کفایت شعاری اشرافیہ کی سبسڈی ختم کی جائے
کفایت شعاری، سادگی اختیارکرنے اور ملکی خزانے پر بوجھ کم کرنے کے لیے موجودہ حکومت کے اقدامات لائق تحسین ہیں
وفاقی کابینہ نے کابینہ کمیٹی برائے رائٹ سائزنگ کی تجاویزکی منظوری دیدی ہے، پہلے مرحلے میں 6 وزارتوں پرکمیٹی کی سفارشات کا نفاذ ہوگا، ان وزارتوں کے 82 سرکاری اداروں کو ضم اور تحلیل کر کے 40 ایسے اداروں میں تبدیل کیا جائے گا، متاثر ہونے والے ملازمین کے مفادات کے تحفظ کے لیے کمیٹی قائم کر دی گئی،کابینہ نے کفایت شعاری مہم جاری رکھنے کی منظوری بھی دی۔
کفایت شعاری، سادگی اختیارکرنے اور ملکی خزانے پر بوجھ کم کرنے کے لیے موجودہ حکومت کے اقدامات لائق تحسین ہیں۔ انصاف اور مساوات کا آغاز سربراہان کے عمل سے شروع ہوتا ہے۔ دراصل کفایت شعاری کو عملی طور پر نہ صرف حکومتی عہدوں اور سرکاری اداروں میں رائج کرنے کی ضرورت ہے بلکہ عام زندگی میں بھی اسے متعارف کرا کے مال و دولت اور جاہ و جلال کے مظاہرے کے مقابلے میں سادگی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
اعلان کردہ کفایت شعاری کی سخت پالیسی کے باوجود کابینہ میں شامل اراکین اور ماتحت اعلیٰ افسران اس پر عملدرآمد نہ کرنے سے حسب سابق اس پالیسی کا ناکام ہونا فطری امر ہوگا،کیونکہ امر واقعہ یہ ہے کہ کفایت شعاری کی پالیسی کے باوجود بہت سے سینئر بیوروکریٹس بھی 1800 سی سی سے اوپرکی سرکاری اسپورٹس یوٹیلٹی وہیکلز(ایس یو ویز)اور سیڈان کاریں استعمال کر رہے ہیں۔ اس پالیسی پر پارلیمانی فورمز کی جانب سے بھی عمل درآمد نہیں کیا گیا۔
پارلیمنٹ نے 28 جون کو وفاقی حکومت کو رواں مالی سال کے لیے170 ارب روپے سے زائد کے اضافی ٹیکس عائد کرنے کا اختیار دیا تھا۔ ساتھ ہی پارلیمنٹ گزشتہ سال کے مقابلے میں تقریباً پانچ گنا زیادہ اخراجات کے لیے 940 ارب روپے کی ریکارڈ منظوری دی ہے۔ پی ڈی ایم، نگراں حکومت اور حکمراں اتحادی حکومت کی جانب سے کفایت شعاری اور سخت مالیاتی کنٹرول کے دعوؤں کے باوجود یہ بڑے پیمانے پر اخراجات سامنے آئے ہیں۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق وزارت خزانہ کی طرف سے جاری کردہ تازہ بجٹ دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے 93 کھرب روپے کی سپلیمنٹری گرانٹس کے لیے پارلیمانی منظوری حاصل کی جو کہ ایک سال قبل منظور کیے گئے 19 کھرب 15 ارب روپے سے 389 فیصد زیادہ ہے۔ ہماریGDPگروتھ بمشکل2سے 3فیصد سالانہ ہے۔
پارلیمنٹرین نہایت خوش دلی سے ان کی تنخواہوں الاؤنسز اور دیگر مراعات میں اضافے کے لیے قوانین اور قواعد و ضوابط وضع کرتے رہتے ہیں یہ ہے ہمارا نظام حکومت۔ مرکز اور دیگر صوبوں میں بھی صورتحال اس سے مختلف نہیں۔ اعلیٰ حکومتی عہدیداروں اور سیاستدانوں کو مراعات دینے پرکثیر وسائل خرچ کیے جاتے ہیں۔ قومی اداروں کے ذمے داران کا رہن سہن دنیا کے تمام ممالک سے مختلف اور منفرد ہے۔ دوسری جانب بیوروکریسی تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ ایک سیکریٹری پر 5 لاکھ روپے ماہانہ خرچ ہوتا ہے اور اسلام آباد میں مہیا کی گئی رہائش گاہ تین لاکھ سے کم کرایہ پر نہیں ملتی اور اس کے پاس لامحدود اختیارات ہیں۔ حکومتی اخراجات کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بیوروکریسی کا حجم کم کیا جائے۔
