تحریک آزادی ہند کا ایک ہیرو اور ایک سبق
ان قربانیوں اور جدوجہد کی وجہ سے انگریز سامراج کو ہندوستان سے اپنے اقتدار کو سمیٹنا پڑا
جس طرح مفاد پرست عناصر نے تحریک پاکستان کی تاریخ کو جھوٹ کی ملاوٹ سے بھر دیا ہے، اسی طرح انگریز سامراج سے آزادی کی تاریخ کو بھی مسخ کردیا گیا ہے۔ ہماری تاریخ تو چند کرداروں اور واقعات تک محدود کردی گی ہے۔ مثلاً برصغیر میں ہندوؤں کے لیڈر گاندھی ، نہرو اور پٹیل تھے جب کہ مسلمانوں کے لیڈر سر محمد اقبال، محمدعلی جناح 'لیاقت علی خان یا چند اور مسلم لیگی رہنما تھے۔
ان رہنماؤں نے تن تنہا انگریزوں کو ہندوستان سے بھگایا، یوں پاکستان اور ہندوستان آزاد ملک بن گئے۔ حالانکہ انگریز سامراج کے خلاف سیاسی و جمہوری جدوجہد کئی اور جماعتیں اور تنظمیں بھی کررہی تھیں۔ انگریز سامراج کے خلاف تحریک آزادی میں تمام مکاتب فکر، مذاہب کے پیروکاروں نے حصہ لیا تھا۔ تحریک آزادی کے دوران ہزاروں مقامی فوجیوں،حریت پسندوں، سیاسی کارکنوں نے جانیں دی تھیں، کئی انقلابی رہنماؤں کو پھانسی پر لٹکایا گیا تھا۔
ان قربانیوں اور جدوجہد کی وجہ سے انگریز سامراج کو ہندوستان سے اپنے اقتدار کو سمیٹنا پڑا۔ تقیسم ہند کے بعد بھارت میں کانگریس اور پاکستان میں مسلم لیگ کو اقتدار ملا، لہٰذا دونوں ملکوں میں ان جماعتوں کی قیادت میں قائم حکومتوں نے اپنی اپنی مرضی کی تاریخ لکھوائی ، اس تاریخ میں انگریز نواز لیڈروں کی ذہانت، تدبر، دوراندیشی اور بہادری کے مصنوعی قصے شامل کر دیے گئے ہیں جب کہ ان جماعتوں، لیڈروں اور کارکنوں کا ذکر ہی نہیں کیا گیا جنھوں نے انگریز سامراج کے خلاف عملی لڑائی لڑی لیکن وہ کانگریس اور مسلم لیگ کی قیادت کی طرز سیاست سے اختلاف رکھتے تھے ۔
ان میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، خدائی خدمت گار یعنی سرخ پوش تحریک، کرانتی دل 'غدر پارٹی 'جلیانوالہ باغ کے شہدا کمیٹی 'اکالی دل ، خاکسار تحریک ،مجلس احرار ، جمعیت علمعائے ہند اور سبھاش چندر بوس کی آزاد ہند فوج نمایاں تھے ، دونوں ملکوں کی حکومتوں نے ان تحریکوں اور ان کے رہنماؤں کی جدوجہد کو نظر انداز کر کے تحریک آزادی کی تاریخ کو مسخ کردیا ہے ۔ آئیے آج تحریک آزادی کے ایک عظیم انقلابی رہنماء کی کہانی پڑھتے ہیں۔
بھگت سنگھ برصغیر کی جنگ آزادی کا ایک نامور فریڈم فائٹر ہے۔ 27ستمبر بھگت سنگھ کا یوم پیدائش اور 23مارچ کو انگریزی حکومت نے انھیں سولی پر لٹکایا۔ اس کے ساتھیوں سکھ دیو اور راج گرو کو بھی سزائے موت دی گئی تھی۔۔ بھگت سنگھ برصغیر پاک وہندکی تاریخ کی سچائی اور حقیقت ہے۔ اس کا سیاسی و معاشی نظریہ قبائلی و جاگیردارانہ سماج کا خاتمہ، انگریزی راج کا خاتمہ ' جیو اور جینے دو کے اصول پر سماج کی تعمیرکرنا، معاشی مساوات کی بنیاد پر استوار ترقی یافتہ سماج کی تشکیل کرنا تھا۔اپنی تنظیم کا نام ''سوشلسٹ ریپبلک آرمی''رکھنے والا بائیں بازو کا یہ انقلابی کارکن اور اس کے ساتھی مزدور کسان اور دیگر پسے ہوئے طبقات کو سیاسی اور سماجی ارتقاء کا شعور دینا تھا۔ یہاں تک کہ اس کی اور اس کے ساتھیوں کی موت آج بھی حریت کے ایک استعارے کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔
بھگت سنگھ کا گاؤں 66 گ ب بنگا (جڑانوالہ) ضلع لائل پور( فیصل آباد) ہے، جہاں وہ پیدا ہوا اور پرائمری تک تعلیم حاصل کی 'اس کے والد کشن سنگھ اور چاچا اجیت سنگھ کا تعلق غدر پارٹی سے تھا۔ 1929/30کے لاہور سازش کیس کے مقدمے نے جوشہرت حاصل کی تھی،اس کی مثال نہیں ملتی ۔جس دن اسمبلی میں بم پھینکا گیا، اس دن سے لے کر بھگت سنگھ 'راج گرو اور سکھ دیو کی پھانسی تک سارے ہندوستان کی توجہ اس مقدمے پر جمی رہی۔بھگت سنگھ پنجاب میں انقلابی تحریک کے روح و رواں تھے اور انھوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ''نوجوان بھارت سبھا''قائم کی تھی۔ یہ انقلابی نوجوانوں کی جماعت تھی،جو عملی جدوجہد کے ذریعے انگریری سامراج سے آزادی حاصل کرنا چاہتے تھے۔
نومبر 1928میںلاہور کے ASP سانڈرس پر جس نے لاہور میں مظاہرہ کرنے والوں پر لاٹھیاں چلوائی تھیں، پولیس ہیڈ کوارٹر کے سامنے حملہ کیا گیا اور اسے قتل کردیا گیا، اس حملے اور اس انگریز افسر کی موت سے انگریز حکومت کو سخت دھجکا لگا۔ ایک دن مرکزی اسمبلی میں مزدوروں کے متعلق ایک بل پاس ہونے کے بعد بم دھماکا ہوا۔بھگت سنگھ 'راج گرو اور سکھدیو موقع پرگرفتار کر لیے گئے۔ پانچ ماہ تک مقدمے چلنے کے بعد انگریز سامراج کی عدالت نے اکتوبر 1930 میں اپنا فیصلہ سنا دیا۔ بھگت سنگھ 'راج گرو اور سکھ دیو کو پھانسی کی سزا دی گئی۔ سات افراد کو عمر قید اور باقی کو لمبی لمبی سزائیں دی گئیں۔ پھانسی کے بعد بھگت سنگھ 'راج گرو اور سکھ دیو کی لاشوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے بھوسے کی بوریوں میں بھرا گیا ،ان بوریوں کو فیروز پور لے جاکر چتا میں جلایا گیا یا دریا برد کیا گیا ،کچھ پتہ نہیں لگا ۔ چے گویرا اور بھگت سنگھ دو ایسے انقلابی تھے جن کی لاشوں کا کچھ پتہ نہیں لگا اور نہ ہی کوئی رسومات ہوئیں۔
