قتل اور اس کی سنگینی

’’اﷲ تعالیٰ کے ہاں کسی شخص کے ناحق قتل ہونے سے پوری کائنات کا ختم ہو جانا معمولی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘


’’اﷲ تعالیٰ کے ہاں کسی شخص کے ناحق قتل ہونے سے پوری کائنات کا ختم ہو جانا معمولی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘ ۔ فوٹو : فائل

اﷲ تعالیٰ نے انسانی بالخصوص اسلامی معاشرے میں قتل و قتال کو حرام، مُوجبِ جہنم، مُوجبِ غضبِ، مُوجبِ لعنت اور مُوجبِ عذابِ عظیم قرار دیا ہے۔

مزید یہ کہ اس سے متعلقہ احکام قصاص و دِیت وغیرہ کا قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے تاکہ لوگ قتل جیسے بڑے اور بُرے جرم سے باز رہیں اور معاشرے میں فتنہ و فساد نہ پھیلنے پائے۔

قتل کی چار سزائیں:

مفہوم آیت:''اور جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کر ڈالے تو اس کی سزا جہنم ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر اﷲ تعالیٰ غضب ناک ہوں گے۔ اس کو اپنی رحمت سے دور کردیں گے اور اسے سخت ترین سزا دیں گے۔'' (سورۃ النساء)

آیت مبارکہ میں جان بوجھ کر قتل کرنے والے کی سزا کے طور پرچار باتیں ذکر فرمائی گئی ہیں:

دائمی جہنم۔ ( تفصیل فائدہ کے عنوان سے ذیل میں ذکر کی جا رہی ہے )

٭ اﷲ کا غضب۔

٭ اﷲ کی لعنت۔ (رحمت سے دوری)

٭ سخت ترین عذاب (یعنی عام جہنمیوں کی نسبت زیادہ سخت عذاب ہوگا)

تفصیل: آیت مبارکہ میں ہے جان بوجھ کر قتل کرنے کی سزا جہنم ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اس کے تحت قاضی ثناء اﷲ پانی پتیؒ فرماتے ہیں: ''چوں کہ ایمان سے وہ نفرت کرتا ہے یا قتل کو جائز سمجھتا ہے اس لیے کافر ہوگیا اور کفر کی سزا ہمیشہ کی جہنم ہے یا پھر اس سے لمبی مدت مراد ہے۔''

ایک ناحق قتل ساری انسانیت کا قتل ہے:

ناحق قتل انہی گھناؤنے کاموں میں سے ایک ہے جس کی وجہ سے معاشرہ تباہ ہوتا ہے، اس لیے ناحق قتل کو گناہ کبیرہ قرار دے کر اسے پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ٹھہرایا گیا ہے۔ قرآن کریم نے واضح لفظوں میں یہ اعلان کیا ہے:

مفہوم آیت: ''جس نے کسی ایک بے گناہ کو قتل کیا یا زمین میں فساد برپا کیا گویا اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا۔''

(سورۃ المائدۃ)

بندگان رحمٰن کی پہچان:

اﷲ تعالیٰ کے نیک بندوں کے اوصاف میں ایک وصف ''ناحق قتل سے اجتناب'' ہے۔ اﷲ تعالی معاشرے کو پُرامن بنانے کا حکم دیتے ہیں۔ رحمن کے بندے ہر ایسے کام سے دور رہتے ہیں جس کی وجہ سے معاشرے میں فساد اور بگاڑ پیدا ہوتا ہو۔

مفہوم آیت:''اور وہ ایسی جان کو ناحق قتل نہیں کرتے جسے اﷲ نے حرمت بخشی ہے۔'' (سورۃ الفرقان)

رجم، قصاص اور ارتداد:

شریعت نے معاشرے سے جرائم کے خاتمے کے لیے قتل کی درج ذیل چند صورتیں جائز قرار دی ہیں۔ جن کا اختیار اربابِ اقتدار کو سونپا ہے۔

