لباس اور رسول کریم ﷺ کا معمول
آپ ؐ کی چادر مبارک میں متعدد پیوند لگے ہوتے تھے اور فرماتے کہ میں بندہ ہی ہوں اور بندوں جیسا لباس پہنتا ہوں
حضرت ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ جب کوئی نیا کپڑا پہنتے تو اظہار مسرت کے طور پر اس کا نام لیتے (مثلاً اﷲ تعالیٰ نے یہ کرتامرحمت فرمایا) ایسے ہی عمامہ اور چادر وغیرہ، پھر آپؐ یہ دعا پڑھتے، مفہوم : ''اے اﷲ! تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں اور اس کپڑے کے پہنانے پر تیرا ہی شکر ہے۔ یااﷲ! میں تجھ ہی سے اس کپڑے کی بھلائی چاہتا ہوں اور ان مقاصد کی خوبی اور بھلائی چاہتا ہوں جن کے لیے یہ کپڑا بنایا گیا ہے اور تجھ ہی سے اس کپڑے کے شر سے پناہ مانگتا ہوں اور ان چیزوں کے شر سے پناہ مانگتا ہوں جن کے لیے یہ کپڑا بنایا گیا۔'' (ترمذی شریف)
حضور اکرم ﷺ کی عادت کریمہ لباس مبارک میں وسعت اور تکلّف نہ کرنے کی تھی یعنی جو مل جاتا پہن لیتے اور خاص لباس کی جستجو نہ فرماتے اور کسی حال میں نفیس کی خواہش نہ فرماتے اور نہ ادنیٰ اور حقیر خیال فرماتے تھے۔ اکثر حالات میں آپ ﷺ کا لباس مبارک چادر اور ازار (تہبند) ہوتا جو کچھ سخت اور موٹے کپڑے کا ہوتا، اور کبھی پشمینہ (اونی) لباس بھی زیب تن فرماتے۔
روایات میں ہے کہ آپ ﷺ کی چادر مبارک میں متعدد پیوند لگے ہوتے تھے اور فرماتے کہ میں بندہ ہی ہوں اور بندوں جیسا لباس پہنتا ہوں۔ (رواہ الشیخان)
حضرت ابن عمرؓ سے منقول ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم:
''اﷲ تعالیٰ کے نزدیک مومن کی تمام خوبیوں میں لباس کا صاف ستھرا رکھنا اور کم پر راضی ہونا پسند ہے۔''
حضور ﷺ تکبّر اور غرور کی مذمت فرماتے تو صحابہؓ نے عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ! آدمی پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کی جوتیاں عمدہ ہوں۔ (کیا یہ تکبر تو نہیں؟) اس پر رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''بے شک! اﷲ تعالیٰ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے۔''
چناں چہ خود حضور ﷺ وفود کے آنے پر ان کے لیے تجمل (آراستگی) فرماتے اور جمعہ و عیدین کے لیے آرائش فرماتے اور اس کے لیے مستقل جُدا لباس محفوظ رکھتے تھے۔ (مدارج النبوۃ)
حضرت ام سلمہؓ سے منقول ہے کہ حضور ﷺ کا محبوب ترین لباس قمیص تھا، اگرچہ تہبند اور چادر بھی بہ کثرت زیب تن فرماتے تھے لیکن قمیص کا پہننا زیادہ پسند تھا۔ (شمائل ترمذی)
حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ کا کُرتا سوتی رنگ کا، دامن آستین والا ہوتا تھا اور آپؐ کی قمیص مبارک میں گھنڈیاں (بٹن کے طور پر) لگی ہوئی تھیں اور قمیص مبارک میں سینہ کے مقام پر گریبان تھا اور یہی قمیص کی سنّت ہے۔ (مدارج النبوۃ)
ایک صحابیؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے مجھے اس حال میں دیکھا کہ میرے جسم پر کم قیمت کپڑے تھے تو فرمایا: کیا تیرے پاس مال ہے ؟ میں نے عرض کیا: جی یا رسول اﷲ ﷺ! اﷲ نے مجھے ہر قسم کے مال و دولت سے نوازا ہے۔ پھر آپؐ نے فرمایا: خدا کی نعمت اور اس کی بخشش کو تمہارے جسم سے ظاہر ہونا چاہیے۔
آپ ﷺ نے ایسے شخص کو دیکھا کہ جس کے کپڑے میلے اور غلیظ تھے تو فرمایا کہ یہ شخص کوئی ایسی چیز نہیں پاتا جس سے اپنے کپڑوں کو دھو لے۔ (مدارج النبوۃ)
حضور ﷺ فتح مکہ کے دن مکہ میں داخل ہوئے تو سر مبارک پر سیاہ عمامہ تھا۔ (مدارج النبوۃ)
ڈاکٹر عبدالحئیؒ لکھتے ہیں: ''حضور ﷺ تمام لوگوں میں سے اطیب اور الطف تھے، اس لیے اس کی علامت آپ ﷺ کے بدن مبارک میں ظاہر تھی کہ آپؐ کے جسم اطہر سے لگنے کی وجہ سے آپؐ کے کپڑے میلے نہیں ہوتے تھے اور نہ آپؐ کے لباس میں جوں پڑتی تھی اور نہ آپؐ کے کپڑوںاور جسم پر مکھی بیٹھتی تھی۔'' (مدارج النبوۃ)
حضور اکرم ﷺ نے چمڑے کے موزے پہنے ہیں اور ان پر مسح فرمایا ہے۔ (مدارج النبوۃ)
حضرت ڈاکٹر عبدالحئیؒ لکھتے ہیں کہ لباس کے معاملے میں سب سے بہترین طریقہ نبی کریم ﷺ کا وہ ہے جس کا آپؐ نے حکم دیا یا ترغیب دی یا خود اس پر عمل فرمایا۔ آپ ﷺ کا طریقہ (سنت) لباس یہ ہے کہ کپاس کا بنا ہُوا، یا صوف (اون) یا کتان کا بنا ہُوا کوئی لباس جو میسر آئے پہن لیا جائے۔ آپ ﷺ نے یمنی چادر، جبہ، قبا، قمیص، پاجامہ، تہبند، چادر، موزہ، جوتا، ہر چیز استعمال فرمائی۔ (اسوۂ رسول اکرمؐ)
آپ ﷺ نے ایک پاجامہ بھی خریدا اور صحابہ کرامؓ آپؐ کی اجازت سے پہنا بھی کرتے تھے۔ (زاد المعاد)
ملا علی قاری نے دمیاطی سے نقل کیا ہے کہ حضور اکرم ﷺ کا کرتا مبارک سوت کا بنا ہُوا تھا جو زیادہ لمبا نہ تھا اور اس کی آستین بھی زیادہ نہ تھی۔
حضرت عبداﷲ بن عباسؓ سے منقول ہے کہ آپ ﷺ کا کرتہ ٹخنوں سے اونچا ہوتا تھا۔
(شمائل ترمذی، خصائل نبویؐ)
حضرت اسماءؓ فرماتی ہیں کہ حضور ﷺ کے کرتے کی آستین پہنچے تک ہوتی تھی۔
(شمائل ترمذی)
حضور ﷺ قمیص کی آستین نہ بہت تنگ رکھتے تھے اور نہ بہت کشادہ بل کہ درمیانی ہوتی تھی اور آستین ہاتھ کے گٹے تک رکھتے اور چوغہ وغیرہ نیچے تک مگر انگلیوں سے آگے بڑھا ہُوا نہیں ہوتا تھا۔ (اسوہ رسول اکرمؐ)
جب آپؐ قمیص زیب تن فرماتے تو پہلے سیدھا ہاتھ سیدھی آستین میں ڈالتے اور پھر بایاں ہاتھ بائیں آستین میں۔ (زاد المعاد)
ایاس بن جعفرؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کا ایک رومال تھا جب آپ ﷺ وضو کرتے تو اسی سے پونچھ لیتے۔ عمامہ باندھنا سنت مستحب ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ''عمامہ باندھا کرو اس سے حلم میں بڑھ جاؤ گے۔'' (فتح الباری) آنحضرت ﷺ سفید ٹوپی اوڑھا کرتے تھے۔ وطن میں آپ ﷺ سفید کپڑے کی چپٹی ہوئی ٹوپی اوڑھا کرتے تھے۔ (السراج المنیر)
آپ ﷺ نے سوزنی نما سلے ہوئے کپڑے کی گاڑھی ٹوپی بھی اوڑھی۔ (السراج المنیر)
