔ اب ان میں سے ایک بلکہ نمایاں ترین شخص کا نام اس کی گرفتاری کی صورت میں سامنے آ چکا ہے۔
9 مئی کے واقعات کے خلاف کارروائیوں کے نتیجے میں اس کے بہت سے ذمے دار گرفت میں بھی آئے لیکن حالات پر مکمل طور پر قابو نہ پایا جا سکا۔ انھیں پیغام دینے کی ضرورت تھی کہ پانی سر سے اونچا ہو چکا۔ اب مزید برداشت نہیں کیا جائے گا۔ فیض حمید کو پکڑ کر یہ پیغام دے دیا گیا ہے۔ اس گرفتاری کے اثرات صرف ایک ادارے تک محدود نہیں رہیں گے، دور دور تک پہنچیں گے۔ اس سلسلے میں فیصل واؤڈا کی خبر بہرحال وزن رکھتی ہے۔ ان کی خبر یہ ہے کہ اب پاکستان کو ترقی کرنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب نظام کو اندر سے بریکیں لگانے والوں کے ہاتھ میں اسٹیئرنگ یا کوئی بھی پرزہ نہیں رہے گا۔ اب جسے جو سمجھنا ہے، سمجھ لے، ریاست اپنا رخ متعین کر چکی ہے۔ اس کی راہ میں آنے کی اجازت اب کسی کو نہیں دی جائے گی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ کشمکش ختم ہو چکی، اس کا مطلب یہ ہے کہ دشمن کا اہم ترین مورچہ زیر ہو چکا۔ مزید وضاحت اس صورت حال کی یہ ہے کہ اس مہا گرفتاری کے بعد نو مئی سے پہلے اور بعد کی صورت حال کے ذمے داروں کو خبر ہو چکی کہ اب انھیں انجام سے کوئی بچا نہیں سکتا۔ یہ کشمکش ، بے چینی بلکہ اعصاب شکنی اسی صورت حال کا نتیجہ دکھائی دیتی ہے۔
پی ٹی آئی اور خاص طور پر عمران خان کی تازہ بے چینی کا تعلق اسی سے ہے۔اس واقعے کے بعد اس گروہ نے پہلی بار محسوس کیا ہے کہ موجودہ صورت حال سے متصل قبل انھیں سسٹم کے اندر سے جو مدد میسر تھی، اب اس کے سوتے خشک ہو گئے ہیں ۔اس نئی صورت حال میں اسے نئے اور سخت چیلنجوں کا سامنا ہو گا۔ان چیلنجوں کے ذکر سے قبل ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ فیض حمید کی گرفتاری سے پہلے کی صورت حال اور پی ٹی آئی اور اس کے ہم دردوں کی طرف سے دیے گئے تاثرپر ایک نگاہ ڈال لی جائے۔
ان چند ہفتوں کے دوران میں ہم نے بہت سی باتیں سنیں جیسے بہت کچھ ہونے والا ہے۔ کہا جاتا تھا کہ یہ جو ان دنوں تھوڑی خاموشی ہے، یہ طوفان سے پہلے کی ہے۔یہ لوگ کس طوفان کے آثار دیکھتے تھے؟ ایک تو شاید یہ تھا جو عمران خان کی زبان سے سننے کو ملا۔ انھوں نے کہا تھا کہ حکومت کے پاس دو مہینے ہیں، میرے پاس بہت وقت ہے۔ اچھا یہ تو عمران خان نے کہا لیکن ان کے ساتھ ہمدردی رکھنے والوں نے اِس سے بھی بڑھ کر کہا جیسے دعویٰ کیا گیا کہ میاں محمد شہباز شریف ہاتھ کھڑے کر چکے ہیں اوروہ ایک بار صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کر کے انھیں استعفیٰ بھی پیش کر چکے ہیں۔ باقی باتیں بھی اسی قسم کی تھیں جن میں آنے والے دنوں میں موجودہ حکومت کے جان بر نہ ہونے جیسی پیشین گوئیاں کی گئیں۔ گویا سارا ملبہ ایک طرف گرتا ہی دکھائی دیتا تھا لیکن ہوا اس کے بالکل برعکس یعنی فیض حمید پکڑ لیے گئے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس گرفتاری کا پیغام کیا ہے؟
پرانے زمانے کی کہانیوں کے دیو کی جان طوطے میں ہوا کرتی تھی۔ اس کہانی کا طوطا ایک صورت حال میں ہے۔ یہ صورت حال ایک کشمکش کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے۔ اس کشمکش کے پنجے کہاں کہاں تک پھیلے ہوئے تھے یا پھیلے ہوئے ہیں؟ یہ کہانی طویل ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ 9 مئی کے واقعات اس کا نتیجہ تھے تو غلط نہ ہو گا۔ اگر کہا جائے کہ یہ جو ہمارے سیاسی میدان اور اقتصاد کے شعبے میں رہ رہ کر زلزلے کے جھٹکے آتے ہیں، ان کا تعلق بھی اسی سے ہے تو اس میں بھی کوئی غلط بات نہ ہوگی۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ہمارے نظام میں نئی اور پرانی سوچ کے درمیان ایک کشمکش جاری ہے۔ اس وقت ہم اسی کشمکش کے مختلف مناظر دیکھ رہے ہیں۔
