کھیل کود میری برازیل

کل جو ہوا وہ شاید آپ کے لیے تو شاید قابل قبول ہوسکتا ہے مگر میرے لیے ہر گز نہیں کیونکہ یہ میری برازیل ہے


فہیم پٹیل July 09, 2014
اِس بار برازیل شکست کھا گیا تو کیا ہوا، چار سال بعد پھر ورلڈ کپ ہے اور پھر ہمیں یہیں اُمیدیں ہونگی کہ کوئی اور نہیں صرف برازیل ہی ورلڈ کپ جیتے گا۔ فوٹو: اے ایف پی

ہار اور جیت کھیل کا ناگزیر حصہ اور عروج اور زوال دنیا میں رائج ایک بنیادی اُصول ہے۔ اگر ان دونوں باتوں کو ذہن میں رکھ کر سوچا جائے اور تسلیم کرنے کی کوشش کی جائے تو جرمنی کے ہاتھوں برازیل کی شکست کو تسلیم کیا جاسکتاہے۔ لیکن ۔۔۔۔

اپنی چھبیس سالہ زندگی میں شاید کچھ ہی ایام ہونگے جب میں فٹ بال جیسے کھیل سے عملی طور پر لطف اندوز ہوا ہونگا یعنی اِس کھیل کو کھیلا ہوگا۔ وجہ کھیل سے دلچسپی میں کمی نہیں بلکہ اصل وجہ تو صحت کا ساتھ نہ دینا ہے کیونکہ ایک عام روایت کے مطابق فٹ بال کے ایک میچ میں ہر کھلاڑی اوسطً 9.5 میل بھاگتا ہے اب بھلاایسی صورتحال میں ہم کیسے لطف اندوز ہوسکتے ہیں اِس کھیل سے۔لیکن مجھے آج بھی یاد ہے کہ میں نے جب سے فٹ بال کو سمجھنا یا دیکھنا شروع کیا ہے برازیل کو ہمیشہ عروج میں ہی دیکھا ہے۔ بلکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ شروع میں تو میں برازیل کو ہی فٹ بال سمجھتا تھا۔اگر چہ میں اِس کھیل کو مستقل دیکھنے کا شوقین نہیں ہوں لیکن ورلڈ کپ جیسا ایونٹ تو مستقل بنیادوں پر دیکھتا ہوں۔

پیلے سے جو دور شروع ہوا وہ نیمار تک جاری ہے۔ وہ بھی کیا دور ہوا کرتا تھا جب رونالڈو، ریوالڈو، روبرٹوکارلوس، رونالڈینیو اور کاکا جیسے کھلاڑی ایک ہی وقت میں ٹیم میں شامل ہوتے تھے۔ پھر مجال ہے کہ کوئی میدان میں اِس بھاری ٹیم کو پچھاڑنے کا سوچے بھی۔ 5 بار کے عالمی چیمپئن نے اِس کھیل کو بڑے بڑے نام دیےجنہوں نے یقینی طور پر اِس کھیل کی خوبصورتی کو چار چاند لگائیں ہیں۔

گزشتہ رات شاید یہ برازیل ہی تھی جس نے مجھے رات کے انتہائی پہر جاگنے پر مجبور کیا اور میں برے اہتمام کے ساتھ ٹی وی اسکرین کے سامنے بیٹھا تھا کہ آج برازیل کو جیتتے ہوئے دیکھوں گا مگر شاید نصیب میں کچھ اور ہی لکھا تھا۔شروع کے 30 منٹوں میں وہ کچھ ہوا جس کا تصور بھی ناممکنات میں سے ایک تھا۔بس اِن 30 منٹوں کے بعد مجھ سے برازیل کی یہ صورتحال نہ دیکھی گئی اور ٹی وی بند کرنے میں ہی عافیت جانی۔اِس صورتحال کے بعد اپنے غصے کا اظہار آخر کہیں تو کرنا تھا تو پھر ہم نے بھی فیس بک اور ٹوئیٹر کا رُخ کیا اورسوچا کہ یہی اپنی دل کی ساری بھڑاس نکالوں گا۔مگر وہاں تو پہلے سے ہی لوگوں کے تاثرات کا جمعہ بازار لگا ہوا تھا۔

جس کو دیکھو ایک نہیں بات۔ کسی کا کہنا تھا کہ کہیں برازیل کے ملبوس کپڑوں میں کہیں پاکستانی تو فٹ بال نہیں کھیل رہے، کسی نے کہا ارے بھائی یہ کوئی پریکٹس میچ تو نہیں چل رہا جبکہ یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ برازیل نے سٹا کھیل لیا ہے۔ بات یہاں کہاں رُکتی ہے۔ بلکہ کچھ نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ یہ جرمنی کی جانب سے ہالوکاسٹ 2 ہے غرض یہ کہ جتنے منہ اُتنی باتیں ، ارے نہیں نہیں بلکہ جتنے ہاتھ اُتنے اسٹیٹس کہنا زیادہ موضوع رہے گا۔

بہرحال ، کل جو ہوا وہ شاید آپ کے لیے تو شاید قابل قبول ہوسکتا ہے مگر میرے لیے ہر گز نہیں کیونکہ یہ میری برازیل ہے اور مندرجہ بالہ دو اصولوں کے باوجود بھی میں یہ بات ماننے سے انکاری ہوں۔ وجہ؟ وجہ یہ ہے کہ صاحب یہ محبت ہے، عشق ہے۔ اِس بار برازیل شکست کھا گیا تو کیا ہوا، چار سال بعد پھر ورلڈ کپ ہے۔ پھر عالمی میلے کا آغاز ہوگا، پھر برازیل ہوگی اور ہمارا ساتھ ہوگا۔ پھر یہیں اُمیدیں ہونگی کہ کوئی اور نہیں صرف برازیل ہی ورلڈ کپ جیتے گا۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں