بنگلہ دیش صورتحال ابھی واضح نہیں
قتلِ عام کے الزامات پر حسینہ کو انٹرنیشنل کرائم کورٹ کا سامنا ہو سکتا ہے
مشرقی بنگلہ دیش کا ایک بہت بڑا رقبہ اور ڈھاکہ شہر شدید طغیانی کی زد میں ہے۔سیلاب سے اب تک کئی افراد جاں بحق جب کہ لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ فصلوں، املاک،مال مویشی اور وائلڈ لائف کا بہت نقصان ہوا ہے۔ایسے میں بنگلہ دیشی یہ سمجھتے ہیں کہ بھارت نے بنگلہ دیشی انتظامیہ کو پیشگی اطلاع دیے بغیر تری پورہ ڈیم کا پانی چھوڑ دیا جس سے بنگلہ دیش میں سیلاب آ گیا۔بنگلہ دیش انتظامیہ کے چیف ایڈوائزر جناب ڈاکٹر محمد یونس نے بھارتی ہائی کمشنر کو بلوا کر بات کی۔اطلاعات و نشریات کے ایڈوائزر،مشہور طالب علم رہنماء جناب ناہدالاسلام نے ایک بیان میں براہِ راست بھارت پر الزام دھرا کہ اس نے غیر انسانی حرکت کرتے ہوئے بغیر پیشگی اطلاع ڈیم کا پانی چھوڑ کر بنگلہ دیش کو ڈبو دیا۔
جناب ناہدالاسلام موجودہ انتظامیہ کے بہت اہم رکن ہیں۔انھوں نے ہی نوجوانوں کی قیادت کر کے حسینہ کو ملک سے بھاگنے پر مجبور کیا۔آپ کا بھارت پر براہِ راست الزام،بنگلہ دیشی عوام کے بھارت کے بارے میں جذبات کو ظاہر کرتا ہے۔ بھارت کے پڑوس میں واقع ممالک میں سے بنگلہ دیش واحد ملک رہ گیا تھا جس کے بھارت کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے۔حالیہ تبدیلی اگر پائیدار رہی تو بنگلہ دیش بھی بھارت سے دور ہو سکتا ہے۔بھارتی حکومت کو علاقے میں اپنی چوہدرھراہٹ اور برتری برقرار رکھنے میں مشکل ہو رہی ہے۔ بنگلہ دیشی رائے عامہ بنانے والے گریٹر بنگلہ دیش کی بات بھی کررہے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ مغربی بنگال اور آسام کو شامل کیے بغیر بنگلہ دیش نا مکمل ہے ۔
شیخ حسینہ کا انجام یہ چغلی کھاتا ہے کہ ڈکٹیٹرز ہمیشہ ایک ہی طرح سوچتے،کام کرتے اور یکساں نتائج لیے دھڑام سے نیچے گرتے ہیں۔جنوبی امریکا میں کاسترو اور تمام پاکستانی ڈکٹیٹروں کے علاوہ دنیا میں ہر کہیں ڈکٹیٹروں کا بہت برا انجام ہوا۔ پاکستان میں ڈکٹیٹر شپ Institunaliseہو گئی ہے۔ حسینہ کا سرکاری رہائش گاہ کے عقب سے بھاگنا،بھارت میں پناہ لینا اور بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب کی ہر یادگار کی بے حرمتی اور مسمار کیا جانا باعث عبرت بھی ہے اور ہمیں بتاتا ہے کہ ڈکٹیٹرز برے انجام سے بچ نہیں سکتے۔شیخ حسینہ کے خلاف متعدد پرچے ہو چکے ہیں۔ان میں سے اکثر قتلِ عام اور غارت گری کے مقدمات ہیں۔
