اداروں کی نجکاری نہ ہونے کے باوجود فنانشل ایڈوائزر کو کروڑوں کی ادائیگیوں کا انکشاف
حکومت نے صرف یہ جاننے کیلیے کہ کسی ادارے کی نجکاری ہو سکتی یا نہیں اس پر ایک ارب 99 کروڑ روپے خرچ کردیے
اداروں کی نجکاری نہ ہونے کے باوجود فنانشل ایڈوائزر کو کروڑوں روپے ادائیگیوں کا انکشاف ہوا ہے جبکہ حکومت نے صرف یہ جاننے کیلیے کہ کسی ادارے کی نجکاری ہو سکتی یا نہیں اس پر ایک ارب 99 کروڑ روپے خرچ کردیے اور پھر نجکاری کا مشورہ ملنے کے بعد اس پر عمل بھی نہیں کیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق سینیٹ کی نجکاری کمیٹی کا اجلاس جمعرات کو پارلیمنٹ میں سینیٹر محمد طلال چودھری کی زیر صدارت منعقد ہوا، اجلاس میں سینٹر بلال احمد خان، سینیٹر خلیل طاہر، سینیٹر ندیم احمد بھٹو، سیکریٹری نجکاری اور متعلقہ محکمے کے سینئر حکام شریک ہوئے۔ اجلاس میں گزشتہ 5 سالوں میں نجکاری کے عمل پر آنے والے اخراجات اور آمدن پر بریفنگ دی گئی۔
سیکرٹری نجکاری نے بریفنگ میں بتایا کہ گزشتہ پانچ سال میں نجکاری ٹرانزیکشنز سے 4 ارب 38 کروڑ روپے آمدن حاصل ہوئی، جبکہ نجکاری پر اس دوران ایک ارب 40 کروڑ روپے خرچ کیے گئے، آپریشنل اخراجات ملا کر مجموعی رقم ایک ارب 99 کروڑ روپے خرچ ہوئی۔
سیکرٹری نجکاری نے بتایا کہ نیشنل پاور پارک کمپنی کو نجکاری لسٹ سے نکال دیا گیا، نیشنل پاور پارک کمپنی کی نجکاری کیلیے 33 کروڑ روپے فنانشل ایڈوائزر کو دیے گئے، پاکستان اسٹیل ملز کو بھی نجکاری کی فہرست سے نکال دیا گیا، اسٹیل ملز کیلیے تین سالوں میں فنانشل ایڈوائزر کو 12 کروڑ 70 لاکھ روپے ادائیگی ہوئی۔ جناح کنونشن سینٹر کو بھی نجکاری کی لسٹ سے نکال دیا گیا، جناح کنونشن سینٹر پر فنانشل ایڈوائزر کو 70 لاکھ روپے پیمنٹ ہوئی۔
رکن کمیٹی سینیٹر بلال احمد نے پوچھا کہ نجکاری کیلیے فنانشنل ایڈوائزر ہائر کیوں کیا جاتا ہے؟ سیکرٹری نجکاری ڈویژن نے جواب دیا کہ فنانشل ایڈوائزر بتاتا ہے کہ ادارے کی نجکاری ہو سکتی یا نہیں۔
چیئرمین کمیٹی طلال چوہدری نے پوچھا کہ اتنا خرچہ کرکے پھر نجکاری کیوں روک دی گئی؟،سیکرٹری نجکاری نے جواب دیا کہ حکومت نے ہی بعد میں اس کمپنی کی نجکاری نہ کرنے کا فیصلہ کیا، گزشتہ سال کابینہ نے اسٹیل ملز کو ڈی لسٹ کر دیا تھا، اسٹیل ملز کی نجکاری نہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ صرف ایک بڈر رہ گیا تھا، حکومت کا خیال تھا کہ ایک بڈر کے ساتھ جانا ٹھیک نہیں رہے گا، جناح کنونشن سینٹر کی نجکاری پر سی ڈی اے کے کچھ اعتراضات تھے۔
سیکریٹری نجکاری کی جانب سے پچھلے پانچ سالوں میں نجکاری سے ہونے والی آمدنی اور اخراجات پر بریفنگ دی گئی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس عرصے کے دوران کل آمدنی 4,389 ملین جبکہ کل اخراجات 1,992 ملین رہے۔
