بنگلہ دیش کے خلاف ہندوستان کی سازشیں جاری
حسینہ واجد کی معزولی کے بعد بھی ہندوستان اپنی تخریبی شرارتوں سے باز نہیں آرہا ہے
کراچی:
تاریخ میں بہت سے اہم واقعات ماہ اگست میں رونما ہوئے ہیں۔9 اگست 1945 کودوسری جنگ عظیم میں ایک انسانی تاریخ کا سب سے شرمناک واقعہ پیش آیا،اس دن امریکانے جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی میں ایٹم بم گرائے جس نے دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں افراد کی جان لے لی۔4 اگست 2020 کو بیروت کی بندرگاہ پر ایک زور دار دھماکا ہوا، جس میں 135 افراد ہلاک جبکہ 4000 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے تھے۔
بیروت کے صدرکا کہنا تھا کہ دھماکے کی وجہ 2750 ٹن امونیم نائٹریٹ بنا جو غیر محفوظ انداز میں ذخیرہ کی گئی تھی۔ 14 اگست کو ہندوستان کا کلیجہ چھیڑکر پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرا، اللہ وطن عزیز کو آباد رکھے۔ بلاشبہ14 اگست کی اپنی اہمیت ہے لیکن پانچ اگست 2019 کو کشمیریوں سے ان کے رہے سہے حقوق بھی چھین لیے گئے۔
مودی سرکار نے بھارتی آئین سے آرٹیکل 370 ختم کرکے مقبوضہ کشمیر کے تین ٹکڑے کر دیے تھے اور مقبوضہ کشمیر کی ریاستی حیثیت بھی ختم کردی تھی۔ 5 اگست 2020 کو ہندوستان کی سرکار نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیرنو کی بنیاد رکھی۔ رواں سال 5 اگست کو بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے استعفیٰ دیدیا تھا۔ پانچویں مرتبہ وزیراعظم بننے کے باوجود بھی بنگلہ دیش ان کا نہ ہوسکا اور انہیں اپنی راج نگری سے فرار ہونا پڑا، جس کے پیچھے ہندوستان کا ہاتھ بتایا جاتا ہے۔
شیخ حسینہ بھارت کی ایما پر تکبر کا شکار ہوگئیں، انہوں نے عوام کے مسائل حل کرنے کی بجائے مخالفین کو دبانے اور اپنے ذاتی انتقام کی آگ ٹھنڈا کرنے کو ترجیح دی۔ البدر، الشمس جیسی تنظیموں کے قائدین اور کارکنان کو پاکستان کا ساتھ دینے کی وجہ سے پھانسیاں دیں۔ اس کے باوجود ہندوستان ان سے خوش نہ ہوا اور حسینہ واجد، شیخ مجیب کی طرح ماضی کا حصہ بن گئیں۔
حسینہ واجد کی معزولی کے بعد بھی ہندوستان اپنی تخریبی شرارتوں سے باز نہیں آرہا ہے۔ حالیہ مون سون کے موسم کے پیش نظر پانی کے بہاؤ کو کم کرنے کے لیے ہندوستان نے اپنے ڈیمز کے دروازے کھول دیے،جس کا نقصان بنگلہ دیش کو اٹھانا پر رہا ہے۔ ہندوستان کی لاپرواہی کی وجہ سے بنگلہ دیش کے جنوب مشرق میں پہلی بار بدترین سیلابی صورتحال پیدا ہوئی، جس کی وجہ سے معاشی بحران نے سر اٹھایا۔
ہندوستانی حکام نے تین دہائیوں میں پہلی بار تریپورہ میں ڈمبور آبی ذخائر کے دروازے کھولے، جس کی وجہ سے بنگلہ دیش کے پہلے سے بارش زدہ علاقے مزید زیر آب آئے۔ بین الاقوامی قانون کے تحت ہندوستان پابند ہے کہ وہ بنگلہ دیش کو کسی بھی ایسی کارروائی کے بارے میں مطلع کرے، جس کی وجہ سے کوئی بھی نقصان پہنچ سکتا ہو۔
اس کے باوجود ہندوستان نے آبی ذخائر کے دروازے کھولنے سے پہلے بنگلہ دیش کو مطلع کرنے کے بارے میں ایک بار بھی نہیں سوچا اور بنگالی قوم کو پریشانی اور نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔بنگلہ دیش میں مالی بحران نے سر اٹھا لیا ہے، بنگلہ دیش کو مجموعی طور پر دو بلین ڈالرز کے قرض کے ساتھ معاشی بحران کا سامنا ہے جبکہ توانائی کا بڑا بحران الگ سر اٹھا رہا ہے۔ بنگلہ دیش پر اڈانی پاور کے 800 ملین ڈالرز کے بجلی کے واجبات ہیں۔ بنگلہ دیش بینک کے گورنر احسن ایچ منصور نے کہا کہ اگر ہم ان ( اڈانی پاور) کو ادائیگی نہیں کرتے تو وہ بجلی فراہم کرنا بند کردیں گے، جس کے باعث مزید مشکلات میں اضافہ ممکن ہے۔ ہندوستان کی وجہ سے بنگلہ دیش انتشار اور عدم استحکام کا شکار ہے۔
