کرومبر کنارے ایک سرد رات

شمالی علاقہ جات کے حسین نظاروں میں ایک مسافرت


حارث بٹ August 25, 2024
شمالی علاقہ جات کے حسین نظاروں میں ایک مسافرت ۔ فوٹو : فائل

یہاں سیف اللّہ کے گھر کی چھت پر ایک سفید شے سوکھنے کے لیے رکھی ہوئی تھی۔ پتا چلا کہ یہ کرقت ہے۔ کرقت دودھ سے بنتا ہے۔ دودھ سے مکھن اور مکھن سے کرقت۔

ہمیں پتا چلا کہ ہمارے ساتھی پیدل ہی اوپر والی پگڈنڈی سے آگے جھیل کی طرف بڑھ گئے تھے۔ ہم چوں کہ نیچے تھے تو شاید انھیں علم نہ ہوسکا۔ ہم نے اپنے اپنے گھوڑے والے کو بلایا اور جھیل کی طرف سفر شروع کردیا۔ ویسے تو راستہ سیدھا سیدھا بھی تھا مگر بعض اوقات پگڈنڈی اتنی تنگ سی ہوجاتی کہ گمان ہوتا کہ گھوڑا ابھی نالے میں گرجائے گا۔ کبھی چڑھائی آجاتی تو کبھی اترائی۔ گھوڑے پر بیٹھے ہوئے اگر چڑھائی آجائے تو اس کا اصول یہ ہے کہ آپ آگے کی طرف جھک جائیں اور اگر اترائی ہے تو آپ پیچھے کی طرف جھک جائیں۔ اس سے گھوڑے کا زور کم لگے گا اور آپ بھی محفوظ رہیں گے۔

ہمارے گھوڑے شریف گھوڑے تھے۔ اپنے مالک کا کہا مانتے تھے۔ ہم چلتے جاتے تھے۔ ہم جہاں تھے، وہاں سے افغانستان اور تاجکستان جانا زیادہ آسان کام تھا، گلگت پہنچ پانا مشکل کام تھا۔ آگے ایک کھلی سی وادی آئی جو بادلوں سے ڈھکی ہوئی تھی۔ ہمارے آگے بھی ہلکی دھوپ تھی، ہمارے پیچھے والی وادی میں بھی کچھ کچھ دھوپ تھی مگر ابھی جہاں ہم کھڑے تھے یہاں مکمل کالے سیاہ بادل تھے، جنھوں نے ہمارا لحاظ رکھا اور برسنے سے پرہیز کیا۔ یہ وادی لالہ رباط تھی۔ ہمارے شیڈول کے مطابق ٹیم کو آج رات یہیں کیمپ کرنا تھا مگر پچھلی رات ہی ٹیم نے مشترکہ طور پر ایک فیصلہ کرلیا تھا کہ ٹیم رات راستے میں کہیں نہیں رکے گی، بلکہ سیدھا جھیل پر کیمپ کرے گی۔

نوید صاحب کے پاس کھانے پینے کا وافر سامان تھا۔ سعد جٹ کے پاس سلنڈر بھی تھا اور برتن بھی۔ ارادہ یہی تھا کہ سامان والا گھوڑا ان کے ساتھ ساتھ چلے گا اور یہ لوگ مٹرگشت کرتے ہوئے، چائے وغیرہ پیتے ہوئے شام تک آرام سے پہنچ جائیں گے۔ میں اور میڈم چوں کہ گھوڑوں پر تھے، اس لیے ان لوگوں سے بہت آگے تھے۔ لالہ رباط کے بعد ایک وادی رباط کے نام کی بھی آئی جو جھیل سے تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ کی مسافت پر تھی۔ ہم یہاں دو بجے پہنچے تھے۔ بہت پیچھے ہی نوید صاحب نے ہمیں بتا دیا تھا کہ دو بجے آپ جہاں بھی ہوں گے، وہیں رک جائیں گے اور پیدل آنے والوں کا انتظار کریں گے۔ ہم رباط میں رک گئے مگر طویل انتظار کے بعد بھی کوئی نہ پہنچا۔ ہمیں پریشانی یہ تھی کہ ابھی جو لنچ کرنا تھا، وہ بیگ ہمارے پاس تھا۔ اس لیے ہم آگے نہیں بڑھ سکتے تھے۔

