غزہ مذاکراتی عمل نتیجہ خیز ہونا چاہیے
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے نئی شرائط کے ساتھ ثالثی کرنے والے فریقین کو مشکل میں ڈال دیا ہے
امریکا نے کہا ہے کہ مصر میں غزہ جنگ بندی کے حوالے سے ہونے والی بات چیت تعمیری رہی اور مذاکرات رواں ہفتے کے آخر تک جاری رہیں گے۔ حماس کا وفد بھی غزہ میں جنگ بندی کے لیے مذاکرات پر ثالثوں کے نتائج سننے کے لیے قاہرہ روانہ ہوا ہے۔
دراصل غزہ میں اسرائیل کی مستقبل میں فوجی موجودگی اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی پر اختلافات کسی جنگ بندی اور یرغمالیوں کے معاہدے کی راہ میں حائل ہو رہے ہیں۔ موجودہ اختلافات ان مطالبات کا نتیجہ ہیں جو اسرائیل نے اس کے بعد پیش کیے جب حماس نے امریکی صدر جوبائیڈن کی پیش کی گئی جنگ بندی کی تجویز کے ایک ورژن کو قبول کرلیا تھا۔ حماس نے کہا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کے 2 جولائی کو پیش کردہ تجاویز پر عمل درآمد کے موقف پر قائم ہیں۔ حماس کی جانب سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اسرائیل پر جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد میں رکاوٹیں ڈالنے سے روکنے کے لیے دباؤ ڈالا جائے۔ اس سے قبل ایک حماس رہنما کی جانب سے کہا گیا تھا کہ امریکا کملا ہیرس کی صدارتی مہم کی حمایت کے لیے جنگ بندی مذاکرات کی کوششیں کر رہا ہے۔
درحقیقت اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے نئی شرائط کے ساتھ ثالثی کرنے والے فریقین کو مشکل میں ڈال دیا ہے، نیتن یاہو نے غزہ کی طرف مستقل جنگ بندی اور جامع انخلاء کو مسترد کردیا ہے جب کہ تل ابیب انتظامیہ کا اصرار ہے کہ نیٹزاریم کوریڈور پر قبضہ جاری رکھا جائے جو غزہ کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ حماس کو اسرائیل کی جانب سے ایک مشرقی، مغربی پٹی، نیتزارم راہداری کے ساتھ، جسے اسرائیل نے موجودہ جنگ کے دوران کلیئر کردیا تھا، اور ساتھ ہی غزہ اور مصر کے درمیان سرحدی پٹی میں جسے فلاڈیلفی کوریڈور کہا جاتا ہے، اسرائیلی فوجیوں کی موجودگی بر قرار رکھنے کے مطالبے پر تشویش ہے جو فلسطینیوں کی آزادانہ نقل و حرکت کو روکتی ہے، جب کہ اسرائیل کی فلاڈلیفی کوریڈور پر موجودہ گرفت اسے مصر کے ساتھ واقع غزہ کی سرحد کا کنٹرول فراہم کرتی ہے، جو محصور غزہ کی واحد گزرگاہ ہے جو اسرائیل کی سرحد سے متصل نہیں ہے۔
حماس کے نزدیک اسرائیل نے اپنی شرائط اور پیرا میٹرز کو آخری لمحے میں تبدیل کیا ہے اور اسے فکر ہے کہ اگر اس نے کوئی بھی رعایت دی تو وہ مزید مطالبات کرے گا۔ امریکی وزیر خارجہ نے گزشتہ ہفتے کسی پیش رفت کی کوشش میں خطے کا ایک دورہ کیا تھا جو منگل کو ختم ہوا تھا۔ نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد بلنکن نے کہا تھا کہ اسرائیل نے امریکا کی نئی تجویز کو قبول کر لیا ہے ایسا لگتا ہے کہ امریکا نے دونوں راہداریوں میں اسرائیلی فوجیوں کی مسلسل تعیناتی سمیت نیتن یاہو کی تجویز کردہ تبدیلیوں کو قبول کر لیا ہے۔ دوسرے موضوعات کے ساتھ ساتھ ''عملدرآمد'' پر مذاکرات کا مقصد فلاڈیلفی اور نیٹزاریم راہداریوں، فلسطینی قیدیوں کی تعداد اور اس بارے میں اختلافات کو دور کرنا ہے کہ کس کو رہا کیا جانا ہے۔
