سچی پیش گوئیاں حصہ دوم
یعنی جب بات سکندر سے ابراہیم شاہ تک پہنچ جائے گی تو یقین کر لیں کہ اس کے ملک میں فتنہ پیدا ہوگا
نعمت اللہ شاہ ولی کا ایک مصرعہ یوں ہے:
رازے کہ گُفتہ ام من، درے کہ سُفتہ ام من
یعنی میں نے جو راز بیان کیے ہیں یہ وہ موتی ہیں جو میں نے پروئے ہیں۔ ان کے یہ الفاظ واقعات کی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن کو وہ موتی قرار دے رہے ہیں۔ یہ اللہ اور اس کے ولیوں کا معاملہ ہے کہ وہ کیسے ان کے ذہن میں یہ باتیں ڈالتا ہے۔ جو حرف بہ حرف پوری ہوتی ہیں۔ اب یہ شعر دیکھیے جو مغلوں سے متعلق ہے:
بعد از سہ صد نہ بینی تو حکم گورگانی
چوں اصحاب کہف گردد درکہف غائبانہ
وہ فرماتے ہیں کہ تین سو سال حکومت کے بعد مغل اس طرح غائب ہو جائیں گے جیسے اصحاب کہف غائب ہوئے تھے، ایسا ہی ہوا۔ مغلوں کا کل دور حکومت 331 برس رہا۔ اس میں سے پندرہ برس کا وہ عرصہ نکال دیا جائے جب شیر شاہ سوری نے ہمایوں کو شکست دے کر حکومت پر قبضہ کر لیا تھا، تو یہ عرصہ 316 برس بنتا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اصحاب کہف کے غائب رہنے کا عرصہ بھی کم و بیش تین سو سال ہی ہے۔
راست گوئیم بادشاہے درجہاں پیدا شود
نام او تیمور شاہ صاحبقراں پیدا شود
یعنی میں سچی بات کہہ رہا ہوں کہ اس دنیا میں ایک بادشاہ پیدا ہوگا اس کا نام تیمور شاہ ہوگا اور وہ صاحبقراں ہوگا۔ وہ وقت کا حاکم ہوگا۔
ہندوستان کے مغل حکمرانوں کا شجرہ امیر تیمور ہی سے ملتا ہے۔ ظہیر الدین بابر ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کا بانی بابر ہی تھا۔ بابرکابل کا بادشاہ تھا جو بعد میں سلطنت دہلی کا والی وارث بنا، بابر نے یہ حکومت لودھیوں سے حاصل کی تھی، چنانچہ اب اس جانب آتے ہیں:
از سکندر چوں رسد نوبت بہ ابراہیم شاہ
ایں یقیں دار فتنہ در ملک آں پیدا شود
یعنی جب بات سکندر سے ابراہیم شاہ تک پہنچ جائے گی تو یقین کر لیں کہ اس کے ملک میں فتنہ پیدا ہوگا، یہ لودھی حکمرانوں کا ذکر ہے۔ یہ سلطنت بہلول لودھی نے قائم کی جس کے بعد سکندر اور پھر ابراہیم لودھی حکمران بنا اور اسی پر سلطنت کا خاتمہ ہوگیا اور بابر نے ابراہیم لودھی کو شکست دے کر اپنی حکمرانی قائم کی اور ہندوستان کو تہذیب و تمدن کا گہوارا بنا دیا۔
باز نوبت از ہمایوں مے رسد از ذوالجلال
ہم درآں افغاں یکے از آسماں پیدا شود
اس شعر میں مدتوں پہلے ہمایوں اور شیرشاہ سوری کا ذکر ملتا ہے۔ افغان سے مراد شیرشاہ سوری ہے۔ اس شعر میں وہ کہتے ہیں کہ رب ذوالجلال کی طرف سے ہمایوں کو بادشاہی ملے گی، اسی دوران قدرت کی طرف سے ایک افغان ظاہر ہوگا۔ تاریخ شاہد ہے کہ یہ سب کچھ ہوا۔ شیر شاہ سوری نے ہمایوں پر فتح حاصل کی اور پندرہ برس تک ہندوستان پر حکومت کی اور بہت سے اہم کام کیے۔ یہ ہماری جی ٹی روڈ شیر شاہ سوری کی ہی بنوائی ہوئی ہے۔
