مرض سے نہیں علاج سے مرنا
گویا موت کے فرشتے کے کام میں باقاعدہ اورکھلم کھلا مداخلت بلکہ رکاوٹ ؟
فارسی ادبیات کے مطابق ایک مرتبہ موت کے فرشتے نے عرض کی تھی کہ یا تو ''حکیم اصیل'' نامی طبیب کو منع کیا جائے کہ میرے ''کام'' میں مداخلت نہ کرے یا مجھے کوئی اورکام دیا جائے کہ اب تو میں ''حکیم اصیل'' کی ناجائز دخل اندازی کی وجہ سے فارغ بیٹھا ہوں۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا ہوگا ،وہ انڈر اسٹوڈ ہے یعنی حکیم اصیل کیفرکردار تک پہنچ گیا ہو گا۔
لیکن آج کی صورت حال بالکل ہی مختلف ہے کیوں کہ حکیم اصیل کے جانشینوں اوردواساز اداروں نے آپس میں ''گٹھ بندھن'' کرکے فیصلہ کیا ہوا ہے کہ کسی بھی مریض کو بیماری کے ہاتھوں مرنے دیں گے بلکہ ''علاج'' سے ماریں گے ، گویا موت کے فرشتے کے کام میں باقاعدہ اورکھلم کھلا مداخلت بلکہ رکاوٹ ؟
کحھ عرصہ پہلے ان کے اس کام میں باقاعدہ تسلسل اورترتیب نہیں تھی اوربہت سارے لوگ ''ان'' کی غفلت سے بیماریوں کے ہاتھوں بھی ''مکتی'' پالیتے تھے لیکن جب سے عوام پر طرح طرح کے ''وائرس'' چھوڑنے کا سلسلہ ایجاد ہوا ہے تب سے کسی بیماری کی مجال جو کسی کو مارسکے جب تک یہ ''جان بچانے والے '' اس کی جان بچا کر اچھی طرح نچوڑنہیں لیتے ۔
وکیلوں کے بارے میں ایک مشہورلطیفہ تو آپ نے سنا ہی ہوگا کہ ایک شخص کا بیٹا قتل کے جرم میں پابند سلاسل ہوا تو پہلے اس نے پانچ ہزار روپے کا ایک وکیل پکڑا پھر لوگوں کے بہکاوے میں آکر اس نے ایک لاکھ روپے والے وکیل کو پیروی کے لیے ہائر کیا لیکن اس کے بیٹے کو پھانسی ہوگئی، ایک دن سرراہ اس پرانے پانچ ہزار والے وکیل سے ملاقات ہوئی ،وکیل نے کیس کے بارے میں پوچھا تو باپ نے دکھ بھر ے لہجے میں بتایا کہ لڑکے کو پھانسی ہوگئی اس پر وکیل بولا ، تم نے خوامخواہ خسارہ اٹھایا یہی کام تو میں پانچ ہزار روپے میں بھی کردیتا۔
اب اس لطیفے کی کوکھ سے جو نیا لطیفہ جنا ہے وہ یہ ہے کہ ایک مریض گاؤں کے عطائی سے علاج کروارہا تھا لیکن پھر اس پر اعلیٰ فیس والے اعلیٰ ڈاکٹر کا بھوت سوارہوا ، اعلیٰ ڈاکٹر نے ٹیسٹوں اورایکسریز کے ساتھ پندرہ بیس ہزارروپے کی پریسکپریشن پر علاج شروع کیا اورآخر کار مریض کو ''بیماریوں'' سے بچا بچا کر بذریعہ علاج کیفرکردارتک پہنچایا تو عطائی نے اس کے باپ سے وہی کہا جو اس وکیل نے کہا تھا۔
ہندی دھرم کے مطابق آدمی جب مرتا ہے تو وہ اگر نیک ہوتا ہے تو اس کی آتما موکش''مکتی'' پاکر پرماتما کی آتما سے واصل ہوجاتی ہے لیکن جن لوگوں کے اعمال اچھے نہیں ہوتے ان کی روحوں '(آتماؤں) کو ایک مقام ''یونی'' میں رکھاجاتاہے اورپھرکسی اورکی شکل میں دوسرے جنم میں پیدا کیاجاتا ہے اسے جنم جمانتر کاچکر کہتے ہیں اوریہ روحیں باربار آتی جاتی رہتی ہیں جب تک ''پاپ'' سے مکمل طور پر صاف ہوکرپرماتما سے جاملنے یعنی مکتی پانے کی قابل نہیں ہوجاتی ہیں ۔کچھ ایسا ہی سلسلہ ہمارے اس ''مسیحائی دھرم'' کا بھی ہے ،معاف کیجیے مسیحائی دھرم کی ہماری ہوم میڈ اصطلاح پر برا مت مانئیے لیکن حقیقت یہی ہے کہ اب یہ باقاعدہ دھرم کا سلسلہ ہے کہ اس میں صرف ایک ہی ''خدا'' کی پوجا ہوتی ہے وہی دیوتا جس کے عبادت خانوں کو ''نیک'' کہاجاتا ہے ۔
