قومی فائروال نظام کیا ہے

نیٹ اور سوشل میڈیا کو جھوٹ اور شرانگیز مواد کا منبع بننے سے روکنے کے لیے اصول وضوابط کا متعارف کرایا جانا لازم ہو چکا؟

فوٹو : فائل

حالیہ ماہ مئی کرغستان کے دارالحکومت ، بشکیک میں ایک ہوسٹل میں مقیم کچھ مصری طلبہ کا مقامی لوگوں سے کسی بات پر جھگڑا ہوا۔ اس جھگڑے میں اسی ہوسٹل میں ٹھہرے کچھ پاکستانی طلبہ نے مصری دوستوں کا ساتھ دیا۔ اس واقعے کے بعد کرغستانی سوشل میڈیا میں جھوٹی پوسٹس کا طومار بندھ گیا۔

ان میں دعوی کیا گیا کہ مصری و پاکستانی طلبہ نے ایک مقامی لڑکی کو چھیڑا حالانکہ یہ بالکل جھوٹ تھا۔مگر جھوٹی پوسٹس کی وجہ سے مقامی لوگ پہلے غیرملکی طلبہ کے ہوسٹلوں کے باہر احتجاج کرنے لگے۔ پھر جذباتی مقامی نوجوان لاٹھیوں سے لیس ہو کر ہوسٹلوں میں گھس گئے۔ توڑ پھوڑ کی اور طلبہ و طالبات کو مارا پیٹا ۔ ان حملوں نے کرغستان میں مقیم ہزارہا پاکستانی طالبان علم میں خوف کی لہر دوڑا دی اور انھیں اپنی زندگیاں خطرے میں محسوس ہوئیں۔بہت سے واپس پاکستان آ گئے۔ یوں جھوٹی پوسٹوں نے ہزاروں طلبہ کی روزمرہ زندگی درہم برہم کر ڈالی۔

٭٭

انتیس جولائی کی دوپہر برطانوی قصبے ، ساؤتھ پورٹ میں ایک رقص گاہ میں چھ سالہ معصوم بچیاں رقص کرنا سیکھ رہی تھیں۔اچانک ایک سیاہ فام لڑکا وہاں پہنچا اور بچیوں پر چاقو سے حملے کرنے لگا۔دو بچیاں وہیں جاں بحق ہو گئیں۔ ایک نے اسپتال جا کر دم توڑا۔ پولیس نے لڑکے کو گرفتار کر لیا۔ یہ خوفناک واقعہ تھا جس کی مذمت ہونی چاہیے۔ملزم کی عمر سترہ سال تھی۔ برطانوی قانون ہے کہ اٹھارہ سال سے کم عمر ملزم کا نام میڈیا میں نہ آئے۔ مگر اس واقعے میں یہ قانون سابقہ سپر پاور میں فساد کرانے کی وجہ بن گیا۔ہوا یہ کہ جلد ہی سوشل میڈیا میں ملزم سے متعلق افواہیں پھیل گئیں ۔ چیسٹر شہر کے قریب مقیم ایک پچپن سالہ سفید فام عورت نے ''ایکس ''( ٹویٹر)میں پوسٹ لگائی:'' ملزم کا نام 'علی الاشکاتی'ہے اور وہ ایک مسلمان ہے۔ وہ کشتی کے ذریعے غیرقانونی انداز میں برطانیہ آیا، گویا غیر قانونی پناہ گزین ہے۔''

اس پوسٹ کو پہلے تو کچھ لوگوں نے لائک کیا، پھر اسے شئیر کیا جانے لگا۔ یہ ایک جھوٹی پوسٹ تھی کیونکہ حملہ آور عیسائی اور قانونی شہری تھا۔مگر اسے اتنا زیادہ شئیر کیا گیا کہ وہ سچ میں بدل گئی۔یوں یہ مشہور قول عملی شکل میں ڈھل گیا کہ جھوٹ بڑے پیمانے پر بولا جائے تو سچ میں بدل جاتا ہے۔ پولیس عورت کو گرفتار کر چکی مگر اس نے جو جھوٹی پوسٹ لگائی ، اس سے کئی دن برطانیہ میں فساد برپا رہا اور مختلف اقوام کے مابین غلط فہمیوں، اختلافات حتی کہ نفرت کے بیج بو دئیے گئے۔