نمبر1:رجم، یعنی جب کوئی شادی شدہ مرد اور شادی شدہ عورت زنا کریں اور ان کا یہ جرم چار مردوں کی (فقہ اسلامی میں مقرر کردہ شرائط کے مطابق) گواہوں سے یا زنا کرنے والے مرد و عورت کے اعتراف وغیرہ سے ثابت بھی ہو جائے تو قاضی، جج ان کے بارے میں شرعی سزا رجم کی صورت میں نافذ کرے گا اور وہ یہ ہے کہ انہیں پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا جائے۔

نمبر2:قصاص، یعنی جب کوئی شخص جان بوجھ کر کسی کو (ناحق) قتل کر دے تو ایسی صورت میں اس قاتل کو اس قتل کے بدلے میں قتل کر دیا جائے گا۔ یہ شرعی سزا ہے جو قاضی، جج نافذ کرے گا۔ ہاں مگر یہ کہ مقتول کے ورثا اس قاتل کو معاف کر دیں۔

نمبر3:ارتداد، یعنی جب کوئی شخص دین اسلام کو چھوڑ دے تو ایسا شخص شریعت کی نگاہ میں واجب القتل قرار پاتا ہے۔ قاضی، جج اسے شرعی قانون کے مطابق قتل کرا دے گا۔

مومن کی عزت و حرمت کعبہ سے بھی زیادہ ہے:

حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ کو اس حالت میں دیکھا کہ آپ ﷺ کعبۃ اﷲ کا طواف فرما رہے تھے اسی دوران آپؐ نے کعبہ کو مخاطب کر کے فرمایا: ''اے کعبہ! تُو کتنا اچھا ہے! تجھ سے مہکنے والی خوش بُو کتنی ہی اچھی اور عمدہ ہے! تیری عظمت و مرتبت کس قدر بلند ہے! تیری عزت و حرمت کس قدر زیادہ ہے! (لیکن تیری ان تمام تر عظمتوں کے باوجود) اس ذاتِ برحق کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میں محمد (ﷺ) کی جان ہے اﷲ تعالیٰ کے ہاں مومن کی جان و مال کی حرمت تیری حرمت سے کہیں زیادہ ہے۔'' (سنن ابن ماجہ)

ہمیں مومن کے بارے میں ہمیشہ نیک گمان ہی رکھنا چاہیے۔

اسلحہ سے اشارہ کرنا بھی منع ہے:

حضرت ہَمَّامؒ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہؓ سے نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد مبارک سنا، مفہوم: ''تم میں سے کوئی شخص اپنے (مسلمان) بھائی کی طرف اسلحہ (آلہِ قتل) سے اشارہ نہ کرے اس لیے کہ تم میں سے کوئی شخص یہ نہیں جانتا کہ شیطان اس کے ہاتھ کو ڈگ مگا دے اور وہ ناحق قتل کرنے کی وجہ سے جہنم میں جا پڑے۔'' (صحیح البخاری)

فرشتے لعنت بھیجتے ہیں:

معروف تابعی حضرت امام ابن سیرینؒ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہؓ سے نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان سنا، مفہوم: ''جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ کرتا ہے اس پر فرشتے اس وقت تک لعنت کرتے رہتے ہیں جب تک وہ اس اشارہ کرنے کو چھوڑ نہیں دیتا اگرچہ وہ اس کا حقیقی بھائی ہی کیوں نہ ہو۔'' (صحیح مسلم)

قاتل کی عبادات قبول نہیں:

حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اﷲ ﷺ کو یہ بات ارشاد فرماتے ہوئے سنا، مفہوم: ''جس شخص نے کسی مومن کو (ناحق) قتل کیا پھر اس قتل پر خوش بھی ہُوا تو اﷲ تعالیٰ اس کی نفل اور فرض عبادت قبول نہیں فرمائیں گے۔''(سنن ابی داؤد)

ناحق قتل کے مقابلے میں پوری دنیا کا مٹنا آسان:

حضرت عبداﷲ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم:

''کسی مسلمان کے (ناحق) قتل ہونے سے پوری دنیا کا تباہ ہوجانا اﷲ تعالیٰ کے ہاں معمولی حیثیت رکھتا ہے۔''

(جامع الترمذی)

حضرت براء بن عازبؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم:

''اﷲ تعالیٰ کے ہاں کسی شخص کے ناحق قتل ہونے سے پوری کائنات کا ختم ہو جانا معمولی حیثیت رکھتا ہے۔''

(شعب الایمان للبیہقی)

حقوق العباد میں پہلا سوال:

حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم:

''قیامت کے دن لوگوں کے مابین سب سے پہلے خون خرابے (قتل و قتال) کا فیصلہ سنایا جائے گا۔'' (صحیح البخاری)

قاتلوں کے سہولت کار:

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم:

''جو شخص کسی مسلمان کے ناحق قتل میں سہولت کار بنا، اگرچہ وہ معاونت بالکل معمولی درجے کی (ایک بات کی حد تک) بھی ہو تو وہ شخص (قیامت والے دن) اﷲ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کی آنکھوں کے درمیان (پیشانی پر) لکھا ہُوا ہوگا کہ یہ شخص اﷲ کی رحمت سے مایوس رہے گا۔'' (سنن ابن ماجہ)

شرک اور قتل کے علاوہ

تمام گناہوں کی معافی:

ابوالدرداءؓ فرماتے تھے کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ کا یہ فرمان سنا، مفہوم:

''اﷲ تعالیٰ اگر چاہیں تو (گناہ گاروں کے) تمام گناہوں کو معاف فرما دیں سوائے اس گناہ گار کے جس نے شرک کیا یا کسی مومن کو جان بوجھ (اور بغیر شرعی اجازت کے حلال اور جائز سمجھ کر) کر قتل کیا۔'' (سنن ابی داؤد) یعنی مشرک اور ایسے قاتل کو اﷲ کبھی بھی معاف نہیں فرمائیں گے۔

ناحق قتل کے سب شرکاء جہنمی:

حضرت ابو الحکم البَجلیؒ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو سعید خدریؓ اور حضرت ابوہریرہؓ سے سنا وہ دونوں رسول اﷲ ﷺ کا یہ ارشاد نقل فرما تے تھے کہ اگر (بالفرض) تمام آسمان والے اور زمین والے کسی ایک مومن کے قتل میں شریک ہو جائیں تو یقینی بات ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں ڈالیں گے۔

(جامع الترمذی)

خلاصہ یہ ہوا کہ:

ناحق قتل کرنا شریعت میں حرام ہے اگر کوئی شخص شرعاً ناحق قتل کو حلال سمجھتا ہے تو فقہائے کرامؒ کی تصریحات کے مطابق کافر ہو جاتا ہے۔

ناحق قتل کی چار سزائیں: دائمی جہنم، اﷲ کا غضب، اﷲ کی لعنت اور سخت ترین عذاب کی صورت میں قرآن کریم میں مذکور ہیں۔

ایک ناحق قتل پوری انسانیت کو قتل کرنے کے برابر گناہ ہے۔

اﷲ کے نیک بندوں کی صفت یہ ہے کہ وہ ناحق قتل نہیں کرتے۔

عام حالات میں اربابِ اقتدار کے لیے قتل کی تین صورتیں جائز ہیں: رجم، قصاص، ارتداد۔

اﷲ تعالیٰ کے ہاں مومن کی عزت کعبۃ اﷲ سے بڑھ کر ہے۔

اسلحے اور ہتھیار سے اشارہ کرنا جائز نہیں جو یہ کام کرتا ہے اس پر فرشتے لعنت بھیجتے ہیں۔

قاتل کی عبادات اﷲ کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوتیں۔

ناحق قتل کے مقابلے میں ساری دنیا کا مٹ جانا آسان ہے۔

قیامت کے دن حقوق العباد میں سب سے پہلے قتل ناحق کا حساب ہوگا۔

قاتلوں کے سہولت کار قیامت کے دن اﷲ کی رحمت سے مایوس کر دیے جائیں گے۔

شرک اور قتل کے علاوہ تمام گناہوں کی معافی کا امکان ہے۔

اگر کسی کو ناحق قتل کرنے میں تمام آسمان و زمین والے مل کر شریک ہوجائیں تو اﷲ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں ڈالیں گے۔

اﷲ تعالیٰ ہمارے پورے معاشرے کو بالخصوص وطن عزیز پاکستان کو دہشت گردی، قتل و قتال اور فتنہ و فساد جیسی لعنت سے محفوظ فرمائے۔ آمین

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