نئی فردِ جرم پر ٹرمپ کا ردعمل صدارتی الیکشن پر کیا اثرات پڑیں گے

وفاقی خصوصی وکیل نے الیکشن دھاندلی کیس میں 36 صفحات پر مشتمل فرد جرم جاری کردی


ویب ڈیسک August 28, 2024

صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے الیکشن کیس میں ابھی ان کی مشکلات کم نہیں ہوئیں۔ نئی فرد جرم جاری ہونے پر سابق صدر کا ردعمل سامنے آگیا۔

امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر انتخابی مداخلت کا الزام لگانے والے وفاقی وکیل جیک اسمتھ نے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے جواب میں ایک نئی نظر ثانی شدہ فرد جرم جاری کی ہے۔

وکیل جیک اسمتھ کی اس نثر ثانی شدہ فردِ جرم میں بھی تقریباً وہی الزامات ہیں جو امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے کی نشاندہی کرتے ہیں او جس میں ٹرمپ کو صدارتی استثنیٰ حاصل ہے۔

تاہم نئی فرد جرم میں زیادہ تر ان لوگوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو سرکاری عہدیدار نہیں تھے بلکہ الیکشن نتائج کی تبدیلی اور کیپیٹل ہل پر حملے میں نجی حیثیت سے صدر ٹرمپ کے ساتھ رابطے میں تھے۔

یہ خبر پڑھیں : ٹرمپ کو مجرمانہ مقدمات میں محدود استشنیٰ حاصل ہے، امریکی سپریم کورٹ

فردِ جرم میں کہا گیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے 2020 کے صدارتی انتخابات کو ناکام بنانے کی کوشش کی اور ڈیموکریٹ امیدوار جو بائیڈن سے اپنی شکست کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔

خیال رہے کہ یہ ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف 4 الزامات میں سے ایک ہے۔ وہ پہلے امریکی صدر ہیں جو ایک مقدمے میں مجرم بھی ثابت ہوئے۔ یہ مقدمہ کاروباری فراڈ سے متعلق تھا۔

تاہم سپریم کورٹ کے یکم جولائی کے ایک فیصلے کے باعث انھیں ایک صدارتی استثنیٰ حاصل ہوگئی تھی اور وہ سزا سے بچ گئے تھے۔

جولائی میں سپریم کورٹ کا فیصلہ کیا تھا؟


سپریم کورٹ نے ٹرمپ بمقابلہ ریاست کیس میں فیصلہ سنایا تھا کہ تمام سرکاری اور صدارتی سرگرمیاں استغاثہ کے خلاف استثنیٰ کی حقدار ہیں۔

عدالتی فیصلے میں 6 جنوری 2021 کے واقعات کا واضح حوالہ دیا گیا تھا جب ٹرمپ کے مشتعل حامیوں نے الیکشن میں دھاندلی کے الزامات پر ایوان نمایندگان پر دھاوا بول دیا تھا۔

فیصلے میں فرد جرم کا براہ راست حوالہ دیتے ہوئے عدالتی بینچ کی اکثریت نے ایک مثال کی طرف اشارہ کیا تھا جس میں ٹرمپ پر 6 جنوری کو انتخابی نتائج کو تبدیل کرنے کے لیے نائب صدر کو احکامات دینے کی کوشش کا الزام لگایا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں : ڈونلڈ ٹرمپ کو عدالت سے بڑا ریلیف مل گیا

چونکہ نائب صدر کے ساتھ بات چیت کرنا صدر کے سرکاری فرائض کا حصہ ہے، اس لیے عدالت نے وضاحت کی کہ ٹرمپ کم از کم ممکنہ طور پر ایسے طرز عمل کے لیے قانونی چارہ جوئی سے محفوظ ہیں۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ میں اس وقت قدامت پسندوں کی اکثریت تھی جن میں سے 3 ججز خود ٹرمپ نے مقرر کیے ہیں۔ یہ فیصلہ 6 / 3 کی اکثریت سے جاری کیا گیا تھا۔

نئی فرد جرم میں نیا کیا ہے ؟


عدالت کے جولائی کے اس فیصلے کا واشنگٹن کیس کے ساتھ ساتھ ٹرمپ کے خلاف دیگر 3 مقدمات پر بھی فوری اثر پڑا۔

تاہم گزشتہ روز کی نظرثانی شدہ فرد جرم سے پتہ چلتا ہے کہ خصوصی وکیل جیک اسمتھ کی سربراہی میں وفاقی استغاثہ کس طرح اس فیصلے پر ردعمل ظاہر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

سپریم کورٹ کے جولائی کے فیصلے کو مد نظر رکھتے ہوئے نئی فرد جرم میں سرکاری مشینری اور ان سے متعلق ریفرنسز کو ہٹا دیا گیا جس سے نئی فرد جرم 45 صفحات سے گھٹ کر 36 رہ گئے لیکن اس میں اُن لوگوں کو شامل کیا گیا جو ٹرمپ کے بحیثیت صدارتی مدار سے باہ ہیں اور جن سے رابطے نجی حیثیت میں کیے گئے تھے۔

یہ خبر بھی پڑھیں : ٹرمپ کو استثنیٰ دیکر سپریم کورٹ نے ایک خطرناک مثال قائم کردی؛ بائیڈن

مثال کے طور پر ٹرمپ کے ساتھی سازش کاروں کا نام لیتے ہوئے، نظرثانی شدہ فرد جرم میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ سازش کے دوران کوئی بھی سرکاری اہلکار نہیں تھا اور وہ سبھی نجی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔

اس فرد جرم میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ سابق نائب صدر مائیک پینس 2020 کے انتخابات میں مدعا علیہ کے رننگ میٹ بھی تھے جو کہ ایک غیر سرکاری حیثیت ہے۔

نئی فردِ جرم میں استغاثہ نے صدارتی امیدوار ٹرمپ اور منتخب صدر ٹرمپ کے اقدامات کے درمیان تفریق پر بھی زور دیا گیا ہے۔

نئی فرد جرم کا صدارتی الیکشن پر کیا اثر پڑے گا؟


امریکی میڈیا پر تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ نئی فرد جرم پر عدالتی کارروائی نومبر میں ہونے والے صدارتی الیکشن سے پہلے ہونے کا مکان نہ ہونے کے برابر ہے اور اگر ٹرمپ صدر بن جاتے ہیں تو وہ یہ مقدمہ ختم کرانے کے لیے اپنا زور لگائیں گے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا کہا ؟


وفاقی خصوصی وکیل کی جانب سے نئی فرد جرم کے تحت ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مقدمہ شروع کرنے کی درخواست پر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ یہ مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کی ناکام کوشش ہے۔

سابق صدر اور موجودہ صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے مطالبہ کیا کہ عدالت کو اس پر کیس شروع کرکے وقت برباد کرنے کے بجائے اس فرد جرم کو مسترد کردینا چاہیے۔

حکمراں جماعت ڈیموکریٹ اور ان کی صدارتی امیدوار کملا ہیرس کی جانب سے تاحال اس پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