مزاحمتی سیاست
وہ اس بات کا ادراک رکھتا ہو کہ سب سے بگاڑ کر وہ اپنی سیاست کو آگے نہیں بڑھا سکتا
سیاسی محاذ پر ہمارے سیاست دان ہر وقت دھما چوکڑی مچائے رکھتے ہیں۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ 77 سال کے بعد بھی پاکستان میں جمہوریت پنپ نہیں سکی اور کوئی بھی جمہوری وزیر اعظم اپنے عہدے کی معیاد مکمل نہیں کر سکا۔ اس میں قصور کس کا ہے، اس سوال کا سادہ سا جواب ہمارے سیاست دانوں کے غیر جمہوری رویئے ہیں جو اپنے ہی ساتھی سیاستدانوں کو کامیاب ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے اور اپنی باری کے لیے انتخابات کا انتظار کرنے کے بجائے غیر جمہوری قوتوں کے آلہ کار بن جاتے ہیں۔
اگر کوئی سیاستدان اس بات کا گلہ کرتا ہے کہ پاکستان میں جمہوری ادوار کا دورانیہ فوجی حکومتوں سے کہیں کم رہا ہے تو یہ شکوہ انھیں اپنے آپ سے کرنا چاہیے جو کسی بھی سیاسی اور جمہوری حکومت کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں اپنا وزن ڈال دیتے ہیں ۔ پاکستان کے ماضی اور حال کے سیاسی منظر نامے پر بغور نظر ڈالی جائے تو اس میں حیران کن حد تک مماثلت نظر آئے گی جو سیاسی منظر نامہ آج سے کئی دہائیاں پہلے تھا وہی ہم آج بھی دیکھ رہے ہیں، سیاسی حمام میں سب ننگ دھڑنگ ہیں اور صرف اپنے مفاد کی سیاست کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔
عوام کے لیے ان کے پاس کھوکھلے نعروں کے سواکچھ نہیں ہے اور اس کا مشاہدہ عوام بخوبی کر چکے ہیں۔ عوام کو بے وقوف بنانے کی داغ بیل روٹی کپڑا اور مکان کے دل فریب نعرے سے ڈالی گئی ، پھرکہیں ملک سنوارو قرض اتار کا نعرہ لگا تو کہیں نئے پاکستان کا نعرہ مستانہ بلند کیا گیا۔ سب نے اپنا اپنا حصہ بقدر جسہ ضرور ڈالا ، لیکن اب صورتحال ان دلفریب نعروں سے آگے نکل گئی ہے اور عوام کوحقیقی زندگی میں روزی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔
حکومت کے ایوانوں میں معاشی بحران نے ہل چل مچا رکھی ہے اوروہ معیشت کی بحالی کا کوئی ٹھوس منصوبہ ابھی سامنے نہیں لا سکے ، اس پر مستزاد یہ کہ ملک میں امن و امان کی صورتحال روز بروز ابتری کی جانب بڑھ رہی ہے۔ ایک عام تاثر یہ ہے کہ شایدہماری حکومتیں اپنے فرائض سے پہلوتی کر رہی ہیں اوراس عدم توجہی اور سیاسی بے یقینی کی وجہ سے ملک دشمن عناصر کو اپنی مذموم کاروائیوں کا موقع میسر آگیا ہے ۔
معلوم نہیں وہ وقت کب آئے گا جب اس نازک صورتحال کا خاتمہ ہوگا اور ہماری سمت میں کوئی نازک موڑ نہیں آئے گا۔ ملک کوان نازک موڑوں سے بچانے کی ذمے داری سیاست دانوں پر عائد ہوتی ہے لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ یہ آپس میں ہی دست وگریباں رہتے ہیں۔ ایک زیرک سیاستدان کبھی بھی جمہود کی سیاست نہیں کرتا اس کے موقف میں حالات کے مطابق تبدیلی وقت کی ضرورت بن جاتی ہے اور ایک اچھا سیاست دان وہی کہلاتا ہے جس میں لچک ہو اور وہ حالات کے مطابق ملک وقوم کے مفاد میں اپنا حصہ ڈال سکے۔
