سانحہ ماڈل ٹاؤن اور وزیرستان
یہ بات تو تقریباً سب کو معلوم ہے کہ وہ کونسا مہینہ ہے جس میں سب سے کم جھوٹ بولا جاتا ہے۔
یہ بات تو تقریباً سب کو معلوم ہے کہ وہ کونسا مہینہ ہے جس میں سب سے کم جھوٹ بولا جاتا ہے، بے سوچے سمجھے رمضان کا نام مت لیجیے گا کیونکہ اس مہینے میں تو تقریباً پورے سال جتنا جھوٹ بولا جاتا ہے، حالانکہ ایسا ہونا نہیں چاہیے لیکن جو ہے سو تو ہے، حقیقت ماننے سے تو علامہ بھی انکار نہیں کر سکتا، تو پھر بتایئے کہ وہ مبارک مہینہ کونسا ہے جس میں سب سے کم جھوٹ بولا جاتا ہے سب سے کم منافع خوری ہوتی ہے۔
سب سے کم جرائم ہوتے ہیں حتیٰ کہ عورتیں بھی اس مہینے میں کم سے کم بولتی ہیں، اگر اب بھی آپ کے سر میں پتھر ہی کڑک رہا ہے تو ایک کلیو اور دیے دیتے ہیں، یہ مہینہ جنوری کے بعد اور مارچ سے پہلے آتا ہے، ہو سکتا ہے یہ پہیلی آپ کے لیے پرانی ہو تو نئی پہیلی یہ ہے کہ دنیا میں وہ کون سی مخلوق ہے جو سب سے زیادہ جھوٹ بولتی ہے ، ظاہر ہے کہ صرف وہی مخلوق سب سے زیادہ جھوٹ بولتی ہے جو بولتی ہے، ان بے چاری مخلوقات کا جھوٹ کیا اور سچ کیا جو بولتی ہی نہیں ہیں، صرف یہ ہی نہیں یہ مخلوق جو سب سے زیادہ جھوٹ بولتی ہے سب سے زیادہ جھوٹ لکھتی بھی ہے، پڑھتی بھی ہے اور پڑھاتی بھی ہے، سنتی بھی ہے اور سناتی بھی ہے۔
یہ خیال ہمیں کیوں آیا کل ہم ''خور کے حوض'' میں ناک ناک تک ڈوبے ہوئے تھے کیوں کہ گرمی بہت زیادہ بڑھ گئی تھی، ادھر کینیڈا سے گرم لو کے تھپیڑے چل رہے تھے حالانکہ ہم نے سنا تھا کہ وہ ملک بڑا ٹھنڈا ہے لیکن قسمت قسمت کی بات ہوتی ہے کبھی کبھی برف سے بھی بھاپ اٹھتی ہے۔
ادھر گجرات کی طرف سے نہایت ہی گرم گرد و غبار کا طوفان اٹھ رہا ہے، اپنا بنی گالہ تو کبھی ٹھنڈا ہوتا ہی نہیں، ایسے میں اگر کراچی بھی آگ کا گولہ بن جائے تو غور کے حوض،میں پناہ لیے بغیر کوئی چارہ باقی ہی نہیں رہتا ویسے یہ غور کا حوض تو ہم نے محض دوسرے کالم نگاروں کے خربوزوں سے رنگ پکڑتے ہوئے کہا ہے ورنہ دال کے ساتھ ایک روٹی کھانے والا اگر اسے لنچ کہیے تو پاگل پن ہے۔۔۔مگرکیا کیا جائے، ہم تو انسان ہیں جو سب سے زیادہ جھوٹ بولنے والی مخلوق ہیں ورنہ ہمارے غور کا حوض ایک مٹکے پر مشتمل ہے جو ہم نے ایک کمہار سے خاص طور پر اپنا ناپ دے کر بنوایا ہے بوقت ضرورت ہم اس مٹکے میں براجمان ہو جاتے ہیں ٹھوڑی مٹکے کے کنارے پر ٹکا دیتے ہیں اور برابر میں رکھی ہوئی میز پر گل افشانی گفتار شروع کر دیتے ہیں
پھر دیکھیے انداز گل افشانی گفتار
رکھ دے کوئی کچھ ''کاغذ و مٹکا'' میرے آگے
