عوامی مسائل سیاسی جماعتوں کے لیے اہم نہیں
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نہ صرف بڑی پارٹیاں ہیں بلکہ اقتدار میں ہیں
جماعت اسلامی کے نائب امیر لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ ہمارے دھرنے نے عوام کو مسائل کے حل کے لیے امید دی ہے۔ اسی لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام کی آئینی جمہوری سیاسی پرامن مزاحمت کی قدرکرتے ہوئے عوام کو ریلیف دے۔ ملک کے عوام بجلی اور پٹرول کی ناجائز قیمتوں کا خاتمہ چاہتے ہیں،اس لیے حکومت تاخیری حربے استعمال نہ کرے اور اس سلسلے میں عوام کو فوری ریلیف دے۔ میاں نواز شریف نے بھی کہا ہے کہ مہنگے بجلی بل عوام کے لیے ناقابل برداشت ہیں اور عوام کو ریلیف دینا ہمارا امتحان ہے۔
پی ٹی آئی ملک میں تباہی، مہنگائی اور مہنگے بل لائی لیکن عوام ہم سے ریلیف کی توقع کرتے ہیں اور حکومت کا امتحان ہے کہ مشکل ترین حالات میں عوام کو ریلیف کیسے دینا ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے ہی ہمیشہ مشکلات سے راستہ نکالا ہے۔ ہم نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا ہے اب حکومت کو عوام کو بھی ڈیفالٹ سے بچانا ہے اس لیے مہنگائی اور مہنگے بجلی بلوں سے عوام کو نجات دلانے کی کوشش ہونی چاہیے۔
ایک طرف ملک کی حقیقی جمہوری جماعت جماعت اسلامی ہے جس نے عوام کو مہنگائی اور مہنگے بجلی بلوں کے خلاف راولپنڈی میں کئی روز احتجاجی دھرنا دیا اور حکومتی وفد سے مذاکرات کے بعد مشروط طور پر ختم کیا کہ اگر حکومت نے مقررہ مدت میں معاہدے پر عمل نہ کیا تو جماعت اسلامی دوبارہ دھرنا دے گی۔
دھرنے کے خاتمے پر ایم کیو ایم کے سربراہ ڈاکٹر خالد مقبول نے جو وفاقی وزیر ہیں طنز کرتے ہوئے کہا کہ بجلی سستی کرانے کے لیے دیا گیا دھرنا بجلی مزید مہنگی کرا کر ختم کیا گیا۔ وفاقی وزیر نے حکومتی بیان نہیں پڑھا کہ بجلی مزید مہنگی نہیں کی گئی اور حکومت جماعت اسلامی سے معاہدے کے مطابق کوشش کرے گی کہ عوام کو مہنگائی اور مہنگی بجلی بلوں میں ریلیف دے۔
8 فروری کے عام انتخابات کو ابھی چند ماہ ہی گزرے ہیں جماعت اسلامی کا نئے انتخابات کا کوئی مطالبہ ہے نہ جلد انتخابات کا امکان کہ جماعت اس دھرنے کی بنیاد پر عوام سے ووٹ مانگے کہ جماعت اسلامی ملک کی واحد سیاسی جماعت ہے کہ اس نے عوام کے سب سے اہم مسائل مہنگائی اور مہنگے بجلی بلوں پر جدوجہد کرکے اور دھرنا دے کر حکومت کو احساس دلایا ہے جس پر نواز شریف نے بھی کہا ہے کہ مہنگے بجلی بل عوام کے لیے ناقابل برداشت ہوگئے ہیں۔ اس لیے مسلم لیگ (ن) کی حکومت عوام کو ریلیف دینے کے لیے موجودہ مشکلات میں کوئی راستہ نکالے۔
پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم (ن) لیگی حکومت کی اتحادی ہیں ان سے تو توقع کی ہی نہیں جاسکتی کہ وہ ان اہم مسائل پر احتجاج کریں یا دھرنا دیں۔ یہ دونوں صرف دکھاؤے کی بیان بازی کر سکتے ہیں اور وہ یہ کر رہے ہیں جس پر حکومت بھی مطمئن ہے، اسے اس برننگ ایشو پر خطرہ جماعت اسلامی سے تھا کہ اس کا احتجاج ملک میں نہ پھیل جائے اور عوام حکومت کے خلاف سڑکوں پر آ کر حکومت کو پریشان کردیں۔ ویسے بھی جماعت اسلامی کا دھرنا حکومت کے خاتمے کا نہیں تھا بلکہ عوام کو درپیش اہم مسائل مہنگائی اور مہنگی بجلی کے خلاف تھا اور جماعت اسلامی ملک کی واحد سیاسی جماعت ہے کہ جس نے عوام کے لیے آواز اٹھائی اور سیاست نہیں کی اور کسی اور جماعت خصوصاً پی ٹی آئی کے کسی رہنما کو بھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ راولپنڈی کے دھرنے میں جا کر جماعت کے مطالبات کی حمایت ہی کردیتے حالانکہ ان کے بانی نے کہا بھی تھا مگر یہ مسائل تحریک انصاف کے لیے اہم نہیں تھے کیونکہ ان کا تو سب سے اہم مسئلہ اپنے بانی کی رہائی ہے، ملک کے عوام کو درپیش کمر توڑ مہنگائی اور بجلی و گیس کے مہنگے بل۔ اس سلسلے میں عوام کی پریشانیاں اور ملک میں ہونے والی خودکشیاں اور قتل کی وارداتیں کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ ایسا کرانے میں پی ٹی آئی کی حکومت بھی عوام دشمن فیصلوں میں شریک تھی۔
پی ٹی آئی کی حکومت کو ختم ہوئے سوا دو سال ہوچکے ہیں مگر حکومت اور نواز شریف موجودہ مہنگائی کا اب تک پی ٹی آئی کو ہی ذمے دار قرار دے رہے ہیں اور صدر (ن) لیگ کو اپنی پارٹی کی حکومت میں کی جانے والی ہوش ربا مہنگائی اور مہنگی بجلی کا خیال آیا ہے جب کہ انھیں تو حکومت سے باز پرس کرنی چاہیے تھی کہ وہ عوامی خواہشات کے برعکس فیصلے کیوں کر رہی ہے؟ کیا وہ مسلسل مہنگائی بڑھانے کے لیے وزیر اعظم بنے تھے؟ ملک سخت مالی بحران میں ہے مگر حکومت کو کوئی احساس نہیں اور ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاؤس کے اخراجات کم کرنے کے بجائے حالیہ بجٹ میں مزید رقم بڑھا لی گئی ہے اور حکومت کو عوام کو درپیش مسائل کی فکر ہے نہ عوام کی مشکلات کا احساس۔
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نہ صرف بڑی پارٹیاں ہیں بلکہ اقتدار میں ہیں جن کی ذمے داری عوام کے مسائل کو اہمیت دے کر عوام کو مشکلات سے نجات دلانا ہے مگر عوامی مسائل دونوں کے لیے اہم ہیں نہ دونوں کی ترجیح عوام کو درپیش مہنگائی ہے بلکہ دونوں ہی عوام کی مشکلات کے ذمے دار ہیں۔ جماعت اسلامی نے عوام کو درپیش اہم مسائل پر موثر آواز اٹھائی اور حکومت کی توجہ مبذول کرائی باقی کسی بھی جماعت کو عوام کی کوئی فکر نہیں۔ ان کا احتجاج عوام کو درپیش مسائل پر نہیں بلکہ حصول اقتدار، الیکشن میں نشستیں نہ ملنے، مینڈیٹ کی مبینہ چوری اور احترام اور برداشت کو فروغ کے لیے ہے۔ تحریک تحفظ آئین کے رہنماؤں نے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ مہنگائی اور بجلی کے نرخ کم کیے جائیں بلکہ ان کا مطالبہ ہے کہ سیاسی جماعتیں عوامی مفاد کے چارٹرڈ پر دستخط کریں تاکہ انھیں اقتدار مل سکے۔
ملک کے آئین میں عوام کو سہولیات دینے کا ذکر ضرور ہے مگر یہ نہیں لکھا کہ حکومت اور سیاسی جماعتیں عوام کے اہم مسائل پر یکسو ہو کر بیٹھیں اور عوامی مسائل حل کرائیں۔ ہر ایک کو اقتدار اور اپنی سیاست کی فکر ہے عوام کے مسائل کی نہیں اور نہ ہی عوامی مسائل کا حل کسی پارٹی کی ترجیح ہے۔
پی ٹی آئی ملک میں تباہی، مہنگائی اور مہنگے بل لائی لیکن عوام ہم سے ریلیف کی توقع کرتے ہیں اور حکومت کا امتحان ہے کہ مشکل ترین حالات میں عوام کو ریلیف کیسے دینا ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے ہی ہمیشہ مشکلات سے راستہ نکالا ہے۔ ہم نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا ہے اب حکومت کو عوام کو بھی ڈیفالٹ سے بچانا ہے اس لیے مہنگائی اور مہنگے بجلی بلوں سے عوام کو نجات دلانے کی کوشش ہونی چاہیے۔
ایک طرف ملک کی حقیقی جمہوری جماعت جماعت اسلامی ہے جس نے عوام کو مہنگائی اور مہنگے بجلی بلوں کے خلاف راولپنڈی میں کئی روز احتجاجی دھرنا دیا اور حکومتی وفد سے مذاکرات کے بعد مشروط طور پر ختم کیا کہ اگر حکومت نے مقررہ مدت میں معاہدے پر عمل نہ کیا تو جماعت اسلامی دوبارہ دھرنا دے گی۔
دھرنے کے خاتمے پر ایم کیو ایم کے سربراہ ڈاکٹر خالد مقبول نے جو وفاقی وزیر ہیں طنز کرتے ہوئے کہا کہ بجلی سستی کرانے کے لیے دیا گیا دھرنا بجلی مزید مہنگی کرا کر ختم کیا گیا۔ وفاقی وزیر نے حکومتی بیان نہیں پڑھا کہ بجلی مزید مہنگی نہیں کی گئی اور حکومت جماعت اسلامی سے معاہدے کے مطابق کوشش کرے گی کہ عوام کو مہنگائی اور مہنگی بجلی بلوں میں ریلیف دے۔
8 فروری کے عام انتخابات کو ابھی چند ماہ ہی گزرے ہیں جماعت اسلامی کا نئے انتخابات کا کوئی مطالبہ ہے نہ جلد انتخابات کا امکان کہ جماعت اس دھرنے کی بنیاد پر عوام سے ووٹ مانگے کہ جماعت اسلامی ملک کی واحد سیاسی جماعت ہے کہ اس نے عوام کے سب سے اہم مسائل مہنگائی اور مہنگے بجلی بلوں پر جدوجہد کرکے اور دھرنا دے کر حکومت کو احساس دلایا ہے جس پر نواز شریف نے بھی کہا ہے کہ مہنگے بجلی بل عوام کے لیے ناقابل برداشت ہوگئے ہیں۔ اس لیے مسلم لیگ (ن) کی حکومت عوام کو ریلیف دینے کے لیے موجودہ مشکلات میں کوئی راستہ نکالے۔
پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم (ن) لیگی حکومت کی اتحادی ہیں ان سے تو توقع کی ہی نہیں جاسکتی کہ وہ ان اہم مسائل پر احتجاج کریں یا دھرنا دیں۔ یہ دونوں صرف دکھاؤے کی بیان بازی کر سکتے ہیں اور وہ یہ کر رہے ہیں جس پر حکومت بھی مطمئن ہے، اسے اس برننگ ایشو پر خطرہ جماعت اسلامی سے تھا کہ اس کا احتجاج ملک میں نہ پھیل جائے اور عوام حکومت کے خلاف سڑکوں پر آ کر حکومت کو پریشان کردیں۔ ویسے بھی جماعت اسلامی کا دھرنا حکومت کے خاتمے کا نہیں تھا بلکہ عوام کو درپیش اہم مسائل مہنگائی اور مہنگی بجلی کے خلاف تھا اور جماعت اسلامی ملک کی واحد سیاسی جماعت ہے کہ جس نے عوام کے لیے آواز اٹھائی اور سیاست نہیں کی اور کسی اور جماعت خصوصاً پی ٹی آئی کے کسی رہنما کو بھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ راولپنڈی کے دھرنے میں جا کر جماعت کے مطالبات کی حمایت ہی کردیتے حالانکہ ان کے بانی نے کہا بھی تھا مگر یہ مسائل تحریک انصاف کے لیے اہم نہیں تھے کیونکہ ان کا تو سب سے اہم مسئلہ اپنے بانی کی رہائی ہے، ملک کے عوام کو درپیش کمر توڑ مہنگائی اور بجلی و گیس کے مہنگے بل۔ اس سلسلے میں عوام کی پریشانیاں اور ملک میں ہونے والی خودکشیاں اور قتل کی وارداتیں کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ ایسا کرانے میں پی ٹی آئی کی حکومت بھی عوام دشمن فیصلوں میں شریک تھی۔
پی ٹی آئی کی حکومت کو ختم ہوئے سوا دو سال ہوچکے ہیں مگر حکومت اور نواز شریف موجودہ مہنگائی کا اب تک پی ٹی آئی کو ہی ذمے دار قرار دے رہے ہیں اور صدر (ن) لیگ کو اپنی پارٹی کی حکومت میں کی جانے والی ہوش ربا مہنگائی اور مہنگی بجلی کا خیال آیا ہے جب کہ انھیں تو حکومت سے باز پرس کرنی چاہیے تھی کہ وہ عوامی خواہشات کے برعکس فیصلے کیوں کر رہی ہے؟ کیا وہ مسلسل مہنگائی بڑھانے کے لیے وزیر اعظم بنے تھے؟ ملک سخت مالی بحران میں ہے مگر حکومت کو کوئی احساس نہیں اور ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاؤس کے اخراجات کم کرنے کے بجائے حالیہ بجٹ میں مزید رقم بڑھا لی گئی ہے اور حکومت کو عوام کو درپیش مسائل کی فکر ہے نہ عوام کی مشکلات کا احساس۔
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نہ صرف بڑی پارٹیاں ہیں بلکہ اقتدار میں ہیں جن کی ذمے داری عوام کے مسائل کو اہمیت دے کر عوام کو مشکلات سے نجات دلانا ہے مگر عوامی مسائل دونوں کے لیے اہم ہیں نہ دونوں کی ترجیح عوام کو درپیش مہنگائی ہے بلکہ دونوں ہی عوام کی مشکلات کے ذمے دار ہیں۔ جماعت اسلامی نے عوام کو درپیش اہم مسائل پر موثر آواز اٹھائی اور حکومت کی توجہ مبذول کرائی باقی کسی بھی جماعت کو عوام کی کوئی فکر نہیں۔ ان کا احتجاج عوام کو درپیش مسائل پر نہیں بلکہ حصول اقتدار، الیکشن میں نشستیں نہ ملنے، مینڈیٹ کی مبینہ چوری اور احترام اور برداشت کو فروغ کے لیے ہے۔ تحریک تحفظ آئین کے رہنماؤں نے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ مہنگائی اور بجلی کے نرخ کم کیے جائیں بلکہ ان کا مطالبہ ہے کہ سیاسی جماعتیں عوامی مفاد کے چارٹرڈ پر دستخط کریں تاکہ انھیں اقتدار مل سکے۔
ملک کے آئین میں عوام کو سہولیات دینے کا ذکر ضرور ہے مگر یہ نہیں لکھا کہ حکومت اور سیاسی جماعتیں عوام کے اہم مسائل پر یکسو ہو کر بیٹھیں اور عوامی مسائل حل کرائیں۔ ہر ایک کو اقتدار اور اپنی سیاست کی فکر ہے عوام کے مسائل کی نہیں اور نہ ہی عوامی مسائل کا حل کسی پارٹی کی ترجیح ہے۔