ہم تو گھوڑے پر تھے، زیادہ بھوک نہ لگی تھی، مسئلہ ان کا تھا جو پیدل آ رہے تھے۔ ایسے میں تقریباً ساڑھے تین بجے سیف اور ہمارا باورچی آ گئے۔ ان کے پاس اپنا کچھ کھانے پینے کا سامان تھا۔ سیف نے ہمیں تسلی دی کہ وہ انھیں کھانے کا کچھ سامان دے آیا ہے اور پھر یہ بھی کہ ان لوگوں نے اپنا بھی تو ایک الگ سے گھوڑا کروایا تھا جس پر ٹیم کے لیے رات جھیل پر گزارنے کے سامان کے علاوہ بہت کچھ کھانے کا سامان بھی تھا۔ ہمیں تسلی ہوئی۔ ہم نے بھی کچھ ہلکا پھلکا کھایا اور گھوڑے پر سوار ہو کر جھیل کی طرف بڑھنے لگے۔ محبوب کے دیدار میں اب زیادہ وقت نہ بچا تھا۔

ہم رباط میں سے گزر رہے تھے جو کہ کرومبر کے راستے میں آنے والی آخری وادی تھی۔ آپ یقین کریں کہ راستہ بے شک سیدھا سیدھا تھا، کہیں بھی کوئی بھی کوئی کَج روی نہ تھی مگر یہاں تک اکیلے آنے کی میری ہمت نہ تھی۔ میرا رہنما نہ ہوتا تو میں کبھی بھی نہ پہنچ پاتا۔ ہمارے ساتھ ساتھ ہی ایک کالا پہاڑ چل رہا تھا جس کے دامن میں جھیل تھی۔

یہ کالا پہاڑ لشکر گاہز سے بھی ہمیں نظر آتا تھا۔ میرا راہ نما مجھے بار بار یہی کہتا تھا کہ بس اسی پہاڑ کے نیچے جھیل ہے مگر مسئلہ یہ تھا کہ یہ کالا پہاڑ کسی بھی طور پر پکڑائی نہ دیتا تھا۔ ہم جتنا بھی اس کے قریب ہونے کی کوشش کرتے، یہ کالا پہاڑ ہم سے کَنی کترانے لگتا۔ مجھے جب جب لگتا کہ یہ چڑھائی بس آخری چڑھائی ہو گی اور اسی کے دامن میں جھیل ہو گی، تب تب ہی بلندی پر پہنچ کر آگے سے نئی وادی کھل جاتی۔ تقریباً پانچ بجنے والے تھے اور نئی سے نئی وادیاں کھلتی جا رہی تھیں۔ اس ہرے بھرے میدان میں، ہلکی دھوپ میں ہمارے سائے اب لمبے ہونا شروع ہو گئے تھے۔ شام اب ہمارے سروں پر کھڑی تھی۔

میں نے اپنے گھوڑے والے سے کہہ دیا تھا کہ جب جھیل آنے والی ہو تو مجھے بتا دے۔ مقصد میرا صرف اور صرف یہ تھا کہ جب جھیل بالکل سامنے آنے والی ہو تو میں اس کے احترام میں گھوڑے سے اتر جاؤں۔ کم از کم جھیل کی پہلی جھلک سے لے کر جھیل تک تو میں پیدل جاؤں۔ ہم ایک چٹان سے نیچے اترے تو مجھے پانی کی ایک لیکر سی نظر آئی۔ میں نے گھوڑے والے سے پوچھا کیا جھیل آگئی ہے؟ اس نے میرے طرف دیکھے بنا ہی ہاں میں سر ہلا دیا۔ میں دل ہی دل میں دعا کرنے لگا کہ اے کاش یہ جھیل نہ ہو مگر پانی مزید واضح ہوتا چلا جا رہا تھا۔ اگر یہ جھیل تھی تو انتہائی بری جھیل تھی۔ اس جھیل کے لیے میں نے اتنے دن اپنے بچوں سے دوری اختیار کی تھی؟ میری سانس تب بحال ہوئی جب جھیل مکمل طور پر کھل کر سامنے آ گئی۔ یہ جھیل تو تھی مگر کرومبر نہ تھی۔ یہ ایک بچہ جھیل تھی۔ گھوڑا چلتا رہا۔ ابھی جھیل کے آنے میں وقت تھا۔ مجھے یک دم یہ خیال آیا کہ جھیل تو اس کالے چٹان نما پہاڑ کے دامن میں تھی جو میرے انتہائی دائیں جانب تھا اور ہم ابھی بائیں جانب اتر رہے تھے۔ اچانک سے پانی کی ایک باریک سی جھلک دکھائی دی جیسے پہلی رات کا چاند ہو۔

صاحب جھیل!