مٹکے کی تہہ میں کچھ محسوس ہوا اٹھایا تو ایک ''آبدار'' موتی تھا، اتنا سیاہ کہ اگر کوا بھی کسی توے پر بیٹھ کر دیکھ لے تو فوراً ہی اپنے ماتھے پر سفید ٹیکہ لگا لے کہ میرے حسن کو کسی کی نظر نہ لگے، اس آبدار موتی سے اندھیرے یوں ٹپکتے تھے جیسے مانو لوڈ شیڈنگ کا انڈا ہو لیکن ہمیں تو معلوم تھا کہ لوڈ شیڈنگ انڈے نہیں ''بچے'' دیتی ہے جو ''بل'' کہلاتے ہیں اور گلی گلی پیدا ہوتے ہی لوگوں کو بھنھوڑتے ہوئے بلبلاتے پر مجبور کرتے ہیں، مناسب ہو گا کہ اب محاکات و اسقارات کی زبان چھوڑ کر سیدھے سیدھے صرف مطلب پر آئیں اور حرف مطلب یہ کہ انسان نے آج تک تحریراً تقریراً اور تبلغاً جو دعویٰ سب سے زیادہ کیا ہے یا یوں کہئے جو سب سے بڑا جھوٹ بولا ہے بولتا رہا ہے اور بولتا رہے گا وہ یہ ہے کہ سب انسان برابر ہیں۔
انسانوں کی اس برابری پر اس نے ہمیشہ برابر جھوٹ بولا ہے بلکہ کچھ تو یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ ہم ایک ہی جد کی اولاد ہیں اور برتری اور کم تری کا کوئی وجود نہیں ہے، بلکہ اس کا جو جد امجد تھا وہ جس نے جنت میں شجر ممنوعہ کھایا تھا، وہ شجر ممنوعہ جوآج اس کی سب سے پیاری چیز ہے، بے شرم ہے ورنہ جس چیز نے اس کے جد امجد کو جنت بدر کیا تھا، اسے منہ بھی نہ لگاتا، لیکن ایسا کرتا تو پھر انسان کیوں کہلاتا، خیر تو اس کا کہنا ہے کہ ہم ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں اور ایک ہی جسم کے اعضا ہیں لیکن یہ اس کے ہاتھی کے دانت ہیں کھانے کے دانت یہ ہیں کہ ہر انسان پیدا ہوتے ہی صرف ایک واحد کام یہی کرتا ہے کہ کسی طرح دوسروں سے بلند ہو جائے، ممتاز ہو جائے، برتر ہو جائے، سیاست میں، مذہب میں، گھرمیں، بازار میں، کاروبار میں، ہر جگہ اور ہر وقت دوسروں کو نیچا اور خود کو اونچا ثابت کرنے میں لگا رہتا ہے اور زبان پر یہی ہوتا ہے کہ انسان برابر ہیں، ایک جیسے ہیں ۔۔۔ بھائی بھائی ہیں۔
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ اطاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
غالباً اس شعر کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کو اس لیے پیدا کیا گیا ہے کہ دوسرے انسان کے دل کو درد سے بھر دے، کیوں کہ آج تک تاریخ میں ایسی ایک بھی مثال کہیں درج نہیں ہے کہ انسان کے دل کو کسی جانور نے دکھایا ہو، جب بھی دکھایا ہے انسان ہی نے دکھایا ہے اس لیے درد دل کے واسطے ۔۔۔۔ اب ایسا کبھی ہو سکتا ہے کہ کوئی بھی بحث ہو کوئی بھی موضوع ہو اور بات چلتے چلتے انسانی تاریخ کے دو مشہور و معروف واقعات تک نہ پہنچے، یہ دو تاریخی واقعات ایک تو نائن الیون کہلاتا ہے اور دوسرا جو ابھی ابھی خدا نے ہمارے نصیب میں لکھا ہے۔
''سانحہ ماڈل ٹاؤن'' کہلاتا ہے، اور ان دونوں واقعات سے یہ اچھی طرح ثابت ہو جاتا ہے کہ انسان کتنے برابر ہیں بلکہ یہی دو واقعات ہیں جس نے مذاہب عالم کے مشہور و معروف قانون ۔۔۔۔ آنکھ کے بدلے آنکھ، دانت کے بدلے دانت اور جان کے بدلے جان کو رد کر کے رکھ دیا ہے بلکہ ایک طرح سے یہ بھی کہہ سکتے ہیں، ''حمورابی'' کے قوانین کو ان ہی دو واقعات نے منسوخ کر دیا ہے کیونکہ ان ہر دو واقعات سے ایک نئے قانون کا اجرا ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ کچھ انسان ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کی جان کے بدلے اگر پورے عالم کی جان بھی لی جائے تو ان کا قصاص پورا نہیں ہوتا ہے۔