احمق خاتون کی جھوٹی پوسٹ پہلے تو 'ایکس'میں گردش کرتی رہی۔ پھر وہ دیگر سوشل میڈیا سائٹس مثلاً فیس بک، ٹک ٹاک، وٹس اپ،انسٹا گرام وغیرہ پر بھی نمودار ہو گئی۔ان سائٹس کی وساطت سے پوسٹ جنگل کی آگ کی طرح دنیائے سوشل میڈیامیں پھیل گئی۔ متعصب، مہاجرین کے مخالف اور مسلم دشمن برطانوی و امریکی سفید فام باشندے(فار رائٹ ) یہ پوسٹ پھیلانے میں پیش پیش رہے۔انہی نے پھر مساجد، مسلمانوں کی جائیدادوں اور سرکاری املاک پہ حملے کیے اور غل مچائے رکھا۔

٭٭

طلبہ کے زبردست احتجاجی مظاہروں کے بعد 5 اگست کو آمر بنگلہ دیشی وزیراعظم، حسینہ واجد نے استعفی دیا اور بھارت فرار ہو گئی۔ جلد ہی سوشل میڈیا میں ایسی وڈیوز اور پوسٹس کی بھرمار ہو گئی جن میں دعوی کیا گیا کہ بنگلہ دیشی مسلمان ہندؤں کے مندروں اور گھروں پر حملے کر رہے ہیں۔ان پوسٹس کے بقول ہندو حسینہ واجد کے حامی تھے لہذا اس کی حکومت ختم ہوئی تو مسلمان انھیں نشانہ بنانے لگے۔حقیقت یہ تھی کہ حسینہ واجد کے مظالم سے تنگ وعاجز آئے عوام بپھر کر اس کی جماعت، عوامی لیگ کے ان لیڈروں اور کارکنوں پہ حملے کرنے لگے جواقتدار میں آ کر فرعون بن گئے تھے۔چونکہ ایسے رہنماؤں میں کچھ ہندو بھی شامل تھے، اس لیے وہ بھی نشانہ بنے۔انھیں مگر سیاسی وجوہ کی بنا پر نشانہ بنایا گیا، وجہ مذہب نہیں تھا۔

مگر خاص طور پہ بھارت سے جنم لینے والی لاکھوں پوسٹس میں دعوی کیا گیا کہ بنگلہ دیشی مسلمان ہندو اقلیت پر مظالم ڈھا رہے ہیں۔ یہ جھوٹ اور پروپیگنڈا تھا جس کو جنم دینے میں نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت کا ہاتھ بھی ہو سکتا ہے۔مقصد یہ تھا کہ اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گرد و وحشی ثابت کر کے انھیں بدنام کیا جائے۔ سوشل میڈیا پر یہ جھوٹ اتنا زیادہ پھیل گیا کہ برطانیہ میں فار رائٹ کے مشہور لیڈر، ٹامی رابنسن نے بھی جھوٹی پوسٹس کو شئیر کیا اور لکھا کہ جب کسی ریاست میں مسلمان اکثریت میں آ جائیں تو یہی کچھ (قتل وقتال)ہوتا ہے۔

جھوٹ کا گڑھ

درج بالا واقعات ہمارے سامنے یہ سچائی لاتے ہیں کہ آج انٹرنیٹ بلخصوص سوشل میڈیا مقامی ہی نہیں عالمی سطح پر جھوٹ، افواہیں، اور منفی و شرانگیز خبریں پھیلانے کا ایک بڑا ذریعہ بن چکا۔ یہ جھوٹ اور منفی خبریں اب انسانی معاشروں میں گھروں سے لے کر ممالک تک میں روزمرہ کا امن وامان اور سکون تباہ وبرباد کر رہی ہیں۔ یقیناً سوشل میڈیا فوائد بھی رکھتا ہے، مگر جھوٹ کی آماج گاہ بننے کے باعث اس کے فوائد پس پشت چلے گئے ہیں۔ لہذا یہ ضروری ہو چکاکہ سوشل میڈیا میں جاری وساری جھوٹی و شرانگیز پوسٹس کے سامنے بند باندھا جائے تاکہ ان پہ قابو پایا جا سکے۔

