چوہدری نثار… منزل کہاں ہے تیری
حکمران جماعت میں جاری سیاسی بحران ٹل گیا، چوہدری نثارعلی خاں کے وزیراعظم نواز شریف سے گلے
حکمران جماعت میں جاری سیاسی بحران ٹل گیا، چوہدری نثارعلی خاں کے وزیراعظم نواز شریف سے گلے شکوے دوراور ناراضگی ختم ہوگئی۔ وہ پنجاب ہائوس میں وزارت داخلہ کا دفتر لگا کر معاملات چلائیں گے۔ لیکن آئینہ دل میں جو بال آچکا ہے وہ کس طرح دور ہوگا اس کا کسی کو علم نہیں کہ وزیرداخلہ ذاتی معاملات میں بہت کم گو اور گریز پا ثابت ہوئے ہیں۔
چوہدری نثار ذاتی زندگی میں بڑے لیے دیے رہتے ہیں، ان تک فون کے ذریعے رسائی ہمیشہ کار داردرہی ہے کہ وہ موبائل فون جیسی جدید سہولت سے بظاہراستفادہ نہیں کرتے، وفاقی دارالحکومت میں صرف دو تین دہائیوں سے ملک کے سیاسی منظرنامے پرمرکزی کردارادا کرنے والے چوہدری نثار قومی پریس سے کوسوں دور رہے ہیں، ٹی وی ٹاک شوز میں خود نمائی کے مظاہرے کرنے والے سیاستدانوں کے برعکس چوہدری نثارغیر ضروری طورپر منظرعام پر آنا پسند نہیں کرتے۔
لیکن تازہ حقیقت یہ ہے کہ چوہدری نثار، وزیراعظم نواز شریف کے دل سے اُترچکے ہیں، اس لیے جو غیرمعمولی اہمیت انھیں ماضی میں حاصل رہی ہے اب شاید وہ نہ رہ سکے، چوہدری نثار عملیت پسند سیاستدان ہیں، انھیں بدلے ہوئے حالات کا بخوبی اندازہ ہوچکا ہے، شائد اسی لیے صلح صفائی کے شادیانوں میں ایک وقایع نگار نے لکھا 5گھنٹے طویل ملاقات میں چوہدری نثار نے اپنے تحفظات سے قیادت کو آگاہ کیا ۔وہ تحفظات کے ازالے کے لیے مستقبل کے عملی اقدامات پر نظررکھیں گے اور ان کے بعد ہی مستقبل کے بارے میں فیصلہ کریں گے، اسلام آباد پہنچ کرانھوں نے نام لیے بغیر اپنے ایک ساتھی وزیرکو شدید تنقید کانشانہ بنایا ہے ۔
کہتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، چوہدری نثار اس کی زندہ مثال ہیں۔وہ اقتدار کے ایوانوں میں راولپنڈی ڈویژن کے بلاشرکت غیرے مالک رہے ہیں۔ 1985سے اب تک کوئی انتخاب نہیں ہارے، تحریک نجات ہویا مشرف کے خلاف احتجاجی تحریک عافیت پسند چوہدری نثار مار دھاڑ سے بھرپور شاہکاروں سے کوسوں دوررہے لیکن انھوںنے راولپنڈی ڈویژن میں اپنی گرفت کمزور نہیں ہونے دی۔
وزیراعظم نواز شریف کے ایک مشیر نے بتایا کہ موجودہ دور حکومت میں بھی قومی اسمبلی کے تمام معاملات اور پارلیمانی سیکریٹریوں کی نامزدگی کا اختیار چوہدری نثار کے پاس تھا لیکن وہ وزیراعظم کے ارد گرد کسی ''اور''کوبرداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس صورت حال سے خود وزیراعظم نواز شریف بھی بیزار ہیں جس میں اہم کردار وزیراعظم ہائوس میں موجود سرکاری مصاحب ٹولے نے ادا کیا ہے۔ تین دہائیوں سے بلاشرکت غیرے اقتدار کے ایوانوں میں اثرورسوخ رکھنے والے چکری وکیلاں کے چوہدری کے لیے اب ذرا مختلف صورتحال قابل قبول نہیں ہے وہ کیسے بھول سکتے ہیں کہ وزیراعظم نواز شریف نے انجیوگرافی کے بعد ان کی عیادت کے لیے چند قدم کے فاصلے پر فیض آباد تک آنے کی زحمت نہیں کی۔ جناب شہباز شریف کو بھیجا گیا جو اب 'میثاق جاتی عمرہ 'میں ضامن کا کردار بھی ادا کررہے ہیں۔