پس ہمایوں بادشاہ بر ہند قابض مے شود
بعد ازاں اکبر شاہ کشور ستاں پیدا شود
یہاں کہہ رہے ہیں کہ پس ہمایوں ملک ہندوستان پر قبضہ کر لے گا اور اس کے انتقال کے بعد اکبر ملک کا بادشاہ بنے گا جو کشورستان ہوگا۔ یہ جلال الدین اکبر ہے جسے تاریخ اکبر اعظم کے نام سے جانتی ہے۔ یہ دیکھیے نام بہ نام پیش گوئیاں ہیں اور یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ ہمایوں کے انتقال کے بعد اکبر تخت نشین ہوا تھا اور پچاس سال تک ہندوستان پر حکومت کی۔ حیرت ہوتی ہے کہ خداوند تعالیٰ کس طرح اپنے خاص بندوں پر مستقبل کے راز کھول دیتا ہے۔
بعد از شاہ جہانگیر است گیتی راہ پناہ
اینکہ آید در جہاں بدرِ جہاں پیدا شود
اس شعر میں مستقبل کا راز اس طرح افشا کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس کے بعد (اکبر کے) حکمرانی جہانگیر کو مل جائے گی۔ یہ تخت افروز ہوگا تو مہتاب کامل کی طرح ظاہر ہوگا۔ تاریخ شاہد ہے کہ جہانگیر کا دور مغلیہ عہد کا شان دار دور تھا۔ اس نے عدل جہانگیر کی مثال قائم کردی، جہانگیر نے اپنی تخت نشینی کے بعد پہلا کام یہ کیا تھا کہ اس نے ایک زنجیر عدل بنوائی تھی جو سونے کی تھی، اس کا وزن چار من تھا۔
اس کا ایک سرا آگرہ کے قلعہ شاہ برج کے کنگرے سے بندھا تھا، اور دوسرا دریا کے کنارے لگے سنگ میل سے منسلک تھا۔ جہانگیر نے یہ زنجیر عدل اس لیے بنوائی تھی کہ اگر کسی کو انصاف نہیں مل رہا، ریاکاری سے کام لیا جا رہا ہے تو ایک عام آدمی اس زنجیر کو ہلا کر بادشاہ کو خبر کر دے، یہی وجہ تھی کہ جہانگیر کے دور میں رعایا بہت مطمئن اور خوش حال تھی۔ مظلوموں کی داد رسی جہانگیر کے دور میں پوری طرح کی جاتی تھی۔ جہانگیر 1569 عیسوی میں پیدا ہوا اور چھتیس برس کی عمر میں اپنے والد کے انتقال کے بعد تخت نشین ہوا اور 1627 عیسوی میں وفات پائی۔ اب اگلی پیش گوئی ملاحظہ فرمائیے:
چوں کند عزم سفر آں ہم سوئے دار البقاء
ثانی صاحب قراں شاہجہاں پیدا شود
یعنی جب وہ (جہانگیر) دارالبقا یعنی موت کا سفر شروع کرے گا تو وقت کا حاکم ثانی یعنی شاہجہاں ظاہر ہوگا۔ شاہجہاں جس کا اصل نام خرم تھا اور جس نے اکبر کی رانی مریم زمانی کے زیر سایہ پرورش پائی تھی۔ جہانگیر کا بہت چہیتا بیٹا تھا۔ شاہجہاں کی تاج پوشی 1605 کو ہوئی۔ شاہجہاں کو معمار بادشاہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس نے بہت سی یادگار عمارتیں بنوائی تھیں جیسے لاہورکا شالیمار باغ، شیخوپورہ کا ہرن مینار اور سب سے بڑھ کر تاج محل جس کی مثال اس روئے زمین پہ کہیں نہیں ہے جو اس نے اپنی چہیتی ملکہ ارجمند بانو یعنی ممتاز محل کے لیے بنوایا تھا۔
