عدل کا توازن
یہ دنیا بھر کے فلسفی اور فلاسفر بھی عجیب پاگل تھے کہ '' عدل اور سچ'' کے لیے خود کو دان کرتے رہے، قید ہوئے، ستم سہے، تشدد برداشت کیا، بھوک کو اوڑھنا بچھونا بنایا مگر سوچنا اور نوعِ انسانی کے لیے عدل میں توازن کی لڑائی اپنے سے زیادہ طاقتور سے لڑتے رہے تاکہ بعد کے انسان کو انصاف بر مبنی اور غیر استحصالی سماج دے سکیں۔
انسانی شعورکو صیقل کریں تاکہ آخری انسان کی جدوجہد بھی سب کے ذہنی اور جسمانی سکون کا وہ پیغام ہو جس میں انسان جھوٹ، فریب اور غیر انسانی رویوں سے چھٹکارا پا لے اور اپنے لیے غیر استحصالی و غیر طبقاتی سماج کی بنیاد رکھ کر کھیت کھلیان آباد کرے، فطرت کے حسن کو سنوارے اور فیکٹری کی چمنی کے دھوئیں کو سماجی ترقی و خوشحالی کا زینہ بنائے، مگر فلسفیوں کی نزدیک سوال پھر بھی یہ رہا کہ انسان کی خوشحالی کے لیے یہ سب حاصلات حاصل کیسے کی جائیں؟
اس سوال کے جواب میں منڈلیاں بنی، بیٹھکوں کی باتوں کو عملی شکل دینے کی فکر ہوئی، بات کو ہر فرد تک پہنچانے کے وسائل کو مربوط کرنے کے لیے محلہ کمیٹیاں تشکیل دیں، بات جب ذرا آگے بڑھی تو ان کمیٹیوں کو وسعت دینے کے لیے اداروں کا مربوط نظام وضع کیا گیا، انسانی شعورکی آبیاری کے لیے جہاں سیاسی اداروں کا وجود ہوا، وہیں استحصال کرنے والی طاقت سے عوام کی سیاسی بے چینی میں توازن پیدا کرنے کے لیے انصاف دینے کے اداروں کو ضروری جانا گیا تاکہ غیر مطمئن فرد کوکسی بھی استحصال سے نجات کے لیے عدلیہ کے نظام کو توانا کیا جائے۔ جنگِ عظیم دوم کے بعد چرچل کا یہ جملہ آج تک زندہ ہے کہ '' فکر نہ کریں کہ ابھی تک ہمارا عدالتی نظام انصاف کے تمام تقاضے پورے کر رہا ہے لٰہذا تباہ شدہ برطانیہ جلد تعمیر ہو جائے گا۔''
سوال یہ ہے کہ عام انسان کو انصاف دینے یا دلانے کی ساری کوششیں سوچ و فکرکے زعما ہی کیوں کرتے ہیں، تمام انسانوں کی برابری اور انصاف مہیا کرنا ہی اُس وقت کے سماج میں ہمارے مذہبی قائدین کا جرم ٹھہرا،858 عیسوی میں پیدا ہونے والا منصور حلاج ہی انسانوں میں سوچ و فکر پیدا کرنے اور سچ کے لیے سولی چڑھنے پر آمادہ ہوا، وہی منصور آج کے عہد کے سچ اور انصاف کا پرتو دکھائی دیتا ہے، اسی طرح خوشحال گھرانے میں آنکھ کھولنے والا کارل مارکس انسان کے استحصالی و غیر منصفانہ نظام کی پاداش میں فاقوں کا شکار رہا۔
انسانی سماج میں دولت کی منصفانہ تقسیم کے لیے انقلاب برپا کرنے والا ولادیمیر لینن طاقتور سرمایہ داری کا مجرم ٹھہرا، یہ ہی کیوں اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو وہی قاضی طاقت کے ایوانوں میں معتوب ٹھہرے جنہوں نے طاقت کے آگے انسانوں کے انصاف پرکبھی سر نگوں نہ کیا،کون جانتا تھا کہ فارس کے مشہد شہر سے فتح پور سیکری بھارت میں نقل مکانی کرنے والا 'نور اللہ شوستری' جلال الدین اکبرکا نظر انتخاب ہوگا اور نور اللہ شوستری کو اس کی ذہانت اور انصاف کرنے کی صفت پر اسے پورے ہندوستان کا '' قاضی القضا'' بنا دیا جائے گا۔