بلنکن نے ایک پریس کانفرنس میں اسرائیلی فوجیوں کی طویل مدتی بنیاد پر غزہ میں قبضے کی کسی بھی تجویز کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا کہ معاہدے میں اسرائیلی فوجیوں کے انخلا کا شیڈول اور مقام بالکل واضح تھا۔ رہی بات جنگ کی تو جنگ تو وہاں ہوتی ہے جہاں فریقین برابری پر ہوں اگر ایک کے ہاتھ میں اسلحہ ہو تو دوسرے کے ہاتھ میں بھی اسلحہ ہو، لیکن اگر ایک گروہ اسلحے سے لیس ہو جب کہ دوسرے کے ہاتھ میں فقط پتھر ہو تو وہ جنگ نہیں ظلم ہے، یہ ظلم اسرائیل فلسطین پر 1948 سے کرتا آ رہا ہے۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے 8 دسمبر 1947 کو امریکی صدر ہیری ایس ٹرومین کو خط ارسال کر کے مطالبہ کیا تھا کہ فلسطینی ریاست کو تقسیم نہ کیا جائے، ورنہ تاریخ اقوام عالم کو فلسطینیوں کے ساتھ کیے گئے جرائم پر کبھی معاف نہیں کرے گی۔ قائد اعظم اور مسلم لیگ ہمیشہ فلسطین کی آزادی کے لیے آواز اُٹھاتے رہے حتیٰ کہ 23 مارچ 1940 کو قرارداد پاکستان منظور کی گئی تو اس تاریخی موقعے پر بھی فلسطین کے ساتھ یک جہتی کی قرارداد منظور کی گئی۔ اگست 1948 کواپنے پیغام عید میں قائد اعظم نے فرمایا '' تمام اسلامی ملکوں کو عید مبارک ہو، میرا عید کا پیغام سوائے دوستی اور بھائی چارے کے اور کیا ہوسکتا ہے، ہم سب یکساں طور پر خطرناک اور کٹھن دور سے گزر رہے ہیں۔ سیاسی اقتدار کا جو ڈرامہ فلسطین، انڈونیشیا اور کشمیر میں کھیلا جا رہا ہے وہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔''
کچھ عرصہ قبل یورپی یونین کے خارجہ امور اور سلامتی کی پالیسی کے اعلیٰ نمایندے جوزپ بوریل نے کہا تھا کہ غزہ میں اسرائیل کے حملوں سے ہونے والی تباہی دوسری جنگ عظیم (1939-1945) کے دوران جرمن شہروں میں ہونے والی تباہی سے کہیں زیادہ ہے۔فلسطینی عوام اور سرزمین فلسطین پر ظلم و ستم کا سلسلہ پون صدی سے جاری ہے، اس ستمگری کے کردار مختلف رہے ہیں۔ ان میں اپنے بھی اور بیگانے بھی اپنے اپنے انداز سے حصہ ڈالتے رہے ہیں۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے، اس لیے زخم بار بار تازہ ہو کر فلسطینیوں کے لیے رنج کا باعث بنتے ہیں۔
خود غرضی کے خمیر سے اٹھائے گئے عالمی نظام کا تعفن بھی جگہ جگہ فلسطین اور فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کی صورت دھماکا خیزی کے ساتھ جبر آزما نظر آتا ہے۔ اس میں کیمپ ڈیوڈ معاہدہ بھی شامل ہے جو ماہ ستمبر میں ہی کیا گیا تاکہ مصر سے اسرائیل کے لیے رعایتیں ممکن بنائی جائیں اور فلسطینی عوام کو اسرائیل کے مقابل یکتا و تنہا کرنے کا ہدف بتدریج حاصل کیا جا سکے۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد اسرائیلی قابض فوج کے لیے فلسطینیوں اور ان کے پناہ گزین کیمپوں پر قیامت ڈھانا اور آسان ہو گیا۔ اوسلو معاہدہ بھی ہے اور 1993، 1994 کے دوران ہونے والے معاہدے بھی بعد ازاں اسی سلسلے کی کڑیاں ثابت ہوئے۔ یہ سب معاہدات بظاہر امن کے قیام کے لیے کیے جاتے اور بتائے جاتے رہے کہ ان کے بعد سب اچھا ہو جائے گا اور ہر طرف نارملائزیشن کا دور دورہ ہو جائے گا۔