مجھ میں کوئی سوال پوچھنے کی ہمت نہ ہوئی۔ جب میں نے کوئی جواب نہ دیا تو گھوڑے والا پیچھے مڑ کر ذرا زور سے بولا

صاحب جھیل۔۔۔۔

یہیں گھوڑا روک دو۔

صاحب جھیل ابھی دور ہے۔

نہیں، تم یہیں گھوڑا روک دو۔

میں گھوڑے سے نیچے اتر آیا۔ کہتے ہیں جھیل کی سب سے خوب صورت تصویر اس وقت بنتی ہے جب آپ کو اسی کی پہلی جھلک دکھائی دے۔ جھیل یہاں سے بالکل دو دھاری تلوار کی مانند نظر آ رہی تھی۔ شوال کے چاند کی مانند۔

میں نے تیز تیز قدموں سے جھیل کی طرف چلنا شروع کر دیا۔ پیازی بوٹے رفتہ رفتہ نمودار ہونے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے یوں محسوس ہونے لگا جیسے میں کسی پیاز کے کھیت میں کھڑا ہوں۔ میرا دائیں جناب دیو قامت کالا پہاڑ جس کی وجہ سے اسے کرومبر کہا جاتا تھا اور میں اس پہاڑ کے عین نیچے، اس کے دامن میں کھڑا تھا۔

میرے پاس ہی ایک چھوٹی سی چٹان تھی۔ میں اس پر کھڑا ہو کر پانی میں اپنا عکس دیکھنے لگا۔ میرے اوپر اچانک سے کوئی شے نمودار ہوئی۔ میں نے فوراً آسمان کی جانب دیکھا۔ اوپر کچھ بھی نہ تھا۔ میں نے اسے اپنا وہم جانا اور نظر انداز کر دیا۔ جھیل خاموش تھی جیسے کئی راز اپنے اندر لیے وہاں نہ جانے کب سے موجود ہو۔ میں نے اپنا آپ مکمل طور پر جھیل کے حوالے کر دیا جیسے جھیل مجھ سے محوِگفتگو ہو۔ ابھی باقی لوگوں کے آنے میں دیر تھی۔ حیدر اور ایک اور لڑکا پیدل پہنچ چکے تھے مگر وہ دوسری جانب تھے۔ میڈم ثمرین بھی پہنچ کر اسی طرف نکل گئیں۔ اب میں اور جھیل بالکل تنہا تھے۔ ایک دوسرے کے آمنے سامنے، ایک دوسرے کے روبرو۔

خدا نے اگر اس دنیا میں سب سے خوب صورت شے کوئی بنائی ہے تو وہ عورت ہے اور اس کے بعد جھیل۔ ایک جھیل اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ دونوں ہی ایک مرد کو اپنے اندر اتار لینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔ مرد جیسا بھی ہو، جس مرضی حالت میں ہو، خواہ کتنی ہی ذہنی الجھنوں کا شکار کیوں نہ ہو، جھیل اور عورت دونوں کو خدا نے یہ صلاحیت دی ہے کہ وہ مرد کو بالکل خالص کردیتی ہیں جیسے وہ ابھی ابھی جنا ہے۔ ایک ایسا بچہ جس کے دماغ میں الجھن نامی کوئی شے نہ ہو۔ خدا نے یہ صلاحیت صرف اور صرف عورت اور جھیل کو ہی دی ہے۔ قریب ہی تاجکستان کی سرحد تھی جو کبھی روس کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ جہاں کے داغستانی شاعر رسول حمزہ توف نے عورت پر کیا ہی خوب صورت نظم کہی تھی، جس کا آخری بند مجھ سمیت نہ جانے کتنوں مردوں کو یاد ہو گا۔

اگر تم تنہا ہو۔۔۔ اکیلی ہو

اور کوئی بھی تمھاری محبت میں مبتلا نہیں ہے

تو یقین کرلینا کہ۔۔۔

کہیں بلند پہاڑوں میں۔۔۔ رسول حمزہ توف۔۔۔ مرگیا ہے۔

سب دوست رفتہ رفتہ جھیل پر پہنچ رہے تھے۔ ابھی شام کرومبر پر اتری نہیں تھی کہ جھیل پر ٹھنڈی برفانی ہوا چلنا شروع ہو گئی۔ اتنی ٹھنڈی کے جھیل پر کھڑا نہیں ہوا جا رہا تھا۔ جھیل کے پاس ہی ذرا اونچائی پر شاید مقامی لوگوں نے عارضی قیام کے لیے ایک چاردیواری بنا رکھی تھی جہاں کچھ اُوپلے بھی کسی نیک روح نے اسی ہنگامی صورت حال کے لیے رکھے ہوئے تھے۔ ہم نے آگ جلانے کی بہت کوشش کی مگر ہوا اتنی تیز تھی کہ آگ جل ہی نہیں رہی تھی۔ کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے۔ مشکل سے آگ جلی۔ اسی دوران سیف اللہ اور ہمارا باورچی بھی آ چکے تھے۔

ہم نے فوراً سیف سے کہا کہ ٹینٹ لگوا دے کیوں کہ سب سارے دن کی تھکاوٹ کا شکار تھے۔ سیف نے تسلی دی کہ سامان والے گدھے نوید اور جٹ صاحب کے ساتھ ہوں گے۔ ہم سب کو اس پر ذرا غصہ آنے لگا کہ اصولاً تو ہمارے جھیل پر پہنچنے سے پہلے ہی کیمپ لگے ہونے چاہیے تھے مگر وہاں الٹا ہم سامان والے گدھے کا انتظار کر رہے تھے۔ پریشانی اور غصہ تب بڑھا جب تقریباً ساڑھے چھ بجے نوید اور جٹ صاحب بھی پہنچ گئے مگر گھوڑوں کا نام و نشان نہیں تھا۔ نوید اور جٹ صاحب کی حالت خراب تھی۔

دونوں کا وزن ایک سو کلو گرام سے زیادہ تھا اور دونوں کو سامان والے گھوڑے راستے میں نہ ملے تھے۔ صورت حال تشویش ناک تھی۔ سبھی سیف کو کوسنے لگے کہ یہ کیا انتظامی معاملات ہیں کہ بندے دو گھنٹے سے ٹھنڈی ہوا کو برداشت کر رہے ہیں اور سامان کا کوئی اتا پتا ہی نہیں۔ حیدر کی طبعیت جو پہلے سے خراب تھی، مزید خراب ہوگئی۔ وہ باقاعدہ کانپ رہا تھا۔ نہ جانے کہاں سے غیبی مدد پہنچی۔ ایک ممبر بولا کہ میرے پاس سلیپنگ بیگ ہے۔ ہم نے فوراً بیگ کھولا اور ایک چٹان کی اوٹ میں جا کر حیدر کو لٹا دیا۔ حیدر کی طبعیت اتنی خراب ہو رہی تھی کہ کھلے آسمان تلے، ٹھنڈ میں ہی سلیپنگ بیگ کھول کر سوگیا۔ ہم سب اس کے اردگرد جمع ہوگئے تاکہ اسے ہوا کم سے کم لگے۔ تقریباً سوا سات ایک پورٹر آتا ہوا دکھائی دیا۔

اس کے کچھ ہی دیر بعد ایک گدھا آ گیا جس پر کیمپ کا سامان تھا۔ سیف اللّہ نے ہمارے غصے کو بھانپ لیا تھا، اس لیے وہ ذرا الگ کھڑا ہو گیا۔ ہم سب واقعی شدید غصے میں تھے۔ کرومبر پر شام اتر چکی تھی اور ہمارے کیمپ ابھی تک نہیں لگے تھے۔ کھانا کب بنے گا، کوئی پتا نہیں۔ سیف نے بستر لگوا دیے اور ہم اندر گھس گئے۔ پورٹر نے دیر سے آنے کی وجہ بتائی کہ ایک گدھا جس پر ٹیم ممبرز کا سامان تھا، وہ نالے میں گرگیا ہے اور مرچکا ہے۔ اس مفروضے کو ہم سب نے رد کر دیا کہ یہ اپنی نالائقی چھپانے کے لیے یہ سب ڈراما کر رہے ہیں۔ نہ جانے کیا سوچ کر میں نے اپنا سامان دوسرے گدھے پر نہیں رکھوایا تھا۔ میں نے اپنا بیگ اپنے گھوڑے کے ساتھ باندھ دیا تھا۔ لڑکوں نے سردی سے بچنے کے لیے جیکٹ نکالنا چاہی تو سب کے گرم کپڑے گیلے تھے۔ استفسار کرنے پر ایک پورٹر کہنے لگا کہ گدھا واقعی نالے میں گرگیا تھا، اسی لیے اتنی دیر بھی ہوئی اور سامان بھی گیلا ہوگیا۔ ہمارا غصہ ذرا ٹھنڈا ہوا۔