پھر تاریخ میں یہ کیسے لکھا جاتا کہ جب اکبرکے جلال کی دھوم برصغیر کے کونے کونے تک تھی تو اسی جلال کے سامنے مشہد سے آنے والا نور اللہ شوستری بے خوف یہ کہہ رہا تھا کہ'' والی سلطنت میں ہندوستان کے انسانوں کو انصاف اس شرط پر دوں گا کہ اس میں دربار اکبرکی کوئی فرمائش نہ ہو، اکبرکو نور اللہ کا یہ عزم بھایا اور نور اللہ ہندوستان کا قاضی بنا، جس نے انسانوں کو انصاف کی فراہمی میں کبھی اکبر بادشاہ کی طاقت کو اپنے قریب پھٹکنے نہ دیا، مغلیہ دور میں قاضی نور اللہ نے پچاس برس سے زائد عرصے تک پورے ہندوستان میں '' با عمل منصف '' کا اعزاز حاصل کیا اور جب اکبرکے پوتے جہانگیر بادشاہ نے اپنے غرور میں ڈوبی طاقت کے زعم میں قاضی نور اللہ سے اپنی پسند کا انصاف کرنے کا کہا، تو قاضی نے انکارکیا اور قاضی جہانگیر کے فرمان کی سزا کے طور پر سولی چڑھا اور انصاف کی تاریخ میں معتبر ٹھہرا۔
ہمارے سماج میں عدل اور انصاف کو ایک ہی طرح سے دیکھنے کے رجحان نے مزید پیچیدگیاں پیدا کی ہیں جبکہ عدل اور انصاف ایک دوسرے سے یکسر مختلف شے ہیں، ''عدل'' توازن یا برابر انصاف دینے کے درجے سے بالکل مختلف ہے، عدل کرتے وقت عادل کے لیے حق کی تلاش میں عمیق نگاہ، تحقیق اور نفسیاتی عادات و احساس کو مدنظر رکھ کر حق دارکو ناحق سے اس کا چھینا گیا حق دینا لازمی شرط ہے، عالموں کی فکر کے مطابق عدل کا بنیادی تقاضہ دعویدار اور مدعی کے مختلف دلیل رکھنے والے افراد یا گروہ کو خوش کرنا نہیں بلکہ حق دارکو انصاف کے تماتر تقاضوں اور تحقیق پر حق دلانا ہے۔
جبکہ انصاف میں دعویدار اور مدعی کے نکتے کو وکلا کی دلیل کے تحت سن کر فیصلہ کرنے کا اختیار ہے، جس میں منصف کے فریق ہونے یا نہ ہونے کو ماپنا مشکل امر ہے، مختصر یہ کہ منصف وکلا کی دلیلوں کی روشنی میں دو گروپ کے درمیان توازن پیدا کر کے اسے انصاف کا نام دے دیتا ہے، یہی وہ بنیادی فرق ہے عدل اور انصاف کا جس کو الگ الگ کر کے دیکھنا آج کے بے ترتیب سماج میں بہت ضروری ہے۔ دنیا کے فلسفی اور علمائے حق نے عدل کو پہلے درجے پر ہی رکھا ہے جبکہ انصاف کسی طور عدل کے مدارج طے کرنے سے دور ہی رہا ہے، ہمارے ہاں عمومی طور سے عدل و انصاف کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے جو کہ ایک غیر سنجیدہ سوچ ہے، جس سے جتنا جلد ہوسکے کنارہ کر لیا جائے تاکہ ہم جلد از جلد انصاف بر مبنی سماج کی جانب مراجعت کریں۔
پاکستان کے انصاف دینے کا عمل پچھلے 77 برسوں سے لہو لہان ہے اور ہم آئین کا سہارا لے کر یا آئینی موشگافیوں میں مبتلا ہوکر انصاف کے نظام کو ہی درست نہیں کر پائے ہیں، عدلیہ میں جسٹس منیرکا نظریہ ضرورت آج بھی دور جدید میں اسی دقیانوسی سوچ کے تحت رائج ہے جس سے نہ جمہوریت پنپ پا رہی ہے، نہ معیشت اور نہ ہی سماج میں قانون کی بالادستی کا کوئی تصور ہے۔ ہ
مارے نظام انصاف میں اب تک آمرانہ اور طاقتور سوچ حاوی ہے، جس کے نتیجے میں عام فرد یا عوام انصاف کے لیے بندی خانوں میں موت و زیست کی کیفیت میں مبتلا ہے یا عدلیہ کے جلدی انصاف نہ دینے کے نتیجے میں بے گناہ فرد زندان میں ہی دم توڑ رہا ہے۔ البتہ عدلیہ فیشن کے طور میڈیا میں شہرت یا موضوع بحث بننے کے شوق میں سیاسی مقدمات کو اتنی اہمیت دیتی ہے، جس سے عام فرد عدالتی نظام سے بے گانہ ہوکر خود کو کسی بھی قانون سے بالاتر سمجھتا ہے، جو کہ عدالتی نظام کی خرمستیوں کے سبب ایک ایسا سماجی المیہ ہے جس کی فوری گرفت بہت ضروری ہے وگرنہ سماج کی مزید بے ترتیبی سے آیندہ نسل بھی شاید ہی بچ پائے۔ طے یہ کرنا ہے کہ آج کے حکمران اور جج کو چرچل بننا ہے یا جسٹس منیرکی آمرانہ سوچ کے ''نظریہ ضرورت'' کے تحت مکمل انصاف سے پر ''ڈھونگ'' روایت کو سینے سے لگائے رکھنا ہے؟