ملکی بقا اور جمہوریت کے استحکام کا شور
بدعنوانی کے الزام میں گرفتار ٹھیکے داروں کی رہائی کے لیے بااثر شخصیات متحرک
لاہور:
شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن 'ضرب عضب' کی حمایت اور افواج پاکستان سے اظہار یک جہتی کے لیے متحدہ قومی موومنٹ کے جلسے میں مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین اور عوام کی بھرپور شرکت نے ثابت کردیا کہ وہ افواج پاکستان کے ساتھ ہیں اور دہشت گردوں کے خلاف اس آپریشن میں اس کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔
پچھلے دنوں سکھر سمیت بالائی سندھ سے تعلق رکھنے والے متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنوں کی بڑی تعداد اپنے قائد الطاف حسین کی ہدایت پر جلسے میں شرکت کے لیے کراچی روانہ ہوئی۔ یہاں سے زونل انچارج شہزاد گلفام کی قیادت میں کارکنوں کا قافلہ شہرِ قائد پہنچا اور کارکن جلسے میں شریک ہوئے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے ملکی سلامتی، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے آواز بلند کی گئی ہو بلکہ ماضی میں بھی ایم کیو ایم نے دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے اس کے خلاف آواز بلند کی ہے۔
تاہم چھے جولائی کا جلسہ اس لحاظ سے منفرد تھا کہ اس میں ملک بھر کے سیاسی جماعتوں کے راہ نماؤں کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی اور ہر طبقے اور مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو جلسہ گاہ میں جمع ہو کر دہشت گردی کے خلاف اور پاک فوج سے یک جہتی کا اظہار کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ کراچی کے جلسے میں متحدہ قومی موومنٹ نے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے نئی روایت کو جنم دیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس جلسے کے انعقاد سے بالائی سندھ میں متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف مخالفین کے پروپیگنڈے پر بھی ضرب پڑے گی۔
طاہر القادری کی ''انقلابی جدوجہد'' کا شور تھما تو حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں کے مرکزی قائدین کی آواز سنائی دی ہے، جو طاہر القادری کو انقلاب لانے کے لیے کینیڈا سے واپسی کا مشورہ دیتے ہوئے مختلف بیانات دے رہے ہیں۔ طاہر القادری کی پاکستان آمد سے قبل اور اس کے بعد سیاسی فضا میں جو گرما گرمی پیدا ہوئی تھی، وہ اب دم توڑ رہی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ طاہر القادری کے بلند بانگ دعوے جھاگ کی طرح بیٹھ رہے ہیں جس پر چہ مگوئیاں شروع ہو گئی ہیں۔
جنرل ضیاء الحق نے پانچ جولائی 1977 کو اس وقت کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا تھا اور پیپلز پارٹی ہر سال یہ دن یوم سیاہ کے طور پر مناتی ہے۔ سکھر اور اس کے مضافات میں اس دن مختلف تقریبات منعقد کی گئیں جس میں پیپلز پارٹی کے مرکزی راہ نماؤں اور کارکنوں نے شرکت کی۔
اس موقع پر پی پی پی کے راہ نما اور قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ اور دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا، جب ایک ڈکٹیٹر ضیاء الحق نے عوام کے حقیقی راہ نما اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر ملک میں آمریت مسلط کردی، جس کا خمیازہ قوم آج تک بھگت رہی ہے، ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی، نواز شریف کو نہیں بلکہ جمہوریت کو سپورٹ کررہی ہے۔
ہمارے قائدین نے اقتدار کے لیے نہیں بلکہ ملک کے لیے قربانیاں دی تھیں، لانگ مارچ کی سیاست اور دھرنوں سے جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے۔ اس وقت پاک فوج شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں مصروف ہے، ایسے وقت میں قومی اتحاد کی ضرورت بہت بڑھ گئی ہے، قوم کا ایک ساتھ کھڑا ہونا فوج کے مورال کو بلند کرنے میں مددگار ثابت ہوگا، ہمیں چاہیے کہ شمالی وزیرستان سے آنے والے متاثرین کی ہر طریقے سے مدد کریں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پانچ جولائی جیسی سیاہ رات دوبارہ اس ملک اور عوام پر مسلط نہیں ہونے دیں گے، وزیر اعظم نواز شریف غلطیاں کرتے ہیں تو ان کی اصلاح کے لیے پارلیمنٹ ایک بہترین فورم ہے، ہم نے حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کو اسلام آباد آنے دیا جائے، اگر حکومت ان کا خیر مقدم کرتی تو نواز شریف کا سیاسی قد اور بڑھ جاتا، معاملات کو غلط طریقے سے ڈیل کرنے کی وجہ سے سانحہ ماڈل ٹاؤن رونما ہوا، جس پر ہم نے بھی شدید تنقید کی۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں جب طاہر القادری نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا تو ہم نے صبر و تحمل کے ساتھ ان سے مذاکرات کرکے انہیں واپس بھیج دیا تھا، مگر موجودہ حکومت نے غلطی کر کے ڈاکٹر طاہر القادری کو ہیرو بنا دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ شہید بھٹو نے ملک کو ایٹمی طاقت بناکر اسے مضبوط کیا، جس کی وجہ سے عالمی طاقتیں ان کے خلاف تھیں، بھٹو شہید کا جرم یہ تھا کہ وہ مسلمانوں کو متحد کررہے تھے۔
تیسری دنیا کے ممالک کے غریبوں کے لیے آواز اٹھائی تھی اور شملہ معاہدہ کرکے بھارت کے ساتھ امن قائم کیا تھا، آج پوری اسلامی دنیا میں بدامنی ہے اور جنگیں ہورہی ہیں، لیکن کوئی ایسا لیڈر نہیں جو انہیں متحد کرسکے۔ ان کا کہنا تھا کہ ضیاء الحق نے مذہب کے نام پر قوم کو بے وقوف بنایا، فرقہ واریت، برادری ازم، کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر لاکر ملک کو تباہ کیا جب کہ جنرل پرویز مشرف نے لبرل ازم کے نام پر قوم کو بے وقوف بنایا، لولی لنگڑی جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہوتی ہے، ہمیشہ جمہوریت کے استحکام کے لیے کوششیں جاری رکھیں گے۔
سکھر سمیت بالائی سندھ میں سید خورشید احمد شاہ کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ اپنی جماعت کی بھرپور نمائندگی کرتے ہوئے عوام کے درمیان ہر اہم موقع اور تقریب میں موجود رہتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے اجلاس اور مصروفیات سے فارغ ہونے کے بعد وہ اپنے آبائی علاقے میں لوگوں سے ملاقاتوں کے دوران ان کے مسائل سننے اور انہیں حل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، جس کی وجہ سے سیاسی اہمیت کے حامل شہر سکھر میں پیپلز پارٹی عوام میں زندہ ہے۔ اس کے برعکس پیپلز پارٹی ہی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر اسلام الدین شیخ، رکن قومی اسمبلی نعمان اسلام شیخ، رکن صوبائی اسمبلی سید ناصر حسین شاہ کی بیرون شہر مصروفیات اور اپنے حلقے سے دوری کی وجہ سے ان کے ووٹروں میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
گذشتہ ماہ وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کی جانب سے کم و بیش ایک ارب روپے کے ترقیاتی کاموں میں غیر معیاری میٹریل کے استعمال اور بدعنوانی پر گرفتار ہونے والے درجنوں ٹھیکے داروں اور سرکاری افسران و اہل کاروں کی 'جیل یاترا' کے بعد شہر کے سیاسی اثرورسوخ رکھنے والی شخصیات کی جانب سے ان کی آزادی کی سر توڑ کوششیں شروع ہو چکی ہیں۔ سیاسی وابستگی رکھنے والے ٹھیکے داروں کے اہل خانہ کی جانب سے منتخب نمائندوں پر ان کی رہائی کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔
ایف آئی اے کی جانب سے مختلف محکموں کے افسران اور درجنوں ٹھیکے داروں کی گرفتاری سے التوا کا شکار ترقیاتی کاموں میں تیزی آگئی ہے جس پر لوگوں نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر بدعنوان افسران، اہل کاروں اور سیاسی بنیادوں پر ٹھیکے حاصل کرنے والوں کے خلاف کارروائی اسی طرح جاری رہی تو گرفتاری اور بدنامی کے خوف سے مختلف اداروں کے دیگر اہل کار اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے انجام دینے پر مجبور ہوں گے اور اس طرح شہر کی تعمیرو ترقی ممکن ہوجائے گی۔
شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن 'ضرب عضب' کی حمایت اور افواج پاکستان سے اظہار یک جہتی کے لیے متحدہ قومی موومنٹ کے جلسے میں مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین اور عوام کی بھرپور شرکت نے ثابت کردیا کہ وہ افواج پاکستان کے ساتھ ہیں اور دہشت گردوں کے خلاف اس آپریشن میں اس کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔
پچھلے دنوں سکھر سمیت بالائی سندھ سے تعلق رکھنے والے متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنوں کی بڑی تعداد اپنے قائد الطاف حسین کی ہدایت پر جلسے میں شرکت کے لیے کراچی روانہ ہوئی۔ یہاں سے زونل انچارج شہزاد گلفام کی قیادت میں کارکنوں کا قافلہ شہرِ قائد پہنچا اور کارکن جلسے میں شریک ہوئے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے ملکی سلامتی، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے آواز بلند کی گئی ہو بلکہ ماضی میں بھی ایم کیو ایم نے دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے اس کے خلاف آواز بلند کی ہے۔
تاہم چھے جولائی کا جلسہ اس لحاظ سے منفرد تھا کہ اس میں ملک بھر کے سیاسی جماعتوں کے راہ نماؤں کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی اور ہر طبقے اور مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو جلسہ گاہ میں جمع ہو کر دہشت گردی کے خلاف اور پاک فوج سے یک جہتی کا اظہار کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ کراچی کے جلسے میں متحدہ قومی موومنٹ نے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے نئی روایت کو جنم دیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس جلسے کے انعقاد سے بالائی سندھ میں متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف مخالفین کے پروپیگنڈے پر بھی ضرب پڑے گی۔
طاہر القادری کی ''انقلابی جدوجہد'' کا شور تھما تو حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں کے مرکزی قائدین کی آواز سنائی دی ہے، جو طاہر القادری کو انقلاب لانے کے لیے کینیڈا سے واپسی کا مشورہ دیتے ہوئے مختلف بیانات دے رہے ہیں۔ طاہر القادری کی پاکستان آمد سے قبل اور اس کے بعد سیاسی فضا میں جو گرما گرمی پیدا ہوئی تھی، وہ اب دم توڑ رہی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ طاہر القادری کے بلند بانگ دعوے جھاگ کی طرح بیٹھ رہے ہیں جس پر چہ مگوئیاں شروع ہو گئی ہیں۔
جنرل ضیاء الحق نے پانچ جولائی 1977 کو اس وقت کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا تھا اور پیپلز پارٹی ہر سال یہ دن یوم سیاہ کے طور پر مناتی ہے۔ سکھر اور اس کے مضافات میں اس دن مختلف تقریبات منعقد کی گئیں جس میں پیپلز پارٹی کے مرکزی راہ نماؤں اور کارکنوں نے شرکت کی۔
اس موقع پر پی پی پی کے راہ نما اور قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ اور دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا، جب ایک ڈکٹیٹر ضیاء الحق نے عوام کے حقیقی راہ نما اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر ملک میں آمریت مسلط کردی، جس کا خمیازہ قوم آج تک بھگت رہی ہے، ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی، نواز شریف کو نہیں بلکہ جمہوریت کو سپورٹ کررہی ہے۔
ہمارے قائدین نے اقتدار کے لیے نہیں بلکہ ملک کے لیے قربانیاں دی تھیں، لانگ مارچ کی سیاست اور دھرنوں سے جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے۔ اس وقت پاک فوج شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں مصروف ہے، ایسے وقت میں قومی اتحاد کی ضرورت بہت بڑھ گئی ہے، قوم کا ایک ساتھ کھڑا ہونا فوج کے مورال کو بلند کرنے میں مددگار ثابت ہوگا، ہمیں چاہیے کہ شمالی وزیرستان سے آنے والے متاثرین کی ہر طریقے سے مدد کریں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پانچ جولائی جیسی سیاہ رات دوبارہ اس ملک اور عوام پر مسلط نہیں ہونے دیں گے، وزیر اعظم نواز شریف غلطیاں کرتے ہیں تو ان کی اصلاح کے لیے پارلیمنٹ ایک بہترین فورم ہے، ہم نے حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کو اسلام آباد آنے دیا جائے، اگر حکومت ان کا خیر مقدم کرتی تو نواز شریف کا سیاسی قد اور بڑھ جاتا، معاملات کو غلط طریقے سے ڈیل کرنے کی وجہ سے سانحہ ماڈل ٹاؤن رونما ہوا، جس پر ہم نے بھی شدید تنقید کی۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں جب طاہر القادری نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا تو ہم نے صبر و تحمل کے ساتھ ان سے مذاکرات کرکے انہیں واپس بھیج دیا تھا، مگر موجودہ حکومت نے غلطی کر کے ڈاکٹر طاہر القادری کو ہیرو بنا دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ شہید بھٹو نے ملک کو ایٹمی طاقت بناکر اسے مضبوط کیا، جس کی وجہ سے عالمی طاقتیں ان کے خلاف تھیں، بھٹو شہید کا جرم یہ تھا کہ وہ مسلمانوں کو متحد کررہے تھے۔
تیسری دنیا کے ممالک کے غریبوں کے لیے آواز اٹھائی تھی اور شملہ معاہدہ کرکے بھارت کے ساتھ امن قائم کیا تھا، آج پوری اسلامی دنیا میں بدامنی ہے اور جنگیں ہورہی ہیں، لیکن کوئی ایسا لیڈر نہیں جو انہیں متحد کرسکے۔ ان کا کہنا تھا کہ ضیاء الحق نے مذہب کے نام پر قوم کو بے وقوف بنایا، فرقہ واریت، برادری ازم، کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر لاکر ملک کو تباہ کیا جب کہ جنرل پرویز مشرف نے لبرل ازم کے نام پر قوم کو بے وقوف بنایا، لولی لنگڑی جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہوتی ہے، ہمیشہ جمہوریت کے استحکام کے لیے کوششیں جاری رکھیں گے۔
سکھر سمیت بالائی سندھ میں سید خورشید احمد شاہ کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ اپنی جماعت کی بھرپور نمائندگی کرتے ہوئے عوام کے درمیان ہر اہم موقع اور تقریب میں موجود رہتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے اجلاس اور مصروفیات سے فارغ ہونے کے بعد وہ اپنے آبائی علاقے میں لوگوں سے ملاقاتوں کے دوران ان کے مسائل سننے اور انہیں حل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، جس کی وجہ سے سیاسی اہمیت کے حامل شہر سکھر میں پیپلز پارٹی عوام میں زندہ ہے۔ اس کے برعکس پیپلز پارٹی ہی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر اسلام الدین شیخ، رکن قومی اسمبلی نعمان اسلام شیخ، رکن صوبائی اسمبلی سید ناصر حسین شاہ کی بیرون شہر مصروفیات اور اپنے حلقے سے دوری کی وجہ سے ان کے ووٹروں میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
گذشتہ ماہ وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کی جانب سے کم و بیش ایک ارب روپے کے ترقیاتی کاموں میں غیر معیاری میٹریل کے استعمال اور بدعنوانی پر گرفتار ہونے والے درجنوں ٹھیکے داروں اور سرکاری افسران و اہل کاروں کی 'جیل یاترا' کے بعد شہر کے سیاسی اثرورسوخ رکھنے والی شخصیات کی جانب سے ان کی آزادی کی سر توڑ کوششیں شروع ہو چکی ہیں۔ سیاسی وابستگی رکھنے والے ٹھیکے داروں کے اہل خانہ کی جانب سے منتخب نمائندوں پر ان کی رہائی کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔
ایف آئی اے کی جانب سے مختلف محکموں کے افسران اور درجنوں ٹھیکے داروں کی گرفتاری سے التوا کا شکار ترقیاتی کاموں میں تیزی آگئی ہے جس پر لوگوں نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر بدعنوان افسران، اہل کاروں اور سیاسی بنیادوں پر ٹھیکے حاصل کرنے والوں کے خلاف کارروائی اسی طرح جاری رہی تو گرفتاری اور بدنامی کے خوف سے مختلف اداروں کے دیگر اہل کار اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے انجام دینے پر مجبور ہوں گے اور اس طرح شہر کی تعمیرو ترقی ممکن ہوجائے گی۔