مادر پدر آزاد

سوشل میڈیا کے بے لگام اور منہ زور ہو جانے کی ایک اہم وجہ تو یہ ہے کہ یہ مادر پدر آزاد ادارہ ہے...اس جگہ کوئی بھی انسان کچھ بھی لکھ یا بول سکتا ہے۔ وہ کسی کے سامنے جواب دہ نہیں اور نہ ہی اس پہ کوئی قانون واصول لاگو ہوتا ہے۔ دوسری اہم وجہ یہ کہ سوشل میڈیا انسانوں کا سب سے بڑا اکٹھ یا پلیٹ فارم بن چکا۔ حالیہ ڈیٹا کی رو سے دنیا بھر میں پانچ ارب سے زائد انسان سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں۔ان انسانوں میں مرد، خواتین، بوڑھے اور بچے سبھی شامل ہیں۔

حقیقی آزادی کیسے ملے؟

ظاہر ہے، اس عظیم الشان پلیٹ فارم کو قوانین و ضوابط کا پابند نہیں بنایا گیا تو یہ دنیا میں مسلسل جھوٹ اور شرانگیزی پھیلاتا رہے گا۔ ایک دانشور کا قول ہے کہ انسان کو حقیقی آزادی اسی وقت ملتی ہے جب وہ خود کو اصول وقانون کا پابند بنا لے۔ قانون سے ماورا ہو کر تو وہ حیوان بن جاتا ہے۔ اور جانور بن کر انسان کی حیا ختم ہو جاتی ہے جو انتہائی اہم انسانی صفت ہے۔ اسی صفت کی اہمیت اجاگر کرتی ایک حدیث نبویﷺ ہے کہ جس انسان میں حیا ختم ہو جائے تو پھر وہ جو مرضی کرتا پھرے۔اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ شرم و حیا سے عاری سوشل میڈیا کئی اخلاقی برائیوں و بیماریوں کا گڑھ بن چکا۔

حدود وقیود کی پابندی ضروری

انسان کوتنقید کرنے کا حق حاصل ہے۔ وہ آزادی رائے کا حق بھی رکھتا ہے۔ مگر اس تنقید اور آزادی رائے کی بھی حدود وقیود ہیں۔ یہ حدود پار ہو جائیں تو پھر تباہی، فساد ولڑائی جنم لیتی ہے۔ اس حقیقت سے اب وہ ممالک بھی آگاہ ہو رہے ہیں جو پہلے اپنے شہریوں کو مادر پدر آزاد حق ِ آزادی رائے دیتے تھے۔

مثلاً سویڈن اور (دیگر یورپی ملکوں میں بھی ) کوئی سرپھرا باہر نکلتا اور قران پاک کی بے حرمتی کرنے لگتا۔ پولیس قریب ہی کھڑی تماشائی بنی رہتی اور اس احمق کو روکنے کی کوشش نہ کرتی کہ وہ اپنا حق آزادی رائے استعمال کر رہا ہے۔ ظاہر ہے، مسلمان اپنی مقدس کتاب کی بے حرمتی دیکھ نہ پاتے اور احتجاج کرتے۔جب ان واقعات سے معاشرے کاامن وامان تباہ ہونے لگا تب سویڈش حکومت نے قوانین بنائے تاکہ مذاہب کی توہین کرنے والے لوگوں کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔ اور ان کو بتایا کہ اگر وہ قانون شکنی کریں گے تو انھیں سزا ملے گی۔ سزا کا خوف انسان کو راہ راست پر رکھتا ہے۔اور جزا ملنے کا انعام اسے نیکی پر چلنے کو ابھارتا ہے۔

ڈکٹیٹروں کے خلاف موثر ہتھیار

سوشل میڈیا ابتداً دنیائے انٹرنیٹ میں ایک دوسرے سے رابطہ رکھنے اور باہمی دلچسپیاں شئیر کرنے کا بے ضرر ذریعہ تھا۔یہ رابطہ پھر عوام کے منظم احتجاج کو جنم دینے میں معاونت کرنے لگا۔ سوشل میڈیا نے لوگوں کو یہ موقع عطا کیا کہ وہ اس کی مدد سے مل جل کر اپنی آمرانہ حکومت کے خلاف احتجاج شروع کر سکیں۔اس عمل کا وسیع پیمانے پر مشاہدہ ہم نے 2011ء میں کیا جب سوشل میڈیا نے مصری عوام کو متحد کر کے انھیں ڈکٹیٹر حسنی مبارک کے سامنے کھڑا کر دیا۔ وہ عوامی احتجاج کی تاب نہ لا سکا اور اقتدار چھوڑ کر اسپتال پہنچ گیا۔ اس کے بعد اخوان المسلمون کی حکومت آئی لیکن وہ اپنی غلطیوں اور مصری اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں کے باعث ختم ہو گئی۔ تب سے ایک سابق آرمی چیف نیم آمرانہ انداز میں مصر پر حکومت کر رہا ہے۔

قومی فائروال کی ماہیت

مصری صدر ، عبدالفتح سیسی نے سوشل میڈیا پر سرگرم اپنے مخالفین کی سرگرمیاں روکنے کے لیے قومی سطح پر انٹرینٹ کے نظام میں ''فائروال ''نصب کرا یا۔ معنی یہ کہ انٹرنیٹ کے قومی نظام میں سافٹ وئیر و ہارڈوئیر پر مبنی ایسا سسٹم متعارف کرایا جو کم از کم ملکی سطح پہ سوشل میڈیا اور نیٹ پر حکومت مخالف پوسٹس پھیلنے نہیں دیتا۔ مذید براں یہ قومی فائروال سسٹم بتا سکتا ہے کہ ایک پوسٹ کس اکاؤنٹ سے پوسٹ کی گئی۔یہ سسٹم لکھی پوسٹ پر حکومت پہ تنقیدی جملے شناخت کر کے اسے نشان زد کرتا ہے۔اسی طرح وڈیو میں تنقیدی جملے سن کر وہ پوسٹ کو مشکوک قرار دیتا ہے ۔ مصری قومی فائروال سسٹم پھر اپنے خصوصی میکنزم کی مدد سے اس پوسٹ،تحریر یا وڈیو کو پھیلنے سے روک دیتا ہے۔




قومی فائر وال سسٹم ضرورت بن چکا؟

مصر میں موجودہ حکومت نامقبول ہے مگر صدر السیسی طاقت کے بل پر راج کر رہا ہے۔حزب اختلاف کو کمزور کرنے اور خاموش کرانے کے لیے وہ قومی فائروال سسٹم کا نظام بھی استعمال کرتا ہے۔ یہ اس سسٹم کا ناجائز استعمال ہے جس کے ذریعے ناقدین کی زبردستی زبان بندی کر دی گئی۔ سچ پر مبنی تنقید بھی اس سسٹم کی وجہ سے نیٹ اور سوشل میڈیا پر نمایاں نہیں ہو پاتی۔ یوں ایک آمر نے اپنا اقتدار اور قوت بحال رکھنے کے لیے قومی فائروال سسٹم کو اپنا ہتھیار و آلہ بنا لیا۔یہ اس سسٹم کا منفی روپ ہے جو انسانی حقوق کچل دیتا ہے۔

کرغستان ، برطانیہ اور بنگہ دیش کے واقعات مگر یہ سچائی بھی عیاں کرتے ہیں کہ ہر ملک میں ایسا قومی فائروال سسٹم ضرور ہونا چاہیے جو خصوصاً سوشل میڈیا کے بے قابو جن کو قابو میں رکھ سکے۔یعنی وہ سوشل میڈیا میں جھوٹی اور شرانگیز پوسٹس کو پھیلنے سے روک دے کہ وہ معاشرے کا امن وسکون تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اہل پاکستان کئی بار سوشل میڈیا کے اس منفی روپ کا مشاہدہ کر چکے۔ برطانیہ میں جھوٹی پوسٹوں نے دنگا فساد مچا دیا تو وہاں بھی دانشور حکومت سے مطالبہ کرنے لگے ہیں کہ ایک قومی فائروال نظام تشکیل دیا جائے جو جھوٹی، شرانگیز اور معاشرہ دشمن پوسٹس کا قلع قمع کر ے۔ وجہ یہی کہ آزادی رائے کا حق انسان کو اس امر کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ جھوٹ اور شرانگیزی پھیلا کر معاشرے کا امن برباد کر ے۔ حقیقت یہ ہے کہ حق ِ آزادی رائے کے علم بردار ممالک کی حکومتوں نے بھی دنیائے انٹرنیٹ میں آنے والے انسانوں اور سوشل میڈیا یوزرز پہ نظر رکھنے کی خاطر کسی نہ کسی شکل میں قومی فائروال سسٹم بنا رکھے ہیں۔