نائن الیون میں خدائے کے جو خاص الخاض اور سگے افراد مرے تھے ان کے بدلے میں پورے پورے ملک ملیا میٹ کر دیے گئے لیکن ابھی انتقام پورا نہیں ہوا ہے، کتنے ہی گاؤں اور شہر تباہ ہوئے ،کتنی باراتیں اور جنازے ملیا میٹ کر دیے گئے ،کتنے لاکھ بوڑھے بچے اور بے گناہ خواتین مار دیے گئے ہیں لیکن انتقام ابھی شاید آدھا بھی پورا نہیں ہوا ہے، ایسا ہی یہ ابھی ابھی ظہور ہونے والا تاریخی واقعہ سانحہ ماڈل ٹاؤن ہے۔
غیر ممالک کا تو پتہ نہیں لیکن پاکستان کے اخبارات چینلات سیاسیات، مجلسیات اور روایات کے مطابق اس سے بڑا واقعہ آج تک نہیں ہوا ہے حالاں کہ وہاں اس سے ذرا دور وزیرستان میں ایک حشر برپا ہے، لاکھوں بچے بوڑھے عورتیں ضعیف بیمار لوگ اس بے پناہ گرمی میں روزہ بردہان زندہ درگور ہو رہے ہیں لیکن سانحہ ماڈل ٹاؤن سانحہ ماڈل ٹاؤن اور پھر سانحہ ماڈل ٹاؤن، وہ ایک عورت روتی پیٹتی تھانے پہنچی اور تھانیدار سے کہا کہ میرے شوہر نے مجھے تھپڑ مارا ہے، اس کے خلاف رپٹ لکھے اور فوراً کیفر کردار تک پہنچائے۔
تھانیدار بھی واقعے کی تفصیل پوچھ ہی رہا تھا کہ لوگوں کا ایک ہجوم ایک ایسے زخمی کو لے کر آگیا جس کے جسم کی کوئی کل بھی سلامت نہیں تھی، ساری ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں چمڑہ ادھڑا ہوا تھا خون سے لت پت گوشت و پوست کا ایک لوتھڑا لگ رہا تھا، معلوم ہوا کہ یہ اس عورت کا وہ شوہر ہے جس نے اسے تھپڑ مارا تھا اور عورت نے اپنے بھائیوں سے مل کر اس کا یہ حال بنایا تھا، تھانیدار نے عورت سے کہا تم تو تھپڑ کی بات کر رہی ہو اور اس بے چارے کا تو تم نے حشر نشر کیا ہوا ہے۔ عورت بولی مگر تھپڑ تو پہلے اس نے مارا تھا اس لیے میری رپورٹ لکھیے اس کے خلاف ۔۔۔ یہاں بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔
بھئی تم آپریشن ضرب عضب کو چھوڑو لاکھوں بے گھر بے در بے اسرا مسلمانوں کو بھی چھوڑو، لیکن سانحہ ماڈل ٹاؤن، لوگ حیران ہیں کہ آخر ''آل اینڈ آل'' والے اندھے ہیں بہرے ہیں یا انسان نہیں ہیں کہ صرف ایک ایف آئی آر اور ایک استعفے کے سوا ان کو کچھ بھی نہ نظر آتا ہے، نہ سنائی دیتا ہے کبھی کبھی تو ہم سوچتے ہیں کہ انسان بھی جب ظالم ہونے پر آتا ہے تو کہاں تک ہو جاتا ہے، مان لیا کہ وزیرستان کے باشندے کچھ زیادہ رجسٹرڈ قسم کے مسلمان نہیں ہیں کیونکہ پختون ہیں اور پختون کچھ خاص قسم کے مسلمان نہیں ہوتے ہیں۔
کم از کم سگے مسلمان تو نہیں ہوتے، لیکن پھر بھی انسان تو ہیں ۔۔۔ لیکن شاید یہ بھی ہمارا بھرم ہے، ہو سکتا ہے کہ آل اینڈ آل کی نگاہوں میں وہ انسان بھی نہ ہوں یا کم از کم سانحہ ماڈل ٹاؤن جتنے انسان تو ہر گز نہ ہوں، ورنہ انسان تو سارے برابر ہوتے ہیں ،کم از کم اخباروں میں چینلوں میں اور باتوں باتوں میں تو برابر ہی ہوتے ہیں، کم از کم سنا تو ہم نے یہی ہے، بہرحال استدعا صرف اتنی ہے کہ اگر سانحہ ماڈل ٹاؤن سے ذرا فرصت ملے تو آل اینڈ آل کو ایک نظر ادھر بھی ڈال دینی چاہیے بشرط یہ کہ اس وقت بھوک گرمی اور رمضان سے بچ کر کوئی زندہ رہ پایا