کمیٹی کے ارکان نے ان کمپنیوں کی فہرست کا تفصیلی جائزہ لیا جہاں لین دین میں رکاوٹیں آئیں، سیکریٹری نے وضاحت کی کہ نیشنل پاور پارک کمپنی کو حکومت کی طرف سے نجکاری کے لیے پیش نہیں کیا گیا، جبکہ پاکستان اسٹیل مل کی نجکاری بولی دہندگان کی دستبرداری کی وجہ سے رک گئی، اور جناح کنونشن سینٹر کی نجکاری سی ڈی اے کے مشاہدات اور جانچ پڑتال کے مسائل کی وجہ سے معطل ہوگئی۔
کمیٹی کے چیئرمین نے نجکاری حکام کو ہدایت دی کہ اگلے اجلاس میں نجکاری شدہ ڈسکوز کے اخراجات کی تفصیلات اور مالی تجزیہ فراہم کریں، انہوں نے پاور ڈویژن کو تفصیلی جانچ پڑتال کے لیے بلانے اور نجکاری کے لیے ایک راستہ وضع کرنے پر زور دیا۔
چیئرمین کمیٹی نے اس بات پر زور دیا کہ اکثر سیاسی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دی جاتی ہے، جو پاکستان کے مفاد کے خلاف ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر پی آئی اے یا اسٹیل مل تباہ ہو جاتی ہے تو نہ تو ملازمین کے مفادات کا تحفظ کیا جا سکے گا اور نہ ہی پاکستان کے مفادات کا۔
سیکرٹری نجکاری نے مزید کہا کہ نجکاری صرف اسی صورت میں کامیاب ہوگی جب تمام اسٹیک ہولڈرز اس کی حمایت کریں گے۔ اگر سب متفق ہیں کہ یہ تصور درست ہے تو اسے آگے بڑھایا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ پروگرام تبھی کامیاب ہوگا جب سب مل کر تعاون کریں گے اور اپنی حمایت فراہم کریں گے۔
سیکریٹری نجکاری نے کمیٹی کو پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کارپوریشن لمیٹڈ (پی آئی اے سی ایل) کی جاری نجکاری کے بارے میں آگاہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ 2015 سے پی آئی اے سی ایل پر 499 ارب روپے کے واجبات جمع ہو چکے ہیں، جبکہ 2023 میں 75 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ کل واجبات اب 825 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں، جبکہ کل اثاثے 161 ارب روپے ہیں۔
سیکریٹری نے کابینہ کے فیصلے کے بعد کی گئی کارپوریٹ اور ریگولیٹری کارروائیوں پر بھی بات کی۔ اس کے علاوہ، انہوں نے کمیٹی کو 3 جون 2024 کو ہونے والی ایک میٹنگ کے بارے میں آگاہ کیا، جس میں چھ دلچسپی رکھنے والی جماعتوں کو پری کوالیفائی کیا گیا: فلائی جناح لمیٹڈ، ایئر بلیو لمیٹڈ، عارف حبیب کارپوریشن لمیٹڈ، وائی بی ہولڈنگز (پرائیویٹ) لمیٹڈ کے زیر قیادت ایک کنسورشیم، پاک ایتھانول کے زیر قیادت ایک کنسورشیم، اور بلیو ورلڈ سٹی کے زیر قیادت ایک کنسورشیم۔
چیئرمین سینیٹر محمد طلال بدر نے زور دیا کہ پی آئی اے میں بہت صلاحیت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک وقت تھا جب کراچی کے لیے پی آئی اے کی کوئی پرواز دستیاب نہیں تھی اور ان کی گنجائش پوری ہو چکی تھی۔ صلاحیت بہت زیادہ ہے، لیکن پی آئی اے کی موجودہ حالت ایسی ہے کہ یہ اپنی بوجھ بھی نہیں اٹھا سکتا۔