قتلِ عام کے الزامات پر حسینہ کو انٹرنیشنل کرائم کورٹ کا سامنا ہو سکتا ہے۔جناب ڈاکٹر یونس صاحب نے اقوامِ متحدہ سے اس سلسلے میں تحقیقات کی درخواست کی ہے۔ حالانکہ تمام ڈکٹیٹرز کا یہی انجام ہوتا ہے لیکن حسینہ کا کیس بہت جدا اور سب سے نمایاں ہے۔شیخ حسینہ کے والدِ مکرم،بنگلہ دیش کے بانی کو بھی 15اگست 1975بنگلہ دیشیوں کے غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ایک تو انھوں نے بنگلہ دیش کو مطلقاً بھارت کی جھولی میں ڈال دیا تھا،جمہوریت کا گلا گھونٹتے ہوئے ون پارٹی سسٹم رائج کیا اور اپنے آپ کو آمرِمطلق بنا لیا۔اب اگست 2024میں باپ اور بیٹی دونوں کو مشترکہ طور پر عوامی احتجاج کا سامنا کرنا پڑا۔دونوں ہی نشانے پر رہے۔ شیخ مجیب کے امیج کو ان فسادات میں بہت نقصان ہوا لیکن معصوم قیمتی جانوں کا ضیاع انتہائی افسوسناک ہے۔
حالیہ بنگلہ دیشی ہنگاموں میں شیخ حسینہ واجد کی سرکاری رہائش گاہ پر احتجاج کرنے والے اس وقت پہنچے جب وہ افواج اور بھارتی انتظامیہ کی مدد سے بھاگ چکی تھیں۔وہ قوم کے نام ایک خطاب ریکارڈ کروانا چاہتی تھیں لیکن اس کی ان کو اجازت اور مہلت نہ مل سکی۔احتجاج کرنے والوں نے ان کی سرکاری رہائش گاہ کے علاوہ فیکٹریوںکو لوٹا اور توڑ پھوڑ کی۔شیخ مجیب اور حسینہ کے 1200کے قریب مجسموں ،پورٹریٹس اور قدِ آدم تصویروں کو یا تو گرا دیا گیا یا پھر ان کو شدید نقصان پہنچا۔یہ صرف ڈھاکہ میں نہیں ہوا بلکہ سارے بنگلہ دیش میں یہی ہوا۔شیخ مجیب کی ذاتی رہائش گاہ 32دھان منڈی، ایک میوزیم جہاں 15اگست1975کو انھیں ان کے خاندان کے اکثر افراد کے ساتھ بھون ڈالا گیا تھا۔
جہاں تاریخی دستاویزات،تصویریں اور یاد داشتیں رکھی ہوئی تھیں، اس رہائش گاہ کو آگ لگا دی گئی اور بہت کچھ جل کر خاکستر ہو گیا۔مہر پور میں مجیب نگر میموریل کمپلیکس جہاں مجیب،نام نہاد جنگِ آزادی کے رہنماؤں کے مجسموں کے درمیان سب سے قدآور مجسمے کی شکل میں کھڑا تھا،وہ کمپلیکس اب کھنڈر بن چکا ہے۔وہ میورل جس میں جنرل نیازی کو بھارتی جنرل اروڑا کے سامنے ہتھیار ڈالتے دکھایا گیا ہے، شاید توڑ دیا گیا ہے۔
اس طرح بنگلہ دیش کی آزادی میں بھارتی کردار کی نشانیوں کو ختم کیا جا رہا ہے۔ سرنڈر سیریمونی میورل کی توڑ پھوڑ بھارتی کردار سے نفرت کا اظہار ہے۔یہ بنگلہ دیش، بھارت تعلقات میں ایک منفی موڑ ہے۔بنگلہ دیش سے ملنے والی ایک ویڈیو میں تو چند نوجوانان شیخ مجیب کے ایک فریسکو پورٹریٹ پر Urinateکرتے نظر آئے۔اس سے زیادہ نفرت کا اظہار ممکن نہیں۔بنگلہ دیش عبوری حکومت نے اپنے ایک خصوصی کابینہ اجلاس میں صدر شہاب الدین کو متفقہ سفارش کی کہ 15اگست کی قومی چھٹی آیندہ کے لیے ختم کر دی جائے۔یہ چھٹی ختم کر دی گئی ہے۔
حسینہ واجد نے بھارتی قیام گاہ سے ایک پیغام میں اپنے حامیوں اور پارٹی ورکروں کو کہا تھا کہ وہ 15اگست کو نکلیں اور شیخ مجیب کی قتل گاہ پر اکٹھے ہو کراس دن کو بھرپور طریقے سے منائیں۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ پورے ملک میں ایسا کیا جائے۔حسینہ واجد کی کال پر چند لوگ ضرور اکٹھے ہوئے لیکن نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد وہاں آ گئی اور عوامی لیگیوں کو مار مار کر بھگا دیا۔