پورے ٹریک پر لڑکوں کی حالت خراب نہ ہوئی تھی جو اس دو اڑھائی گھنٹے کی سرد ہوا نے کردی تھی۔ اللّہ اللّہ کرکے کچن ٹینٹ لگا اور ہمیں نوڈلز کھانے کو ملے۔ میں تو پہلے ہی سو چکا تھا۔ نوڈلز کھا کر پھر سو گیا تھا۔ سردی اس قدر تھی کہ جو کچھ بیگ میں تھا، سب پہن لیا۔ گلوز بھی پہن لیے پھر بھی ہوا نہ جانے کون سے کونے سے اندر آ رہی تھی۔ طے یہ ہوا تھا کہ ہمیں جھیل کنارے رات بریانی کھلائی جائے گی۔ رات ٹھیک بارہ بج کے دو منٹ پر کھانا چُن دیا گیا۔ کرومبر کنارے بریانی کا مزہ ہی کچھ الگ تھا مگر دو تین نوالوں سے زیادہ نہ کھایا گیا۔

طبعیت بہت خراب ہو رہی تھی اور مجھ سمیت سب کا یہی حال تھا، مگر رات بھی تو گزارنی تھی۔ تین چار نوالے لیے اور باقی پلیٹ واپس کردی۔ معلوم نہیں حیدر کیمپ میں کب آیا مگر جگہ نہ پا کر واپس چلا گیا۔ حالاں کہ اپنی طرف سے میں بالکل کونے سے چپکا ہوا تھا اور دوسرا لڑکا بھی تقریباً میرے ساتھ ہی لگا ہوا تھا مگر حیدر کے لیے جگہ نہ بن رہی تھی۔ شاید کیمپ میں جگہ ہی کم تھی۔ حیدر کو نہ جانے کیوں لگا کہ اگر وہ مجھے نیند سے جگائے گا تو میں اسے صلواتیں سنا دوں گا۔ بہرحال حیدر نے ساری رات جھیل کنارے تاروں سے باتیں کرتے ہوئے گزار دی۔ ایک دو مزید بندوں کا بھی یہی عالم تھا کہ انھیں نیند نہیں آ رہی تھی۔ جھیل پر اب ہوا رک چکی تھی۔

رات وادیِ چترال کی سب سے خوب صورت چوٹی ترچ میر بارے باتیں بھی ہوتی رہیں۔ ترچ میر ایک پوشیدہ اور غالب کی طرح متکبر پہاڑ ہے۔ آسانی سے کسی کی سمجھ نہیں آتا۔ جس کو پتا ہو کہ یہ ترچ میر ہے، صرف وہی آپ کو بتلا سکتا ہے کہ جانِ من یہ ترچ میر ہے۔ اسے دیکھو اور آنکھیں ٹھنڈی کرو۔ کہتے ہیں کہ ترچ میر کے دامن میں چھوٹی چھوٹی آب شاریں گرتی ہیں۔ شام ڈھلے سخت سردی کی وجہ سے آب شاریں جم جاتی ہیں اور صبح سویرے جوں ہی سورج طلوع ہوتا ہے تو اس کی گرمی سے برف پگھلنے لگتی ہے اور آب شار پھر سے رواں ہو جاتی ہے۔

