حیدرآباد کے ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفس میں پنشن فنڈز میں کروڑوں روپے کے غبن کا انکشاف ہوا ہے۔
ایکسیرپس نیوز کے مطابق وفات پانے والے میونسپل ملازمین کی غیر فعال پنشن اکاؤنٹس کو بحال کرکے ان کے ذریعے کروڑوں روپوں کی فراڈ کیا گیا، کروڑو روپوں کے فراڈ کی ایف آئی اے نے تحقیقات بھی شروع کردی ہے جبکہ بدعنوانی کے الزام میں نیشنل بینک حیدرآباد میونسپل برانچ کے مینیجر آفاق شاھ، میونسپل عملے اور حیدرآباد ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفس کے عملے کے خلاف انکوائری جاری ہے۔
ذرائع کے مطابق تقریباً ساٹھ غیر فعال پنشن اکاؤنٹس کو دوبارہ فعال کیا گیا اور غیر مجاز اندراجات کے ذریعے کروڑوں روپے کا فراڈ کیا گیا۔ انکوائری کا آغاز میونسپل برانچ، حیدرآباد کے آپریشن مینیجر منور علی سیال کی جانب سے دائر کی گئی شکایت پر کیا گیا ہے۔ ایف آئی اے نے ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفیسر حیدرآباد کو تفصیلی ریکارڈ فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے،
ایف آئی اے نے جنوری 2021 سے اگست 2024 تک حیدرآباد ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفس میں مقرر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اکاؤنٹ آفیسرز (انچارج پنشن) کے بارے میں تمام معلومات اور پنشنرز کی موت کے بعد پنشن کی وصولی کی کوششوں سے متعلق تمام خط و کتابت کا ریکارڈ طلب کر لیا ہے۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ بینک کی اندرونی تحقیقات بھی جاری ہیں جبکہ فراڈ کے ایک مرکزی ملزم آفاق احمد شاہ نے مبینہ طور پر اپنے ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہے اور غبن کی گئی رقوم کا ایک حصہ واپس بھی کر دیا ہے، ملزم سابق آئی جی سندھ سید مشتاق شاہ کے بھائی ہیں۔
دستاویزات کے مطابق ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفس حیدرآباد کے عملے نے 2017 میں انتقال کر جانے والے معروف ادیب در محمد کمال کی2018 میں انتقال کرجانے والی اہلیہ کے نام پر 43 لاکھ روپے پنشن ادا کی گئی جو ایک خاتون وصول کرتی تھی۔
مرحوم در محمد کمال کے بھتیجے منظور سولنگی کا کہنا ہے کہ اس نے اس فراڈ کی اطلاع ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفس حیدرآباد کو دی لیکن ان کی شکایت کو نظر انداز کر دیا گیا۔ جس کے بعد اس نے محکمہ خزانہ سندھ سے رجوع کیا تب بھی کارروائی نہیں کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ مذکورہ فراڈ کے خلاف اب سندھ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ اور ایف آئی اے میں اپنی شکایت داخل کروا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفس حیدرآباد کے کئی افسران احتساب عدالت کراچی کے روبرو اس وقت 3 ارب روپوں کے نیب ریفرنس کا سامنا کر رہے ہیں۔