وہ اس بات کا ادراک رکھتا ہو کہ سب سے بگاڑ کر وہ اپنی سیاست کو آگے نہیں بڑھا سکتا۔ ہمارے ملک کی جمہوری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ متعدد مواقع پر جمہوری رہنماؤں نے اپنی مفاد پرست سیاست کی وجہ سے ملک کو فائدہ ہونے کے بجائے نقصان زیادہ ہوا ہے۔ آج کی سیاست میں مفاہمت کے بادشاہ گر جناب آصف علی زرداری ایک بار پھر میدان میں ہیں انھوں نے سب سے پہلے ایوان صدر سے نکل کر مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کی ہے اور انھیں تسبیح اور ٹوپی کا نہیں بلکہ بندوق کا تحفہ دیا ہے۔
مولانا فضل الرحمن حکومت سے ناراض ہیں اور انھوں نے اپنی سیاسی بندوقوں کا رخ حکومت کی جانب کر رکھا ہے لیکن اسی حکومت کے منصب جلیلہ پر فائز جناب زرداری نے انھیں بندوق کا تحفہ دیا ہے، اس میں کیا حکمت ہے، اس کا علم بھی جناب آصف زرداری کو ہے یا حضرت مولانا کو ہے۔ میاں نوازشریف آج کل خاموش ہیں اور تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو والامعاملہ اپنائے ہوئے ہیں ان کی سیاست کی خواہش شاید کہیں دب گئی ہے لیکن جب بھی ان کو موقع ملتا ہے وہ دبے لفظوں میں مجھے کیوں نکالا کی گردان کرتے سنائی دیتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے بانی عمران خان جیل میں ہیں لیکن ان کے گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے انداز سیاست جس میں کبھی تو انتہائی درجے کی مزاحمت نظر آتی ہے تو کبھی وہ مفاہمت کے گن گاتے نظر آتے ہیں۔حال میں ان کی پارٹی کی جانب سے اعلان کردہ جلسے کی منسوخی کو عمران خان کا مفاہمتی سیاست کی جانب ایک مثبت قدم قرار دیا جارہا ہے دیکھتے ہیں کہ یہ بیل کب اور کہاں تک منڈھے چڑھتی ہے اور مقتدرہ کے ہاں اسے کیا قبولیت ملتی ہے ۔ ہماری 77 برس کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ پاکستان میں مفاہمتی سیاست ہی کامیاب سیاست ہے اور جس نے بھی مزاحمتی سیاست کو پروان چڑھانے کی کوشش کی وہ اپنے انجام کو پہنچ گیا۔
اگر کوئی سیاستدان اس بات کا گلہ کرتا ہے کہ پاکستان میں جمہوری ادوار کا دورانیہ فوجی حکومتوں سے کہیں کم رہا ہے تو یہ شکوہ انھیں اپنے آپ سے کرنا چاہیے جو کسی بھی سیاسی اور جمہوری حکومت کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں اپنا وزن ڈال دیتے ہیں ۔ پاکستان کے ماضی اور حال کے سیاسی منظر نامے پر بغور نظر ڈالی جائے تو اس میں حیران کن حد تک مماثلت نظر آئے گی جو سیاسی منظر نامہ آج سے کئی دہائیاں پہلے تھا وہی ہم آج بھی دیکھ رہے ہیں، سیاسی حمام میں سب ننگ دھڑنگ ہیں اور صرف اپنے مفاد کی سیاست کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔
عوام کے لیے ان کے پاس کھوکھلے نعروں کے سواکچھ نہیں ہے اور اس کا مشاہدہ عوام بخوبی کر چکے ہیں۔ عوام کو بے وقوف بنانے کی داغ بیل روٹی کپڑا اور مکان کے دل فریب نعرے سے ڈالی گئی ، پھرکہیں ملک سنوارو قرض اتار کا نعرہ لگا تو کہیں نئے پاکستان کا نعرہ مستانہ بلند کیا گیا۔ سب نے اپنا اپنا حصہ بقدر جسہ ضرور ڈالا ، لیکن اب صورتحال ان دلفریب نعروں سے آگے نکل گئی ہے اور عوام کوحقیقی زندگی میں روزی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔
حکومت کے ایوانوں میں معاشی بحران نے ہل چل مچا رکھی ہے اوروہ معیشت کی بحالی کا کوئی ٹھوس منصوبہ ابھی سامنے نہیں لا سکے ، اس پر مستزاد یہ کہ ملک میں امن و امان کی صورتحال روز بروز ابتری کی جانب بڑھ رہی ہے۔ ایک عام تاثر یہ ہے کہ شایدہماری حکومتیں اپنے فرائض سے پہلوتی کر رہی ہیں اوراس عدم توجہی اور سیاسی بے یقینی کی وجہ سے ملک دشمن عناصر کو اپنی مذموم کاروائیوں کا موقع میسر آگیا ہے ۔
معلوم نہیں وہ وقت کب آئے گا جب اس نازک صورتحال کا خاتمہ ہوگا اور ہماری سمت میں کوئی نازک موڑ نہیں آئے گا۔ ملک کوان نازک موڑوں سے بچانے کی ذمے داری سیاست دانوں پر عائد ہوتی ہے لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ یہ آپس میں ہی دست وگریباں رہتے ہیں۔ ایک زیرک سیاستدان کبھی بھی جمہود کی سیاست نہیں کرتا اس کے موقف میں حالات کے مطابق تبدیلی وقت کی ضرورت بن جاتی ہے اور ایک اچھا سیاست دان وہی کہلاتا ہے جس میں لچک ہو اور وہ حالات کے مطابق ملک وقوم کے مفاد میں اپنا حصہ ڈال سکے۔
وہ اس بات کا ادراک رکھتا ہو کہ سب سے بگاڑ کر وہ اپنی سیاست کو آگے نہیں بڑھا سکتا۔ ہمارے ملک کی جمہوری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ متعدد مواقع پر جمہوری رہنماؤں نے اپنی مفاد پرست سیاست کی وجہ سے ملک کو فائدہ ہونے کے بجائے نقصان زیادہ ہوا ہے۔ آج کی سیاست میں مفاہمت کے بادشاہ گر جناب آصف علی زرداری ایک بار پھر میدان میں ہیں انھوں نے سب سے پہلے ایوان صدر سے نکل کر مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کی ہے اور انھیں تسبیح اور ٹوپی کا نہیں بلکہ بندوق کا تحفہ دیا ہے۔
مولانا فضل الرحمن حکومت سے ناراض ہیں اور انھوں نے اپنی سیاسی بندوقوں کا رخ حکومت کی جانب کر رکھا ہے لیکن اسی حکومت کے منصب جلیلہ پر فائز جناب زرداری نے انھیں بندوق کا تحفہ دیا ہے، اس میں کیا حکمت ہے، اس کا علم بھی جناب آصف زرداری کو ہے یا حضرت مولانا کو ہے۔ میاں نوازشریف آج کل خاموش ہیں اور تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو والامعاملہ اپنائے ہوئے ہیں ان کی سیاست کی خواہش شاید کہیں دب گئی ہے لیکن جب بھی ان کو موقع ملتا ہے وہ دبے لفظوں میں مجھے کیوں نکالا کی گردان کرتے سنائی دیتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے بانی عمران خان جیل میں ہیں لیکن ان کے گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے انداز سیاست جس میں کبھی تو انتہائی درجے کی مزاحمت نظر آتی ہے تو کبھی وہ مفاہمت کے گن گاتے نظر آتے ہیں۔حال میں ان کی پارٹی کی جانب سے اعلان کردہ جلسے کی منسوخی کو عمران خان کا مفاہمتی سیاست کی جانب ایک مثبت قدم قرار دیا جارہا ہے دیکھتے ہیں کہ یہ بیل کب اور کہاں تک منڈھے چڑھتی ہے اور مقتدرہ کے ہاں اسے کیا قبولیت ملتی ہے ۔ ہماری 77 برس کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ پاکستان میں مفاہمتی سیاست ہی کامیاب سیاست ہے اور جس نے بھی مزاحمتی سیاست کو پروان چڑھانے کی کوشش کی وہ اپنے انجام کو پہنچ گیا۔