اے ساکنان کوچہ دل دار دیکھنا
تم کو کہیں جو غالب آشفتہ سر ملے
سب سے کم جرائم ہوتے ہیں حتیٰ کہ عورتیں بھی اس مہینے میں کم سے کم بولتی ہیں، اگر اب بھی آپ کے سر میں پتھر ہی کڑک رہا ہے تو ایک کلیو اور دیے دیتے ہیں، یہ مہینہ جنوری کے بعد اور مارچ سے پہلے آتا ہے، ہو سکتا ہے یہ پہیلی آپ کے لیے پرانی ہو تو نئی پہیلی یہ ہے کہ دنیا میں وہ کون سی مخلوق ہے جو سب سے زیادہ جھوٹ بولتی ہے ، ظاہر ہے کہ صرف وہی مخلوق سب سے زیادہ جھوٹ بولتی ہے جو بولتی ہے، ان بے چاری مخلوقات کا جھوٹ کیا اور سچ کیا جو بولتی ہی نہیں ہیں، صرف یہ ہی نہیں یہ مخلوق جو سب سے زیادہ جھوٹ بولتی ہے سب سے زیادہ جھوٹ لکھتی بھی ہے، پڑھتی بھی ہے اور پڑھاتی بھی ہے، سنتی بھی ہے اور سناتی بھی ہے۔
یہ خیال ہمیں کیوں آیا کل ہم ''خور کے حوض'' میں ناک ناک تک ڈوبے ہوئے تھے کیوں کہ گرمی بہت زیادہ بڑھ گئی تھی، ادھر کینیڈا سے گرم لو کے تھپیڑے چل رہے تھے حالانکہ ہم نے سنا تھا کہ وہ ملک بڑا ٹھنڈا ہے لیکن قسمت قسمت کی بات ہوتی ہے کبھی کبھی برف سے بھی بھاپ اٹھتی ہے۔
ادھر گجرات کی طرف سے نہایت ہی گرم گرد و غبار کا طوفان اٹھ رہا ہے، اپنا بنی گالہ تو کبھی ٹھنڈا ہوتا ہی نہیں، ایسے میں اگر کراچی بھی آگ کا گولہ بن جائے تو غور کے حوض،میں پناہ لیے بغیر کوئی چارہ باقی ہی نہیں رہتا ویسے یہ غور کا حوض تو ہم نے محض دوسرے کالم نگاروں کے خربوزوں سے رنگ پکڑتے ہوئے کہا ہے ورنہ دال کے ساتھ ایک روٹی کھانے والا اگر اسے لنچ کہیے تو پاگل پن ہے۔۔۔مگرکیا کیا جائے، ہم تو انسان ہیں جو سب سے زیادہ جھوٹ بولنے والی مخلوق ہیں ورنہ ہمارے غور کا حوض ایک مٹکے پر مشتمل ہے جو ہم نے ایک کمہار سے خاص طور پر اپنا ناپ دے کر بنوایا ہے بوقت ضرورت ہم اس مٹکے میں براجمان ہو جاتے ہیں ٹھوڑی مٹکے کے کنارے پر ٹکا دیتے ہیں اور برابر میں رکھی ہوئی میز پر گل افشانی گفتار شروع کر دیتے ہیں
پھر دیکھیے انداز گل افشانی گفتار
رکھ دے کوئی کچھ ''کاغذ و مٹکا'' میرے آگے
مٹکے کی تہہ میں کچھ محسوس ہوا اٹھایا تو ایک ''آبدار'' موتی تھا، اتنا سیاہ کہ اگر کوا بھی کسی توے پر بیٹھ کر دیکھ لے تو فوراً ہی اپنے ماتھے پر سفید ٹیکہ لگا لے کہ میرے حسن کو کسی کی نظر نہ لگے، اس آبدار موتی سے اندھیرے یوں ٹپکتے تھے جیسے مانو لوڈ شیڈنگ کا انڈا ہو لیکن ہمیں تو معلوم تھا کہ لوڈ شیڈنگ انڈے نہیں ''بچے'' دیتی ہے جو ''بل'' کہلاتے ہیں اور گلی گلی پیدا ہوتے ہی لوگوں کو بھنھوڑتے ہوئے بلبلاتے پر مجبور کرتے ہیں، مناسب ہو گا کہ اب محاکات و اسقارات کی زبان چھوڑ کر سیدھے سیدھے صرف مطلب پر آئیں اور حرف مطلب یہ کہ انسان نے آج تک تحریراً تقریراً اور تبلغاً جو دعویٰ سب سے زیادہ کیا ہے یا یوں کہئے جو سب سے بڑا جھوٹ بولا ہے بولتا رہا ہے اور بولتا رہے گا وہ یہ ہے کہ سب انسان برابر ہیں۔