سینیٹر محمد طلال نے اس بات پر زور دیا کہ پی آئی اے کی نجکاری پاکستان کی معیشت اور نجکاری کے مستقبل کے لیے بہت اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اس عمل کو ہر صورت مکمل کرنے کے لیے پرعزم ہے اور نجکاری کمیشن کی شاندار کارکردگی کی تعریف کی۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس سے صحت مند مقابلے کو فروغ ملے گا، اور کئی دہائیوں بعد یہ لین دین کامیابی کے ساتھ اگلے دو ماہ میں مکمل ہو جائے گا۔
تفصیلات کے مطابق سینیٹ کی نجکاری کمیٹی کا اجلاس جمعرات کو پارلیمنٹ میں سینیٹر محمد طلال چودھری کی زیر صدارت منعقد ہوا، اجلاس میں سینٹر بلال احمد خان، سینیٹر خلیل طاہر، سینیٹر ندیم احمد بھٹو، سیکریٹری نجکاری اور متعلقہ محکمے کے سینئر حکام شریک ہوئے۔ اجلاس میں گزشتہ 5 سالوں میں نجکاری کے عمل پر آنے والے اخراجات اور آمدن پر بریفنگ دی گئی۔
سیکرٹری نجکاری نے بریفنگ میں بتایا کہ گزشتہ پانچ سال میں نجکاری ٹرانزیکشنز سے 4 ارب 38 کروڑ روپے آمدن حاصل ہوئی، جبکہ نجکاری پر اس دوران ایک ارب 40 کروڑ روپے خرچ کیے گئے، آپریشنل اخراجات ملا کر مجموعی رقم ایک ارب 99 کروڑ روپے خرچ ہوئی۔
سیکرٹری نجکاری نے بتایا کہ نیشنل پاور پارک کمپنی کو نجکاری لسٹ سے نکال دیا گیا، نیشنل پاور پارک کمپنی کی نجکاری کیلیے 33 کروڑ روپے فنانشل ایڈوائزر کو دیے گئے، پاکستان اسٹیل ملز کو بھی نجکاری کی فہرست سے نکال دیا گیا، اسٹیل ملز کیلیے تین سالوں میں فنانشل ایڈوائزر کو 12 کروڑ 70 لاکھ روپے ادائیگی ہوئی۔ جناح کنونشن سینٹر کو بھی نجکاری کی لسٹ سے نکال دیا گیا، جناح کنونشن سینٹر پر فنانشل ایڈوائزر کو 70 لاکھ روپے پیمنٹ ہوئی۔
رکن کمیٹی سینیٹر بلال احمد نے پوچھا کہ نجکاری کیلیے فنانشنل ایڈوائزر ہائر کیوں کیا جاتا ہے؟ سیکرٹری نجکاری ڈویژن نے جواب دیا کہ فنانشل ایڈوائزر بتاتا ہے کہ ادارے کی نجکاری ہو سکتی یا نہیں۔
چیئرمین کمیٹی طلال چوہدری نے پوچھا کہ اتنا خرچہ کرکے پھر نجکاری کیوں روک دی گئی؟،سیکرٹری نجکاری نے جواب دیا کہ حکومت نے ہی بعد میں اس کمپنی کی نجکاری نہ کرنے کا فیصلہ کیا، گزشتہ سال کابینہ نے اسٹیل ملز کو ڈی لسٹ کر دیا تھا، اسٹیل ملز کی نجکاری نہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ صرف ایک بڈر رہ گیا تھا، حکومت کا خیال تھا کہ ایک بڈر کے ساتھ جانا ٹھیک نہیں رہے گا، جناح کنونشن سینٹر کی نجکاری پر سی ڈی اے کے کچھ اعتراضات تھے۔
سیکریٹری نجکاری کی جانب سے پچھلے پانچ سالوں میں نجکاری سے ہونے والی آمدنی اور اخراجات پر بریفنگ دی گئی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس عرصے کے دوران کل آمدنی 4,389 ملین جبکہ کل اخراجات 1,992 ملین رہے۔
کمیٹی کے ارکان نے ان کمپنیوں کی فہرست کا تفصیلی جائزہ لیا جہاں لین دین میں رکاوٹیں آئیں، سیکریٹری نے وضاحت کی کہ نیشنل پاور پارک کمپنی کو حکومت کی طرف سے نجکاری کے لیے پیش نہیں کیا گیا، جبکہ پاکستان اسٹیل مل کی نجکاری بولی دہندگان کی دستبرداری کی وجہ سے رک گئی، اور جناح کنونشن سینٹر کی نجکاری سی ڈی اے کے مشاہدات اور جانچ پڑتال کے مسائل کی وجہ سے معطل ہوگئی۔
