موٹر سائیکل صرف ایک سواری ہے جو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتی ہے، بالکل ویسے ہی جیسے کوئی سائیکل یا گاڑی۔ مگر پاکستان میں آج کے جدید دور میں بھی اس کو ایک صنف سے منسوب رکھا گیا ہے۔
لڑکیاں اپنے بچپن میں بھائی کے ساتھ شاید سائیکل چلا سکتی ہیں لیکن بڑے ہونے پر ان کو اس کی بھی اجازت نہیں اور موٹر سائیکل تو توبہ توبہ۔ اس کا اثر تو براہ راست کردار پر پڑتا ہے جس کے بعد خاندان میں عزت کو نقصان پہنچنے کے ساتھ ساتھ شادی اچھی جگہ نہ ہونے کا دھڑکا بھی لگا رہتا ہے۔ یہ میں اتنے وثوق سے اس لیے کہہ رہی ہوں کیونکہ آنکھوں میں خواب لیے میں بھی اس سفر پر نکلی اور وہ جو ہمت میں نے کی وہ میرے والدین کےلیے آج تک ایک آزمائش ہے۔
یونیورسٹی میں پڑھنے کے ساتھ جب میں نے جاب کےلیے سوچا اور انتھک محنت کے بعد انٹرویو بھی پاس کرلیا تو سب سے بڑا چیلنج ٹرانسپورٹ کا تھا۔ والد کی مصروفیت کی وجہ سے وہ مجھے چھوڑ کر نہیں آسکتے تھے اور بھائی نے تو صاف انکار کردیا۔ بس کا سہارا لیا تو اسٹاپ پر دو دن کھڑے ہونے کے بعد ہراسانی کا سامنا تھا۔ رکشہ لوں تو سیکیورٹی کا مسئلہ تو ہے ہی اس کے ساتھ ساتھ قریباً تیس ہزار روپے صرف سواری کا ادا کردوں تو باقی بچتا ہی کیا ہے؟ بمشکل ساٹھ ہزار روپے جوڑے اور چند برس پہلے ایک اسکوٹی خرید کر گھر میں سرپرائز دیا۔
مجھے لگتا تھا اب ساری مشکلیں آسان ہوجائیں گی لیکن اس دن نے سب سے پہلے میرے کردار، میری تربیت اور پھر میرے خاتون ہونے پر سوال اٹھائے۔ میرے بھائی نے چھ ماہ تک مجھ سے بات نہیں کی۔ میں نے ہار مان کر ایک پلازے کی بیسمنٹ میں اپنی اسکوٹی کھڑی کر دی، حتیٰ کہ اس کو زنگ لگنا شروع ہوگیا۔ میرے بھائی کو خوف تھا کہ جیسے ہی میں گلی میں داخل ہوں گی تھڑے پر بیٹھے لڑکوں کا گروہ مجھ سے متعلق جملے کسے گا۔ بہت جتن کیے اور گھر والوں کو منایا کیونکہ اب یہ میرا مشن بن چکا تھا اور میں یہ جنگ ہر اس خاتون کےلیے جیتنا چاہتی تھی جو خواب دیکھتی ہے اور تعبیر کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔
مختصر یہ کہ اسکوٹی کے بعد موٹر سائیکل بھی خریدی لیکن سوشل بائیکاٹ، خاندان میں مشکوک نگاہوں کا مرکزرہی۔ رشتے آئے مگر موٹر سائیکل چلانے کی وجہ سے منہ پر انکار ہوگیا۔ کرائم رپورٹنگ اور بائیک رائیڈ نے مجھے ایک ایسی عورت بنادیا جس نے بہت لوگوں کو متاثر تو کیا مگر میری ذہنی صحت پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ میری کہانی سے کہیں ایسا تاثر نہ آئے کہ یہ صرف میڈیا کی خواتین کے ساتھ ہوتا ہے کیونکہ یہ سوچ عام ہے کہ میڈیا جاب گھریلو خواتین کےلیے مناسب انتخاب نہیں، اس لیے میں نے دیگر شعبوں کی خواتین کی رائے بھی لی۔
لاہور سے تعلق رکھنے والی حفصہ علی نے بتایا کہ انہوں نے کیمیکل انجینئرنگ میں ڈگری حاصل کی، جس کے بعد وہ بہت پرامید تھیں کہ ان کا مستقبل روشن ہوگا اور وہ ایک اچھی زندگی کی تشکیل میں کامیاب ہوجائیں گی۔ ان کی محنت رنگ لائی جب انہیں تین مسلسل انٹرویوز کے بعد جاب مل گئی۔ دفتر سے ان کے گھر کا فاصلہ قریباً تیس منٹ کا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اس وقت گاڑی نہیں خرید سکتی تھیں اور رکشے پر جانے کےلیے ان کے والدین آمادہ نہیں ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ انھیں اپنی والدہ کی وہ نظر آج تک نہیں بھولی جو انہوں نے اس وقت ڈالی جب میں نے موٹر سائیکل چلانے کی اجازت مانگی۔ حفصہ کو ٹرانسپورٹ کے مسئلے کی وجہ سے جاب چھوڑنی پڑی۔ وہ پروفیشنل ڈگری تھامے اب محلے کے اسکول میں بچوں کو کیمسٹری پڑھاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ معاشرے کی دقیانوسی سوچ نے ان سے سارے خواب چھین لیے اور وہ کچھ بھی نہ کرسکیں۔