بڑی طاقتوں کے 'عالمی' فائروال سسٹم

امریکا دنیا کا واحد ملک ہے جس نے انٹرنیٹ و سوشل میڈیا کی نگرانی کے لیے نہایت مربوط و وسیع ''عالمی فائروال سسٹم'تشکیل رکھا ہے کیونکہ وہ اسے بنانے اور چلانے کے لیے دولت اور وسائل رکھتا ہے۔ اس نظام کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ان ہر قسم کے خطرات سے پیشگی آگاہ ہوا جائے جو امریکی حکومت کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق امریکا میں جاسوسی ونگرانی کرنے والے ''1,271'' سرکاری اور ''1,931''نجی ادارے کام کر رہے ہیں ۔ دنیا بھر میں تقریباً نو لاکھ مردوزن ان اداروں سے منسلک ہیں۔ اور یہ ادارے اپنی سرگرمیاں انجام دینے میں اپنے ''عالمی فائروال سسٹم''سے بھی بھرپور مدد لیتے ہیں۔ بعید نہیں کہ اسی سسٹم سے پتا چلایا گیا کہ حماس رہنما، اسماعیل ہنیہ ایران میں کس مقام پر ٹھہرے ہیں۔

چین اور بھارت بھی کمتر سطح کا عالمی فائروال سسٹم رکھتے ہیں۔ اسی نظام کی مدد سے بھی بھارتی خفیہ ایجنسیاں بیرون ملک مقیم اپنے مخالفین کی سرگرمیوں پہ نظر رکھتیں اور ضرورت پڑنے پر انھیں قتل کر ڈالتی ہیں۔ کینیڈا ، امریکا اور برطانیہ میں ہوئے قتال اس امر کا ثبوت ہیں۔ چین بھی اپنے فائروال سسٹم کے ذریعے دنیا بھر میں پھیلے مخالفین کی سرگرمیاں نوٹ کرتا ہے۔ سب سے بڑے اسلامی ملک انڈونیشیا میں بھی قومی فائروال نظام نصب ہے۔ اس کے ذریعے فحش نیٹ سائٹس کا پتا لگا کر انھیں بلاک کیا جاتا ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات ، ایران وغیرہ نے بھی اسی مقصد کے لیے قومی فائروال سسٹم بنائے ہیں۔ کم لوگ جانتے ہیں کہ برطانیہ، فرانس ، جرمنی اور دیگر یورپی ممالک کی حکومتوں نے بھی زر کثیر خرچ کر کے قومی فائروال نظام نصب کر رکھے ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ دہشت گردی کی سرگرمیوں کی روک تھام کی جا سکے۔ برطانیہ کے حالیہ دنگا فساد کے بعد امکان بڑھ گیا ہے کہ یہ یورپی ممالک اپنے قومی فائروال سسٹم کو اپ گریڈ کریں گے تاکہ وہ سوشل میڈیا پہ پھیلی جھوٹی اور شرانگیز پوسٹوں کو بھی دبوچ لینے کے اہل ہو سکیں۔

مادی فوائد حاوی

سوشل میڈیا پر جھوٹ و شرانگیزی کا خاتمہ کرنے میں یہ ورچوئل دنیا تخلیق کرنے والی امریکی و یورپی کمپنیاں مزاحم ہیں۔ وجہ یہ کہ تمام سوشل میڈیا کمپنیوں کی سائٹس میں ایسے سافٹ وئیر (اصطلاح میں الگورتھم) استعمال ہوتے ہیں جو زیادہ لائک کی گئی پوسٹ کو زیادہ نمایاں کرتے ہیں۔ لہذا ایک جھوٹی پوسٹ کو وائرل کرنے یا پھیلانے میں ان سافٹ وئیرز کا اہم ہاتھ ہے۔ کمپنیاں مگر یہ سافٹ وئیر ختم کرنے کو تیار نہیں کیونکہ انہی کی مدد سے پوسٹیں وائرل ہوتی ہیں اور جس سے ان کا کاروبار بڑھتا ہے۔ گویا مادی فوائد پانے کے لیے یہ مغربی کمپنیاں جھوٹ اور شرانگیزی کی ترویج کرنے والے الگورتھم ختم نہیں کرنا چاہتیں۔ یہ معاملے کا بڑا منفی روپ ہے۔