کمیٹی کے چیئرمین نے نجکاری حکام کو ہدایت دی کہ اگلے اجلاس میں نجکاری شدہ ڈسکوز کے اخراجات کی تفصیلات اور مالی تجزیہ فراہم کریں، انہوں نے پاور ڈویژن کو تفصیلی جانچ پڑتال کے لیے بلانے اور نجکاری کے لیے ایک راستہ وضع کرنے پر زور دیا۔
چیئرمین کمیٹی نے اس بات پر زور دیا کہ اکثر سیاسی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دی جاتی ہے، جو پاکستان کے مفاد کے خلاف ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر پی آئی اے یا اسٹیل مل تباہ ہو جاتی ہے تو نہ تو ملازمین کے مفادات کا تحفظ کیا جا سکے گا اور نہ ہی پاکستان کے مفادات کا۔
سیکرٹری نجکاری نے مزید کہا کہ نجکاری صرف اسی صورت میں کامیاب ہوگی جب تمام اسٹیک ہولڈرز اس کی حمایت کریں گے۔ اگر سب متفق ہیں کہ یہ تصور درست ہے تو اسے آگے بڑھایا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ پروگرام تبھی کامیاب ہوگا جب سب مل کر تعاون کریں گے اور اپنی حمایت فراہم کریں گے۔
سیکریٹری نجکاری نے کمیٹی کو پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کارپوریشن لمیٹڈ (پی آئی اے سی ایل) کی جاری نجکاری کے بارے میں آگاہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ 2015 سے پی آئی اے سی ایل پر 499 ارب روپے کے واجبات جمع ہو چکے ہیں، جبکہ 2023 میں 75 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ کل واجبات اب 825 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں، جبکہ کل اثاثے 161 ارب روپے ہیں۔
سیکریٹری نے کابینہ کے فیصلے کے بعد کی گئی کارپوریٹ اور ریگولیٹری کارروائیوں پر بھی بات کی۔ اس کے علاوہ، انہوں نے کمیٹی کو 3 جون 2024 کو ہونے والی ایک میٹنگ کے بارے میں آگاہ کیا، جس میں چھ دلچسپی رکھنے والی جماعتوں کو پری کوالیفائی کیا گیا: فلائی جناح لمیٹڈ، ایئر بلیو لمیٹڈ، عارف حبیب کارپوریشن لمیٹڈ، وائی بی ہولڈنگز (پرائیویٹ) لمیٹڈ کے زیر قیادت ایک کنسورشیم، پاک ایتھانول کے زیر قیادت ایک کنسورشیم، اور بلیو ورلڈ سٹی کے زیر قیادت ایک کنسورشیم۔
چیئرمین سینیٹر محمد طلال بدر نے زور دیا کہ پی آئی اے میں بہت صلاحیت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک وقت تھا جب کراچی کے لیے پی آئی اے کی کوئی پرواز دستیاب نہیں تھی اور ان کی گنجائش پوری ہو چکی تھی۔ صلاحیت بہت زیادہ ہے، لیکن پی آئی اے کی موجودہ حالت ایسی ہے کہ یہ اپنی بوجھ بھی نہیں اٹھا سکتا۔
سینیٹر محمد طلال نے اس بات پر زور دیا کہ پی آئی اے کی نجکاری پاکستان کی معیشت اور نجکاری کے مستقبل کے لیے بہت اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اس عمل کو ہر صورت مکمل کرنے کے لیے پرعزم ہے اور نجکاری کمیشن کی شاندار کارکردگی کی تعریف کی۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس سے صحت مند مقابلے کو فروغ ملے گا، اور کئی دہائیوں بعد یہ لین دین کامیابی کے ساتھ اگلے دو ماہ میں مکمل ہو جائے گا۔