مکالمہ کے فکری انحطاط کا بحران
مسئلہ نئی نسل یا پرانی نسل کا نہیں بلکہ ہماری اجتماعی دانش کی ناکامی کا ہے
پاکستانی معاشرے میں بات چیت، مفاہمت اور ایک دوسرے کو سمجھنے کی صلاحیت سمیت '' مکالمہ'' کا رواج یا فکر کمزور ہوتی جا رہی ہے اور اس کا ایک بڑ ا نقصان قوم کے مجموعی مزاج میں انتہا پسندی ، شدت پسندی اور ایک دوسرے کے خیالات کی نفی کی صورت میں سامنے آرہا ہے ۔یہ سوچ ہی ایک خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتی ہے کہ سچ صرف میرا ہے اور باقی لوگ غلط ہیں ۔
جیسے ہم اپنے ہی خیالات کو عزت و احترام دیتے ہیں ویسے دوسروں کے خیالات کے بارے میں ہمارا مجموعی مزاج تعصب اور نفرت کی بنیاد پر ہوتا ہے جو ظاہرکرتا ہے کہ مکالمہ کی سوچ ہماری ترجیحات میں کہیں پیچھے رہ گئی ہے ۔ مسئلہ محض مذہبی بنیادوں تک محدود نہیں بلکہ علمی و فکری سیاسی سطح پر بھی مکالمہ ناپید ہوتا جارہا ہے ۔ایک دوسرے کے خیالات کو سننا اور سمجھ کر اپنی رائے بنانے کا رجحان کم اور اپنے خیالات کو دوسروں پر مسلط کرنے کا عمل زیادہ بالادست ہوگیا ہے ۔
سیاسی ، سماجی ،مذہبی اور علمی کلچر میں انتہا پسندانہ رجحانات میں اضافہ کی وجہ سیاسی و مذہبی کلچر میں عدم برداشت کا فقدان ہے اور سیاسی محاذ کی سطح پر سیاسی بیانات ،تقریریں اور ایک دوسرے کے بارے میں لفظوں کے چناؤ میں نفرت اور تعصب سمیت سیاسی دشمنی کا پہلو نمایاں ہوگیا ہے ۔لوگوں میں اپنے سیاسی اور مذہبی مخالفین کے بارے میں نفرت کو پیدا کرنا ، اشتعال دلانا اور یہ احساس پیدا کرنا کہ صرف ہم ہی سچائی پر ہیں اس طرزعمل نے اوپر سے لے کر نیچے تک موجود رسائی رکھنے والوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا ہے ۔
مسئلہ تعلیم کا نہیں ہے بلکہ اصل کام تربیت یا اعلیٰ معاشرتی اقدار کی کمی کا ہے ۔تعلیم اور تربیت کے درمیان جو ہم آہنگی یا باہمی ربط ہونا چاہیے تھا وہ کہیں گم ہوکر رہ گیا ہے ۔ایک نتیجہ یہ نکالا جا رہا ہے کہ نئی نسل مکالمہ سے دور ہے اور مکالمہ کی کمی یا اس کے آداب نہ ہونے کا سارا غصہ نئی نسل پر نکال کر بڑوں کو اس جرم سے باہر نکالاجاتا ہے۔اسی طرح کیونکہ نئی نسل سے جڑے لوگوں کا غلبہ ڈیجیٹل میڈیا پر ہے تو ان کو ہی اس جرم میں مجرم بنا کر پیش کرنا بھی شامل ہوگیا ہے ۔
مسئلہ نئی نسل یا پرانی نسل کا نہیں بلکہ ہماری اجتماعی دانش کی ناکامی کا ہے ،جو کچھ ہمارے بڑے سیاسی رہنما یا مذہبی رہنما یا بڑے سکہ بند اہل دانش ٹی وی مذاکروں یا ڈیجیٹل میڈیا پر مکالمہ کے نام پر شدت پسندی کے کلچر کو فروغ دے رہے ہیں اس کا ذمے دار کون ہے۔کیونکر بڑ ے افراد اس ذمے داری کو قبول کرنے کے لیے تیارنہیں کہ اس اجتماعی ناکامی کی ذمے داری نئی نسل کے ساتھ ساتھ ہماری پرانی نسل کو بھی لینی ہوگی جو نئی نسل کے لیے مثالی کردارکے طور پر خود کو پیش نہیں کرسکے ۔
اسی طرح ایک بڑا بگاڑ میڈیا کی سطح پر اور بالخصوص پہلے پرائیویٹ چینل کی شکل میں اور پھر رہی سہی کسر ڈیجیٹل میڈیا کی مدد سے ہوئی کیونکہ دونوں اطراف ریٹنگ بیسڈ میڈیا یا بحرانوں کو یا ایڈونچرز کی بنیاد پر شدت پسندی کے ساتھ پروگرام اور ڈالرسیاست نے بہت کچھ برباد کردیا۔اختلاف کو ہم اس نہج پر لے گئے کہ دوسروں کی رائے کو احترام دینے کے جذبے کو پیچھے چھوڑ دیا اور فکری اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کو ہم نے ترجیح نہیں دی۔