ترچ میر کے بارے ایک بہت افسوس ناک قصہ مشہور ہے۔ اس میں کتنی صداقت ہے، یہ معلوم نہیں۔ کہتے ہیں بہت عرصہ پہلے ایک یورپی ٹیم ترچ میر کو سَر کرنے کے لیے آئی جس میں دو بہت قریبی دوست بھی تھے۔ ساری ٹیم ناکام واپس لوٹی مگر دونوں دوستوں نے اپنا سفر جاری رکھا اور چوٹی تک پہنچ گئے۔ اس دن موسم انتہائی شان دار اور دن روشن تھا۔ دونوں ایک دوسرے کی تصاویر بنانے لگے۔ بے دھیانی میں ایک کوہ پیما دوست کا پاؤں پھسلا اور وہ چوٹی کی دوسری جانب گر پڑا۔ خوش قسمتی یہ تھی کہ وہ صرف بیس یا پچیس فٹ نیچے تازہ اور نرم برف پر گرا اور یہی اس کی بدقسمتی تھی کہ برف تازہ اور نرم تھی جس پر چلا تو جا سکتا تھا مگر چڑھا نہیں جا سکتا ہے۔ شروع میں دونوں کو صورت حال کا اندازہ نہ ہو سکا۔ دونوں دوست ایک دوسرے کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف رہے۔

واضح رہے کہ چوٹی کے ایک طرف پاکستان ہے جب کہ دوسری طرف افغانستان۔ دونوں دوست دو الگ الگ ملکوں یعنی پاکستان اور افغانستان میں بیٹھ کر ایک دوسرے سے باتیں کرتے رہے۔ صورت حال کی سنگینی کا احساس تب ہوا جب دوست نے اوپر چڑھنے کی کوشش کی مگر برف کے نرم ہونے کی وجہ سے ناکام رہا۔ چوٹی والے دوست نے نیچے رسی پھینکی جو آدھے راستے تک بھی نہ پہنچ سکی۔ نیچے افغانستان میں کھڑے دوست کو اپنی جانب موت رفتہ رفتہ چلتی نظر آرہی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ ابھی سورج ڈوب جائے گا اور وہ یہیں منجمد ہوجائے گا۔ اوپر چوٹی پر موجود دوست بھی صورت حال کو بھانپ گیا۔ شام سے پہلے دونوں دوستوں نے بھاری دل سے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا اور چوٹی والا دوست نیچے پاکستان کی طرف اتر آیا جب کہ دوسرا دوست افغانستان کی برفوں میں دفن ہوگیا۔

کتابوں میں ایک ہسپانوی لڑکی کا درد ناک قصہ بھی لکھا ہے جو اپنے باپ اور منگیتر کے ساتھ ترچ میر کو فتح کرنے کا خواب لیے ہسپانیہ سے پاکستان آئی۔ تینوں نے بیس کیمپ سے ایک مقامی کو ساتھ لیا اور چوٹی کی جانب اپنا سفر شروع کردیا۔ کیمپ ون پر پہنچ کر لڑکی کی حالت خراب ہوگئی۔ باپ اور منگیتر دونوں کا فیصلہ تھا کہ ہم سب کو واپس جانا چاہیے مگر لڑکی اپنے باپ اور منگیتر کی ترچ میر کے لیے محبت کو جانتی تھی۔ اس نے دونوں کے آگے بڑھنے پر اصرار کیا۔ اگلی صبح مقامی اور وہ لڑکی نیچے گاؤں میں واپس پہنچ گئے جب کہ لڑکی کا باپ اور منگیتر آگے چوٹی سَر کرنے کے لیے چلے گئے۔ نیچے پہنچ کر بھی لڑکی کی حالت نہ ٹھیک ہوئی اور وہ موت کی خاموش وادی میں چلی گئی۔ واپسی پر لڑکی کے باپ اور منگیتر نے اس لڑکی کو اسی کے سلیپنگ بیگ میں ڈالا، ایک تابوت تیار کروایا اور ترچ میر سے آنے والے پانیوں کے سرہانے دفن کر دیا۔ تین سال بعد اسی لڑکی کی ماں واپس آئی اور اس تابوت کو نکال کر واپس ہسپانیہ لے گئی۔ کہتی تھی کہ اس کے باپ کو تو صبر آ گیا کہ اس نے لڑکی کو اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتارا تھا مگر اسے نہ آتا تھا۔ اس نے تین سال تک کام کیا، پیسے جمع کیے اور یہاں بیٹی کا تابوت لینے کے لیے چلی آئی۔

