غزہ فلسطین میں بہتا لہو…امت مسلمہ کب بیدار ہوگی

صیہونیوں سے فلسطینیوں کے لیے کسی اچھائی کی توقع نہیں رکھی جا سکتی


August 25, 2024
صیہونیوں سے فلسطینیوں کے لیے کسی اچھائی کی توقع نہیں رکھی جا سکتی ۔ فوٹو : فائل

غزہ میں اسرائیلی فوج کی جارحیت کا سلسلہ دس ماہ سے مسلسل جاری ہے، کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب اسرائیلی بربریت میں درجنوں کے حساب سے فلسطینیوں کو شہید نہ کر دیا جاتا ہو، اسرائیلی سفاکیت سے مساجد محفوظ ہیں نہ ہسپتال اور نہ ہی کوئی اور پناہ گاہ محفوظ ہے ، 7 اکتوبر 2023ء سے شروع ہونے والی جنگ میں اب تک غزہ کی وزارتِ صحت نے بتایا کہ اسرائیلی فوج اور حماس کے درمیان جنگ کے تقریباً دس ماہ میں فلسطینیوں کے شہداء کی تعداد 39,583 سے تجاوز کر چکی ہے ۔

غزہ میں اب تک 412 مساجد کو نشانہ بنایا گیا جس میں ایک سو سے زیا دہ مساجد شہید ہو گئیں اور ہسپتال بھی کھنڈر بن گئے ، وزارت کے اعداد و شمار کے مطابق مذکورہ تعداد میں سات اکتوبر کے حملے کے نتیجے میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے غزہ کی پٹی میں 91,398 افراد زخمی ہو چکے، جس میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے، زخمی اور معذور ہونے والوں کی تعداد اس سے دوگنا سے بھی زیادہ ہے ۔ علاوہ ازیں لاکھوں افراد بے گھر بھی ہو چکے ہیں ۔ پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک کے حکمرانوں کی طرف سے بیانات تو بہت سے سامنے آئے ہیں لیکن یہ ایک افسوس ناک اور تکلیف دہ حقیقت ہے کہ اس سلسلے میں کسی بھی مسلم ملک کی طرف سے کوئی ٹھوس عملی اقدام نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے اسرائیل کی جانب سے مظالم کا سلسلہ تھمنے میں ہی نہیں آرہا ۔

دوسری جانب، امریکا، بھارت اور برطانیہ سمیت بہت سے ممالک نے اسلحے کے ذریعے غاصب صیہونی ریاست کے ہاتھ مضبوط کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل کے پلیٹ فارمز پر اسرائیل نامی ناجائز ریاست کو ہر طرح کی سفارتی مدد فراہم کی گئی ۔ بین الاقوامی برادری غزہ کے مسئلے پر پوری طرح ننگی ہو چکی ہے اور انسانی حقوق کے تمام دعوؤں کی حقیقت بھی سب پر عیاں ہو چکی ہے ۔ اگر مسلم ممالک چاہیں تو وہ ٹھوس اقدامات کے صرف اعلان کے ذریعے ہی غزہ میں جاری اسرائیلی دہشت گردی کو فوری طور پر رکوا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے پہلے انھیں امریکا کے خوف سے نکلنا ہو گا ۔

صیہونیوں سے فلسطینیوں کے لیے کسی اچھائی کی توقع نہیں رکھی جا سکتی، فلسطینی بھی جرأت اور دلیری سے اسرائیلی فسطائیت ، جبر، ظلم اور سفاکیت کا مقابلہ کر رہے ہیں ، غزہ میں مظلوم فلسطینی اپنے تبا ہ شدہ گھروں کے ملبے پر بے سرو سامان بیٹھے ہیں ، بمباری سے غزہ میں پانی کے تقریباً تمام کنویں تباہ ، قحط سے حالات مزید خراب ہو گئے ہیں ، اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی نے کہا ہے کہ فلسطین اسرائیل تنازعے کے باعث سکولوں کی جبری بندش سے غزہ میں تقریباً 6 لاکھ سے زائد بچے تعلیم سے محروم ہیں ، جنگ نے غزہ میں بچوں کے ذہنوں پر بدترین اثرات مرتب کیے ہیں ، بچ جانے والے بچے گہرے صدمے کا شکا ر ہیں ، اسرائیلی جارحیت دس ماہ سے جاری ہے اس دوران چند روز کی جنگ بندی بھی ہوئی ، اسرائیل فلسطین جنگ دس ماہ میں خاتمے کی طرف جانی چاہیے تھی مگر یہ جنگ پھیلتی جا رہی ہے جو کسی بھی وقت بے قابو ہو سکتی ہے، یہ جنگ پھیل کر لبنان شام یمن اور ایران تک آگئی ہے ، مشر ق وسطیٰ کے بعد یہ دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔

اقوام متحدہ کی بے حسی فلسطینی اور کشمیری عوام کی بدقسمتی بن چکی ہے ، اقوام متحدہ اگر اپنی قراردادوں پر عمل کرانے سے قاصر ہے تو یہ ادارہ بند ہی کر دیا جائے ، اقوام متحدہ بے بس نہ ہوتی تو افغانستان کو امریکہ کی طرف سے تورا بورا نہ بنا دیا جاتا ، فلسطینیوں پر ہونے والے اسرائیلی مظالم نے ہر حساس دل کو لہو کر دیا ہے ، ظلم کی نئی تاریخ رقم کی جا رہی ہے ، اسرائیلی وحشی درندوں نے گذشتہ دس ماہ سے جا ری جنگ میں اپنی بربریت و جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہو ئے غزہ کو کھنڈر بنا دیا ہے ، اب تک 63% غزہ تباہ ہو چکا ہے جو اب رہنے کے قابل نہیں رہا ، جہاں اب انسان نہیں بلکہ وہ مردوں کے رہنے کی جگہ قبرستان کا منظر پیش کر رہا ہے ،آج غزہ میں انسانیت کی تذلیل اور بے توقیری کی جا رہی ہے ، اور ان درندوں کو روکنے والا کوئی بھی نہیں ، ہزاروں کی تعداد میں ہماری فلسطینی ، مائیں ، بہنیں ، بیٹیاں ، بچے شہید ہو چکے ہیں۔

سفاک اسرائیل نے زمینی اور فضائی بمباری سے انسانی خون کی ندیاں بہا دی ہیں ، کھنڈر بنی غزہ کی سرزمین آج حضرت انسان کی بے توقیری پر دہائی دے رہی ہے اور انسانی حقوق کے دعویدار ممالک اور اداروں سمیت دنیا کے کسی کونے میں ایسا تحرک پیدا ہوتا نظر نہیں آرہا جو اسرائیلی صیہونیوں کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے برتری اور طاقت کے نشہ میں دھت ہونے پر انہیں جواب دے سکے اور فلسطینیوں کے قتل عام کے لئے اٹھنے والے اس کے قدم اور ہاتھ روک سکے ۔ یہاں انسانی حقوق کی تنظیمیں خاموش کیوں ہیں؟ عالمی میڈیا خاموش کیوں ہے؟ اپنے آپ کو انسانی حقوق کا سب سے بڑا علمبردار کہنے والا صیہونی امریکہ کیوں خاموش ہے؟ کیا یہ کسی کی ماں نہیں، بیٹی نہیں، بہن نہیں، معصوم بچے کسی کی اولاد نہیں؟ اسرائیلی حملوں کی بجائے مذمت کرنے کہ یہ طاقتیں اس کو تھپکی دیتی ہوئی نظر آتی ہیں، اس باؤلے درندے کے سامنے اقوام متحدہ ،عالمی برادری اور نام نہاد مسلم ممالک سب بے بس نظر آتے ہیں۔

انسانیت کیلئے یہ دوہرا معیار آخر کیوں ہے؟ کیونکہ یہ مسلمان ہیں، اور رہی بات مسلم حکمرانوں کی تو وہ تو صرف بیانات میں مذمت کرنے کی حد تک ہیں ، آج غزہ میں ، خوراک، ایندھن ، کی کمی ہے، انٹرنیٹ جیسی سہولت محروم ہے، غزہ کی مائیں ، بہنیں، بیٹیاں ، بھائی، معصوم بچے امداد کے منتظر ہیں لیکن کہیں بھی مسلم ممالک کی جانب سے کوئی خاطر خواہ امداد نہ پہنچ سکی، جو انتہائی دکھ کی بات ہے اور بڑا المیہ ہے ، فلسطینیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، لیکن وحشی اسرائیلی درندے رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے ، بہر حال اللہ تعالیٰ کی ذات بہت بڑی ہے جو بہترین انصاف کر نے والا ہے، صیہونی و سامراجی گماشتوں نے غزہ پر بمباری کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ، ان درندوں کو یہ نہیں معلوم کہ جنگ میں عورتوں و بچوں کا قتل ممنوع ہے ، اسرائیل اپنی طاقت کے نشہ میں یہ چاہتا ہے کہ خواتین و بچوں کا قتل عام کرنے ان کی نسل کشی کی جائے لیکن ان شاء اللہ ایساکبھی نہیں ہو گا، اللہ تعالیٰ آنے والی نسل میں ایسے مجاہد پیدا کرے گا جو اسرائیل کی تباہی کا باعث بنیں گے ، فلسطینی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں نے قبلہ اول بیت المقدس کی حفاظت کے لئے بے انتہا قربانی دی ہے اور دے رہی ہیں۔

