غیر یقینی معیشت اور عوام…

کسی بھی ملک کی معیشت غیر یقینی حالات Uncertainty کا اس وقت شکار ہوتی ہے


خالد گورایا July 08, 2014
[email protected]

کسی بھی ملک کی معیشت غیر یقینی حالات Uncertainty کا اس وقت شکار ہوتی ہے جب معیشت پر پیداواری ذرایع یا شعبوں کو آگے بڑھنے سے پیداوار کو دشمن قوتیں روک دیتی ہیں، سیلاب، زلزلے یا خشک سالی انسانی بس سے باہر ہوتے ہیں اور یہ کبھی کبھار ہوتے ہیں، منڈی مقابلے میں سرمایہ کار ایک دوسرے کو ناکام کرنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں، لیکن پہلی اور دوسری جنگ کے بعد سامراجی امریکا نے یورپی ممالک کے ''کرنسی ایکسچینج بحران'' میں امریکی ڈالر کو اعتماد حاصل کرنے کے بعد فارن ایکسچینج ریزرو کی شکل میں یورپی مارکیٹوں میں داخل کر دیا۔

تمام یورپ سونے کے معیار سے ہٹ چکا تھا، امریکا سونے کے معیار 20-67 ڈالر فی اونس سونا کے معیار پر کھڑا تھا۔ اسی وجہ سے امریکا یورپی ملکوں کو قرضے، اسلحہ اور خوراک کی اشیا فروخت کر رہا تھا اور اس کے مقابلے میں ان ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتیں مقرر کر رہا تھا۔ 15 دسمبر 1923کو امریکا نے باقاعدہ Exchange Equalization Fund کا ادارہ قائم کر کے تمام یورپی کرنسیوں کی قیمتوں کو ڈالر کے مقابلے میں مقرر کرنے کی غیر اعلانیہ مالیاتی اجارہ داری حاصل کر لی تھی۔

دوسری عالمی جنگ کے دوران آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی پلاننگ کرنے کے بعد 23 دسمبر 1945ء کو دونوں ادارے بنانے کے بعد پوری دنیا کے ملکوں کے مالیاتی آپریشن امریکا نے شروع کر دیے تھے۔ امریکا کا سب سے بڑا مالیاتی ہتھکنڈا Currency Devaluation Minus Economic Development تھا جو 15 دسمبر 1923سے اب تک امریکا استعمال کرتا آ رہا ہے۔ امریکا ڈالر کے مقابلے میں آئی ایم ایف کے پلیٹ فارم سے کسی بھی ملک کی کرنسی کی قیمت میں کمی یہ جواز بنا کر کرتا ہے کہ اس ملک کی تجارت کو فروغ دینا ہے۔

پاکستان 14 اگست 1947کو وجود میں آیا اور پاکستان کی تجارت سرپلس تھی جب امریکا نے ستمبر 1949کو پاکستان پر دباؤ ڈالا کہ روپے کی قیمت میں کمی کی جائے، خان لیاقت علی خان نے امریکی حکم ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ جولائی 1955 کو قائم مقام سکندر مرزا گورنر جنرل نے روپے کی قیمت میں میں 43 فیصد کمی کر دی تھی جس کے نتیجے میں بجٹ اور تجارت 1956-57 میں خسارے میں چلے گئے۔ اس کے منفی Impact سے پاکستان میں صنعتی شعبے میں لاگتیں بڑھ گئیں اور باہر سے خریدی جانے والی تمام اشیا 43 فیصد مہنگی خریدی گئیں، اور تجارتی خسارے سے نکلنے کے لیے امریکا نے پاکستان کو IMF سے قرض لینے کی طرف دھکیل دیا۔

دسمبر 1990 کے بعد جب سابقہ سوویت یونین کے تحلیل ہونے کے فوری بعد امریکی آئی ایم ایف کی پالیسیاں بدل گئیں، بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے نجکاری پروگرام شروع کیا گیا، قرضوں کی ادائیگی کے لیے بھی قرضے دینے شروع کر دیے گئے۔ حکومتی کردار پیداواری شعبوں سے کم کرنے کا حکم دیا گیا، سڈمڈ CDMED کے نتیجے میں مقامی صنعتی کلچر ختم ہوتا گیا اور FDI یا ملٹی نیشنل کمپنیوں نے معاشی غلام ملکوں میں قدم جمانے شروع کر دیے۔ غیر ملکی سامراجی مالیاتی مداخلت سے پاکستان کی معیشت غیر یقینی حالات کا شکار ہو گئی۔ عوامی سرمایہ سامراجی بلاک کی طرف تیزی سے منتقل ہوتا گیا۔

(1)۔ سامراجی قرض ادائیگی۔(2)۔ سامراجی بلاک سے امپورٹ بڑھتی گئی۔(3)۔ملٹی نیشنل کمپنیاں پاکستان کا سرمایہ نفع کی شکل میں اپنے اپنے ملکوں کو بھیج رہی ہیں۔ یہاں پر حقائق کی روشنی میں مالی سال 2012-13 کے اعداد و شمارکو پیش کیا جاتا ہے۔ مالی سال 2012-13 کا ریونیو (آمدنی) 29 کھرب 82 ارب 43 کروڑ60 لاکھ روپے تھا۔ اس میں سے سامراجی غیر ملکی قرض ادائیگی 2 کھرب 88 ارب 48 کروڑ 60 لاکھ روپے کی گئی۔

2012-13 میں تجارتی خسارہ جو CDMED کے مسلسل لگتے رہنے کی وجہ سے ہو رہا ہے یہ خسارہ 19 کھرب 83 ارب 40 کروڑ20 لاکھ روپے ہے (ڈالر میں یہ خسارہ 20 ارب 49 کروڑ ڈالر ہے اور 96.799 روپے کا ایک ڈالر) اور 2013 میں سامراجی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے پاکستان سے اپنے اپنے ملکوں کو ایک ارب 70 کروڑ ڈالر کا منافع منتقل کیا، جس کی پاکستانی روپے میں 1 کھرب 64 ارب 55 کروڑ75 لاکھ روپے قیمت یا مالیت ہے۔

اس طرح تین مدوں میں قرض ادائیگی، تجارتی خسارہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کا اپنے ملکوں کو منتقل سرمایہ یہ تینوں ملا کر ٹوٹل 24 کھرب 36 ارب 44 کروڑ55 لاکھ روپے بنتے ہیں، جو ریونیو کا 82 فیصد ہوتا، اس طرح حکومت عوام سے جو ریونیو ٹیکس کی شکل میں جمع کرتی ہے اس ریونیو کے متوازی 82 فیصد عوامی سرمایہ سامراج نے 2012-13 میں تین مدوں میں عوام سے وصول کر لیا تھا۔ اب عوام فیصلہ کریں کہ عوام سامراجی معاشی غلام رہنا چاہتے ہیں یا ایک آزاد معاشی پاکستان بنانا چاہتے ہیں۔

رمضان کا مہینہ شروع ہو چکا ہے اور ہماری عوامی فوج اب سامراجی دشمن و دہشت گردوں سے جنگ لڑ رہی ہے، پورے عوام سامراجی دہشت گردوں کے خلاف افواج پاکستان کے ساتھ ہیں، لیکن سیاست دان جو اقتدار میں ہیں جو لانگ مارچ اور انقلاب، انقلاب کے نعروں سے عوام کو ورغلا رہے ہیں، یہ تمام عوام اور ملک کو معاشی آزادی دلانے کی بات نہیں کر رہے ہیں، یہ مہنگائی، بے روزگاری، بدامنی کو ختم کرنے کی بات نہیں کر رہے ہیں کیوں ایسا کیوں ہے؟ سامراج ہمیں لوٹ رہا ہے۔ سامراجی گدھ عوام کو نوچ رہے ہیں، عوام کو ادھیڑ رہے ہیں، لیکن ٹرائیکا (جاگیردار سرمایہ کار، اعلیٰ بیوروکریٹ) ان ظالم درندوں سے عوام کو بچانے کے لیے ایک قدم بھی نہیں اٹھا رہے۔

کیا وجہ ہے اب عوام یہ سوچنے پر مجبور نہ ہوجائیں کہ سامراجی امریکا عوام کا دشمن تو ہے ہی! لیکن ٹرائیکا بھی اسی طرح عوام کی دشمن ہے، ٹرائیکا میں اب بھی غیرت نہیں جاگی کہ وہ عوام کا لوٹا ہوا سرمایہ عوام کو واپس کر دے اور سامراج کی معاشی غلامی سے عوام کو نجات دلا دے، اگر ایسا نہ ہوا تو عوام کو خود اپنی معاشی آزادی ظالموں سے چھین لینی ہو گی۔ کیونکہ کل بھی مرنا اور آج بھی مرنا۔ بھوکے اور حق سے محروم رہ کر زندہ رہنا مشکل ہے۔ دہشت گردوں سے تنگ آ کر پاکستان کی افواج نے صحیح فیصلہ کیا ہے اور معاشی آزادی کے بغیر غلام پاکستان عوام اور افواج کے حق میں نہیں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں