شاعری سے سیاست میں آنے والا بھارتی
عمران پرتاب گڑھی کا اصل نام محمد عمران خان ہے مگر وہ عمران پرتاب گڑھی کہلاتے ہیں
آج کل سوشل میڈیا پر بھارت کے مشہور نوجوان شاعر عمران پرتاب گڑھی کی سیاست کا بڑا چرچہ ہے جو اس کم عمری میں ہی بھارتی پارلیمنٹ راجیہ سبھا کے کانگریس کے منتخب رکن ہیں اور دنیا بھر میں اپنی منفرد شاعری منوانے کے بعد بھارتی سیاست میں تیزی سے ابھرے ہیں اور بھارت میں پارلیمنٹ میں کی گئی اپنی تقاریر کے باعث مشہور ہو رہے ہیں اور بی جے پی کے سینے پر مونگ دل رہے ہیں اور متعدد بھارتی ٹی وی چینلز پر دلیری سے اپنے نظریات کا پرچارکر رہے ہیں اور ان کی شاعری اور سیاست کا محور صرف محبت ہے اور وہ نفرت کے بجائے محبت کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہیں اور بھارت ہی میں نہیں بلکہ دنیا میں ہر اس جگہ جہاں شاعروں کو بڑے انہماک سے سنا جاتا ہے وہ اپنی شاعری کے ذریعے نفرت کی حوصلہ شکنی اور محبت کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔
36 سالہ اور غیر شادی شدہ عمران پرتاب پوری الٰہ آباد کمشنری کے شہر پرتاب گڑھ کے قریب واقع ایک گاؤں میں ایک درمیانے درجے کے خاندان میں پیدا ہوئے اور اپنے دس بہن بھائیوں میں ایک بہن کے بعد سب سے بڑے اور تعلیم یافتہ ہیں جو حصول تعلیم کے لیے اپنے گاؤں سے پرتاب گڑھ ریلوے اسٹیشن سے الٰہ آباد جایا کرتے تھے۔
2012 میں شاعری کے باعث ہندوستان کے ادبی حلقوں میں اس وقت مشہور ہوئے جب بھارت میں متعدد مسلمان شاعروں کا طوطی بولتا تھا اور دو مشہور مسلمان شاعروں منور رانا، ڈاکٹر راحت اندوری و دیگر کی موجودگی میں خود کو منوانا انتہائی مشکل تھا مگر نئی نسل کے شاعروں میں عمران پرتاب گڑھی جیسی شہرت کسی کو نصیب نہ ہوئی۔
عمران پرتاب گڑھی کا اصل نام محمد عمران خان ہے مگر وہ عمران پرتاب گڑھی کہلاتے ہیں جہاں سے انھوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور اپنے والد کے محدود وسائل میں انھی کی وجہ سے الٰہ آباد پڑھنے گئے تھے۔نئی نسل اور پیڑی کی رقابت کے باعث انھیں اپنے سینئر مسلمان شاعروں کا بھی سامنا رہا مگر اپنی جاندار شاعری اور پڑھنے کے خاص منفرد انداز اور ترنم کے باعث وہ بھارت ہی نہیں دنیا بھر میں مقبول ہوتے گئے۔
جب عمران پرتاب گڑھی پہلی بار سعودی عرب گئے تو ان کی شاعری سننے کے لیے جو مشاعرہ منعقد ہوا تھا اس میں ڈھائی ہزار بھارتی شریک ہوئے تھے جنھوں نے اس ابھرتے ہوئے نوجوان شاعر کو سراہا تھا اور دل کھول کر اپنے ہم وطن شاعر کو داد دی تھی۔عمران پرتاب گڑھی یو اے ای اور دیگر خلیجی ممالک میں منعقدہ مشاعروں میں اپنی شاعری منوا چکے ہیں جہاں بھارت کی طرح ہزاروں مقامی و غیر مقامی افراد شریک ہو کر شاعروں کو دلچسپی سے سنتے ہیں اور شاعروں کی ہمت افزائی کرنے میں مشہور ہیں اور بھارت ہی نہیں پاکستان کے ممتاز شعرا کو سننے کے لیے بھی بڑی تعداد میں آتے ہیں اور کھل کر بلا امتیاز داد دیتے ہیں۔
