پاکستان ایک نظر میں آسان ہدف
پاکستان بیچارہ تو قائد اعظم کے بعد سے ہی دنیا کیلئے آسان ہدف ہےاوراب یہاں لوگ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ایسا کررہے ہیں
آپ پاکستان کے صف اول کے اخبارات کے ادارتی صفحات سے لیکر ٹی وی چینلز کے سیاسی پروگراموں پر نظر ڈال لیں تو خودہی اندازہ ہوجائے گا کہ تقریباً 70 فیصد لکھاری اور پروگراموں کے شرکا پاکستان کی منفی تصویر پیش کرتے ہیں۔ کوئی کالم نظر سے گزرے تو نجانے کیسی کیسی ضرب المثل کہانیاں سنا کر آخر میں اسے پاکستان کی حالت سے ملادیا جاتا ہے۔
افسوس یہ ہے کہ آج جو ٹی وی پر بیٹھ کر ملک کی مثبت حالت پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ماضی میں وہ بھی منفی رخ دنیا کے سامنے رکھا کرتے تھے کیونکہ تب حکومت ان کی نہیں تھی اور ماضی میں پاکستا ن کی ترقی کے قصیدے پڑھنے والے اب اس ارض پاک کو دنیا کا جاہل ترین ملک یا ناقابل رہائش جگہ قرار دینے پر تلے ہیں۔ بھائی ! اللہ کا واسطہ ہے آپ لوگ سیاست کریں لیکن ملک کی قیمت پر نہیں۔ یہی حال ہمارے لوگوں کا ہے کہ جس کے پسندیدہ لیڈر نے کوئی بات کہہ دی سو وہ پتھر پر لکیر بن گئی ۔ اب موصوف لیڈر نے کچھ غلط بھی کہا ہے تو اس کا دفاع کرنا ہے خواہ اس کیلئے کوئی جھوٹی دلیل ہی کیوں نہ دینی پڑے ۔ ان تمام باتوں کے باوجود ہم کہتے ہیں کہ ملک میں عدم برداشت کا کلچر پروان چڑھ رہا ہے۔ جمہوریت کو غیر ریاستی عناصر سے خطرہ ہے۔ ریاستی رٹ کہیں دکھائی نہیں دیتی ۔ پولیس، تعلیم، صحت، بلدیات، ریونیو سمیت ہر ادارہ کرپشن میں ڈوبا ہوا ہے ۔ ارے بھائی آپ ٹھیک کہتے ہیں لیکن ذرا منافقت سے نکلیں اور پاکستان کو اپنا ملک سمجھیں ۔ اسے اس قابل بنائیں کہ آپ کو اور آپ کے بچوں کو لندن یا امریکا سے علاج کرانے کے بجائے پاکستان کی کسی بھی تحصیل کے ہیڈ کوارٹرکے سرکاری اسپتال سے علاج کرانے پر کوئی عار محسوس نہ ہو تو پھر دیکھیں یہی جاہل لوگ کس طرح ریاستی رٹ قائم کرتے ہیں۔
پاکستان بیچارہ تو قائد اعظم کے بعد سے ہی پوری دنیا کیلئے آسان ہدف ہے۔ ہم خود اپنی اصلاح نہ کریں اور ایک دوسرے پر اسی طرح تنقید کرتے رہیں تاکہ اگلے الیکشن میں اُس جماعت کے بجائے ہماری جماعت کو حکومت مل جائے تو بخدا آپ جمہوریت جمہوریت کھیلتے رہیں اس سے آپ کے کلیجے کی آگ اس قدر تو ٹھنڈی ضرور ہوگی کہ آپ نے پاکستان میں جمہوریت کو فروغ دیکر امر کر دیا لیکن انسانیت آپ پر ہنس رہی ہوگی ۔ آج کل وطن عزیز میں سب سے اہم کام ٹاک شوز رہ گئے ہیں جہاں جاکر سیاسی جماعتیں اپنے گناہوں یا خو دپر لگنے والے الزامات کی تردید کرتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ وہ '' پوتر '' ہوگئی ہیں لیکن یقین جانیے عوام سب کچھ سمجھتے ہیں۔ جب تک آپ کے بچے یہاں کے پیلے اسکولوں میں نہیں پڑھیں گے اس وقت تک انقلابی آتے رہیں گے اور جمہوریت کیساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے رہیں گے اور آپ جیسے مضبوط جمہوریت کا نعرہ لگانے والے پھولے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ ان سے نمٹنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر ماڈل ٹاؤن جیسے سانحات کے ذمے دار قرار پاتے رہیں گے۔