یہ کشمکش کیا ہے؟ یہ کشمکش ہے 2022 سے پہلے اور بعد والے پاکستان کے مختلف کرداروں کی۔ لیجیے بات تحریک عدم اعتماد تک آ پہنچی۔ جن دنوں تحریک عدم اعتماد ہوئی، اس سے کچھ عرصہ پہلے اور کچھ بعد ایک بات ہم نے تواتر کے ساتھ سنی کہ پاکستان دیوالیہ پن کے دہانے پر آن کھڑا ہوا ہے۔ اس دیوالیہ پن کا ایک تعلق تو ان مالیاتی اعداد و شمار کے ساتھ تھا جس کی بنیاد پر عمران خان کے چیئرمین ایف بی آر نے تکرار کے ساتھ کہا کہ پاکستان دیوالیہ ہو چکا ہے لیکن ایک تعلق ایک احساس کے ساتھ بلکہ ایک خاص احساس کے ساتھ تھا۔ احساس یہ تھا کہ اس ملک اور اس کے عوام کو ظالم جتنا لوٹ سکتے تھے، لوٹ چکے۔ اب اس ملک اور اس کے عوام کی سکت ختم ہو چکی۔ یعنی بس، اب اور نہیں۔ یہ سبب تھا جس کی وجہ سے تحریک عدم اعتماد کی نوبت بھی آئی اور بہت سے دیگر اقدامات بھی ہوئے۔
سوال یہ ہے کہ اس سوچ کی بنیاد کیا تھی؟ اس سوچ کی بنیاد یہ تھی کہ سیاسی نظام میں مداخلت کے نتیجے ملک تباہی کے دہانے پر جا کھڑا ہوا ہے۔ یہ تباہی دو قسم کی تھی۔ ایک پہلو تو یہ تھا کہ ملک کی معیشت مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔ اس کا دوسرا نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت کچھ خطرناک لوگوں کے ہاتھ میں چلی گئی۔ اپنے اقتدار کے مختصر سے عرصے میں یہ لوگ ایسے بہت سے کام کر گزرے جن کی وجہ سے ریاستی مفاد متاثر ہوا۔ ان کاموں میں کشمیر پالیسی خاص طور پر قابل ذکر تھی جس کی وجہ سے بھارت کو من مانی کا موقع ملا۔ اسی طرح معیشت کی تباہی کے پس پشت منصوبہ بندی دکھائی دی جس کی وجہ سے آئین اور دفاعی اثاثے یعنی ایٹمی پروگرام خطرے میں پڑ گیا۔ ان واقعات نے ریاستی اداروں کی سوچ سر سے پاں تک بدل ڈالی۔ نتیجے میں کچھ بنیادی نوعیت کے فیصلے ہوئے۔
ان فیصلوں کو ایک نئے سوشل کنٹریکٹ کا نام بھی دیا جا سکتا ہے ۔ یہی سوشل کنٹریکٹ تھا جس کے خلاف 9 مئی کی بغاوت ہوئی۔ اس بغاوت کا چہرہ عمران خان تھے لیکن ان کے پیچھے بہت سے لوگ کھڑے تھے جو نئی سوچ سے خائف تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ ملک کو درست راہ پر گامزن جائے یعنی لوٹ مار اور مداخلت کا پرانا نظام ہی چلتا رہے۔ اب ان میں سے ایک بلکہ نمایاں ترین شخص کا نام اس کی گرفتاری کی صورت میں سامنے آ چکا ہے۔
9 مئی کے واقعات کے خلاف کارروائیوں کے نتیجے میں اس کے بہت سے ذمے دار گرفت میں بھی آئے لیکن حالات پر مکمل طور پر قابو نہ پایا جا سکا۔ انھیں پیغام دینے کی ضرورت تھی کہ پانی سر سے اونچا ہو چکا۔ اب مزید برداشت نہیں کیا جائے گا۔ فیض حمید کو پکڑ کر یہ پیغام دے دیا گیا ہے۔ اس گرفتاری کے اثرات صرف ایک ادارے تک محدود نہیں رہیں گے، دور دور تک پہنچیں گے۔ اس سلسلے میں فیصل واؤڈا کی خبر بہرحال وزن رکھتی ہے۔ ان کی خبر یہ ہے کہ اب پاکستان کو ترقی کرنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب نظام کو اندر سے بریکیں لگانے والوں کے ہاتھ میں اسٹیئرنگ یا کوئی بھی پرزہ نہیں رہے گا۔ اب جسے جو سمجھنا ہے، سمجھ لے، ریاست اپنا رخ متعین کر چکی ہے۔ اس کی راہ میں آنے کی اجازت اب کسی کو نہیں دی جائے گی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ کشمکش ختم ہو چکی، اس کا مطلب یہ ہے کہ دشمن کا اہم ترین مورچہ زیر ہو چکا۔ مزید وضاحت اس صورت حال کی یہ ہے کہ اس مہا گرفتاری کے بعد نو مئی سے پہلے اور بعد کی صورت حال کے ذمے داروں کو خبر ہو چکی کہ اب انھیں انجام سے کوئی بچا نہیں سکتا۔ یہ کشمکش ، بے چینی بلکہ اعصاب شکنی اسی صورت حال کا نتیجہ دکھائی دیتی ہے۔