اس دھرم میں انسانوں کی ''بلی''دی جاتی ہے جو کوئی بھی ہاتھ لگے جنگلی قبائل کی طرح اسے اپنے دیوتا کے سامنے قربان کیا جاتا ہے ۔جب کوئی قسمت کا مارا بھول بھٹک کر ان کے ہاتھ لگتا ہے تو پہلے اس کا خون نچوڑ کر رکھا جاتا ہے اورپھر جب خون کا قطرہ بھی باقی نہیں رہتا تو ''پیداکردہ'' بیماریوں کے حوالے کرکے دساورکو بھیج دیاجاتا ہے۔
لیکن آج کی صورت حال بالکل ہی مختلف ہے کیوں کہ حکیم اصیل کے جانشینوں اوردواساز اداروں نے آپس میں ''گٹھ بندھن'' کرکے فیصلہ کیا ہوا ہے کہ کسی بھی مریض کو بیماری کے ہاتھوں مرنے دیں گے بلکہ ''علاج'' سے ماریں گے ، گویا موت کے فرشتے کے کام میں باقاعدہ اورکھلم کھلا مداخلت بلکہ رکاوٹ ؟
کحھ عرصہ پہلے ان کے اس کام میں باقاعدہ تسلسل اورترتیب نہیں تھی اوربہت سارے لوگ ''ان'' کی غفلت سے بیماریوں کے ہاتھوں بھی ''مکتی'' پالیتے تھے لیکن جب سے عوام پر طرح طرح کے ''وائرس'' چھوڑنے کا سلسلہ ایجاد ہوا ہے تب سے کسی بیماری کی مجال جو کسی کو مارسکے جب تک یہ ''جان بچانے والے '' اس کی جان بچا کر اچھی طرح نچوڑنہیں لیتے ۔
وکیلوں کے بارے میں ایک مشہورلطیفہ تو آپ نے سنا ہی ہوگا کہ ایک شخص کا بیٹا قتل کے جرم میں پابند سلاسل ہوا تو پہلے اس نے پانچ ہزار روپے کا ایک وکیل پکڑا پھر لوگوں کے بہکاوے میں آکر اس نے ایک لاکھ روپے والے وکیل کو پیروی کے لیے ہائر کیا لیکن اس کے بیٹے کو پھانسی ہوگئی، ایک دن سرراہ اس پرانے پانچ ہزار والے وکیل سے ملاقات ہوئی ،وکیل نے کیس کے بارے میں پوچھا تو باپ نے دکھ بھر ے لہجے میں بتایا کہ لڑکے کو پھانسی ہوگئی اس پر وکیل بولا ، تم نے خوامخواہ خسارہ اٹھایا یہی کام تو میں پانچ ہزار روپے میں بھی کردیتا۔
اب اس لطیفے کی کوکھ سے جو نیا لطیفہ جنا ہے وہ یہ ہے کہ ایک مریض گاؤں کے عطائی سے علاج کروارہا تھا لیکن پھر اس پر اعلیٰ فیس والے اعلیٰ ڈاکٹر کا بھوت سوارہوا ، اعلیٰ ڈاکٹر نے ٹیسٹوں اورایکسریز کے ساتھ پندرہ بیس ہزارروپے کی پریسکپریشن پر علاج شروع کیا اورآخر کار مریض کو ''بیماریوں'' سے بچا بچا کر بذریعہ علاج کیفرکردارتک پہنچایا تو عطائی نے اس کے باپ سے وہی کہا جو اس وکیل نے کہا تھا۔
ہندی دھرم کے مطابق آدمی جب مرتا ہے تو وہ اگر نیک ہوتا ہے تو اس کی آتما موکش''مکتی'' پاکر پرماتما کی آتما سے واصل ہوجاتی ہے لیکن جن لوگوں کے اعمال اچھے نہیں ہوتے ان کی روحوں '(آتماؤں) کو ایک مقام ''یونی'' میں رکھاجاتاہے اورپھرکسی اورکی شکل میں دوسرے جنم میں پیدا کیاجاتا ہے اسے جنم جمانتر کاچکر کہتے ہیں اوریہ روحیں باربار آتی جاتی رہتی ہیں جب تک ''پاپ'' سے مکمل طور پر صاف ہوکرپرماتما سے جاملنے یعنی مکتی پانے کی قابل نہیں ہوجاتی ہیں ۔کچھ ایسا ہی سلسلہ ہمارے اس ''مسیحائی دھرم'' کا بھی ہے ،معاف کیجیے مسیحائی دھرم کی ہماری ہوم میڈ اصطلاح پر برا مت مانئیے لیکن حقیقت یہی ہے کہ اب یہ باقاعدہ دھرم کا سلسلہ ہے کہ اس میں صرف ایک ہی ''خدا'' کی پوجا ہوتی ہے وہی دیوتا جس کے عبادت خانوں کو ''نیک'' کہاجاتا ہے ۔
اس دھرم میں انسانوں کی ''بلی''دی جاتی ہے جو کوئی بھی ہاتھ لگے جنگلی قبائل کی طرح اسے اپنے دیوتا کے سامنے قربان کیا جاتا ہے ۔جب کوئی قسمت کا مارا بھول بھٹک کر ان کے ہاتھ لگتا ہے تو پہلے اس کا خون نچوڑ کر رکھا جاتا ہے اورپھر جب خون کا قطرہ بھی باقی نہیں رہتا تو ''پیداکردہ'' بیماریوں کے حوالے کرکے دساورکو بھیج دیاجاتا ہے۔