بات کچھ اِدھر اُدھر کی سوشل میڈیا یا بندر کے ہاتھ ماچس

لوگ اپنی عاقبت تو خراب کر ہی چکے ہیں، ہم کیوں ان راہوں پر چلتے ہوئے اپنی آخرت خراب کررہے ہیں۔

لوگ اپنی عاقبت تو خراب کر ہی چکے ہیں، ہم کیوں ان راہوں پر چلتے ہوئے اپنی آخرت خراب کررہے ہیں۔ فوٹو فائل

ABBOTABAD:

سوشل میڈیا ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے استعمال سے آج کے دور میں ہر کوئی واقف ہے۔ اور فیس بک کا استعمال کوں نہیں جانتا۔ یہاں ہر شخص سچائی جانے بغیر ہی علم آگے تقسیم کرتا جاتا ہے۔ لوگوں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ یہ سچ ہے یا جھوٹ ۔


میں نے حالیہ ایک پوسٹ دیکھی جو قومیت کو ہوا دے رہی تھی۔ اور ایک ہی پوسٹ جو بار بار ایڈؑٹ کر کے کبھی مغل، کبھی جٹ، کبھی بٹ، کبھی راجپوت اور کبھی آ رائیں کے نام سے شئیر کی جارہی تھی، پوسٹ کچھ یوں تھی کہ؛




'' سکندراعظم نے کہا ان کو لڑ کر نہیں ہرایا جا سکتا، پاکستان کے 10 میں سے 8 نشان حیدر اس قوم کے ہیں۔''



غرض یہ کہ کسی کو اس بات کا کوئی ہوش نہیں تھا کہ جو بات شئیرکر رہا ہوں اس میں کتنی سچائی ہے۔



میرے ایک دوست 'یورپ' میں رہتےہیں۔ انہوں نے اقبال کے ایک شعر کی پوسٹ بنا کر کہا کہ کتنی ہوشیاری سے گوروں نے ہمارے سلیبس سے اقبال کی شاعری کو نکال دیا گیا ہے، تاکہ ہم نوجوان بھٹک جائیں۔


موصوف نے خود تو میٹرک کر رکھا ہے اور ایک ہوٹل میں بطور ویٹر کام کرتے ہیں۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ بھائی گوروں نے یہ سازش بھی کی ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو دھڑادھڑ ویزے دینا شروع کر دیئے، تاکہ یہ نوجوان ان کے ہوٹل اور پٹرول پمپ سنبھال لیں۔ اور آپ بھی تو اس سازش کا شکار ہو چکے ہیں نا ؟


ان کی طرف سے دوبارہ اس پوسٹ پو کوئی جواب نہ آیا۔


مزے کی بات یہ ہےحب الوطنی کی بات وہ کرتے نظر آتے ہیں جو اپنے گرین پاسپورٹ پرمہر لگوا کر اس ملک کو چھوڑ گئے ہیں یا جانے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ دنیا بھر میں لوگ ایک دوسرے کی عزت اچھالتے ہیں۔ مختلف سافٹ وئیر سے فوٹو کو ایڈٹ کر کے طرح طرح کی شکلیں بنائی جاتی ہیں، جس کا زیادہ تر ٹارگٹ سیاستدان ہی بنتے ہیں۔


مجھے یہ نہیں سمجھ آتا کہ لوگ اس طرح کر کے اپنی عاقبت تو خراب کر ہی چکے ہیں، ہم کیوں ان راہوں پر چلتے ہوئے اپنی آخرت خراب کررہے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کو ان کی وجہ سے گالیاں دیتے ہیں پھر فخر محسوس کرتے ہیں یہ تو میرا بھی فرض ہے۔ نوجوان ہفتہ بھر غیر ملکی ادا کاروں کی تصاویر لائک کرتے، شیئر کرتے اور ٹیگ کرتے ہیں۔ لیکن جمعہ کے دن ان سے زیادہ دین دار کوئی دوسرا نہیں نظرآتا، جمعہ کی سنتیں اور قیامت کی نشانیاں بتاتے ہیں۔ پھر سے ہفتہ بھر خواتین کی تصویریں ، شاعری کے ساتھ متبرک انداز میں پیش کرتے ہیں۔ سلام ہے اس قوم کی سوچ کو۔


ہم کہتے ہیں معاشرہ خراب ہو گیا ہے۔ مگر ہم نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ معا شرہ کو بنانے والے ہم خود ہیں یعنی کہ ہم خود خراب ہیں۔ دوسروں کی اصلاح کرتے ہیں مگر اپنی نہیں۔ لہذاٰ ہمیں اپنی اصلاح کی ضرورت ہے جب ہم ٹھیک ہوں گے تو معاشرہ بھی ٹھیک ہو جائے گا۔


جیسے چاقو سبزی کاٹنے کے لیے استعمال کریں تو مثبت اور قتل کریں تو منفی۔ اس طرح ہمیں بھی سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کر کے اپنی اصلاح کرنی چاہئے، تاکہ معاشرے کی اصلی روح قائم ہوسکے۔


نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story