نوجوانوں نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ ہم اپنے انقلاب کی خود حفاظت کریں گے اور کسی کو بھی اسے ضایع نہیں کرنے دیں گے۔بنگلہ دیش میں انتہائی سرعت سے سیاسی لینڈ اسکیپ تبدیل ہوئی ہے لیکن یہ لاوا بہنے کو تیار تھا۔ بھارت گہرے صدمے میں ہے۔ہمارے وزیرِ اعظم جناب شہباز شریف صاحب نے اسلام آباد میں ایک یوتھ کنونشن میں اس تبدیلی کا تذکرہ کیا۔ان کو مجمع کے اندر ایسے نازک موضوع پر گفتگو سے اجتناب کرنا چاہیے۔
مجمع میں حکمران جب بولتے ہیں تو بات نپی تلی نہیں ہوتی بلکہ جذبات ابھارنے اور واہ واہ کروانے کے لیے ہوتی ہے۔ہمیں بنگلہ دیشی عوام کی ترقی، خوشحالی اور سلامتی کی دعا کے علاوہ ابھی اور کچھ نہیں کہنا اور کرنا چاہیے۔بنگلہ دیش میں تبدیلی پر ایک نیوز ایجنسی کے ایک نامہ نگار نے بنگلہ دیش کے چند افراد سے رابطہ کر کے جاننے کی کوشش کی کہ کیا ہوا اور کیونکر ہوا۔ایک بنگالی مصنف جناب سراج العظیم کا کہنا تھا کہ سہروردی، مولوی تمیز الدین اور فضل القادر کی روحیں سوال کرتی تھیں کہ ہندوستان کا ساتھ کیوں دیا گیا۔
ہماری کامیاب تحریک نے وہ بوجھ اتار دیا۔ایک انتہائی باخبر ریٹائرڈ سول سرونٹ سے پوچھا گیا کہ نوجوانوں نے حسینہ واجد کے ساتھ مجیب کے مجسمے کیوں توڑے۔ انھوں نے جواب دیا کہ نوجوان سمجھتے ہیں کہ ہمیں ہندوستان کی ایک ریاست بنا دیا گیا ہے اور اس کے ذمے دار شیخ مجیب اور اس کی بیٹی ہیں۔یہ کہا جا سکتا ہے کہ نوجوانوں کی ضربوں نے مجیب اور حسینہ کے مجسمے نہیں توڑے،ہندوستان کی حاکمیت کو پاش پاش کر دیا۔رنگ پور کی بیگم رقیہ، یونیورسٹی کے طالب علم ابو سعید نے پولیس کی گولیوں کے سامنے سینہ تان کر کہا تھا،مارو گولی ،میں پیچھے نہیں ہٹوں گا۔یہ تھا وہ جذبہ جس نے بد ترین آمریت کو شکست دے کر بھارتی Hegemonyسے نجات حاصل کی۔بنگلہ دیش کے طلباء ایک گراس روٹ تبدیلی لے کر آئے ہیں،ان کی جرات و ہمت کو سلام پیش کرنا چاہیے۔
جناب ناہدالاسلام موجودہ انتظامیہ کے بہت اہم رکن ہیں۔انھوں نے ہی نوجوانوں کی قیادت کر کے حسینہ کو ملک سے بھاگنے پر مجبور کیا۔آپ کا بھارت پر براہِ راست الزام،بنگلہ دیشی عوام کے بھارت کے بارے میں جذبات کو ظاہر کرتا ہے۔ بھارت کے پڑوس میں واقع ممالک میں سے بنگلہ دیش واحد ملک رہ گیا تھا جس کے بھارت کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے۔حالیہ تبدیلی اگر پائیدار رہی تو بنگلہ دیش بھی بھارت سے دور ہو سکتا ہے۔بھارتی حکومت کو علاقے میں اپنی چوہدرھراہٹ اور برتری برقرار رکھنے میں مشکل ہو رہی ہے۔ بنگلہ دیشی رائے عامہ بنانے والے گریٹر بنگلہ دیش کی بات بھی کررہے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ مغربی بنگال اور آسام کو شامل کیے بغیر بنگلہ دیش نا مکمل ہے ۔
شیخ حسینہ کا انجام یہ چغلی کھاتا ہے کہ ڈکٹیٹرز ہمیشہ ایک ہی طرح سوچتے،کام کرتے اور یکساں نتائج لیے دھڑام سے نیچے گرتے ہیں۔جنوبی امریکا میں کاسترو اور تمام پاکستانی ڈکٹیٹروں کے علاوہ دنیا میں ہر کہیں ڈکٹیٹروں کا بہت برا انجام ہوا۔ پاکستان میں ڈکٹیٹر شپ Institunaliseہو گئی ہے۔ حسینہ کا سرکاری رہائش گاہ کے عقب سے بھاگنا،بھارت میں پناہ لینا اور بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب کی ہر یادگار کی بے حرمتی اور مسمار کیا جانا باعث عبرت بھی ہے اور ہمیں بتاتا ہے کہ ڈکٹیٹرز برے انجام سے بچ نہیں سکتے۔شیخ حسینہ کے خلاف متعدد پرچے ہو چکے ہیں۔ان میں سے اکثر قتلِ عام اور غارت گری کے مقدمات ہیں۔
قتلِ عام کے الزامات پر حسینہ کو انٹرنیشنل کرائم کورٹ کا سامنا ہو سکتا ہے۔جناب ڈاکٹر یونس صاحب نے اقوامِ متحدہ سے اس سلسلے میں تحقیقات کی درخواست کی ہے۔ حالانکہ تمام ڈکٹیٹرز کا یہی انجام ہوتا ہے لیکن حسینہ کا کیس بہت جدا اور سب سے نمایاں ہے۔شیخ حسینہ کے والدِ مکرم،بنگلہ دیش کے بانی کو بھی 15اگست 1975بنگلہ دیشیوں کے غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ایک تو انھوں نے بنگلہ دیش کو مطلقاً بھارت کی جھولی میں ڈال دیا تھا،جمہوریت کا گلا گھونٹتے ہوئے ون پارٹی سسٹم رائج کیا اور اپنے آپ کو آمرِمطلق بنا لیا۔اب اگست 2024میں باپ اور بیٹی دونوں کو مشترکہ طور پر عوامی احتجاج کا سامنا کرنا پڑا۔دونوں ہی نشانے پر رہے۔ شیخ مجیب کے امیج کو ان فسادات میں بہت نقصان ہوا لیکن معصوم قیمتی جانوں کا ضیاع انتہائی افسوسناک ہے۔
حالیہ بنگلہ دیشی ہنگاموں میں شیخ حسینہ واجد کی سرکاری رہائش گاہ پر احتجاج کرنے والے اس وقت پہنچے جب وہ افواج اور بھارتی انتظامیہ کی مدد سے بھاگ چکی تھیں۔وہ قوم کے نام ایک خطاب ریکارڈ کروانا چاہتی تھیں لیکن اس کی ان کو اجازت اور مہلت نہ مل سکی۔احتجاج کرنے والوں نے ان کی سرکاری رہائش گاہ کے علاوہ فیکٹریوںکو لوٹا اور توڑ پھوڑ کی۔شیخ مجیب اور حسینہ کے 1200کے قریب مجسموں ،پورٹریٹس اور قدِ آدم تصویروں کو یا تو گرا دیا گیا یا پھر ان کو شدید نقصان پہنچا۔یہ صرف ڈھاکہ میں نہیں ہوا بلکہ سارے بنگلہ دیش میں یہی ہوا۔شیخ مجیب کی ذاتی رہائش گاہ 32دھان منڈی، ایک میوزیم جہاں 15اگست1975کو انھیں ان کے خاندان کے اکثر افراد کے ساتھ بھون ڈالا گیا تھا۔
جہاں تاریخی دستاویزات،تصویریں اور یاد داشتیں رکھی ہوئی تھیں، اس رہائش گاہ کو آگ لگا دی گئی اور بہت کچھ جل کر خاکستر ہو گیا۔مہر پور میں مجیب نگر میموریل کمپلیکس جہاں مجیب،نام نہاد جنگِ آزادی کے رہنماؤں کے مجسموں کے درمیان سب سے قدآور مجسمے کی شکل میں کھڑا تھا،وہ کمپلیکس اب کھنڈر بن چکا ہے۔وہ میورل جس میں جنرل نیازی کو بھارتی جنرل اروڑا کے سامنے ہتھیار ڈالتے دکھایا گیا ہے، شاید توڑ دیا گیا ہے۔