اب ایک تاریخی واقعہ جو مجھے محترم پروفیسر سرور صاحب نے سنایا۔میں کسی کام کے سلسلے میں لاہور گیا تھا اور وہاں پر شادمان کالونی میں پروفیسر صاحب کے ہاں قیام تھا۔ ان کا گھر شادمان کے مرکزی چوک کے سامنے تھا اور یہ چوک ڈرائنگ روم کی کھڑکی سے نظر آرہا تھا۔ پروفیسر سرور صاحب نے بتایا کہ کیمپ جیل اچھرہ سے شادمان تک پھیلا ہوئی تھی۔ بعد میں اس جیل کو چھوٹا کرکے یہاں پر شادمان کی بستی تعمیر کی گئی۔پرانی جیل میں پھانسی گھاٹ اسی شادمان چوک میں تھا۔ جب بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کو پھانسی دینے کا وقت آیا تو قانون کے مطابق سپرنٹنڈنٹ جیل کی تحریری اجازت اورموجودگی کے بغیر پھانسی نہیں دی جا سکتی تھی۔ اس وقت کے سپرنٹنڈنٹ جیل ڈاکٹر سوندھی نے پروانہ موت پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا،ان کو ملازمت سے برطرف کردیا گیا اور ان کی جگہ محمد احمد خان نامی افسر کو تعینات کیا گیا۔ بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کو ان کی نگرانی میں پھانسی دی گئی۔ اس افسر کو بعد میں نواب کا خطاب دے کر آنریری مجسٹریٹ بنا دیا گیا تھا۔
بھگت سنگھ اور ان کے ساتھی ہندوستان میں سوشلسٹ انقلاب کے داعی تھے۔ وہ انگریزوں کو ملک سے نکال کر محنت کشوں کا پنچائتی نظام قائم کرنا چائتے تھے تاکہ استحصالی طبقوں کی لوٹ مار ختم ہو، دولت پیدا کرنے کے تمام ذرایع زمین'فیکٹریاں' ملیں اوربینک وغیرہ قومی ملکیت بن جائیںاور ہر ورکر اور افسر کو اس کی محنت کا پورا معاوضہ ملے۔
یہ نظریہ بہت اچھا ہے لیکن اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مہم جوئی اور دہشت گردی کا راستہ اختیار کرنا غلط تھا اور اب بھی غلط ہے۔ محنت کشوں کا راج مار دھاڑ، قتل وغارت ، بم دھماکوں اور دہشت گردی سے نہیں آسکتا بلکہ اس کے لیے پرامن سیاسی وسماجی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ سماجی انقلاب کی پہلی شرط یہ ہے کہ محنت کشوں اور ان کے حلیفوں کی جدوجہد کو طبقاتی بنیادوں پر آگے بڑھایا جائے، انھیں سیاسی طور پر منظم کیا جائے۔ درمیانے طبقے کے نوجوان، خواہ ان میں کتنی ہی لگن، دلیری اور ذہانت کیوں نہ ہو، وہ تن تنہا انقلاب نہیں لاسکتے ۔ مسلح جدوجہد کے پرچارکوں کی بنیادی غلطی یہی تھی کہ وہ عوامی تحریکوں سے الگ تھلگ رہ کر یہ سمجھتے تھے کہ اکّا دکّاانگریز افسروں پر بم پھینک کر وہ برطانوی سامراج کو مفلوج کردیں گے اور وہ بوریا بستر باندھ ہندوستان سے بھاگ جائے گا، یہ ایک خواب اور سراب کے سوا کچھ نہیں ہے۔
سیکیورٹی افسروں، اہلکاروں،انگریز کے حامیوں کے قتل سے نہ ریاست گھبراتی ہے اور نہ عوام اسے اچھا سمجھتے ہیں۔ایک روسی زار مارا جاتا ہے تو دوسرا زار تخت پر بیٹھ جاتا ہے۔ایک سانڈرس ہلاک ہوتا ہے تو دوسرا سانڈرس آ موجود ہوتا ہے۔یہی غلطی آج کل طالبان اور بلوچستان کے علیحدگی پسند کر رہے ہیں جو چند دھماکوں، سیکیورٹی اہلکاروں اور بے گناہ مزدوروں کو قتل کرنے کے بعد یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح پاکستان کی ریاست اور اس کے ادارے مفلوج ہوجائیں ، یہ ان کی فاش غلطی ہے۔ان کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ بموں دھماکوں اور خود کش حملوں سے پاکستان کی آرمڈ فورسز اور پولیس کو ڈرایا نہیں جاسکتااور ریاستی اداروں کو مفلوج کیا جاسکتا ہے۔