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان کی تہبند (پاجامہ وغیرہ) آدھی پنڈلی تک ہونا چاہیے اور اس کے نیچے ٹخنوں تک بھی کچھ مضائقہ نہیں لیکن ٹخنوں سے نیچے جتنے حصہ پر لنگی (تہبند) لٹکے گی وہ آگ میں جلے گا اور جو شخص متکبرانہ کپڑے کو لٹکائے گا قیامت میں حق تعالیٰ شانہ اس کی طرف نظر بھی نہیں کریں گے۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ، زاد المعاد)
حضرت ابُو سعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ جب نیا لباس پہنتے تو جمعہ کے دن پہنتے۔
حضور اکرم ﷺ کی عادت کریمہ لباس مبارک میں وسعت اور تکلّف نہ کرنے کی تھی یعنی جو مل جاتا پہن لیتے اور خاص لباس کی جستجو نہ فرماتے اور کسی حال میں نفیس کی خواہش نہ فرماتے اور نہ ادنیٰ اور حقیر خیال فرماتے تھے۔ اکثر حالات میں آپ ﷺ کا لباس مبارک چادر اور ازار (تہبند) ہوتا جو کچھ سخت اور موٹے کپڑے کا ہوتا، اور کبھی پشمینہ (اونی) لباس بھی زیب تن فرماتے۔
روایات میں ہے کہ آپ ﷺ کی چادر مبارک میں متعدد پیوند لگے ہوتے تھے اور فرماتے کہ میں بندہ ہی ہوں اور بندوں جیسا لباس پہنتا ہوں۔ (رواہ الشیخان)
حضرت ابن عمرؓ سے منقول ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم:
''اﷲ تعالیٰ کے نزدیک مومن کی تمام خوبیوں میں لباس کا صاف ستھرا رکھنا اور کم پر راضی ہونا پسند ہے۔''
حضور ﷺ تکبّر اور غرور کی مذمت فرماتے تو صحابہؓ نے عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ! آدمی پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کی جوتیاں عمدہ ہوں۔ (کیا یہ تکبر تو نہیں؟) اس پر رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''بے شک! اﷲ تعالیٰ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے۔''
چناں چہ خود حضور ﷺ وفود کے آنے پر ان کے لیے تجمل (آراستگی) فرماتے اور جمعہ و عیدین کے لیے آرائش فرماتے اور اس کے لیے مستقل جُدا لباس محفوظ رکھتے تھے۔ (مدارج النبوۃ)
حضرت ام سلمہؓ سے منقول ہے کہ حضور ﷺ کا محبوب ترین لباس قمیص تھا، اگرچہ تہبند اور چادر بھی بہ کثرت زیب تن فرماتے تھے لیکن قمیص کا پہننا زیادہ پسند تھا۔ (شمائل ترمذی)
حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ کا کُرتا سوتی رنگ کا، دامن آستین والا ہوتا تھا اور آپؐ کی قمیص مبارک میں گھنڈیاں (بٹن کے طور پر) لگی ہوئی تھیں اور قمیص مبارک میں سینہ کے مقام پر گریبان تھا اور یہی قمیص کی سنّت ہے۔ (مدارج النبوۃ)
ایک صحابیؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے مجھے اس حال میں دیکھا کہ میرے جسم پر کم قیمت کپڑے تھے تو فرمایا: کیا تیرے پاس مال ہے ؟ میں نے عرض کیا: جی یا رسول اﷲ ﷺ! اﷲ نے مجھے ہر قسم کے مال و دولت سے نوازا ہے۔ پھر آپؐ نے فرمایا: خدا کی نعمت اور اس کی بخشش کو تمہارے جسم سے ظاہر ہونا چاہیے۔
آپ ﷺ نے ایسے شخص کو دیکھا کہ جس کے کپڑے میلے اور غلیظ تھے تو فرمایا کہ یہ شخص کوئی ایسی چیز نہیں پاتا جس سے اپنے کپڑوں کو دھو لے۔ (مدارج النبوۃ)
حضور ﷺ فتح مکہ کے دن مکہ میں داخل ہوئے تو سر مبارک پر سیاہ عمامہ تھا۔ (مدارج النبوۃ)
ڈاکٹر عبدالحئیؒ لکھتے ہیں: ''حضور ﷺ تمام لوگوں میں سے اطیب اور الطف تھے، اس لیے اس کی علامت آپ ﷺ کے بدن مبارک میں ظاہر تھی کہ آپؐ کے جسم اطہر سے لگنے کی وجہ سے آپؐ کے کپڑے میلے نہیں ہوتے تھے اور نہ آپؐ کے لباس میں جوں پڑتی تھی اور نہ آپؐ کے کپڑوںاور جسم پر مکھی بیٹھتی تھی۔'' (مدارج النبوۃ)
حضور اکرم ﷺ نے چمڑے کے موزے پہنے ہیں اور ان پر مسح فرمایا ہے۔ (مدارج النبوۃ)
حضرت ڈاکٹر عبدالحئیؒ لکھتے ہیں کہ لباس کے معاملے میں سب سے بہترین طریقہ نبی کریم ﷺ کا وہ ہے جس کا آپؐ نے حکم دیا یا ترغیب دی یا خود اس پر عمل فرمایا۔ آپ ﷺ کا طریقہ (سنت) لباس یہ ہے کہ کپاس کا بنا ہُوا، یا صوف (اون) یا کتان کا بنا ہُوا کوئی لباس جو میسر آئے پہن لیا جائے۔ آپ ﷺ نے یمنی چادر، جبہ، قبا، قمیص، پاجامہ، تہبند، چادر، موزہ، جوتا، ہر چیز استعمال فرمائی۔ (اسوۂ رسول اکرمؐ)
آپ ﷺ نے ایک پاجامہ بھی خریدا اور صحابہ کرامؓ آپؐ کی اجازت سے پہنا بھی کرتے تھے۔ (زاد المعاد)
ملا علی قاری نے دمیاطی سے نقل کیا ہے کہ حضور اکرم ﷺ کا کرتا مبارک سوت کا بنا ہُوا تھا جو زیادہ لمبا نہ تھا اور اس کی آستین بھی زیادہ نہ تھی۔
حضرت عبداﷲ بن عباسؓ سے منقول ہے کہ آپ ﷺ کا کرتہ ٹخنوں سے اونچا ہوتا تھا۔
(شمائل ترمذی، خصائل نبویؐ)
حضرت اسماءؓ فرماتی ہیں کہ حضور ﷺ کے کرتے کی آستین پہنچے تک ہوتی تھی۔
(شمائل ترمذی)
حضور ﷺ قمیص کی آستین نہ بہت تنگ رکھتے تھے اور نہ بہت کشادہ بل کہ درمیانی ہوتی تھی اور آستین ہاتھ کے گٹے تک رکھتے اور چوغہ وغیرہ نیچے تک مگر انگلیوں سے آگے بڑھا ہُوا نہیں ہوتا تھا۔ (اسوہ رسول اکرمؐ)
جب آپؐ قمیص زیب تن فرماتے تو پہلے سیدھا ہاتھ سیدھی آستین میں ڈالتے اور پھر بایاں ہاتھ بائیں آستین میں۔ (زاد المعاد)
ایاس بن جعفرؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کا ایک رومال تھا جب آپ ﷺ وضو کرتے تو اسی سے پونچھ لیتے۔ عمامہ باندھنا سنت مستحب ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ''عمامہ باندھا کرو اس سے حلم میں بڑھ جاؤ گے۔'' (فتح الباری) آنحضرت ﷺ سفید ٹوپی اوڑھا کرتے تھے۔ وطن میں آپ ﷺ سفید کپڑے کی چپٹی ہوئی ٹوپی اوڑھا کرتے تھے۔ (السراج المنیر)
آپ ﷺ نے سوزنی نما سلے ہوئے کپڑے کی گاڑھی ٹوپی بھی اوڑھی۔ (السراج المنیر)
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان کی تہبند (پاجامہ وغیرہ) آدھی پنڈلی تک ہونا چاہیے اور اس کے نیچے ٹخنوں تک بھی کچھ مضائقہ نہیں لیکن ٹخنوں سے نیچے جتنے حصہ پر لنگی (تہبند) لٹکے گی وہ آگ میں جلے گا اور جو شخص متکبرانہ کپڑے کو لٹکائے گا قیامت میں حق تعالیٰ شانہ اس کی طرف نظر بھی نہیں کریں گے۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ، زاد المعاد)
حضرت ابُو سعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ جب نیا لباس پہنتے تو جمعہ کے دن پہنتے۔