فیصل آباد سے ثنا نے بتایا کہ پٹرول مہنگا ہوا تو پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایے بھی مہنگے ہوگئے۔ ایف ایس سی کے بعد وہ ایم کیٹ یعنی ڈاکٹر بننے کےلیے انٹری ٹیسٹ کی تیاری کرنا چاہتی تھیں۔ والد وفات پاگئے تھے۔ ایک بھائی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ مصروف تھا جبکہ دوسرا بھائی میڈیکل کے پہلے سال کا طالب علم تھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ شام کو اکیڈمی جانا چاہتی تھیں تاکہ میڈیکل کا داخلہ ٹیسٹ پاس کرسکیں لیکن ان کا بھائی اس وقت فٹ بال کھیلتا تھا جس وقت انہوں نے کوچنگ کےلیے جانا تھا۔ آئے روز خواتین کے ساتھ ہراسانی کے واقعات نے ان کی والدہ کو بہت ڈرا دیا تھا جس کی وجہ سے ان کو پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرنے کی اجازت نہیں ملی۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ بھائی کی طرح اگر ان کو بھی موٹر سائیکل چلانے کی اجازت مل جاتی تو وہ اپنا کیریئر خواہش کے مطابق بنا پاتیں۔ وہ آج تک ڈاکٹر نہ بن پانے کا ذمے دار اسی وجہ کو ٹھہراتی ہیں۔
حکومت پنجاب نے 2018 میں وزیراعلیٰ اسٹرٹیجک ریفارمز یونٹ کے تحت ویمن آن وہیل پروجیکٹ شروع کیا تھا، جس کے تحت خواتین کو پنک بائیکس کے ساتھ موٹر سائیکل چلانے کی تربیت بھی دی گئی تھی۔ پہلے مرحلے میں صرف ساٹھ موٹر سائیکلیں دی گئیں۔ بعد ازاں ایسے کیسز بھی رپورٹ ہوئے جس میں باپ اور بھائی نے لڑکی کو ملنے والی موٹر سائیکل کے ٹنکی ٹاپ تبدیل کروائے اور اپنے استعمال میں لے آئے۔ اس پروجیکٹ کے آنے سے لگتا تھا کہ عام تاثر ٹوٹے گا اور اسپورٹس گرلز کے علاوہ بھی لڑکیاں موٹر سائیکل چلا کر معمولات زندگی آسان بنا سکیں گی مگر پروجیکٹ کی مستقل مزاجی نہ ہونے کے باعث یہ تسلسل برقرار نہ رہ سکا۔ رواں سال بھی وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے طالبات کو موٹر سائیکلیں دینے کا پروگرام شروع کیا تو حیران کن انکشافات سامنے آئے جس کا تذکرہ خود وزیراعلیٰ نے اسپورٹس فیسٹیول میں بات کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے تاریخ میں توسیع کرنا پڑ رہی ہے کیونکہ خواتین نے دی گئی تاریخ تک موٹرسائیکل کےلیے اپلائی ہی نہیں کیا۔
ایک طرف جہاں یہ مسائل ہیں، وہیں ایسی خواتین بھی ہیں جو ہمت اور عزم کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتیں اور بارش کا پہلا قطرہ بنتی ہیں، مگر افسوس ایسے واقعات آٹے میں نمک کے برابر ہیں جس میں خواتین کو ایسے مواقع پر سپورٹ ملتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سطح پر کاؤنسلنگ، میکانزم اور آگاہی پروگرام کی ایک مربوط حکمت عملی بنے، جہاں خواتین ایک محفوظ ماحول میں عزت کے ساتھ موٹرسائیکل کو بطور سواری استعمال کرسکیں۔ والدین کو بھی بیٹیوں کو اعتماد دینا ہوگا جبکہ بیٹوں کی تربیت اس انداز میں کرنا ہوگی کہ وہ بااختیار خواتین کے ساتھ چلنے میں خوشی محسوس کریں، نہ کہ ان کو شرمندگی اور بغاوت تصور کریں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