2013کے انتخابات میں حسب سابق چوہدری نثار علی خاں کے من پسند افراد کوٹکٹوں سے نوازا گیا لیکن انتخابی نتائج بہت بڑا جھٹکا ثابت ہوئے۔مسلم لیگ (ن) کو اپنے روایتی سیاسی قلعے راولپنڈی شہرمیں شکست سے دوچار ہونا پڑا، قومی اسمبلی کی تین نشستوں پر شکست اور ضمنی انتخاب میں اس کی قندمکرر کا ذائقہ بڑا تلخ تھا۔
تحریک انصاف کی اندرونی شکست وریخت کی وجہ سے مسلم لیگ (ن)کے ملک ابرار ایک نشست جیتنے میں صرف اس لیے کامیاب ہوگئے کہ تحریک انصاف کے اصل امیدوار شاہد شاہ گیلانی اپنی جماعت کی اندرونی شازش کا شکارہوکر عدالتی میدان میں شکست کھاگئے تھے اگر وہ حافظہ حنا منظور کی جگہ ہوتے تو راولپنڈی کا سیاسی منظر ہی یکسربدل جاتاجس طرح پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید نے مسلم لیگ (ن) کے مضبوط اور ناقابل تسخیرقلعہ لاہورمیں انتھک محنت اور جانفشانی سے دراڑیں ڈال دی تھیں۔ ایک غیر حاضراور نمائشی ٹیکنوکریٹ شفقت محمود کی گودمیں قومی اسمبلی کی نشست ڈال دی تھی۔
طالبان سے مذاکرات کے پہلے مرحلے میں چوہدری نثار کو ڈرائیونگ سیٹ سے پسنجر سیٹ پر دھکیل دیا گیا۔ اُستاد گرامی جناب عرفان صدیقی وزیراعظم کے ہمراہ مرکزی نشستوں پرجلوہ افروزہوئے۔ پھر طالبان کے خلاف فوجی آپریشن سے انھیں لاتعلق رکھا گیا۔کراچی ائیرپورٹ پر دہشت گردوں کے کئی گھنٹوں طویل آپریشن کے دوران چوہدری نثارعلی خان سے اعلی ترین سطح پر بھی رابطہ نہ ہوسکا۔ کہا جاتا ہے کہ نثارعلی خاں ہی تھے جنہوں نے جاوید ہاشمی پر مسلم لیگ میں تمام دروازے بندکرادیے تھے۔ اب چوہدری نثار کے بارے میں یہی چہ میگوئیاں ہورہی ہیں کہ ان کی بھی اگلی منزل شاید تحریک انصاف ہی ہوگی، ایں خیال است، محال است وجنون، جناب کپتان اور چوہدری نثار نے بچپن ایچی سن کالج کے وسیع وعریض مرغزار میں کھیلتے گودتے گذارا تھا۔
جنرل مشرف کی رہائی اور بیرون ملک روانگی کا وعدہ بھی وہ ایفانہ کرسکے تھے جس میں جناب شہباز شریف ان کے ہم خیال تھے۔
بظاہر چوہدری نثار امریکا مخالف سیاستدان کے روپ میں قومی جذبات کی تسکین کرتے رہے ہیں لیکن براہوا وکی لیکس جس نے بہت کچھ آشکار کیا۔ یہ تضادات بھی جناب نواز شریف کے علم میں تھے پارلیمانی جمہوریت کی بالادستی کاعلم تھامے وہ ناگوار صورت حال کوکسی حدتک گوارا کرلیتے ہیں لیکن تادیر اسے برداشت کرنا ان کے لیے ممکن نہیں رہا۔
چوہدری نثار کا والہانہ پن اب ان کے لیے وبال جان بنا جا رہا تھا جس کا ڈراپ سین تلخیاں اور دوریاں بڑھنے پر ہوا۔
پانچ گھنٹے طویل ملاقات کے بعد بحران وقتی طور پر ٹل گیا ہے لیکن آئینہ دل میں جوبال آچکا ہے اس کا کیاہوگا؟