انسانوں کی اس برابری پر اس نے ہمیشہ برابر جھوٹ بولا ہے بلکہ کچھ تو یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ ہم ایک ہی جد کی اولاد ہیں اور برتری اور کم تری کا کوئی وجود نہیں ہے، بلکہ اس کا جو جد امجد تھا وہ جس نے جنت میں شجر ممنوعہ کھایا تھا، وہ شجر ممنوعہ جوآج اس کی سب سے پیاری چیز ہے، بے شرم ہے ورنہ جس چیز نے اس کے جد امجد کو جنت بدر کیا تھا، اسے منہ بھی نہ لگاتا، لیکن ایسا کرتا تو پھر انسان کیوں کہلاتا، خیر تو اس کا کہنا ہے کہ ہم ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں اور ایک ہی جسم کے اعضا ہیں لیکن یہ اس کے ہاتھی کے دانت ہیں کھانے کے دانت یہ ہیں کہ ہر انسان پیدا ہوتے ہی صرف ایک واحد کام یہی کرتا ہے کہ کسی طرح دوسروں سے بلند ہو جائے، ممتاز ہو جائے، برتر ہو جائے، سیاست میں، مذہب میں، گھرمیں، بازار میں، کاروبار میں، ہر جگہ اور ہر وقت دوسروں کو نیچا اور خود کو اونچا ثابت کرنے میں لگا رہتا ہے اور زبان پر یہی ہوتا ہے کہ انسان برابر ہیں، ایک جیسے ہیں ۔۔۔ بھائی بھائی ہیں۔
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ اطاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
غالباً اس شعر کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کو اس لیے پیدا کیا گیا ہے کہ دوسرے انسان کے دل کو درد سے بھر دے، کیوں کہ آج تک تاریخ میں ایسی ایک بھی مثال کہیں درج نہیں ہے کہ انسان کے دل کو کسی جانور نے دکھایا ہو، جب بھی دکھایا ہے انسان ہی نے دکھایا ہے اس لیے درد دل کے واسطے ۔۔۔۔ اب ایسا کبھی ہو سکتا ہے کہ کوئی بھی بحث ہو کوئی بھی موضوع ہو اور بات چلتے چلتے انسانی تاریخ کے دو مشہور و معروف واقعات تک نہ پہنچے، یہ دو تاریخی واقعات ایک تو نائن الیون کہلاتا ہے اور دوسرا جو ابھی ابھی خدا نے ہمارے نصیب میں لکھا ہے۔
''سانحہ ماڈل ٹاؤن'' کہلاتا ہے، اور ان دونوں واقعات سے یہ اچھی طرح ثابت ہو جاتا ہے کہ انسان کتنے برابر ہیں بلکہ یہی دو واقعات ہیں جس نے مذاہب عالم کے مشہور و معروف قانون ۔۔۔۔ آنکھ کے بدلے آنکھ، دانت کے بدلے دانت اور جان کے بدلے جان کو رد کر کے رکھ دیا ہے بلکہ ایک طرح سے یہ بھی کہہ سکتے ہیں، ''حمورابی'' کے قوانین کو ان ہی دو واقعات نے منسوخ کر دیا ہے کیونکہ ان ہر دو واقعات سے ایک نئے قانون کا اجرا ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ کچھ انسان ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کی جان کے بدلے اگر پورے عالم کی جان بھی لی جائے تو ان کا قصاص پورا نہیں ہوتا ہے۔
