مہنگائی کا عفریت
صحت اور تعلیم جو انسان کا بنیادی حق ہے، مہنگائی کی بدولت پاکستان کی عوام کی اکثریت اس سے محروم ہوتی جا رہی ہے
پاکستان اس وقت اپنی 77 سالہ تاریخ کے سب سے مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ مہنگائی کے عفریت نے عام پاکستانی کی زندگی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ نوکری پیشہ طبقہ دو وقت کی روٹی اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی تگ و دو میں پھنسا ہوا ہے۔ آئے دن کی بڑھتی ہوئی مہنگائی نے لوگوں کو پریشان کردیا ہے۔ نوکری کے علاوہ لوگ اس کوشش میں ہیں کہ کوئی اور کام مل جائے تو کچھ اضافی کمائی ہوجائے۔ اکثر لڑکے جن کے پاس اپنی بائیک ہے وہ شام میں نوکری کے بعد Bykea کا کام کر رہے ہیں۔ گھروں میں عورتوں نے کام والی کو ہٹا کر خود کام کرنا شروع کردیا ہے تاکہ پیسے کی کچھ بچت ہوسکے، کئی والدین بچوں کو Home Schooling کروانے پر مجبور ہیں۔
بجلی اور گیس کے بلوں نے لوگوں کی کمر توڑ دی ہے اور اس سب کے باوجود ہماری حکومت پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ حکومت عوام کے لیے کوئی ریلیف پیکیج دینے میں ناکام رہی ہے اور نہ صرف یہ بلکہ حکومتی پالیسی اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ حکومت ہر لحاظ سے عوامی مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ کھانے کی اشیا اور تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو دیکھتے ہوئے پالیسی ساز ادارے، بین الاقوامی ادارے اور سیاست دان فکر میں ہیں کہ اس سب کا اثر عام آدمی کو کس طرح متاثر کرے گا۔
مہنگائی کی بدولت جرائم میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آئے دن موبائل چھننے کی وارداتیں بڑھ رہی ہیں اور مزاحمت کی صورت میں لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ آئے دن کی بڑھتی ہوئی مہنگائی نے بہت سے سماجی مسائل میں اضافہ کیا ہے لوگ ذہنی دباؤکا شکار ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری اور غربت نے لوگوں میں ذہنی تناؤ اور ڈپریشن میں اضافہ کیا ہے۔
لوگ اس وقت جن حالات سے دوچار ہیں، اس نے ان کو انتہائی مایوسی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ انھیں کسی قسم کی کوئی امید نہیں رہی ہے۔ عام آدمی کی قوتِ خرید سے چیزیں باہر ہوتی جارہی ہیں اور انھیں معلوم ہے کہ ایک دفعہ جس چیز کی قیمت بڑھ گئی تو وہ پھرکم نہیں ہوگی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت سنجیدگی سے ایسی پالیسی بنائے جس کے تحت روزمرہ کے استعمال کی چیزوں کی قیمت کو ایک حد سے بڑھنے سے روکا جائے اور ملک میں بے روزگاری کو کم کیا جائے۔
ماہرینِ معاشیات اور حکومت کو مل کر اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے، اگر مہنگائی کے اس بحران سے عوام کو نہیں نکالا گیا تو ملک میں ایسے حالات پیدا ہو جائیں گے جن سے نمٹنا مشکل ہوگا۔
عام آدمی کی زندگی روز بہ روز مشکل سے مشکل ترین ہوتی جا رہی ہے اور اشرافیہ وہ زندگی گزار رہی ہے جس کا خواب تو عام آدمی دیکھ سکتا ہے مگر جو اس کی دسترس سے کوسوں دور ہے۔ اس طبقاتی فرق کی وجہ سے لوگوں میں غم و غصہ بڑھتا جا رہا ہے اور جس دن یہ لاوا پھٹا، پاکستان کی سالمیت کو خطرہ ہوگا۔
صحت اور تعلیم جو انسان کا بنیادی حق ہے، مہنگائی کی بدولت پاکستان کی عوام کی اکثریت اس سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔ لوگوں کے لیے اپنا اور اپنے اہل خانہ کا علاج کروانا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ پرائیویٹ اسپتال کا تو عام آدمی سوچ بھی نہیں سکتا اور سرکاری اسپتالوں کی حالت سب کے سامنے ہے۔ لوگوں کی حالت یہ ہے کہ دو وقت کا کھانا پورا کرنا مشکل ہے۔ بچوں کی تعلیم، بجلی،گیس کے بل اور دیگر اخراجات کو پورا کرنا ایک سفید پوش انسان کے لیے ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔
اس وقت پاکستان میں خودکشی کا رجحان اور ذہنی دباؤ سے پیدا ہونے والی بیماریاں بڑھ رہی ہیں اور اس سب کی وجہ مہنگائی اور بے روزگاری ہے۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں جس سے ہمیں ماضی میں سابقہ نہ ہوا ہو۔ انیسویں صدی میں ہمارے بڑے شاعر نظیر اکبر آبادی نے اس صورتِ حال پر شاہکار نظمیں لکھی ہیں۔ ان کی نظم ''روٹیاں'' اور ''مفلسی'' اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ ذیل میں ان کی نظم '' مفلسی'' سے چند اشعار پیش کیے جا رہے ہیں۔
جب آدمی کے حال پہ آتی ہے مفلسی
کس کس طرح سے اس کو ستاتی ہے مفلسی
پیاسا تمام روز بٹھاتی ہے مفلسی
بھوکا تمام رات سلاتی ہے مفلسی
جو اہلِ فضل عالم و فاضل کہلاتے ہیں
مفلس ہوئے تو کلمہ تک بھول جاتے ہیں
پوچھے کوئی الف تو اسے ب بتاتے ہیں
وہ جو غریب غربا کے لڑکے پڑھاتے ہیں
مفلس کی کچھ نظر نہیں رہتی ہے ان پر
دیتا ہے اپنی جان وہ ایک ایک نان پر
ہر آن ٹوٹ پڑتا ہے روٹی کے خوان پر
جس طرح کتے لڑتے ہیں ایک دستر خوان پر
ویسا ہی مفلسوں کو لڑاتی ہے مفلسی
جب مفلسی ہوئی، تو شرافت کہاں رہی؟
وہ قدر ذات کی، وہ نجابت کہاں رہی؟
کپڑے پھٹے، تو لوگوں میں عزت کہاں رہی؟
تعظیم و تواضع کی بابت کہاں رہی؟
مجلس کی جوتیوں پہ بٹھاتی ہے مفلسی
دنیا میں لے کے شاہ سے اے یارو! تا فقیر
خالق نہ مفلسی میں کسی کو کرے اسیر
اشراف کو بناتی ہے اک آن میں حقیر
کیا کیا میں مفلسی کی خرابی کہوں نظیرؔ
وہ جانے جس کے دل کو جلاتی ہے مفلسی
بجلی اور گیس کے بلوں نے لوگوں کی کمر توڑ دی ہے اور اس سب کے باوجود ہماری حکومت پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ حکومت عوام کے لیے کوئی ریلیف پیکیج دینے میں ناکام رہی ہے اور نہ صرف یہ بلکہ حکومتی پالیسی اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ حکومت ہر لحاظ سے عوامی مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ کھانے کی اشیا اور تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو دیکھتے ہوئے پالیسی ساز ادارے، بین الاقوامی ادارے اور سیاست دان فکر میں ہیں کہ اس سب کا اثر عام آدمی کو کس طرح متاثر کرے گا۔
مہنگائی کی بدولت جرائم میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آئے دن موبائل چھننے کی وارداتیں بڑھ رہی ہیں اور مزاحمت کی صورت میں لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ آئے دن کی بڑھتی ہوئی مہنگائی نے بہت سے سماجی مسائل میں اضافہ کیا ہے لوگ ذہنی دباؤکا شکار ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری اور غربت نے لوگوں میں ذہنی تناؤ اور ڈپریشن میں اضافہ کیا ہے۔