خدارا۔۔ اب بھی وقت ہے منافقت چھوڑیں ۔ تمام سیاسی جماعتیں عوام کی خدمت کو شعار بنالیں ورنہ کل کو پھر کوئی طالع آزما آپ کے دروازے پر کھڑا ہوگا۔ اسی لیئے مشور ہ ہے کہ اپنا ہدف تنقید پاکستان کو نہ بنائیں بلکہ توپوں کا رخ مسائل کے حل کی جانب ہی رکھیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
افسوس یہ ہے کہ آج جو ٹی وی پر بیٹھ کر ملک کی مثبت حالت پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ماضی میں وہ بھی منفی رخ دنیا کے سامنے رکھا کرتے تھے کیونکہ تب حکومت ان کی نہیں تھی اور ماضی میں پاکستا ن کی ترقی کے قصیدے پڑھنے والے اب اس ارض پاک کو دنیا کا جاہل ترین ملک یا ناقابل رہائش جگہ قرار دینے پر تلے ہیں۔ بھائی ! اللہ کا واسطہ ہے آپ لوگ سیاست کریں لیکن ملک کی قیمت پر نہیں۔ یہی حال ہمارے لوگوں کا ہے کہ جس کے پسندیدہ لیڈر نے کوئی بات کہہ دی سو وہ پتھر پر لکیر بن گئی ۔ اب موصوف لیڈر نے کچھ غلط بھی کہا ہے تو اس کا دفاع کرنا ہے خواہ اس کیلئے کوئی جھوٹی دلیل ہی کیوں نہ دینی پڑے ۔ ان تمام باتوں کے باوجود ہم کہتے ہیں کہ ملک میں عدم برداشت کا کلچر پروان چڑھ رہا ہے۔ جمہوریت کو غیر ریاستی عناصر سے خطرہ ہے۔ ریاستی رٹ کہیں دکھائی نہیں دیتی ۔ پولیس، تعلیم، صحت، بلدیات، ریونیو سمیت ہر ادارہ کرپشن میں ڈوبا ہوا ہے ۔ ارے بھائی آپ ٹھیک کہتے ہیں لیکن ذرا منافقت سے نکلیں اور پاکستان کو اپنا ملک سمجھیں ۔ اسے اس قابل بنائیں کہ آپ کو اور آپ کے بچوں کو لندن یا امریکا سے علاج کرانے کے بجائے پاکستان کی کسی بھی تحصیل کے ہیڈ کوارٹرکے سرکاری اسپتال سے علاج کرانے پر کوئی عار محسوس نہ ہو تو پھر دیکھیں یہی جاہل لوگ کس طرح ریاستی رٹ قائم کرتے ہیں۔
پاکستان بیچارہ تو قائد اعظم کے بعد سے ہی پوری دنیا کیلئے آسان ہدف ہے۔ ہم خود اپنی اصلاح نہ کریں اور ایک دوسرے پر اسی طرح تنقید کرتے رہیں تاکہ اگلے الیکشن میں اُس جماعت کے بجائے ہماری جماعت کو حکومت مل جائے تو بخدا آپ جمہوریت جمہوریت کھیلتے رہیں اس سے آپ کے کلیجے کی آگ اس قدر تو ٹھنڈی ضرور ہوگی کہ آپ نے پاکستان میں جمہوریت کو فروغ دیکر امر کر دیا لیکن انسانیت آپ پر ہنس رہی ہوگی ۔ آج کل وطن عزیز میں سب سے اہم کام ٹاک شوز رہ گئے ہیں جہاں جاکر سیاسی جماعتیں اپنے گناہوں یا خو دپر لگنے والے الزامات کی تردید کرتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ وہ '' پوتر '' ہوگئی ہیں لیکن یقین جانیے عوام سب کچھ سمجھتے ہیں۔ جب تک آپ کے بچے یہاں کے پیلے اسکولوں میں نہیں پڑھیں گے اس وقت تک انقلابی آتے رہیں گے اور جمہوریت کیساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے رہیں گے اور آپ جیسے مضبوط جمہوریت کا نعرہ لگانے والے پھولے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ ان سے نمٹنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر ماڈل ٹاؤن جیسے سانحات کے ذمے دار قرار پاتے رہیں گے۔
خدارا۔۔ اب بھی وقت ہے منافقت چھوڑیں ۔ تمام سیاسی جماعتیں عوام کی خدمت کو شعار بنالیں ورنہ کل کو پھر کوئی طالع آزما آپ کے دروازے پر کھڑا ہوگا۔ اسی لیئے مشور ہ ہے کہ اپنا ہدف تنقید پاکستان کو نہ بنائیں بلکہ توپوں کا رخ مسائل کے حل کی جانب ہی رکھیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