پاکستان کا قومی فائروال نظام؟

اندرون و بیرون ملک مقیم کمپیوٹر ماہرین کا دعوی ہے کہ حکومت پاکستان بھی مقامی انٹرنیٹ کے نظام میں قومی فائروال سسٹم نصب کر رہی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ نیٹ و سوشل میڈیا میں جھوٹی، ملک دشمن اور شرانگیز پوسٹوں کو مقامی سطح پر پھیلنے سے روکا جا سکے۔ان کا دعوی ہے کہ یہ سسٹم نصب کرنے کے باعث ہی پاکستان میں انٹرنیٹ کی رفتارسست ہو گئی جس سے کئی مسائل نے جنم لیا۔یہ سطور قلمبند ہونے تک سرکاری طور پہ پاکستانی حکومت نے یہ تسلیم نہیں کیا کہ قومی سطح پر کوئی فائروال سسٹم نصب کیا جا رہا ہے۔ حکومت کا دعوی ہے کہ لوگ بڑی تعداد میں وی پی این استعمال کرنے لگے ہیں ۔اس باعث قومی انٹرنیٹ نظام پہ بوجھ پڑا اور وہ سست رفتار ہو گیا۔اس بات پر سوشل میڈیا میں یہ لطیفہ پھیل گیا کہ 2005ء کا زلزلہ بچوں کے اچھلنے سے آیا تھا۔

پاکستانی حزب اختلاف کا دعوی ہے کہ حکومت قومی فائر وال سسٹم کی تنصیب سے نیٹ و سوشل میڈیا پر ناجائز اور زبردستی کی سنسرشپ لگا رہی ہے۔ مدعا یہ ہے کہ حکومت کی ناکامیوں اور خرابیوں پر جو تنقید ہوتی ہے، وہ پاکستانی عوام تک پہنچ نہ پائے۔ حکومت پاکستان مگر اس دعوی کو الزام قرار دیتی اور دعوی کرتی ہے کہ سوشل میڈیا میں کوئی مقامی سنسرشپ عائد نہیں کی گئی۔

حکومت نے اگر خفیہ طور پہ قومی فائر وال سسٹم لگایا تو اس بات کو چھپانا بچکانہ پن ہے کیونکہ ذکر ہو چکا کہ تقریباً سبھی ترقی یافتہ ممالک میں یہ فائروال سسٹم کام کر رہے ہیں۔حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ عوام کو بذریعہ پرنٹ و الیٹرونک میڈیا آگاہ کرتی ، پاکستان میں قومی سطح پر فائروال سسٹم نصب کیا جا رہا ہے تاکہ سوشل میڈیا میں پھیلتے جھوٹ کا قلع قمع ہو سکے۔ نیز یہ بھی واضح طور پہ بتایا جاتا کہ اس دوران انٹریٹ کی رفتار سست ہو سکتی ہے۔ یوں اہل پاکستان ذہنی طور پہ تیار ہو جاتے کہ اس سسٹم کی تنصیب کے دوران مختلف مسائل جنم لیں گے۔قومی فائر وال نظام خوبیاں بھی رکھتا ہے مگر اسے انجام دینے کا طریق کار کافی غلط ثابت ہوا۔

نشوونما پاتی پاکستانی آئی ٹی انڈسٹری

وجہ کوئی بھی ہو ،نیٹ کی رفتار سست ہو گئی تو لوگوں میں غصّہ وطیش پھیل گیا۔ خاص طور پہ جن پاکستانی کمپنیوں اور افراد کا روزگار انٹرنیٹ سے وابستہ ہے، انھیں رفتار کم ہونے پر کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے بین الاقوامی آرڈر کینسل ہو گئے۔ نیز بیرون ممالک پاکستانی کمپنیوں پر اعتماد کرنے کی بھی شرح بھی کم ہوئی۔ یوں حکومت وقت کی نااہلی و عدم دوراندیشی نے نشوونما پاتی پاکستانی آئی ٹی انڈسٹری کو انوکھی مالی و انتظامی مشکلات میں گرفتار کرا دیا۔ افسوس کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کی یہ بہت بڑی خامی ہے ،وہ کوئی فیصلہ کرتے ہوئے اس کے تمام پہلوؤں کا جائزہ نہیں لیتی۔اس باعث منفی نکات کے سبب بعد ازاں ملک وقوم کو بہت نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ریکوڈک منصوبے سے لے کر آئی پی پیز معاہدوں تک ، کئی سرکاری فیصلے یہ سچائی نمایاں کرتے ہیں۔