پاکستان کے اکنامکس ماہرین نے بنگلہ دیش کی صورتحال دیکھ کر بنگالی بھائیوں اور بہنوں کے لیے پاکستان کے کاروباری حضرات کو رائے دی ہے کہ بنگلہ دیش کی صورت حال کو مدنظر رکھ کر پاکستان ٹیکسٹائل ملز کے ذریعے خطے کا سورسنگ مرکز بن سکتا ہے۔ بزنس ایکسپرٹ کے مطابق بنگلہ دیش میں بگڑتی صورتحال کے مد نظر دنیا کی اہم ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنا رسک کم کرنے کے لیے اپنے سورسنگ آپریشن کو بنگلہ دیش سے منتقل کرنے میں مصروف ہیں، یہ صورتحال پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے متبادل سورسنگ حب کے طور پر خود کو منوانے کے لیے ایک منفرد موقع رکھتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مشکل کے اس وقت میں بنگلہ دیش کے پاس پاکستان کے ساتھ کاروباری منصوبوں پر کام کرنے کا اچھا موقع ہے، اس طرح دونوں ممالک کے معاشی حالات میں بھی بہتری آئے گی اور ماضی کی تلخیاں بھی کم ہوں گی۔ اس سلسلے میں معاشی سمجھ بوجھ رکھنے والے تجزیہ کار خالد مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس اپنی ویلیو ایڈڈ ملبوسات کی برآمدات کو بڑھانے کا ایک نیا موقع ہے۔ اس صلاحیت کو محسوس کرنے کے لیے فوری اور اہدافی اصلاحات کی ضرورت ہے۔
بنگلہ دیش کی صنعت کو سستی گیس سے $7.4/MMBtu میں فائدہ ہوتا ہے، پاکستان میں صنعت کو $13/MMBtu میں آر ایل این جی/گیس بلینڈ فراہم کی جا رہی ہے۔ مزدوری کی لاگت بھی پاکستان کے ٹیکسٹائل سیکٹر پر مالی دباؤ کا باعث بنتی ہے۔
بنگلہ دیش میں گارمنٹس کے کارکنوں کی کم ازکم اجرت 113 ڈالر ماہانہ ہے، جب کہ پاکستان میں یہ 135 ڈالر ہے، جو تقریباً 20 فیصد کا فرق ہے۔ اجرت کا یہ فرق، توانائی کے زیادہ اخراجات کے ساتھ، پاکستان کی مسابقت کو مزید کم کرتا ہے۔ اس سے دونوں ممالک کی معاشی صورتحال کے ساتھ خارجہ پالیسی بھی مستحکم ہونگی اور خطے میں امن بھی آئے گا۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کبھی بنگلہ دیش نے کی برآمدات سالانہ 47 بلین ڈالر تک پہنچ گئی تھیں۔ بدقسمتی سے اب یہ ملک اقتصادی بحران کا شکار ہے۔ اسٹرٹیجک تجزیہ کاروں کے مطابق بنگلہ دیش کے عروج و زوال کے پیچھے ایک ہی ملک کا ہاتھ ہے جوکہ ہندوستان ہے۔ ہندوستان نے بنگلہ دیش کو پاکستان کے خلاف خوب استعمال کر کے اب وہاں کے عوام کو بالکل تنہا چھوڑ دیا ہے، بلکہ ان کے لیے مزید مشکلات پیدا کررہا ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ بنگلہ دیش کو بنانے کے پیچھے بھی بھارت کا ہی گھناؤنا منصوبہ اور حکمت عملی تھی۔ ہندوستان کا اپنی نوآبادی کے ساتھ یہ رویہ بتا رہا ہے کہ جو بھی '' را'' کا ہم نوا ہوا۔ اسے وفا نہیں ملی، ہندوستان نے بنگلہ دیشی بھائیوں اور بہنوں کو ٹشو پیپر سمجھ کر پھینک دیا۔ یہ صورتحال ان لوگوں کے لیے نصیحت ہے، جن کی ڈوریں ہندوستان ہلا رہا ہے۔ بنگلہ دیش کے دگرگوں منظر نامے میں ''را'' کے فنڈز کو اپنا مستقبل دیکھ لینا چاہیے،بہرحال اللہ بنگلہ دیشی عوام کے مسائل کو جلد از جلد حل فرمائے۔