عورت دشمنی کا رویہ

پاکستان کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح خواتین کی مردوں کے برابر حیثیت پر یقین رکھتے تھے

tauceeph@gmail.com

Sexual harassment is a form of sexual violence and a violation of human rights. It can take many forms, including:1. Verbal harassment: unwelcome comments, jokes, or gestures2. Physical harassment: unwanted touching, grabbing, or assault3. Visual harassment: displaying explicit images or videos4. Cyber harassment: online stalking, messaging, or sharing explicit contentSexual harassment can occur in various settings, such as:1. Workplace 2.Educational institutions۔

جنسی ہراسگی کی یہ مسلمہ تعریف ہے۔

تحریک انصاف کے قومی اسمبلی کے رکن اقبال آفریدی نے قومی اسمبلی کی توانائی کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں کے الیکٹرک کی کارکردگی کا تنقیدی جائزہ لینے کے بجائے کمپنی کی اعلیٰ خاتون افسر کے لباس پر اعتراضات شروع کر دیے۔ موصوف نے فرمایا کہ خواتین کے لباس کے لیے بھی Standard Operating Procedures (SOPs) نافذ ہونے چاہئیں۔

قائمہ کمیٹی کے چیئرمین نے ایم این اے موصوف کے ریمارکس پر معزز خاتون سے معذرت کی مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ اس خاتون افسر نے جو بریفنگ دی تھی، اس کے بارے میں اقبال آفریدی نے کچھ نہیں کہا۔ کیا ایم این صاحب کی یہ حرکت ہراسمنٹ کے زمرے میں نہیں آتی۔ پیپلزپارٹی کی رہنما سینیٹر شیری رحمن نے اس رویے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے جنسی ہراسگی کی کوشش قرار دیا ہے۔ سینیٹر شیری رحمن کا کہنا تھا کہ خاتون اعلیٰ افسر نے یہ مقام اپنی اعلیٰ تعلیم اور محنت کی بناء پر حاصل کیا ہے اور فاضل رکن اسمبلی نے اس خاتون افسر کی بریفنگ میں بتائے معاملات پر تو کوئی اعتراض نہیں کیا۔


وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بھی اقبال آفریدی کے رویے کی مذمت کی۔ اب قومی اسمبلی کے اسپیکر نے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے اراکین اسمبلی پر مشتمل کمیٹی قائم کردی ہے، مگر اس سارے معاملے میں تحریک انصاف کی قیادت اور پارلیمنٹرینز پراسرار خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ حتیٰ کہ تحریک انصاف کی خواتین پارلیمنٹیرنز بھی مسلسل خاموش ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی سحر کامران نے اس رویے کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ '' یہ بات صرف لباس کی نہیں ہے بلکہ ذہنیت کی ہے۔ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی کے لباس پر اعتراض کرے۔''

برصغیر ہندوستان میں دو صدی قبل جدید تعلیم کا تصور آیا۔ راجہ رام موہن رائے پہلے ریفامر تھے جنھوں نے ہندوؤں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آگہی کی مہم چلائی۔ راجہ موہن رائے کے انتقال کے 50 سال بعد سرسید احمد خان نے مسلمانوں کو تعلیم کی طرف راغب کیا۔ گزشتہ صدی کے اوائل میں مسلمان ریفارمر شیخ عبداللہ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں خواتین کے اسکول کی بنیاد رکھی۔ پاکستان کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح خواتین کی مردوں کے برابر حیثیت پر یقین رکھتے تھے، جب انگریز سرکار نے کم سن لڑکیوں کی شادی پر پابندی لگائی تو جناح صاحب پہلے ہندوستانی رہنما تھے جنھوں نے اس قانون کی حمایت کی۔ انھوں نے رتی سے شادی کے لیے مقدمہ لڑا۔ رتی جناح نے یہ مقدمہ اپنی مرضی سے شادی کے حق کے لیے لڑا تھا۔ ہائی کورٹ کی تاریخ میں پہلی دفعہ Free Will کے حق میں فیصلہ دیا گیا۔

رتی جناح اپنے وقت کے فیشن کے مطابق لباس زیب تن کیا کرتی تھیں۔ معروف امریکی تاریخ دان Staley Walpertنے اپنی کتاب Jinnah of Pakistanمیں لکھا ہے کہ بمبئی کے گورنر کی دعوت میں بیرسٹر جناح اور رتی جناح مدعو تھے۔ رتی جناح نے لانگ اسکرٹ پہنی ہوئی تھی۔ حالانکہ انگریز اشرافیہ کی خواتین پسند نہیں کرتی تھیں کہ ہندوستانی خواتین ان جیسا ماڈرن اورجدید لباس پہنیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح اپنی مرضی کا لباس پہنی تھیں۔ پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی اہلیہ رعنا لیاقت علی خان بھی خوش لباسی کے لیے جانی جاتی تھیں۔ تحریک انصاف عجب قسم کی سیاسی جماعت ہے۔ اس جماعت میں ایک طرف الٹرا ماڈرن خواتین شامل ہیں، ان میں سے کچھ تو فیشن ڈیزائننگ کے شعبہ میں خاصی معروف ہیں۔

عمران خان بقول ان کے، وہ ایک زمانے میں پلے بوائے تھے، وہ پاکستان، بھارت اور برطانیہ کی سوشلائٹ طبقے کی خواتین میں مقبول رہے۔ جب تحریک انصاف کی بنیاد رکھی گئی تو ماڈرن خواتین کی بڑی تعداد تحریک انصاف میں شامل ہوئی۔ عمران خان کے سیاسی و نظریاتی اتالیق جنرل گل حمید مرحوم تھے، اسی لیے موصوف نے ہمیشہ طالبان کی حمایت کی۔ جب طالبان کی حکومت نے افغانستان میں خواتین سے تعلیم کا حق چھینا اور پوری دنیا میں افغان حکومت کے رویے کی مذمت ہوئی تو موصوف نے فرمایا تھا کہ '' یہ پشتون کلچر ہے۔'' عمران خان کو خیبر پختون خوا کی پشتو بیلٹ میں مقبولیت حاصل ہوئی ۔ تحریک انصاف نے عام انتخابات میں طالبان کے مفادات اور سیاسی نظریے کے حامی اراکین کو ٹکٹ دیے۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے افغانستان کی حکومت سے معاہدہ کیا اور سیکڑوں مسلح افراد کو سابقہ قبائلی علاقوں میں آباد کیا۔

دراصل یہ رویہ عورت دشمنی (Misgyny) کہلاتا ہے ۔ اور یہ ذہنیت پدرانہ Patriacy System سے منسلک ہے جس میں مرد کی آمریت ہوتی ہے۔ عورت کا کام خدمت کرنا اور اپنے خاوند یا آقاکی جنسی خواہشات کو پورا کرنا ہوتا ہے۔ اس نظام کی سب سے بڑی خامی اور نقص یہ ہے کہ اس میں عورت کو اپنی مرضی کا لباس پہننے، اپنی مرضی کی تعلیم حاصل کرنے اور روزگار کا حق حاصل نہیں ہوتا۔ تاریخ شاہد ہے کہ پدرسری نظام نے غربت ، غلامی، عورتوں اور بچوں کے استحصال اور انھیں قتل کرنے کے سوا کچھ نہیں دیا۔ پدرانہ معاشرے میں ترقی کی رفتار انتہائی سست ہوتی ہے۔ جدید نظام میں خواتین کو مردوں کے برابر حقوق اور زندگی کے ہر شعبے میں خواتین کی شرکت سے غربت ختم ہوتی ہے اور ترقی کا عمل تیز ہوتا ہے۔
Load Next Story