ان رہنماؤں نے تن تنہا انگریزوں کو ہندوستان سے بھگایا، یوں پاکستان اور ہندوستان آزاد ملک بن گئے۔ حالانکہ انگریز سامراج کے خلاف سیاسی و جمہوری جدوجہد کئی اور جماعتیں اور تنظمیں بھی کررہی تھیں۔ انگریز سامراج کے خلاف تحریک آزادی میں تمام مکاتب فکر، مذاہب کے پیروکاروں نے حصہ لیا تھا۔ تحریک آزادی کے دوران ہزاروں مقامی فوجیوں،حریت پسندوں، سیاسی کارکنوں نے جانیں دی تھیں، کئی انقلابی رہنماؤں کو پھانسی پر لٹکایا گیا تھا۔
ان قربانیوں اور جدوجہد کی وجہ سے انگریز سامراج کو ہندوستان سے اپنے اقتدار کو سمیٹنا پڑا۔ تقیسم ہند کے بعد بھارت میں کانگریس اور پاکستان میں مسلم لیگ کو اقتدار ملا، لہٰذا دونوں ملکوں میں ان جماعتوں کی قیادت میں قائم حکومتوں نے اپنی اپنی مرضی کی تاریخ لکھوائی ، اس تاریخ میں انگریز نواز لیڈروں کی ذہانت، تدبر، دوراندیشی اور بہادری کے مصنوعی قصے شامل کر دیے گئے ہیں جب کہ ان جماعتوں، لیڈروں اور کارکنوں کا ذکر ہی نہیں کیا گیا جنھوں نے انگریز سامراج کے خلاف عملی لڑائی لڑی لیکن وہ کانگریس اور مسلم لیگ کی قیادت کی طرز سیاست سے اختلاف رکھتے تھے ۔
ان میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، خدائی خدمت گار یعنی سرخ پوش تحریک، کرانتی دل 'غدر پارٹی 'جلیانوالہ باغ کے شہدا کمیٹی 'اکالی دل ، خاکسار تحریک ،مجلس احرار ، جمعیت علمعائے ہند اور سبھاش چندر بوس کی آزاد ہند فوج نمایاں تھے ، دونوں ملکوں کی حکومتوں نے ان تحریکوں اور ان کے رہنماؤں کی جدوجہد کو نظر انداز کر کے تحریک آزادی کی تاریخ کو مسخ کردیا ہے ۔ آئیے آج تحریک آزادی کے ایک عظیم انقلابی رہنماء کی کہانی پڑھتے ہیں۔
بھگت سنگھ برصغیر کی جنگ آزادی کا ایک نامور فریڈم فائٹر ہے۔ 27ستمبر بھگت سنگھ کا یوم پیدائش اور 23مارچ کو انگریزی حکومت نے انھیں سولی پر لٹکایا۔ اس کے ساتھیوں سکھ دیو اور راج گرو کو بھی سزائے موت دی گئی تھی۔۔ بھگت سنگھ برصغیر پاک وہندکی تاریخ کی سچائی اور حقیقت ہے۔ اس کا سیاسی و معاشی نظریہ قبائلی و جاگیردارانہ سماج کا خاتمہ، انگریزی راج کا خاتمہ ' جیو اور جینے دو کے اصول پر سماج کی تعمیرکرنا، معاشی مساوات کی بنیاد پر استوار ترقی یافتہ سماج کی تشکیل کرنا تھا۔اپنی تنظیم کا نام ''سوشلسٹ ریپبلک آرمی''رکھنے والا بائیں بازو کا یہ انقلابی کارکن اور اس کے ساتھی مزدور کسان اور دیگر پسے ہوئے طبقات کو سیاسی اور سماجی ارتقاء کا شعور دینا تھا۔ یہاں تک کہ اس کی اور اس کے ساتھیوں کی موت آج بھی حریت کے ایک استعارے کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔
بھگت سنگھ کا گاؤں 66 گ ب بنگا (جڑانوالہ) ضلع لائل پور( فیصل آباد) ہے، جہاں وہ پیدا ہوا اور پرائمری تک تعلیم حاصل کی 'اس کے والد کشن سنگھ اور چاچا اجیت سنگھ کا تعلق غدر پارٹی سے تھا۔ 1929/30کے لاہور سازش کیس کے مقدمے نے جوشہرت حاصل کی تھی،اس کی مثال نہیں ملتی ۔جس دن اسمبلی میں بم پھینکا گیا، اس دن سے لے کر بھگت سنگھ 'راج گرو اور سکھ دیو کی پھانسی تک سارے ہندوستان کی توجہ اس مقدمے پر جمی رہی۔بھگت سنگھ پنجاب میں انقلابی تحریک کے روح و رواں تھے اور انھوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ''نوجوان بھارت سبھا''قائم کی تھی۔ یہ انقلابی نوجوانوں کی جماعت تھی،جو عملی جدوجہد کے ذریعے انگریری سامراج سے آزادی حاصل کرنا چاہتے تھے۔
نومبر 1928میںلاہور کے ASP سانڈرس پر جس نے لاہور میں مظاہرہ کرنے والوں پر لاٹھیاں چلوائی تھیں، پولیس ہیڈ کوارٹر کے سامنے حملہ کیا گیا اور اسے قتل کردیا گیا، اس حملے اور اس انگریز افسر کی موت سے انگریز حکومت کو سخت دھجکا لگا۔ ایک دن مرکزی اسمبلی میں مزدوروں کے متعلق ایک بل پاس ہونے کے بعد بم دھماکا ہوا۔بھگت سنگھ 'راج گرو اور سکھدیو موقع پرگرفتار کر لیے گئے۔ پانچ ماہ تک مقدمے چلنے کے بعد انگریز سامراج کی عدالت نے اکتوبر 1930 میں اپنا فیصلہ سنا دیا۔ بھگت سنگھ 'راج گرو اور سکھ دیو کو پھانسی کی سزا دی گئی۔ سات افراد کو عمر قید اور باقی کو لمبی لمبی سزائیں دی گئیں۔ پھانسی کے بعد بھگت سنگھ 'راج گرو اور سکھ دیو کی لاشوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے بھوسے کی بوریوں میں بھرا گیا ،ان بوریوں کو فیروز پور لے جاکر چتا میں جلایا گیا یا دریا برد کیا گیا ،کچھ پتہ نہیں لگا ۔ چے گویرا اور بھگت سنگھ دو ایسے انقلابی تھے جن کی لاشوں کا کچھ پتہ نہیں لگا اور نہ ہی کوئی رسومات ہوئیں۔
اب ایک تاریخی واقعہ جو مجھے محترم پروفیسر سرور صاحب نے سنایا۔میں کسی کام کے سلسلے میں لاہور گیا تھا اور وہاں پر شادمان کالونی میں پروفیسر صاحب کے ہاں قیام تھا۔ ان کا گھر شادمان کے مرکزی چوک کے سامنے تھا اور یہ چوک ڈرائنگ روم کی کھڑکی سے نظر آرہا تھا۔ پروفیسر سرور صاحب نے بتایا کہ کیمپ جیل اچھرہ سے شادمان تک پھیلا ہوئی تھی۔ بعد میں اس جیل کو چھوٹا کرکے یہاں پر شادمان کی بستی تعمیر کی گئی۔پرانی جیل میں پھانسی گھاٹ اسی شادمان چوک میں تھا۔ جب بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کو پھانسی دینے کا وقت آیا تو قانون کے مطابق سپرنٹنڈنٹ جیل کی تحریری اجازت اورموجودگی کے بغیر پھانسی نہیں دی جا سکتی تھی۔ اس وقت کے سپرنٹنڈنٹ جیل ڈاکٹر سوندھی نے پروانہ موت پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا،ان کو ملازمت سے برطرف کردیا گیا اور ان کی جگہ محمد احمد خان نامی افسر کو تعینات کیا گیا۔ بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کو ان کی نگرانی میں پھانسی دی گئی۔ اس افسر کو بعد میں نواب کا خطاب دے کر آنریری مجسٹریٹ بنا دیا گیا تھا۔
بھگت سنگھ اور ان کے ساتھی ہندوستان میں سوشلسٹ انقلاب کے داعی تھے۔ وہ انگریزوں کو ملک سے نکال کر محنت کشوں کا پنچائتی نظام قائم کرنا چائتے تھے تاکہ استحصالی طبقوں کی لوٹ مار ختم ہو، دولت پیدا کرنے کے تمام ذرایع زمین'فیکٹریاں' ملیں اوربینک وغیرہ قومی ملکیت بن جائیںاور ہر ورکر اور افسر کو اس کی محنت کا پورا معاوضہ ملے۔
یہ نظریہ بہت اچھا ہے لیکن اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مہم جوئی اور دہشت گردی کا راستہ اختیار کرنا غلط تھا اور اب بھی غلط ہے۔ محنت کشوں کا راج مار دھاڑ، قتل وغارت ، بم دھماکوں اور دہشت گردی سے نہیں آسکتا بلکہ اس کے لیے پرامن سیاسی وسماجی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ سماجی انقلاب کی پہلی شرط یہ ہے کہ محنت کشوں اور ان کے حلیفوں کی جدوجہد کو طبقاتی بنیادوں پر آگے بڑھایا جائے، انھیں سیاسی طور پر منظم کیا جائے۔ درمیانے طبقے کے نوجوان، خواہ ان میں کتنی ہی لگن، دلیری اور ذہانت کیوں نہ ہو، وہ تن تنہا انقلاب نہیں لاسکتے ۔ مسلح جدوجہد کے پرچارکوں کی بنیادی غلطی یہی تھی کہ وہ عوامی تحریکوں سے الگ تھلگ رہ کر یہ سمجھتے تھے کہ اکّا دکّاانگریز افسروں پر بم پھینک کر وہ برطانوی سامراج کو مفلوج کردیں گے اور وہ بوریا بستر باندھ ہندوستان سے بھاگ جائے گا، یہ ایک خواب اور سراب کے سوا کچھ نہیں ہے۔
سیکیورٹی افسروں، اہلکاروں،انگریز کے حامیوں کے قتل سے نہ ریاست گھبراتی ہے اور نہ عوام اسے اچھا سمجھتے ہیں۔ایک روسی زار مارا جاتا ہے تو دوسرا زار تخت پر بیٹھ جاتا ہے۔ایک سانڈرس ہلاک ہوتا ہے تو دوسرا سانڈرس آ موجود ہوتا ہے۔یہی غلطی آج کل طالبان اور بلوچستان کے علیحدگی پسند کر رہے ہیں جو چند دھماکوں، سیکیورٹی اہلکاروں اور بے گناہ مزدوروں کو قتل کرنے کے بعد یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح پاکستان کی ریاست اور اس کے ادارے مفلوج ہوجائیں ، یہ ان کی فاش غلطی ہے۔ان کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ بموں دھماکوں اور خود کش حملوں سے پاکستان کی آرمڈ فورسز اور پولیس کو ڈرایا نہیں جاسکتااور ریاستی اداروں کو مفلوج کیا جاسکتا ہے۔