اس سے نہ صرف اخراجات میں کمی ہوگی بلکہ محکموں کی استعداد کار میں بھی اضافہ ہوگا۔ اسلام آباد میں بیسیوں بے کاردفاتر عالی شان عمارتوں میں قائم ہیں۔ اسی طرح ملک کے دوسرے حصوں میں بھی ایسے محکمے قائم ہیں جن میں بھاری بھرکم اسٹاف ہے، وہ وقت اور وسائل کا ضیاع کرنے کے علاوہ عوام کی زندگیوں میں مشکلات پیدا کررہے ہیں۔ ہمارے حکمران، بیوروکریٹ بڑے بڑے بنگلوں میں رہتے ہیں اور انھیں تو نوکروں کی فوج بھی مہیا کی گئی ہے۔
وہ ایک لمحے کے لیے بھی یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ عام آدمی کس طرح کی زندگی گزار رہا ہے یا مر رہا ہے، بلکہ وہ تو اپنے ہمسفر نچلے درجے کے ملازمین سے بھی لاتعلق رہتے ہیں۔ وہ ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر غربت مٹانے اور اسی طرح کے دوسرے منصوبے بناتے ہیں۔ ہم من حیث القوم قرض کی مے پی کر فاقہ مستی کرنے والے بن چکے ہیں۔ آئی ایم ایف سے ملنے والی امداد پر جشن اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ کس طرح معاشی فیصلے امیر اورغریب کو مختلف انداز میں فائدہ یا نقصان پہنچاتے ہیں۔ 80 کی دہائی سے پاکستان نیو لبرل پالیسی اپنا رہا ہے اور 1959 سے لے کر اب تک ملک 22 سے زیادہ مواقعے پر آئی ایم ایف کے پاس پہنچا ہے، ہر دفعہ ہم نے یہی شادیانے بجائے ہیں کہ یہ آخری پروگرام ہوگا۔ ان قرضوں کے عوض ہم نے 160 سے زیادہ سرکاری ادارے بیچ کر ایک لاکھ سے زیادہ مزدوروں اور سرکاری ملازمین کو نکالا۔ بہانہ یہ بنایا گیا کہ سرکاری اداروں کو بیچ کر ریاستی قرضہ اتارا جائے گا۔
اسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرام لیتے وقت اگر ہمارا قرضہ 20 ارب ڈالرز سے بھی کم تھا تو آج وہ 121 بلین ڈالرز سے بھی زیادہ ہوگیا ہے جب کہ اندرونی اور بیرونی قرض ملا کر قرضوں کا حجم 200 ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہوچکا ہے جو آنے والے 20 برسوں میں چار سو ارب ڈالرز سے بھی زیادہ ہو جائے گا۔ پالیسی سازوں کو کیا خبر کہ عوام گزارہ کیسے کررہے ہیں۔ ان کو تو صرف اپنی فضول خرچیوں اور عیاشیوں کے بند ہونے کی فکر نے پریشان کیا ہوا ہے۔
اخراجات کو کم کرنے کی بات پر تجاویز اور لیت ولعل سے کام اور عوام پر مہنگائی کا بم گرانے میں اتنی جلدی۔ عوام پر ٹیکس کی مد میں اضافی بوجھ ڈالنے سے پہلے عوامی احوال پرکوئی سروے ہی کروا لیا جاتا۔ کبھی اسپتالوں میں محض خوراک کی کمی سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں مبتلا معصوم بچوں کا شمار ہی معلوم کر لیا جاتا۔ کمرتوڑ مہنگائی کی وجہ سے عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ غریب عوام بجلی کے بلوں کی وجہ سے خودکشیوں پہ مجبور ہیں۔ یہاں تک کہ مڈل کلاس بھی بجلی کے بل ادا کرنے کے حوالے سے گردے بیچنے کی باتیں کررہی ہے۔ یہ عجیب المیہ ہے کہ اس ملک میں زرمبادلہ کے سب سے بڑے ذرایع غریب عوام ہیں جو مشرق وسطیٰ میں دن رات اپنا خون پسینہ ایک کر کے ملک کو 30 ارب ڈالرز سے زیادہ کا زرمبادلہ بھیجتے ہیں لیکن ہماری اشرافیہ اس کو بے دردی سے خرچ کرتی ہے۔
