12 جولائی کا حکم جوڈیشل پیکیج کی راہ میں رکاوٹ
حکومتی صفوں کو خدشہ ہے الیکشن ٹربیونلز پنجاب میں انتخابی درخواستوں کا فیصلہ جلد کر سکتے ہیں
اگرچہ سپریم کورٹ کے 12 جولائی کو الیکشن کمیشن کو تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں مختص کرنے کی ہدایت دینے والے اکثریتی حکم کا مسلم لیگ ن کی زیرسربراہی وفاقی حکومت کی فعالیت پر اثر نہیں پڑا۔
تاہم یہ جوڈیشل پیکیج کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کر رہا ہے جو دو تہائی اکثریت کے بغیر منظور نہیں ہو سکتا۔ 12 جولائی کے اکثریتی حکم نامے پر حکومت کا ردعمل ظاہر کرتا ہے اعلیٰ عدلیہ کو تشکیل دینے کا اس کا منصوبہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔
معلوم ہوا ہے جوڈیشل پیکیج کے مجوزہ مسودے میں سپریم کورٹ کے ہر جج کی رٹائرمنٹ کی عمر میں 3سال کی توسیع کی تجویز دی گئی ہے۔ موجودہ چیف جسٹس کو سب سے زیادہ فائدہ ہوگا کیونکہ ان کی رٹائرمنٹ 25 اکتوبر کو ہونی ہے۔ 12 جولائی کے حکم نامے کے فوراً بعد حکومتی عہدیداروں نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ پی ٹی آئی نئے چیف جسٹس کی تقرری کی امید کر رہی ہے جو جسٹس عیسیٰ کی رٹائرمنٹ کے بعد موجودہ حکومت کوممکنہ طور پرگھر بھیج سکتی ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کاکہنا ہے حکومتی صفوں کو خدشہ ہے الیکشن ٹربیونلز پنجاب میں انتخابی درخواستوں کا فیصلہ جلد کر سکتے ہیں۔اب صورتحال یہ ہے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے 6نئے الیکشن ٹربیونلز کی تقرری سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا ہے۔
یہ معاملہ ابھی تک سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔حکومت نے 12 جولائی کے اکثریتی حکم نامے کے اثرات کی نفی کیلئے الیکشن ایکٹ 2017 ء میں ترامیم کی ہیں۔ یہ بات قابل غور ہے الیکشن کمشن نے نئے قانون پر عمل کیا نہ 12 جولائی کے حکم پر عمل درآمد کرایا۔ حکومت عدالتی پیکج منظور کرنے کے کیلئے منصوبے جاری رکھے ہوئے ہے تاہم آئینی ترامیم کے بلوں کی منظوری کیلئے قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں میں کمی کا سامنا ہے۔
ایوان زیریں اور ایوان بالا دونوں کے اجلاس میں جے یو آئی ف کے رکن قومی اسمبلی نور عالم نے عدلیہ سے متعلق آئینی ترامیم کیلئے دو بل جمع کرائے ہیں۔ اسی طرح مسلم لیگ ن کے ایم این اے دانیال چودھری ہیں جو سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد 17 سے بڑھا کر 23 کرنے کے خواہاں ہیں۔ذرائع کے مطابق حکومت جہاں عدلیہ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے،وہاںوہ اگلے چیف جسٹس منصور علی شاہ کی ہمدردی حاصل کرنے کیلئے عقبی راستے بھی استعمال کررہی ہے۔
راولپنڈی بار ایسوسی ایشن کیس کے تاریخی اکثریتی فیصلے میں کہاگیا اگر عدلیہ کی آزادی کی خلاف ورزی کی گئی تو آئینی ترمیم ختم کی جا سکتی ہے۔ حکومت کو اس وقت موجودہ چیف جسٹس کی طرف سے کسی مزاحمت کا سامنا نہیں ہے۔ادھر مبصرین نے بھی قرار دیا ہے کہ حکومت سپریم کورٹ میں تقسیم کافائدہ اٹھانے کی کوشش کررہی ہے۔
سینئر وکلاء کا کہنا ہے حکومت 12 جولائی کے بعد سے اکثریتی ججوں پر دباؤ ڈال رہی ہے تاکہ تفصیلی فیصلے میں توہین آمیز کلمات سے بچا جاسکے۔ان کاماننا ہے کہ نئے چیف جسٹس کی تقرری او رتفصیلی فیصلہ آنے تک ججوں پر دباؤجاری رہے گا۔عبدالمعیز جعفری ایڈووکیٹ نے کہا حکومت نے عدالتی ڈھانچہ الجھانے کی کوشش کی تاہم مطلوبہ تعداد جمع کرنے میں ناکام رہی۔اس کی وجہ عوامی حمایت یا جائز مینڈیٹ کی کمی آسانی سے شناخت کی جاسکتی ہے۔