رات جیسے تیسے کر کے گزر گئی، اسے گزر ہی جانا تھا۔ کرومبر کی صبح نرالی تھی۔ کیمپ کی زپ کھولی تو سامنے وہی کالا پہاڑ تھا جس کے دامن میں جھیل تھی۔ جھیل پر سب سے پیارا وقت صبح سویرے کا ہوتا ہے یا پھر شام سے ذرا پہلے کا۔ دوپہر کے وقت جب سورج آپ کے سر پر کھڑا ہو تو جھیل آپ کو صرف جوہڑ ہی لگتی ہے۔ جٹ صاحب کے بقول ہم ناشتے کے بعد تقریباً نو بجے جھیل پر جائیں گے تو فوٹوز اچھی بنیں گی۔ بات بھی معقول تھی مگر نہ جانے سورج انکل کو کس بات کا غصہ آیا کہ یک دم اس کے تیور بدل گئے۔ دھوپ انتہائی تیز ہوگئی، اتنی تیز کے ہمیں ہی جلانے لگی۔ لگ ہی نہیں رہا تھا کہ ہم نے ابھی ایک سرد رات کرومبر کنارے گزاری ہے۔ جھیل کو الوداعی سلام کرنا ضروری تھا۔ وہاں پاکستانی پرچم لہرانا بھی ضروری تھا۔ سچ ہے کہ وادیِ بروغل کی دنیا ہی الگ ہے۔ اس لیے بھی کہ وہاں ابھی تک انسان نما دیو بہت کم پہنچے ہیں۔

میں نے دل ہی دل میں جھیل کا شکریہ ادا کیا۔ جھیل کچھ کچھ شرمائی۔ مجھ سے واپس آنے کا عہد لینا چاہتی تھی۔ مجھ سے عہدوپیمان کرنا چاہتی تھی مگر میں اپنے دل کے ہاتھوں مجبور تھا۔ ایک جگہ دل لگا کر نہیں بیٹھ سکتا تھا۔ ایک آوارہ گرد اگر ایک ہی جگہ سے جی لگا لے گا تو پھر آوارگی کیسے کرے گا؟ میرا ارادہ تھا کہ جھیل کا کم از کم ایک طواف ضرور کیا جائے۔ کچھ پلوں کے لیے طوائف بننے میں حرج ہی کیا تھا۔ میں نے فقط ابھی آدھا طواف ہی کیا تھا کہ پیچھے سے آوازیں پڑنے لگیں۔ جھیل بھی بہت لمبی چوڑی تھی۔ افسوس کہ مجھے صبح سویرے یہ خیال کیوں کر نہ آ سکا۔ میں نے اپنا طواف ادھورا چھوڑا اور واپس اپنے دوستوں کے پاس آ گیا۔ حیدر جا چکا تھا۔ باقی ممبرز بھی واپسی کی تیاریوں میں تھے۔ وہ عارضی شہر جو ہماری وجہ سے کرومبر کنارے آباد ہوا تھا، اب پھر سے سمٹ رہا تھا۔ کرومبر پھر سے ویران ہو رہی تھی۔ ہم نے ایک الوادعی نظر کرومبر پر ڈالی، اس کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے ہمیں ایک رات اپنے یہاں گزارنے کی اجازت دی۔ اگرچہ کہ وہ رات ہماری کسی سردخانے کی مانند گزری مگر پھر بھی یہ عیاشی کیا کم تھی کہ ہم سب نے بریانی کے چند نوالے آدھی رات کے وقت کرومبر کنارے کھائے تھے۔ ہم سب ایک بے وفا عاشق کی طرح کرومبر کنارے ایک سرد رات گزار کر جا رہے تھے۔ کرومبر ہمیں بجھے ہوئے دل سے دیکھ رہی تھی۔

ہمارا رخ اب ایک بار پھر لشکر گاہز کی طرف تھا۔ ہم جب لشکر گاہز پہنچے تو معلوم ہوا کہ ہم ہی اس سیزن کے وہ پہلے لوگ ہیں جو کرومبر کی طرف منہ اٹھائے چلے جا رہے تھے۔ کرومبر سے آنکھیں ٹھنڈی کر کے واپس لشکر گاہز پہنچے تو ہمارے لیے آگے ایک جشن تیار تھا کہ وادی پر اب بہار اتر چکی ہے۔ جھیل کنارے اِس پر پرندے (یعنی ہم) اتر چکے ہیں۔ اب اگر خدا نے چاہا تو اس جانب مزید پرندے پرواز کریں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