لوگ اس وقت جن حالات سے دوچار ہیں، اس نے ان کو انتہائی مایوسی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ انھیں کسی قسم کی کوئی امید نہیں رہی ہے۔ عام آدمی کی قوتِ خرید سے چیزیں باہر ہوتی جارہی ہیں اور انھیں معلوم ہے کہ ایک دفعہ جس چیز کی قیمت بڑھ گئی تو وہ پھرکم نہیں ہوگی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت سنجیدگی سے ایسی پالیسی بنائے جس کے تحت روزمرہ کے استعمال کی چیزوں کی قیمت کو ایک حد سے بڑھنے سے روکا جائے اور ملک میں بے روزگاری کو کم کیا جائے۔
ماہرینِ معاشیات اور حکومت کو مل کر اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے، اگر مہنگائی کے اس بحران سے عوام کو نہیں نکالا گیا تو ملک میں ایسے حالات پیدا ہو جائیں گے جن سے نمٹنا مشکل ہوگا۔
عام آدمی کی زندگی روز بہ روز مشکل سے مشکل ترین ہوتی جا رہی ہے اور اشرافیہ وہ زندگی گزار رہی ہے جس کا خواب تو عام آدمی دیکھ سکتا ہے مگر جو اس کی دسترس سے کوسوں دور ہے۔ اس طبقاتی فرق کی وجہ سے لوگوں میں غم و غصہ بڑھتا جا رہا ہے اور جس دن یہ لاوا پھٹا، پاکستان کی سالمیت کو خطرہ ہوگا۔
صحت اور تعلیم جو انسان کا بنیادی حق ہے، مہنگائی کی بدولت پاکستان کی عوام کی اکثریت اس سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔ لوگوں کے لیے اپنا اور اپنے اہل خانہ کا علاج کروانا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ پرائیویٹ اسپتال کا تو عام آدمی سوچ بھی نہیں سکتا اور سرکاری اسپتالوں کی حالت سب کے سامنے ہے۔ لوگوں کی حالت یہ ہے کہ دو وقت کا کھانا پورا کرنا مشکل ہے۔ بچوں کی تعلیم، بجلی،گیس کے بل اور دیگر اخراجات کو پورا کرنا ایک سفید پوش انسان کے لیے ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔
اس وقت پاکستان میں خودکشی کا رجحان اور ذہنی دباؤ سے پیدا ہونے والی بیماریاں بڑھ رہی ہیں اور اس سب کی وجہ مہنگائی اور بے روزگاری ہے۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں جس سے ہمیں ماضی میں سابقہ نہ ہوا ہو۔ انیسویں صدی میں ہمارے بڑے شاعر نظیر اکبر آبادی نے اس صورتِ حال پر شاہکار نظمیں لکھی ہیں۔ ان کی نظم ''روٹیاں'' اور ''مفلسی'' اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ ذیل میں ان کی نظم '' مفلسی'' سے چند اشعار پیش کیے جا رہے ہیں۔
جب آدمی کے حال پہ آتی ہے مفلسی
کس کس طرح سے اس کو ستاتی ہے مفلسی
پیاسا تمام روز بٹھاتی ہے مفلسی
بھوکا تمام رات سلاتی ہے مفلسی
جو اہلِ فضل عالم و فاضل کہلاتے ہیں
مفلس ہوئے تو کلمہ تک بھول جاتے ہیں
پوچھے کوئی الف تو اسے ب بتاتے ہیں
وہ جو غریب غربا کے لڑکے پڑھاتے ہیں
مفلس کی کچھ نظر نہیں رہتی ہے ان پر
دیتا ہے اپنی جان وہ ایک ایک نان پر
ہر آن ٹوٹ پڑتا ہے روٹی کے خوان پر
جس طرح کتے لڑتے ہیں ایک دستر خوان پر
ویسا ہی مفلسوں کو لڑاتی ہے مفلسی
جب مفلسی ہوئی، تو شرافت کہاں رہی؟
وہ قدر ذات کی، وہ نجابت کہاں رہی؟
کپڑے پھٹے، تو لوگوں میں عزت کہاں رہی؟
تعظیم و تواضع کی بابت کہاں رہی؟
مجلس کی جوتیوں پہ بٹھاتی ہے مفلسی
دنیا میں لے کے شاہ سے اے یارو! تا فقیر
خالق نہ مفلسی میں کسی کو کرے اسیر
اشراف کو بناتی ہے اک آن میں حقیر
کیا کیا میں مفلسی کی خرابی کہوں نظیرؔ
وہ جانے جس کے دل کو جلاتی ہے مفلسی