مثبت بھی اور منفی بھی

قومی فائروال نظام بھی تقریباً ہر شے کی طرح مثبت اور منفی، دونوں قسم کی خصوصیات رکھتا ہے۔ایک حکومت اگر اس کی مدد سے جھوٹی، نقصان دہ، غلط اور شرانگیز مواد کو انٹرنیٹ پر پھیلنے سے روکتی ہے تو یہ ایک صائب کام ہے۔ یوں معاشرے میں ہیجان، انتشار اور بے چینی جنم نہیں لیتی اور امن وسکون کا دوردورہ رہتا ہے۔ یہ قومی فائروال سسٹم کا مثبت وقابل تعریف روپ ہے۔حکومت وقت مگر اسے اپنی غلطیاں، کوتاہیاں اور کرپشن چھپانے کا آلہ بنا لے تو یہ اس کا منفی روپ ہے۔ وہ پھر سچ پہ مبنی پوسٹس کو نیٹ اور سوشل میڈیا پر پھیلنے نہیں دیتی۔اس صورت میں یہ ایجاد آمریت و ظلم و جبربرقرار رکھنے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ قومی فائروال نظام میں رہتے ہوئے سچ اور جھوٹ کے مابین تمیز کیسے کی جائے؟سوشل میڈیا کی یہ عمدہ خاصیت ہے کہ اس نے نیم پڑھے لکھے انسانوں کو بھی سیاسیات، عمرانیات ، طرز حکمرانی، تقابل مذاہب اور تہذیب وثقافت کے بارے میں آگاہی اور شعور عطا کیا ۔ لہذا آخرکار یہ سوشل میڈیا کا ہر استعمال کنندہ ہے جسے اپنی عقل و شعور کے مطابق فیصلہ کرنا ہو گا کہ فلاں پوسٹ جھوٹی ہے ، سو وہ اس سے تعلق نہ رکھے۔ جبکہ فلاں پوسٹ سچ ہے اور اس کی ترویج ہونی چاہیے۔گویا ذاتی سمجھ بوجھ، فہم اور سچ و جھوٹ کے مابین فرق پرکھنے کی قوت سوشل میڈیا میں جھوٹی اور شرانگیز پوسٹیں ختم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔

قومی فائر وال کو جانیے

قومی فائر وال، جسے انٹرنیٹ یا سائبر فائر وال بھی کہا جاتا ہے، دنیائے انٹرنیٹ پر سنسرشپ اور نگرانی کے نظام کی ایک شکل ہے جسے مختلف سافٹ وئیر اور ہارڈوئیر مل کر تشکیل دیتے ہیں۔ ایک ملک کی حکومت اپنی سرحد کے اندر (اور اس کے پار بھی )معلومات کا بہاؤ منظم اور کنٹرول کرنے کے لیے اسے نافذ کرتی ہے۔یہ نظام متعدد مقاصد پورا کرتا ہے، بشمول قومی سلامتی کا تحفظ، تہذیبی وثقافتی اقدار کا تحفظ، سائبر خطرات روکنا اور حکومت کی طرف سے نقصان دہ یا ناپسندیدہ سمجھی جانے والی معلومات کا پھیلاؤ کنٹرول کرنا۔قومی فائر وال سسٹم کے کلیدی کام یہ ہیں:

٭... مواد کی فلٹرنگ: ایسی ویب سائٹس اور آن لائن سروسز تک رسائی مسدود کرنا جن میں موجود مواد نامناسب یا نقصان دہ سمجھا جائے۔

٭... نگرانی: غیر قانونی سرگرمیوں، غلط معلومات اور قومی سلامتی کو لاحق خطرات کا پتا لگانے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے انٹرنیٹ ٹریفک کی نگرانی کرنا۔

٭... بینڈوتھ کنٹرول: بھیڑ بھاڑ روکنے اور اہم آن لائن خدمات کی مسلسل دستیابی یقینی بنانے کے لیے انٹرنیٹ ٹریفک کا انتظام اور اصلاح کرنا۔

٭... ضابطے کا نفاذ: انٹرنیٹ کے استعمال اور آن لائن رویّے سے متعلق پالیسیوں اور قانونی ضوابط کو نافذ کرنا۔
Load Next Story