اپنے بچے قربان کر دیئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے رب کے حضور پیش ہو گئیں، ان شاء اللہ ہماری ان ماؤں ، بہنوں، بیٹیوں، جوانوں، بچوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا اور یہ خون اس امت پر قرض ہے اور یہ خون ضرور انقلاب لا کر رہے گا ، صحافتی اداروں ، ایمبو لینس سروسز اور امدادی کارکنوں کو شد ید مشکلات کا سامنا ہے، مبصرین بھی انٹرنیٹ کی سہولت سے محروم ہیں ، دنیا بھرمیں فلسطینیوںکے حق میں مظاہرے ہو رہے ہیں ۔ فلسطین کا پرچم لہرایا جا رہا ہے ۔ میں اس پرچم کو دیکھتا ہوں اور دل کو رہ رہ کر کچھ کہانیاں یاد آ جاتی ہیں ۔ اداسی اور کرب میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔ سلطنت عثمانیہ قائم تھی تو القدس مسلمانوں کے پاس تھا ۔ ہنستا بستا شہر تھا ، جس میں مسلمان عزت اور آبرو سے جی رہے تھے ۔

ان کے بچے بھی محفوظ تھے اور ان کی مائیں، بہنیں اور بیٹیاں بھی سکون سے زندگی گزار رہی تھیں ۔ پھر مسلمانوں نے برطانیہ کے ساتھ مل کر سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کی ا ور نتیجہ یہ نکلا کہ القدس صہیونیوں کے ہاتھ میں چلا گیا اور اس وقت سے لیکر آج تک مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں ، میڈیا رپورٹس کے مطابق روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں مظلوم فلسطینی شہید اور زخمی ہو رہے ہیں جن کے شہر ' دیہات' کاروباری مراکز' تعلیمی ادارے اور مساجد سمیت کوئی بھی پبلک مقام اور نجی عمارتیں اسرائیلی فوج کے حملوں میں محفوظ نہیں رہ سکیں ۔ غزہ کی سرزمین پر جو باشندے اس وقت زخمی اور بے یارومددگار ہو کر کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں' انہوں نے اپنی دھرتی کو اسرائیلی بمباری سے برباد ہوتے اور اپنے عزیزوں' رشتہ داروں' پیاروں کے جسموں کے چیتھڑے اڑتے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں ۔

وہ اپنے معصوم بچوں کے ادھڑے لاشے اٹھائے بے بسی کے عالم میں کسی پناہ گاہ کی تلاش میں دوڑتے ہیں تو یقیناً ان دلدوز مناظر کو دیکھ کر آسمان بھی رونے لگتا ہو گا ۔ مگر سفاک انسانوں کا دل پسیجتا نظر نہیں آرہا ۔ اقوام متحدہ کو اس حقیقت کا تو احساس ہے کہ فلسطینیوں کی غزہ میں اسی طرح ناکہ بندی جاری رکھی گئی اور انہیں ادویات اور کھانے پینے تک کی اشیاء سے مسلسل محروم کیا جاتا رہا تو وہ بہت جلد بھوک سے مرنے لگیں گے مگر زخموں سے چور اور کرب و بلا میں ڈوبے ان انسانوں کو بچانے کیلئے کسی ملک کسی ادارے اور کسی تنظیم کو کوئی عملی اقدام اٹھانے کی توفیق نہیں ہو رہی ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مولائے کریم فلسطینی ماؤں،بہنوں، بیٹیوں، بچوں، جوانوں کی شہادت کو قبول فرمائے اور فلسطینی مظلوم مسلمانوں کی غیب سے نصرت و مدد فرمائے اور دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے اللہ ان کی بھی مدد فرمائے اور اللہ تعالیٰ اسرائیل اور اس کے حواریوں کو نیست و نابود فرمائے، آمین۔ ان حالات میں پوری دنیا کو بالعموم اور عالم اسلام کے حکمرانوں کو ٹھوس بنیاد پر ظالم اسرائیل کی سفاکیت و جارحیت اور عالمی دہشت گردی کو روکنے کیلئے فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہوئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر مظلوم فلسطینیوں کی مدد کرنے کیلئے میدان میں آنا ہوگا ، بصورت دیگریہ جنگ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے، اور پوری دنیا کیلئے اسرائیل اور امریکہ مزید خطرہ بن جائیں گے ، جب تک اسرائیل کو منہ توڑ جواب نہیں دیا جاتا تب تک وہ امریکہ کی آشیرباد پر ظلم کرتا رہے گا اسی لیے اس کی جارحیت کے آگے بند باندھنے کی ضرورت ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں