عمران خان نے حکومت کے خلاف طبل جنگ بجا دیا

4 اگست سے خوفزدہ مسلم لیگ(ن) کے تیر اندازوں نے اپنے ترکش میں موجود ہر ٹیڑھے میڑھے تیر کو بھی چلانا شروع کردیا ہے۔


July 08, 2014
4 اگست سے خوفزدہ مسلم لیگ(ن) کے تیر اندازوں نے اپنے ترکش میں موجود ہر ٹیڑھے میڑھے تیر کو بھی چلانا شروع کردیا ہے۔ فوٹو: فائل

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی اپنے مخالفین کی نیندیں اڑانے کی عادت نہیں گئی۔

کرکٹ کا گراونڈ ہو یا پھر سیاست کا میدان کپتان نے اپنے مدمقابل کو ہمیشہ مشکل کا شکار کیا ہے۔بہاولپور میں ہونے والے جلسے کے دوران انہوں نے نہایت ہی ''معصومانہ''انداز میں اپنے 4 بہت''سادہ'' سے مطالبات پیش کرتے ہوئے حکومت کے خلاف طبل جنگ بھی بجا دیا ہے۔ خان صاحب کو یارکر اور باؤنسر مارنے کی جو لت پڑی ہوئی ہے وہ ان کا پیچھا نہیں چھوڑ رہی۔ انہیں معلوم ہے کہ ان 4 سوالات کے اگر ''حقیقی''جواب سامنے آتے ہیں تو حکومت وقت کے پاس اپنی ہی حکومت کو برخاست کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔

خان صاحب نے مطالبات منظور نہ ہونے کی صورت میں 14 اگست کو لاہور سے اسلام آباد کے ڈی چوک تک سونامی مارچ کا اعلان کر دیا ہے۔ رمضان المبارک کی وجہ سے عمران خان نے حکومت کو ایک ماہ کا وقت دیا ہے تا کہ پی ٹی آئی کے ورکر بھی تیاری کر لیں اور مبارک مہینہ بھی گزر جائے۔ 14 اگست کو سونامی مارچ کا اعلان کر کے عمران خان نے اپنی کشتیاں جلا ڈالی ہیں کیونکہ اب اگر وہ اپنی کال واپس لیتے ہیں تو نہ صرف سیاسی و عوامی حلقوں بلکہ سب سے زیادہ ان کے اپنے کارکنوں میں منفی پیغام جائے گا اور خان صاحب کی سیاسی ساکھ کو شدید دھچکا لگ سکتا ہے۔

روزانہ درجنوں کارکنوں اور رہنماوں سے رابطوں کے بعد یہ دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ عمران خان کا ورکر اپنے قائد کے ساتھ کس حد تک منسلک ہے ۔ پاکستان میں پیپلز پارٹی کے کارکن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ بھٹو ازم کا شیدائی ہے، پیپلز پارٹی کی حکومتیں کتنی بھی بری گورنس کا مظاہرہ کریں ، اپنے کارکنوں کو نظر انداز کر دیں مگر ہر وقت اپنی حکومت کو کوسنے والا ''جیالا'' الیکشن والے روزتیر پر ہی مہر لگائے گا ۔تحریک انصاف کا کارکن جیالے سے بھی زیادہ بڑا دیوانہ ہے ۔ تحریک انصاف کے کارکنوں کی اکثریت تعلیم یافتہ ہے لہذا ان کی عمران خان کے ساتھ کمٹمنٹ اور وفاداری کا درجہ بھی اتنا ہی بلند ہے۔

مسلم لیگ (ن) کا پراپیگنڈہ پی ٹی آئی کے ورکر کو اپنی وفاداری سے متزلزل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ 14 اگست سے خوفزدہ مسلم لیگ(ن) کے تیر اندازوں نے اپنے ترکش میں موجود ہر ٹیڑھے میڑھے تیر کو بھی چلانا شروع کردیا ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاون کے اہم کردار سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے سابق چیف جسٹس آف پاکستان اور اپنے قریبی عزیز افتخار محمد چوہدری کے صاحبزادے ارسلان افتخار کو اکھاڑے میں اتارا ہے۔

چاچے اور بھتیجے کے حوالے سے پنجاب میں ایک بڑا مشہور محاورہ بولا جاتا ہے جسے فی الوقت میں یہاں نہیں دہرانا چاہتا مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ ن لیگ نے ایک مرتبہ پھر سیاسی غلطی کر ڈالی ہے۔ ارسلان افتخار نے سیتا وائٹ کیس کے گڑے مردے اکھاڑنے شروع کئے ہیں اور وہ ''ٹیریان''کا ذکر بھی کر رہے ہیں مگر شاید اس مرتبہ اس منفی مہم کا (ن) لیگ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران عمران خان اس سکینڈل کو اتنا بھگت چکے ہیں اور عوام نے اتنا میڈیا ٹرائل سنا اور دیکھا ہے کہ اب یہ معاملہ عمران خان کی سیاسی ساکھ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ ارسلان افتخار خود بھی بہت زیادہ متنازعہ شخصیت ہیں اور ان پر کرپشن کے سنگین الزامات ہیں جس کی وجہ سے عوامی حلقوں میں ان کے بارے میں منفی تاثر پایا جاتا ہے، ان کی کہی بات میں زیادہ وزن نہیں ہوگا۔

سونامی مارچ کا آغاز لاہور سے ہونا ہے جس کیلئے تیاریاں شروع کردی گئی ہیں اور ساری ذمہ داری ایک مرتبہ پھر سے تحریک انصاف لاہور کے صدر عبدالعلیم خان پر آن پڑی ہے۔ عبدالعلیم خان ماضی میں بھی لاہور میں 30 اکتوبر2011 اور 23 مارچ2013 کو تحریک انصاف کے دو میگا شوز منعقد کروا چکے ہیں ۔ عبدالعلیم خان کے خلاف پارٹی کے اندر سازشوں کا جال بھی اسی لیے بار بار بنا جاتا ہے کیونکہ ان کی عمران سے قربت اور پارٹی کیلئے گرانقدر خدمات کی وجہ سے بعض پارٹی رہنما بہت پریشان بلکہ خوفزدہ ہیں۔



فی الوقت جو معلومات میسر ہیں ان کے مطابق پنجاب کو ساؤتھ، نارتھ اور سنٹرل تین زونز میں تقسیم کیا گیا ہے جبکہ عمران خان نے لاہور کو سپیشل ٹاسک دیا ہے کہ مرکزی جلوس لاہور کے ناصر باغ سے روانہ ہوگا جس کی قیادت عمران خان کریں گے ،لاہور سے براستہ جی ٹی روڑ ہوتا ہوا سونامی مارچ اسلام آباد کے ڈی چوک تک پہنچے گا۔ خیبر پختونخوا سے آنے والا جلوس ڈی چوک پر پہنچ کر لانگ مارچ کا حصہ بن جائے گا ،مطلوبہ نتائج کے حصول تک تحریک انصاف کے کارکن دھرنا جاری رکھیں گے ۔

کارکنوں کے قیام وطعام کیلئے خیموں اور خوراک کا وسیع پیمانے پر انتظام کیا جائے گا ،لانگ مارچ کی کامیابی کیلئے رمضان المبارک کے دوران پنجاب اور خیبر پختونخوا میں وسیع پیمانے پر رابطہ مہم چلانے کے علاوہ افطار پارٹیوں کے ذریعے کارکنوں کو متحرک کیا جائے گا ۔آج شام لاہور میں عبدالعلیم خان کے دفتر میں سینئر صحافیوں کے ساتھ ملاقات کے دوران عمران خان 14 اگست کو سونامی مارچ کے حوالے سے اہم اعلانات کریں گے۔ تحریک انصاف پنجاب کے صدر اعجاز چوہدری، جنرل سیکرٹری ڈاکٹر یاسمین راشد بھی دیگر اضلاع میں سونامی مارچ کی تیاریوں کیلئے بہت محنت کر رہے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے درمیان تعلقات کی نوعیت ابھی واضح نہیں ہو پارہی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری میں سے کوئی بھی اپنی ''کمانڈ''چھوڑنے کو تیار نہیں ہے۔ڈاکٹر طاہر القادری نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ انقلاب کو کسی سونامی کی ضرورت نہیں ہے۔

شیخ رشید اور چوہدری برادران نے ابھی ہمت نہیں ہاری اور وہ بدستور اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ کسی طرح سے سونامی اور انقلاب کا ملن ہوجائے۔دوسری جانب حکومت بھی یہی چاہتی ہے کہ عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے درمیان دوریاں بڑھیں کیونکہ اگر دونوں ایک ہو گئے اور مشترکہ طور پر لانگ مارچ کیا تو پھر حکومت کیلئے خطرات انتہائی سطح تک پہنچ سکتے ہیں۔ کراچی میں ایم کیو ایم کی فوج کے حق میں ریلی سے جو خطاب قائد ایم کیو ایم الطاف حسین نے کیا وہ فوج کے حق سے کہیں زیادہ حکومت کے خلاف تھا۔

پاکستان تحریک انصاف کی سیکرٹری اطلاعات ڈاکٹر شیریں مزاری کو چاہیے کہ الیکٹرانک میڈیا پر پارٹی کی نمائندگی کرنے والے رہنماوں کی فہرست پر نظر ثانی کریں۔ شاہ محمود قریشی،اسد عمر،عارف علوی، میاں محمود الرشید، اعجاز چوہدری ،عمران اسماعیل اورنعیم الحق تو بہت عمدگی سے پارٹی کا موقف پیش کرتے ہیں مگر بعض رہنما جن میں اکثریت اراکین اسمبلی کی ہے وہ صرف چیخ چیخ کر بولنے اور دوسرے شرکاء کی بات کو بار بار ٹوک کر اپنی بات کرنے کو ہی بہترین طریقہ سمجھتے ہیں۔

ڈاکٹر صاحبہ اگر ان نوجوان رہنماؤں کو ایک یا دو خصوصی نشستوں میں ٹی وی سکرین پر مدلدل انداز میں پارٹی موقف بیان کرنے کا طریقہ سمجھا دیں تو اس سے پارٹی کو فائدہ ہوگا جبکہ ان تمام لوگوں کو مختلف ایشوز پر پارٹی کے موقف سے مکمل آگاہی ہونا بھی لازم ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