اس طرح بنگلہ دیش کی آزادی میں بھارتی کردار کی نشانیوں کو ختم کیا جا رہا ہے۔ سرنڈر سیریمونی میورل کی توڑ پھوڑ بھارتی کردار سے نفرت کا اظہار ہے۔یہ بنگلہ دیش، بھارت تعلقات میں ایک منفی موڑ ہے۔بنگلہ دیش سے ملنے والی ایک ویڈیو میں تو چند نوجوانان شیخ مجیب کے ایک فریسکو پورٹریٹ پر Urinateکرتے نظر آئے۔اس سے زیادہ نفرت کا اظہار ممکن نہیں۔بنگلہ دیش عبوری حکومت نے اپنے ایک خصوصی کابینہ اجلاس میں صدر شہاب الدین کو متفقہ سفارش کی کہ 15اگست کی قومی چھٹی آیندہ کے لیے ختم کر دی جائے۔یہ چھٹی ختم کر دی گئی ہے۔
حسینہ واجد نے بھارتی قیام گاہ سے ایک پیغام میں اپنے حامیوں اور پارٹی ورکروں کو کہا تھا کہ وہ 15اگست کو نکلیں اور شیخ مجیب کی قتل گاہ پر اکٹھے ہو کراس دن کو بھرپور طریقے سے منائیں۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ پورے ملک میں ایسا کیا جائے۔حسینہ واجد کی کال پر چند لوگ ضرور اکٹھے ہوئے لیکن نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد وہاں آ گئی اور عوامی لیگیوں کو مار مار کر بھگا دیا۔نوجوانوں نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ ہم اپنے انقلاب کی خود حفاظت کریں گے اور کسی کو بھی اسے ضایع نہیں کرنے دیں گے۔بنگلہ دیش میں انتہائی سرعت سے سیاسی لینڈ اسکیپ تبدیل ہوئی ہے لیکن یہ لاوا بہنے کو تیار تھا۔ بھارت گہرے صدمے میں ہے۔ہمارے وزیرِ اعظم جناب شہباز شریف صاحب نے اسلام آباد میں ایک یوتھ کنونشن میں اس تبدیلی کا تذکرہ کیا۔ان کو مجمع کے اندر ایسے نازک موضوع پر گفتگو سے اجتناب کرنا چاہیے۔
مجمع میں حکمران جب بولتے ہیں تو بات نپی تلی نہیں ہوتی بلکہ جذبات ابھارنے اور واہ واہ کروانے کے لیے ہوتی ہے۔ہمیں بنگلہ دیشی عوام کی ترقی، خوشحالی اور سلامتی کی دعا کے علاوہ ابھی اور کچھ نہیں کہنا اور کرنا چاہیے۔بنگلہ دیش میں تبدیلی پر ایک نیوز ایجنسی کے ایک نامہ نگار نے بنگلہ دیش کے چند افراد سے رابطہ کر کے جاننے کی کوشش کی کہ کیا ہوا اور کیونکر ہوا۔ایک بنگالی مصنف جناب سراج العظیم کا کہنا تھا کہ سہروردی، مولوی تمیز الدین اور فضل القادر کی روحیں سوال کرتی تھیں کہ ہندوستان کا ساتھ کیوں دیا گیا۔
ہماری کامیاب تحریک نے وہ بوجھ اتار دیا۔ایک انتہائی باخبر ریٹائرڈ سول سرونٹ سے پوچھا گیا کہ نوجوانوں نے حسینہ واجد کے ساتھ مجیب کے مجسمے کیوں توڑے۔ انھوں نے جواب دیا کہ نوجوان سمجھتے ہیں کہ ہمیں ہندوستان کی ایک ریاست بنا دیا گیا ہے اور اس کے ذمے دار شیخ مجیب اور اس کی بیٹی ہیں۔یہ کہا جا سکتا ہے کہ نوجوانوں کی ضربوں نے مجیب اور حسینہ کے مجسمے نہیں توڑے،ہندوستان کی حاکمیت کو پاش پاش کر دیا۔رنگ پور کی بیگم رقیہ، یونیورسٹی کے طالب علم ابو سعید نے پولیس کی گولیوں کے سامنے سینہ تان کر کہا تھا،مارو گولی ،میں پیچھے نہیں ہٹوں گا۔یہ تھا وہ جذبہ جس نے بد ترین آمریت کو شکست دے کر بھارتی Hegemonyسے نجات حاصل کی۔بنگلہ دیش کے طلباء ایک گراس روٹ تبدیلی لے کر آئے ہیں،ان کی جرات و ہمت کو سلام پیش کرنا چاہیے۔