دھیمے انداز میں ، شائستگی سے ، تدبر، تحمل ،عاجزی ، انکساری ،منطق اور دلیل کی بنیاد جب کمزور ہوتی ہے تو اس کی جگہ جذباتیت اور غصے کا پہلو نمایاں ہوجاتا ہے ۔کچھ لوگ تو خود بھی نرگسیت کا شکار ہوجاتے ہیں اور خود کو بھی اور اپنے خیالات کو بھی نہ صرف نمایاں کرتے ہیں بلکہ خود کو عقل کل بھی سمجھتے ہیں ۔مکالمہ دو طرفہ ہوتا ہے ایک بیان کرتا ہے تو دوسرا سنتا ہے اورجب دوسرا بولتا ہے تو پہلا سنتا ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر ہم معاملات کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
آج ہم بطور ریاست، حکومت ، معاشرہ سب سطح پر مکالمہ سے دور ہیں یا جو مکالمہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہ مکالمہ کم اور مکالمہ کی نفی زیادہ ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ مکالمہ یا مفاہمت کے نام پر قومی سیاست ،سماجیات، معیشت ہو یا مذہب سے جڑے معاملات یا علمی و فکری مباحث سب ہی ڈیڈ لاک کا شکار ہیں یا ہم ان مباحث کی بنیاد پر اپنے معاملات کو حل کرنا کم زیادہ بگاڑ کو پیدا کررہے ہیں ۔
ایک ایسا سماج جو مختلف مذاہب، گروہ، برادری، تہذیبوں اور رسم و رواج سے جڑا ہو اسے مکالمہ اور ایک دوسرے کو سمجھ کر آگے بڑھنے کی فکر ہی معاشرے میں سیاسی ،سماجی ،مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے کا سبب بنتی ہے۔یہ جو ہمیں اس وقت قومی سطح پر ایک بڑی سیاسی تقسیم مختلف طبقات سمیت حکومت اور ادارہ جاتی سطح پر بھی دیکھنے کو مل رہی ہے اس نے بھی غصہ کی سیاست کو پیدا کیا ہے۔ وجہ صاف ہے کہ سیاسی مخالفین سے مذاکرات، کرنے کی حکمت عملی کو اختیار کرنے کی بجائے مخالفانہ متبادل آوازوں کو طاقت سے دبانے کی حکمت عملی نے معاشرے میں مزید انتشار کی سیاست کو جنم دیا ہے۔
بقول جون ایلیا'' آؤ اختلافات پر اتفاق کرلیں '' جیسی سوچ کے فقدان نے ہمیں بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے اور ہم جو تصویر قومی سطح پر معاشرے کی بنارہے ہیں وہ ہماری ساکھ پر کئی سوالیہ نشان چھوڑ رہی ہے ۔ہماری تصویر منفی بنیادوں پر بن رہی ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔اگر ہم نے مکالمہ کے کلچر کو فوقیت دینی ہے اور اسے اپنی قومی ، علمی ، فکری اور سیاسی سوچ کے ساتھ جوڑنا ہے تو پھر ہمیں اپنے موجودہ طرز عمل کی سطح پر بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں لانی ہونگی ۔
اپنے قومی مزاج میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر تحمل ، بردباری اور ایک دوسرے کے خیالات سے عدم اتفاق کے باوجود ان کو احترام دینا ہوگا۔ دوسرے مخالف کی سوچ کو بنیاد بنا کر ان کو کمزورکرنا ہماری سوچ نہیں ہونی چاہیے۔مکالمہ میں ایک دوسرے سے جیتنے یا فاتح بننے کی سوچ کی بجائے ایک دوسرے کے موقف کو سمجھا جائے اور اگر ممکن ہو تو اسے قبول بھی کیا جائے، ایک دوسرے کے لیے ہمدردی اور احساسات کو قائم کرنے پر توجہ دی جائے ،مکالمہ میں مشترکہ اہداف کو تلاش کریں جو مشترکہ طور پر آگے بڑھنے کا راستہ دینے میں مدد کریں ۔ گفتگو کا فن سیکھنے کے ساتھ ساتھ سننے کا عمل بھی ایک بڑا ہنر ہے جو ہمیں اجتماعی طور پرسیکھنا چاہیے۔ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ مکالمہ کا عمل دو ذہنوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرتا ہے ۔یاد رکھیں مکالمہ کی ثقافت کو فروغ دینے کاعمل کوشش،صبر اور لگن کا تقاضہ کرتا ہے ۔
جیسے ہم اپنے ہی خیالات کو عزت و احترام دیتے ہیں ویسے دوسروں کے خیالات کے بارے میں ہمارا مجموعی مزاج تعصب اور نفرت کی بنیاد پر ہوتا ہے جو ظاہرکرتا ہے کہ مکالمہ کی سوچ ہماری ترجیحات میں کہیں پیچھے رہ گئی ہے ۔ مسئلہ محض مذہبی بنیادوں تک محدود نہیں بلکہ علمی و فکری سیاسی سطح پر بھی مکالمہ ناپید ہوتا جارہا ہے ۔ایک دوسرے کے خیالات کو سننا اور سمجھ کر اپنی رائے بنانے کا رجحان کم اور اپنے خیالات کو دوسروں پر مسلط کرنے کا عمل زیادہ بالادست ہوگیا ہے ۔
سیاسی ، سماجی ،مذہبی اور علمی کلچر میں انتہا پسندانہ رجحانات میں اضافہ کی وجہ سیاسی و مذہبی کلچر میں عدم برداشت کا فقدان ہے اور سیاسی محاذ کی سطح پر سیاسی بیانات ،تقریریں اور ایک دوسرے کے بارے میں لفظوں کے چناؤ میں نفرت اور تعصب سمیت سیاسی دشمنی کا پہلو نمایاں ہوگیا ہے ۔لوگوں میں اپنے سیاسی اور مذہبی مخالفین کے بارے میں نفرت کو پیدا کرنا ، اشتعال دلانا اور یہ احساس پیدا کرنا کہ صرف ہم ہی سچائی پر ہیں اس طرزعمل نے اوپر سے لے کر نیچے تک موجود رسائی رکھنے والوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا ہے ۔
مسئلہ تعلیم کا نہیں ہے بلکہ اصل کام تربیت یا اعلیٰ معاشرتی اقدار کی کمی کا ہے ۔تعلیم اور تربیت کے درمیان جو ہم آہنگی یا باہمی ربط ہونا چاہیے تھا وہ کہیں گم ہوکر رہ گیا ہے ۔ایک نتیجہ یہ نکالا جا رہا ہے کہ نئی نسل مکالمہ سے دور ہے اور مکالمہ کی کمی یا اس کے آداب نہ ہونے کا سارا غصہ نئی نسل پر نکال کر بڑوں کو اس جرم سے باہر نکالاجاتا ہے۔اسی طرح کیونکہ نئی نسل سے جڑے لوگوں کا غلبہ ڈیجیٹل میڈیا پر ہے تو ان کو ہی اس جرم میں مجرم بنا کر پیش کرنا بھی شامل ہوگیا ہے ۔
مسئلہ نئی نسل یا پرانی نسل کا نہیں بلکہ ہماری اجتماعی دانش کی ناکامی کا ہے ،جو کچھ ہمارے بڑے سیاسی رہنما یا مذہبی رہنما یا بڑے سکہ بند اہل دانش ٹی وی مذاکروں یا ڈیجیٹل میڈیا پر مکالمہ کے نام پر شدت پسندی کے کلچر کو فروغ دے رہے ہیں اس کا ذمے دار کون ہے۔کیونکر بڑ ے افراد اس ذمے داری کو قبول کرنے کے لیے تیارنہیں کہ اس اجتماعی ناکامی کی ذمے داری نئی نسل کے ساتھ ساتھ ہماری پرانی نسل کو بھی لینی ہوگی جو نئی نسل کے لیے مثالی کردارکے طور پر خود کو پیش نہیں کرسکے ۔
اسی طرح ایک بڑا بگاڑ میڈیا کی سطح پر اور بالخصوص پہلے پرائیویٹ چینل کی شکل میں اور پھر رہی سہی کسر ڈیجیٹل میڈیا کی مدد سے ہوئی کیونکہ دونوں اطراف ریٹنگ بیسڈ میڈیا یا بحرانوں کو یا ایڈونچرز کی بنیاد پر شدت پسندی کے ساتھ پروگرام اور ڈالرسیاست نے بہت کچھ برباد کردیا۔اختلاف کو ہم اس نہج پر لے گئے کہ دوسروں کی رائے کو احترام دینے کے جذبے کو پیچھے چھوڑ دیا اور فکری اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کو ہم نے ترجیح نہیں دی۔
دھیمے انداز میں ، شائستگی سے ، تدبر، تحمل ،عاجزی ، انکساری ،منطق اور دلیل کی بنیاد جب کمزور ہوتی ہے تو اس کی جگہ جذباتیت اور غصے کا پہلو نمایاں ہوجاتا ہے ۔کچھ لوگ تو خود بھی نرگسیت کا شکار ہوجاتے ہیں اور خود کو بھی اور اپنے خیالات کو بھی نہ صرف نمایاں کرتے ہیں بلکہ خود کو عقل کل بھی سمجھتے ہیں ۔مکالمہ دو طرفہ ہوتا ہے ایک بیان کرتا ہے تو دوسرا سنتا ہے اورجب دوسرا بولتا ہے تو پہلا سنتا ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر ہم معاملات کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
آج ہم بطور ریاست، حکومت ، معاشرہ سب سطح پر مکالمہ سے دور ہیں یا جو مکالمہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہ مکالمہ کم اور مکالمہ کی نفی زیادہ ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ مکالمہ یا مفاہمت کے نام پر قومی سیاست ،سماجیات، معیشت ہو یا مذہب سے جڑے معاملات یا علمی و فکری مباحث سب ہی ڈیڈ لاک کا شکار ہیں یا ہم ان مباحث کی بنیاد پر اپنے معاملات کو حل کرنا کم زیادہ بگاڑ کو پیدا کررہے ہیں ۔
ایک ایسا سماج جو مختلف مذاہب، گروہ، برادری، تہذیبوں اور رسم و رواج سے جڑا ہو اسے مکالمہ اور ایک دوسرے کو سمجھ کر آگے بڑھنے کی فکر ہی معاشرے میں سیاسی ،سماجی ،مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے کا سبب بنتی ہے۔یہ جو ہمیں اس وقت قومی سطح پر ایک بڑی سیاسی تقسیم مختلف طبقات سمیت حکومت اور ادارہ جاتی سطح پر بھی دیکھنے کو مل رہی ہے اس نے بھی غصہ کی سیاست کو پیدا کیا ہے۔ وجہ صاف ہے کہ سیاسی مخالفین سے مذاکرات، کرنے کی حکمت عملی کو اختیار کرنے کی بجائے مخالفانہ متبادل آوازوں کو طاقت سے دبانے کی حکمت عملی نے معاشرے میں مزید انتشار کی سیاست کو جنم دیا ہے۔
بقول جون ایلیا'' آؤ اختلافات پر اتفاق کرلیں '' جیسی سوچ کے فقدان نے ہمیں بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے اور ہم جو تصویر قومی سطح پر معاشرے کی بنارہے ہیں وہ ہماری ساکھ پر کئی سوالیہ نشان چھوڑ رہی ہے ۔ہماری تصویر منفی بنیادوں پر بن رہی ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔اگر ہم نے مکالمہ کے کلچر کو فوقیت دینی ہے اور اسے اپنی قومی ، علمی ، فکری اور سیاسی سوچ کے ساتھ جوڑنا ہے تو پھر ہمیں اپنے موجودہ طرز عمل کی سطح پر بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں لانی ہونگی ۔
اپنے قومی مزاج میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر تحمل ، بردباری اور ایک دوسرے کے خیالات سے عدم اتفاق کے باوجود ان کو احترام دینا ہوگا۔ دوسرے مخالف کی سوچ کو بنیاد بنا کر ان کو کمزورکرنا ہماری سوچ نہیں ہونی چاہیے۔مکالمہ میں ایک دوسرے سے جیتنے یا فاتح بننے کی سوچ کی بجائے ایک دوسرے کے موقف کو سمجھا جائے اور اگر ممکن ہو تو اسے قبول بھی کیا جائے، ایک دوسرے کے لیے ہمدردی اور احساسات کو قائم کرنے پر توجہ دی جائے ،مکالمہ میں مشترکہ اہداف کو تلاش کریں جو مشترکہ طور پر آگے بڑھنے کا راستہ دینے میں مدد کریں ۔ گفتگو کا فن سیکھنے کے ساتھ ساتھ سننے کا عمل بھی ایک بڑا ہنر ہے جو ہمیں اجتماعی طور پرسیکھنا چاہیے۔ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ مکالمہ کا عمل دو ذہنوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرتا ہے ۔یاد رکھیں مکالمہ کی ثقافت کو فروغ دینے کاعمل کوشش،صبر اور لگن کا تقاضہ کرتا ہے ۔