وزیراعظم نواز شریف کے عملی اقدامات سے چوہدری نثار علی خاں کے تحفظات سیاسی مستقبل پر کیسے اثر انداز ہوں گے اس بارے حتمی طورپر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن جدائی کے آثار نمایاں ہیں۔
زمانہ سوال کناں ہے، اگلی منزل کہاں ہے تیری
چوہدری نثار ذاتی زندگی میں بڑے لیے دیے رہتے ہیں، ان تک فون کے ذریعے رسائی ہمیشہ کار داردرہی ہے کہ وہ موبائل فون جیسی جدید سہولت سے بظاہراستفادہ نہیں کرتے، وفاقی دارالحکومت میں صرف دو تین دہائیوں سے ملک کے سیاسی منظرنامے پرمرکزی کردارادا کرنے والے چوہدری نثار قومی پریس سے کوسوں دور رہے ہیں، ٹی وی ٹاک شوز میں خود نمائی کے مظاہرے کرنے والے سیاستدانوں کے برعکس چوہدری نثارغیر ضروری طورپر منظرعام پر آنا پسند نہیں کرتے۔
لیکن تازہ حقیقت یہ ہے کہ چوہدری نثار، وزیراعظم نواز شریف کے دل سے اُترچکے ہیں، اس لیے جو غیرمعمولی اہمیت انھیں ماضی میں حاصل رہی ہے اب شاید وہ نہ رہ سکے، چوہدری نثار عملیت پسند سیاستدان ہیں، انھیں بدلے ہوئے حالات کا بخوبی اندازہ ہوچکا ہے، شائد اسی لیے صلح صفائی کے شادیانوں میں ایک وقایع نگار نے لکھا 5گھنٹے طویل ملاقات میں چوہدری نثار نے اپنے تحفظات سے قیادت کو آگاہ کیا ۔وہ تحفظات کے ازالے کے لیے مستقبل کے عملی اقدامات پر نظررکھیں گے اور ان کے بعد ہی مستقبل کے بارے میں فیصلہ کریں گے، اسلام آباد پہنچ کرانھوں نے نام لیے بغیر اپنے ایک ساتھی وزیرکو شدید تنقید کانشانہ بنایا ہے ۔
کہتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، چوہدری نثار اس کی زندہ مثال ہیں۔وہ اقتدار کے ایوانوں میں راولپنڈی ڈویژن کے بلاشرکت غیرے مالک رہے ہیں۔ 1985سے اب تک کوئی انتخاب نہیں ہارے، تحریک نجات ہویا مشرف کے خلاف احتجاجی تحریک عافیت پسند چوہدری نثار مار دھاڑ سے بھرپور شاہکاروں سے کوسوں دوررہے لیکن انھوںنے راولپنڈی ڈویژن میں اپنی گرفت کمزور نہیں ہونے دی۔
وزیراعظم نواز شریف کے ایک مشیر نے بتایا کہ موجودہ دور حکومت میں بھی قومی اسمبلی کے تمام معاملات اور پارلیمانی سیکریٹریوں کی نامزدگی کا اختیار چوہدری نثار کے پاس تھا لیکن وہ وزیراعظم کے ارد گرد کسی ''اور''کوبرداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس صورت حال سے خود وزیراعظم نواز شریف بھی بیزار ہیں جس میں اہم کردار وزیراعظم ہائوس میں موجود سرکاری مصاحب ٹولے نے ادا کیا ہے۔ تین دہائیوں سے بلاشرکت غیرے اقتدار کے ایوانوں میں اثرورسوخ رکھنے والے چکری وکیلاں کے چوہدری کے لیے اب ذرا مختلف صورتحال قابل قبول نہیں ہے وہ کیسے بھول سکتے ہیں کہ وزیراعظم نواز شریف نے انجیوگرافی کے بعد ان کی عیادت کے لیے چند قدم کے فاصلے پر فیض آباد تک آنے کی زحمت نہیں کی۔ جناب شہباز شریف کو بھیجا گیا جو اب 'میثاق جاتی عمرہ 'میں ضامن کا کردار بھی ادا کررہے ہیں۔