1976 میں اقوام متحدہ نے اسے نہ صرف عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کیا بلکہ فن تعمیرکا بہترین نمونہ قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ ہمایوں کے مقبرے کو بھی قومی ورثہ قرار دیا گیا ہے اور اس کی دیکھ بھال بھی اقوام متحدہ کے ذمے ہے۔ اب یہ شعر دیکھیے، اس میں کیا کہتے ہیں:
ہم چناں دو عشر باشد بادشاہی او کند
ناز فرزنداں او کوچک بدا پیدا شود
او بزور پر کند آواز خود اندر جہاں
والیٔ ایں خلقِ عالم بے گماں پیدا شود
دو عشر، یعنی اس کی حکومت بیس برس تک رہے گی۔ وہ دو عشروں تک بادشاہ رہے گا اور پھر اس کے فرزندوں میں سب سے چھوٹا بیٹا ظاہر ہوگا۔ اس نے اپنی قوت اور طاقت کے بل بوتے پر اپنے بڑے بھائیوں شجاع اور دارالشکوہ سے جنگ کی اور انھیں موت کے گھاٹ اتار دیا، کیونکہ اسے یقین تھا کہ جب تک اس کے بھائی زندہ رہیں گے اسے حکومت کرنے کا لطف نہیں آئے گا۔ لیکن ایک بات پر تعجب ہوتا ہے کہ نعمت اللہ شاہ نے مغلیہ سلطنت کے تمام بادشاہوں کا ذکر کیا حتیٰ کہ ان کا بھی ذکر کیا جو غیر معروف تھے، لیکن اورنگزیب کا کہیں نام نہ لیا۔
اس کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ انھوں نے اورنگزیب کی اس شقی القلبی کو پسند نہ کیا کہ اس نے دارالشکوہ کو ہاتھی کے پیروں میں باندھ کے سڑکوں پر گھسیٹا اور پوری خلقت آنسو بہا رہی تھی۔ دارالشکوہ صوفی منش انسان تھا اور لوگ اسے بے حد پسند کرتے تھے۔ اس کی تصنیف ''سفینۃالاولیا'' اولیائے کرام کے بارے میں ہے۔ (جاری ہے)
رازے کہ گُفتہ ام من، درے کہ سُفتہ ام من
یعنی میں نے جو راز بیان کیے ہیں یہ وہ موتی ہیں جو میں نے پروئے ہیں۔ ان کے یہ الفاظ واقعات کی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن کو وہ موتی قرار دے رہے ہیں۔ یہ اللہ اور اس کے ولیوں کا معاملہ ہے کہ وہ کیسے ان کے ذہن میں یہ باتیں ڈالتا ہے۔ جو حرف بہ حرف پوری ہوتی ہیں۔ اب یہ شعر دیکھیے جو مغلوں سے متعلق ہے:
بعد از سہ صد نہ بینی تو حکم گورگانی
چوں اصحاب کہف گردد درکہف غائبانہ
وہ فرماتے ہیں کہ تین سو سال حکومت کے بعد مغل اس طرح غائب ہو جائیں گے جیسے اصحاب کہف غائب ہوئے تھے، ایسا ہی ہوا۔ مغلوں کا کل دور حکومت 331 برس رہا۔ اس میں سے پندرہ برس کا وہ عرصہ نکال دیا جائے جب شیر شاہ سوری نے ہمایوں کو شکست دے کر حکومت پر قبضہ کر لیا تھا، تو یہ عرصہ 316 برس بنتا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اصحاب کہف کے غائب رہنے کا عرصہ بھی کم و بیش تین سو سال ہی ہے۔
راست گوئیم بادشاہے درجہاں پیدا شود
نام او تیمور شاہ صاحبقراں پیدا شود
یعنی میں سچی بات کہہ رہا ہوں کہ اس دنیا میں ایک بادشاہ پیدا ہوگا اس کا نام تیمور شاہ ہوگا اور وہ صاحبقراں ہوگا۔ وہ وقت کا حاکم ہوگا۔
ہندوستان کے مغل حکمرانوں کا شجرہ امیر تیمور ہی سے ملتا ہے۔ ظہیر الدین بابر ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کا بانی بابر ہی تھا۔ بابرکابل کا بادشاہ تھا جو بعد میں سلطنت دہلی کا والی وارث بنا، بابر نے یہ حکومت لودھیوں سے حاصل کی تھی، چنانچہ اب اس جانب آتے ہیں:
از سکندر چوں رسد نوبت بہ ابراہیم شاہ
ایں یقیں دار فتنہ در ملک آں پیدا شود
یعنی جب بات سکندر سے ابراہیم شاہ تک پہنچ جائے گی تو یقین کر لیں کہ اس کے ملک میں فتنہ پیدا ہوگا، یہ لودھی حکمرانوں کا ذکر ہے۔ یہ سلطنت بہلول لودھی نے قائم کی جس کے بعد سکندر اور پھر ابراہیم لودھی حکمران بنا اور اسی پر سلطنت کا خاتمہ ہوگیا اور بابر نے ابراہیم لودھی کو شکست دے کر اپنی حکمرانی قائم کی اور ہندوستان کو تہذیب و تمدن کا گہوارا بنا دیا۔
باز نوبت از ہمایوں مے رسد از ذوالجلال
ہم درآں افغاں یکے از آسماں پیدا شود
اس شعر میں مدتوں پہلے ہمایوں اور شیرشاہ سوری کا ذکر ملتا ہے۔ افغان سے مراد شیرشاہ سوری ہے۔ اس شعر میں وہ کہتے ہیں کہ رب ذوالجلال کی طرف سے ہمایوں کو بادشاہی ملے گی، اسی دوران قدرت کی طرف سے ایک افغان ظاہر ہوگا۔ تاریخ شاہد ہے کہ یہ سب کچھ ہوا۔ شیر شاہ سوری نے ہمایوں پر فتح حاصل کی اور پندرہ برس تک ہندوستان پر حکومت کی اور بہت سے اہم کام کیے۔ یہ ہماری جی ٹی روڈ شیر شاہ سوری کی ہی بنوائی ہوئی ہے۔
پس ہمایوں بادشاہ بر ہند قابض مے شود
بعد ازاں اکبر شاہ کشور ستاں پیدا شود
یہاں کہہ رہے ہیں کہ پس ہمایوں ملک ہندوستان پر قبضہ کر لے گا اور اس کے انتقال کے بعد اکبر ملک کا بادشاہ بنے گا جو کشورستان ہوگا۔ یہ جلال الدین اکبر ہے جسے تاریخ اکبر اعظم کے نام سے جانتی ہے۔ یہ دیکھیے نام بہ نام پیش گوئیاں ہیں اور یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ ہمایوں کے انتقال کے بعد اکبر تخت نشین ہوا تھا اور پچاس سال تک ہندوستان پر حکومت کی۔ حیرت ہوتی ہے کہ خداوند تعالیٰ کس طرح اپنے خاص بندوں پر مستقبل کے راز کھول دیتا ہے۔
بعد از شاہ جہانگیر است گیتی راہ پناہ
اینکہ آید در جہاں بدرِ جہاں پیدا شود
اس شعر میں مستقبل کا راز اس طرح افشا کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس کے بعد (اکبر کے) حکمرانی جہانگیر کو مل جائے گی۔ یہ تخت افروز ہوگا تو مہتاب کامل کی طرح ظاہر ہوگا۔ تاریخ شاہد ہے کہ جہانگیر کا دور مغلیہ عہد کا شان دار دور تھا۔ اس نے عدل جہانگیر کی مثال قائم کردی، جہانگیر نے اپنی تخت نشینی کے بعد پہلا کام یہ کیا تھا کہ اس نے ایک زنجیر عدل بنوائی تھی جو سونے کی تھی، اس کا وزن چار من تھا۔
اس کا ایک سرا آگرہ کے قلعہ شاہ برج کے کنگرے سے بندھا تھا، اور دوسرا دریا کے کنارے لگے سنگ میل سے منسلک تھا۔ جہانگیر نے یہ زنجیر عدل اس لیے بنوائی تھی کہ اگر کسی کو انصاف نہیں مل رہا، ریاکاری سے کام لیا جا رہا ہے تو ایک عام آدمی اس زنجیر کو ہلا کر بادشاہ کو خبر کر دے، یہی وجہ تھی کہ جہانگیر کے دور میں رعایا بہت مطمئن اور خوش حال تھی۔ مظلوموں کی داد رسی جہانگیر کے دور میں پوری طرح کی جاتی تھی۔ جہانگیر 1569 عیسوی میں پیدا ہوا اور چھتیس برس کی عمر میں اپنے والد کے انتقال کے بعد تخت نشین ہوا اور 1627 عیسوی میں وفات پائی۔ اب اگلی پیش گوئی ملاحظہ فرمائیے:
چوں کند عزم سفر آں ہم سوئے دار البقاء
ثانی صاحب قراں شاہجہاں پیدا شود
یعنی جب وہ (جہانگیر) دارالبقا یعنی موت کا سفر شروع کرے گا تو وقت کا حاکم ثانی یعنی شاہجہاں ظاہر ہوگا۔ شاہجہاں جس کا اصل نام خرم تھا اور جس نے اکبر کی رانی مریم زمانی کے زیر سایہ پرورش پائی تھی۔ جہانگیر کا بہت چہیتا بیٹا تھا۔ شاہجہاں کی تاج پوشی 1605 کو ہوئی۔ شاہجہاں کو معمار بادشاہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس نے بہت سی یادگار عمارتیں بنوائی تھیں جیسے لاہورکا شالیمار باغ، شیخوپورہ کا ہرن مینار اور سب سے بڑھ کر تاج محل جس کی مثال اس روئے زمین پہ کہیں نہیں ہے جو اس نے اپنی چہیتی ملکہ ارجمند بانو یعنی ممتاز محل کے لیے بنوایا تھا۔
1976 میں اقوام متحدہ نے اسے نہ صرف عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کیا بلکہ فن تعمیرکا بہترین نمونہ قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ ہمایوں کے مقبرے کو بھی قومی ورثہ قرار دیا گیا ہے اور اس کی دیکھ بھال بھی اقوام متحدہ کے ذمے ہے۔ اب یہ شعر دیکھیے، اس میں کیا کہتے ہیں:
ہم چناں دو عشر باشد بادشاہی او کند
ناز فرزنداں او کوچک بدا پیدا شود
او بزور پر کند آواز خود اندر جہاں
والیٔ ایں خلقِ عالم بے گماں پیدا شود
دو عشر، یعنی اس کی حکومت بیس برس تک رہے گی۔ وہ دو عشروں تک بادشاہ رہے گا اور پھر اس کے فرزندوں میں سب سے چھوٹا بیٹا ظاہر ہوگا۔ اس نے اپنی قوت اور طاقت کے بل بوتے پر اپنے بڑے بھائیوں شجاع اور دارالشکوہ سے جنگ کی اور انھیں موت کے گھاٹ اتار دیا، کیونکہ اسے یقین تھا کہ جب تک اس کے بھائی زندہ رہیں گے اسے حکومت کرنے کا لطف نہیں آئے گا۔ لیکن ایک بات پر تعجب ہوتا ہے کہ نعمت اللہ شاہ نے مغلیہ سلطنت کے تمام بادشاہوں کا ذکر کیا حتیٰ کہ ان کا بھی ذکر کیا جو غیر معروف تھے، لیکن اورنگزیب کا کہیں نام نہ لیا۔
اس کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ انھوں نے اورنگزیب کی اس شقی القلبی کو پسند نہ کیا کہ اس نے دارالشکوہ کو ہاتھی کے پیروں میں باندھ کے سڑکوں پر گھسیٹا اور پوری خلقت آنسو بہا رہی تھی۔ دارالشکوہ صوفی منش انسان تھا اور لوگ اسے بے حد پسند کرتے تھے۔ اس کی تصنیف ''سفینۃالاولیا'' اولیائے کرام کے بارے میں ہے۔ (جاری ہے)