عمران پرتاب گڑھی نے ایک ٹی وی انٹرویو میں اپنے ماضی کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ انھیں تعلیم کے حصول کے لیے اپنے والد کی طرف سے محدود مالی معاونت ملتی تھی جس میں انھیں گزارا کرنا پڑتا تھا۔ عمران اپنے ماضی میں گزاری ہوئی مالی تنگی کا وقت نہیں بھولے۔ ایک بار رمضان المبارک میں روزہ رکھ کر جب وہ الٰہ آباد سے واپس گھر جا رہے تھے تو ان کی جیب میں صرف بیس روپے تھے اور ٹرین کا 13 روپے کرایہ دے کر ان کے پاس صرف سات روپے بچے تھے وہ پرتاب گڑھ پہنچ کر گاؤں جانے کے لیے اپنے کسی دوست سے کچھ قرضہ لینا چاہتے تھے اور آٹو رکشہ کرکے وہ ایک کے بعد دوسرے دوست کے گھر گئے مگر دونوں کے نہ ملنے پر انھیں سخت مالی پریشانی ہوئی کیونکہ بس اڈے تک جانے پر ان پر 30 روپے کرایہ چڑھ گیا تھا اور ان کے پاس جو سات روپے تھے اس سے سموسے خرید کر روزہ افطار کر چکے تھے۔
عمران بتاتے ہیں کہ مجبوری میں وہ بس میں چڑھ کر گاؤں پہنچ گئے اور آٹو والے کا 30 روپے وہ کرایہ نہ دے سکے تھے جس کا انھیں اب تک دکھ ہے۔ بعد میں انھوں نے پرتاب گڑھ جا کر اس بوڑھے آٹو والے کو بہت تلاش کیا لیکن وہ نہ مل سکا۔ مالی حالات میں بہتری کے بعد وہ اس 30 روپے کی تلافی اس طرح کر رہے ہیں کہ آٹو میں سفر کرتے ہوئے طلب کیے جانے والے 50 روپے کی جگہ ہر آٹو والے کو وہ پانچ سو روپے دے کر حیران کر دیتے ہیں۔ عمران کو سیاست کا کوئی شوق نہیں تھا، نہ انھوں نے اپنی مقبولیت کا سیاسی فائدہ اٹھایا جس طرح کرکٹ کے کپتان نے 1992 میں پاکستان میں اٹھایا تھا۔
عمران کی مقبولیت کا سن کر کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے انھیں2017میں اپنے پاس بلایا اور 20 منٹ کی طے شدہ یہ ملاقات ایک گھنٹہ 39منٹ میں ختم ہوئی جس میں راہول جی نے انھیں کانگریس میں شمولیت پر آمادہ کیا اور ایک سال بعد ہی انھیں راجیہ سبھا کا الیکشن لڑنے کا اچانک ٹکٹ دیا گیا جس کے لیے وہ تیار نہ تھے بہرحال انھوں نے پرانے سیاستدانوں کے مقابلے میں الیکشن لڑا۔ سیاسی نا تجربہ کاری کے باعث ہار گئے مگر 2022 میں انھیں دوبارہ الیکشن لڑوایا گیا جس میں وہ ساٹھ ہزار ووٹوں سے جیت گئے اور اب پارلیمنٹ میں اپنی دھواں دھار تقاریر سے مودی جی اور بی جے پی پر معیاری تنقید کرتے ہیں مگر وہ کبھی پاکستان کی طرح اپنے سیاسی مخالفین کو چور، ڈاکو قرار دیتے ہیں نہ کسی کی عزت اچھالتے ہیں۔
عمران پرتاب گڑھی پارلیمنٹ میں بھی اپنے شاعری والے نام سے ہی پکارے جاتے ہیں مگر شاعری کو سیاست پر ترجیح دیتے ہیں اور سیاست کو نفرت کے خاتمے اور محبت بڑھانے پر مکمل یقین رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چائے فروخت کرنے والے مودی جی نے جس طرح اقتدار میں آ کر دس سال میں بھارت کا بیڑا غرق کیا، بے روزگاری اور مہنگائی بڑھائی، کوئی بھی وعدہ پورا نہیں کیا جس پر وہ مودی جی کے سخت ناقد ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر کوئی بچہ چائے فروخت کرتا مودی جی کی طرح نظر آئے تو اسے اسکول میں داخل کرا کر تعلیم حاصل کرنے کا موقعہ دیا جائے تاکہ مستقبل میں چائے بیچنے والا کوئی بھارتی بچہ بڑا ہو کر نفرت کی سیاست نہ کر سکے جس طرح وزیر اعظم بن کر نریندر مودی نے نفرت بڑھائی اور بھارت کو نقصان پہنچایا ہے۔