2013کے انتخابات میں حسب سابق چوہدری نثار علی خاں کے من پسند افراد کوٹکٹوں سے نوازا گیا لیکن انتخابی نتائج بہت بڑا جھٹکا ثابت ہوئے۔مسلم لیگ (ن) کو اپنے روایتی سیاسی قلعے راولپنڈی شہرمیں شکست سے دوچار ہونا پڑا، قومی اسمبلی کی تین نشستوں پر شکست اور ضمنی انتخاب میں اس کی قندمکرر کا ذائقہ بڑا تلخ تھا۔
تحریک انصاف کی اندرونی شکست وریخت کی وجہ سے مسلم لیگ (ن)کے ملک ابرار ایک نشست جیتنے میں صرف اس لیے کامیاب ہوگئے کہ تحریک انصاف کے اصل امیدوار شاہد شاہ گیلانی اپنی جماعت کی اندرونی شازش کا شکارہوکر عدالتی میدان میں شکست کھاگئے تھے اگر وہ حافظہ حنا منظور کی جگہ ہوتے تو راولپنڈی کا سیاسی منظر ہی یکسربدل جاتاجس طرح پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید نے مسلم لیگ (ن) کے مضبوط اور ناقابل تسخیرقلعہ لاہورمیں انتھک محنت اور جانفشانی سے دراڑیں ڈال دی تھیں۔ ایک غیر حاضراور نمائشی ٹیکنوکریٹ شفقت محمود کی گودمیں قومی اسمبلی کی نشست ڈال دی تھی۔
طالبان سے مذاکرات کے پہلے مرحلے میں چوہدری نثار کو ڈرائیونگ سیٹ سے پسنجر سیٹ پر دھکیل دیا گیا۔ اُستاد گرامی جناب عرفان صدیقی وزیراعظم کے ہمراہ مرکزی نشستوں پرجلوہ افروزہوئے۔ پھر طالبان کے خلاف فوجی آپریشن سے انھیں لاتعلق رکھا گیا۔کراچی ائیرپورٹ پر دہشت گردوں کے کئی گھنٹوں طویل آپریشن کے دوران چوہدری نثارعلی خان سے اعلی ترین سطح پر بھی رابطہ نہ ہوسکا۔ کہا جاتا ہے کہ نثارعلی خاں ہی تھے جنہوں نے جاوید ہاشمی پر مسلم لیگ میں تمام دروازے بندکرادیے تھے۔ اب چوہدری نثار کے بارے میں یہی چہ میگوئیاں ہورہی ہیں کہ ان کی بھی اگلی منزل شاید تحریک انصاف ہی ہوگی، ایں خیال است، محال است وجنون، جناب کپتان اور چوہدری نثار نے بچپن ایچی سن کالج کے وسیع وعریض مرغزار میں کھیلتے گودتے گذارا تھا۔
جنرل مشرف کی رہائی اور بیرون ملک روانگی کا وعدہ بھی وہ ایفانہ کرسکے تھے جس میں جناب شہباز شریف ان کے ہم خیال تھے۔
بظاہر چوہدری نثار امریکا مخالف سیاستدان کے روپ میں قومی جذبات کی تسکین کرتے رہے ہیں لیکن براہوا وکی لیکس جس نے بہت کچھ آشکار کیا۔ یہ تضادات بھی جناب نواز شریف کے علم میں تھے پارلیمانی جمہوریت کی بالادستی کاعلم تھامے وہ ناگوار صورت حال کوکسی حدتک گوارا کرلیتے ہیں لیکن تادیر اسے برداشت کرنا ان کے لیے ممکن نہیں رہا۔
چوہدری نثار کا والہانہ پن اب ان کے لیے وبال جان بنا جا رہا تھا جس کا ڈراپ سین تلخیاں اور دوریاں بڑھنے پر ہوا۔
پانچ گھنٹے طویل ملاقات کے بعد بحران وقتی طور پر ٹل گیا ہے لیکن آئینہ دل میں جوبال آچکا ہے اس کا کیاہوگا؟
وزیراعظم نواز شریف کے عملی اقدامات سے چوہدری نثار علی خاں کے تحفظات سیاسی مستقبل پر کیسے اثر انداز ہوں گے اس بارے حتمی طورپر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن جدائی کے آثار نمایاں ہیں۔
زمانہ سوال کناں ہے، اگلی منزل کہاں ہے تیری