ہمارے وزرا اور حکمران طبقے کے لوگ اتنے غریب ہیں کہ اربوں روپے مالیت کے ذاتی محلوں جیسی رہائشوں یا ایلیٹ ہاؤسنگ سوسائٹی میں رہنے کے باوجود جب مشیر، وزیر یا معاون بنتے ہیں تو ان کے کپڑوں سے لے کر جوتوں تک کا بوجھ ریاست اٹھاتی ہے۔ ان کے لیے پُرتعیش گاڑیاں خریدی جاتی ہیں اور بعض معاملات میں اگر ایک گاڑی دو مہینے پرانی بھی ہو، تو یہ ان کی طبیعت پرگراں گزرتی ہے اور فوراً شاہی حکم نامہ جاری ہوتا ہے کہ اس غریب ملک کے امیر حکمرانوں کے لیے آناً فاناً پُرتعیش گاڑیاں خریدی جائیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ملک کے سپاہیوں اور عام لوگوں نے بے پناہ قربانیاں دیں لیکن حکمران طبقات نے اس بات کا اصل فائدہ اٹھایا۔ خود ساختہ طور پر وزیر، مشیر یا معاون کی جان کو شدید خطرات لاحق ہوجاتے ہیں اور وہ بلٹ پروف کارکے بغیر اپنے ڈرائنگ روم سے بھی نہیں نکلتا۔ گزشتہ برسوں میں کئی وزراء کے لیے مہنگی بلٹ پروف گاڑیاں خریدی گئیں، تاہم وزارت جانے کے بعد یہ خطرات ہوا میں تحلیل ہوجاتے ہیں۔ اس بلٹ پروف کلچر نے غریب عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا۔
اس کے علاوہ وزرا کی یہ بھی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے محلات کے اردگرد چار دیواری کو اونچا کیا جائے، دیواروں کو ریزر وائر لگا کر ناقابل تسخیر بنایا جائے اور سی سی ٹی وی لگا کر دشمنوں پر نظر رکھی جائے۔ سیاسی حکمرانوں کے علاوہ ہمارے بابوؤں کو بھی پر لگ گئے۔
بابو، سی ایس ایس کا امتحان پاس کر کے بیوروکریٹ بننے کے فوراً بعد گرگٹ کی طرح رنگ بدل لیتے ہیں۔ جب وہ صدر، وزیر اعظم، وزیروں اور مشیروں کی صحبت میں ہوں تو دوسرے ملک میں فائیو اسٹار ہوٹل میں ٹھہرنے کے لیے پر تولتے ہیں۔ مہنگی مہنگی گاڑیاں کرائے پر لیتے ہیں اور بغیر کسی احتسابی خوف کے عوام کے خون پسینے کی کمائی ولایتی سڑکوں پر لٹاتے ہیں۔ہمیں معیشت کی سمت کو بھی بدلنا پڑے گا، اس کا پورا ڈھانچہ تبدیل کرنا پڑے گا۔ اس وقت جو ڈھانچہ ہے، وہ یہ ہے کہ یہ معیشت اشرافیہ کے اتحاد کے لیے چل رہی ہے۔ اس کے علاوہ بیرونی قرض دہندگان کے قرضے واپس کرنے کے لیے چل رہی ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ عالمی اور ملکی اشرافیہ کی معیشت ہے۔ اصل میں اس معیشت کو عوام کے لیے چلنا چاہیے، عوام کی بہتری کے لیے کام کرنا چاہیے۔
اس کے لیے اس کی سمت اور ڈھانچہ بدلنا پڑے گا۔ اس کے لیے بیرونی قرضوں کی بنیاد پر ترقی کے بجائے لوگوں کی صلاحیتیں نکھار کر اور بروئے کار لا کر ترقی حاصل کی جائے۔ لوگوں کی صلاحیتوں کو سرمایہ کاری کر کے ابھاریں اور پھر انھیں ترقی کے لیے بروئے کار لائیں۔ پہلا قدم یہ ہے کہ بین الاقوامی معیار کا پبلک ایجوکیشن سسٹم بنایا جائے، اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ جب قوم تعلیم یافتہ ہوجائے گی، ان کے دماغ کھل جائیں گے تو وہ انوویشن (Innovation) کے قابل ہوجائیں گے، جدید ہنر سے آراستہ ہو جائیں گے۔ اس کا نتیجہ پھر معاشی ترقی ہی ہوگا، جس کی بنیاد انوویشن ہے۔ اس طرح ملک کی ترقی لوگوں کے ذریعے ہوگی، قرضوں کے ذریعے سے نہیں ہوگی، دوسرا اقدام یہ ضروری ہے کہ عالمی معیار کا پبلک ہیلتھ سسٹم بنایا جائے، اگر لوگوں کی صحت بہتر ہو جاتی ہے، تو ان کی پیداواریت بھی بہتر ہوگی۔ تعلیم اور صحت معاشی ترقی کے لیے اہم ذرایع ہیں۔