خطے کے لیے استحکام و ترقی کی راہیں کھلیں گی اور راوی چین ہی چین لکھے گا۔اگرچہ بین الاقوامی قانون کے تحت کسی کو زبردستی بے گھر نہیں کیا جا سکتا، مگر یہ اسرائیل کا روز کا معمول ہے۔ غزہ پر جنگی بمباری کی صورت میں مسلط کی جانے والی تباہی اس کے علاوہ ہے۔ فلسطینی شہریوں، ان کے بچوں اور عورتوں کے لیے موت اس مہنگی دنیا میں سستی ترین چیز کے طور پر موجود ہے۔ مساجد، تعلیمی ادارے، اسپتال کچھ بھی تو اسرائیلی بمباری سے محفوظ نہیں رہا ہے، لیکن اس کے خلاف کسی بین الاقوامی ادارے یا فورم کی سطح پر کوئی اقدام ہوا، نہ کسی نے اسرائیل کی باز پرس کا اہتمام کیا۔ سب اسرائیل کے دوست، معاون، خیر خواہ بن کر سامنے آ رہے ہیں۔مصر نے جس کیمپ ڈیوڈ معاہدے پر دستخط کر کے اسرائیل کے وجود، سلامتی اور تحفظ کے حق کو تسلیم کر لیا تھا، وہ حق فلسطینیوں سے مسلسل چھینا جا رہا ہے۔ حتیٰ کہ ان کی شناخت بدلی جانے کا اسرائیلی ہدف آگے بڑھ رہا ہے۔ اس سفر میں اب سوائے فلسطینی عوام کے کوئی رکاوٹ نہیں۔
کیمپ ڈیوڈ سے شروع ہونے والی معاہدوں کی کہانی معاہدہ ابراہم تک پہنچ چکی ہے۔ کوئی مہینہ کم از کم فلسطینیوں کے لیے اچھا ثابت نہیں ہو رہا ہے کہ امریکی مدد سے ہونے والے اب تک کے سب معاہدے اسرائیل کی مضبوطی اور فلسطینیوں کی تنہائی کا ذریعہ ہی بنے ہیں۔ فلسطین کے اپنے اب فلسطینیوں کے بھائی بند کہلانے سے زیادہ اسرائیل کے دوست اور کزنز کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ مگر فلسطینی اسی ستمگری کے باوجود پھر سے عزم کا اعادہ کرتے نظر آرہے ہیں کہ ان کے عزم اور حوصلے کو اسرائیل کی دس ماہ سے جاری ستمگری کمزور نہیں کر پائی ہے۔
دوسری جانب برطانیہ کے ڈاکٹرز، جنھوں نے اسرائیلی جنگ کے دوران غزہ کے اسپتالوں میں طبی خدمات انجام دی ہیں، نے برطانیہ کے وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کو خط لکھ کر اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ڈاکٹروں نے اپنے خط میں غزہ کے حالات بیان کرتے ہوئے وزیر اعظم سے اپیل کی ہے کہ وہ غزہ میں جاری '' ناقابل تصور ظلم و ستم'' کو ختم کریں۔
سچ تو یہ ہے کہ غزہ تباہی و بربادی کی ایک المناک داستان بن چکا ہے، اقوام متحدہ کے مطابق غزہ اب رہنے کے قابل نہیں رہا۔ 7 اکتوبر کے بعد غزہ میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی چالیس ہزار سے زائد افراد شہید ہوئے ہیں۔ اس وقت غزہ کی کم و بیش تیئس لاکھ سے زائد آبادی نفسیاتی اور جسمانی تکالیف میں مبتلا ہے۔ غزہ میں اسرائیلی بمباری سے بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا ہے۔ اس انسانی المیے میں نصف تعداد خواتین اور بچوں کی ہے جب کہ اس وقت، خوراک کی قلت الگ خوفناک شکل اختیار کر چکی ہے۔ عالمی برادری اور اقوام متحدہ کے دیگر اداروں بالخصوص سلامتی کونسل کو غزہ میں فوری جنگ بندی کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ اسرائیل کو فلسطین میں مزید خونریزی سے روکنا ہوگا۔ غزہ میں اسپتالوں پر بھی حملے رکوانے کے لیے عالمی برادری کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