نائن الیون میں خدائے کے جو خاص الخاض اور سگے افراد مرے تھے ان کے بدلے میں پورے پورے ملک ملیا میٹ کر دیے گئے لیکن ابھی انتقام پورا نہیں ہوا ہے، کتنے ہی گاؤں اور شہر تباہ ہوئے ،کتنی باراتیں اور جنازے ملیا میٹ کر دیے گئے ،کتنے لاکھ بوڑھے بچے اور بے گناہ خواتین مار دیے گئے ہیں لیکن انتقام ابھی شاید آدھا بھی پورا نہیں ہوا ہے، ایسا ہی یہ ابھی ابھی ظہور ہونے والا تاریخی واقعہ سانحہ ماڈل ٹاؤن ہے۔
غیر ممالک کا تو پتہ نہیں لیکن پاکستان کے اخبارات چینلات سیاسیات، مجلسیات اور روایات کے مطابق اس سے بڑا واقعہ آج تک نہیں ہوا ہے حالاں کہ وہاں اس سے ذرا دور وزیرستان میں ایک حشر برپا ہے، لاکھوں بچے بوڑھے عورتیں ضعیف بیمار لوگ اس بے پناہ گرمی میں روزہ بردہان زندہ درگور ہو رہے ہیں لیکن سانحہ ماڈل ٹاؤن سانحہ ماڈل ٹاؤن اور پھر سانحہ ماڈل ٹاؤن، وہ ایک عورت روتی پیٹتی تھانے پہنچی اور تھانیدار سے کہا کہ میرے شوہر نے مجھے تھپڑ مارا ہے، اس کے خلاف رپٹ لکھے اور فوراً کیفر کردار تک پہنچائے۔
تھانیدار بھی واقعے کی تفصیل پوچھ ہی رہا تھا کہ لوگوں کا ایک ہجوم ایک ایسے زخمی کو لے کر آگیا جس کے جسم کی کوئی کل بھی سلامت نہیں تھی، ساری ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں چمڑہ ادھڑا ہوا تھا خون سے لت پت گوشت و پوست کا ایک لوتھڑا لگ رہا تھا، معلوم ہوا کہ یہ اس عورت کا وہ شوہر ہے جس نے اسے تھپڑ مارا تھا اور عورت نے اپنے بھائیوں سے مل کر اس کا یہ حال بنایا تھا، تھانیدار نے عورت سے کہا تم تو تھپڑ کی بات کر رہی ہو اور اس بے چارے کا تو تم نے حشر نشر کیا ہوا ہے۔ عورت بولی مگر تھپڑ تو پہلے اس نے مارا تھا اس لیے میری رپورٹ لکھیے اس کے خلاف ۔۔۔ یہاں بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔
بھئی تم آپریشن ضرب عضب کو چھوڑو لاکھوں بے گھر بے در بے اسرا مسلمانوں کو بھی چھوڑو، لیکن سانحہ ماڈل ٹاؤن، لوگ حیران ہیں کہ آخر ''آل اینڈ آل'' والے اندھے ہیں بہرے ہیں یا انسان نہیں ہیں کہ صرف ایک ایف آئی آر اور ایک استعفے کے سوا ان کو کچھ بھی نہ نظر آتا ہے، نہ سنائی دیتا ہے کبھی کبھی تو ہم سوچتے ہیں کہ انسان بھی جب ظالم ہونے پر آتا ہے تو کہاں تک ہو جاتا ہے، مان لیا کہ وزیرستان کے باشندے کچھ زیادہ رجسٹرڈ قسم کے مسلمان نہیں ہیں کیونکہ پختون ہیں اور پختون کچھ خاص قسم کے مسلمان نہیں ہوتے ہیں۔
کم از کم سگے مسلمان تو نہیں ہوتے، لیکن پھر بھی انسان تو ہیں ۔۔۔ لیکن شاید یہ بھی ہمارا بھرم ہے، ہو سکتا ہے کہ آل اینڈ آل کی نگاہوں میں وہ انسان بھی نہ ہوں یا کم از کم سانحہ ماڈل ٹاؤن جتنے انسان تو ہر گز نہ ہوں، ورنہ انسان تو سارے برابر ہوتے ہیں ،کم از کم اخباروں میں چینلوں میں اور باتوں باتوں میں تو برابر ہی ہوتے ہیں، کم از کم سنا تو ہم نے یہی ہے، بہرحال استدعا صرف اتنی ہے کہ اگر سانحہ ماڈل ٹاؤن سے ذرا فرصت ملے تو آل اینڈ آل کو ایک نظر ادھر بھی ڈال دینی چاہیے بشرط یہ کہ اس وقت بھوک گرمی اور رمضان سے بچ کر کوئی زندہ رہ پایا
اے ساکنان کوچہ دل دار دیکھنا
تم کو کہیں جو غالب آشفتہ سر ملے