غزل
تیرے چھونے سے خوبصورت ہوں
ورنہ پتھر کی ایک مورت ہوں
تو کہانی سمجھ رہا ہے مگر
ایک سچائی ہوں حقیقت ہوں
تو مجھے چھوڑ کیوں نہیں دیتا
جب ترے واسطے اذیت ہوں
دیکھنا ایڑیاں اٹھا کے مجھے
اس قدر میں بلند قامت ہوں
وہ کسی اور کی طلب تسنیمؔ
میں کسی اور کی ضرورت ہوں
(سیدہ تسنیم بخاری۔لاہور)
۔۔۔
غزل
لہروں پہ ڈال دو جو بھنور میں ہو ناؤ تو
تم بھی خدا کی طرح کرو ناخداؤ تو!
ایسا تھا ایک شوخ کی چارہ گری کا حسن
بھرنے کو آ گیا تھا کئی بار گھاؤ تو
دونوں وہ صورتیں ہیں کہ جلنے لگے ہے جسم
صحبت میں شعلہ رُو کی نہ آؤ تو، آؤ تو
ہاں دوست! دکھ کوئی نہیں سنتا بجا کہا
کیا کچھ تمہارا حال رہا ہے؟ سناؤ تو
ہم وہ فقیر ہیں جنہیں کہتا رہے نصیب
جو کچھ بھی چاہیے ہے بتاؤ، بتاؤ تو
لب کیوں بکھیرتے ہیں دھوئیں کی جگہ پہ مشک
دل میں اُسی طرح ہے ابھی بھی الاؤ تو
اب حل یہی ہے سارے ملو اور پِل پڑو
کر ہی رہے ہو ورنہ بچاؤ بچاؤ ،تو
وہ عالمِ طلب ہے کہ ہاتھوں سے چھین لیں
قدرت کو یہ پڑی ہے کہ صبر آزماؤ تو
کیوں دنگ ہو زبیرؔ سنو دوستوں کے جھوٹ
فنکار کیا کمال کے ہیں، مسکراؤ تو
(زبیرحمزہ۔قلعہ دیدار سنگھ)
۔۔۔
غزل
نہیں ہے کوئی تو پھر یہ جہان کیونکر ہے
زمین کس لیے ہے، آسمان کیونکر ہے
ہمارا نقش ہے کیوں اور ہمارا نام ہے کیوں
ہماری خاک ہے کیوں، خاکدان کیونکر ہے
ہمارے پاؤں تلے یہ دری بچھی کیونکر
ہمارے سر پہ تنا سائبان کیونکر ہے
دکھائی دیتی ہوئی کائنات کس لیے ہے
سنائی دیتی ہوئی داستان کیونکر ہے
ہم ایک دوسرے پر کیوں نہیں کھلے اب تک
ہمارے راز ہیں کیوں، رازدان کیونکر ہے
(امتیاز انجم ۔اوکاڑہ)
۔۔۔
غزل
نئے سرے سے اسے آزمانا ہوتا ہے
اور اس کے پاس پرانا بہانہ ہوتا ہے
اسی کو جنگ سے زندہ بچا کے لاتا ہوں
کمان داروں کا جس پر نشانہ ہوتا ہے
سب اس کو دیکھ کر ایسے قطار باندھتے ہیں
کہ جیسے اس کا کوئی آستانہ ہوتا ہے
اسی دراز کو تالا لگا کے رکھتا ہوں
کہ جس دراز کے اندر خزانہ ہوتا ہے
(احمد اویس۔ فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
جو در بدر ہیں ان کی طبیعت پہ غور کر
سردار ہے تو اپنی رعیت پہ غور کر
اب انقلاب کی ہے خبر ہر زبان پر
اب لازمی ہے رب کی مشیّت پہ غور کر
ذوقِ طلب میں جو بھی ہے زندہ اسے سمجھ
پھر اپنے ساتھیوں کی معیت پہ غور کر
لطفِ وصال و ربط کہاں ہے وجود میں
وحشت زدہ مکیں کی اذیت پہ غور کر
اپنے وطن کی دھرتی ہی اپنی نہیں رہی
اپنی قمرؔ ذرا تُو بھی نیّت پہ غور کر
(نذیر اے قمر۔میڈرڈ،اسپین)
۔۔۔
غزل
زندگی اپنی خود اجیرن کی
بات مانی تھی اُس سپیرن کی
گھر کو بس گھر بنانے رکھنا تم
پھر ضرورت نہ ہوگی سوتن کی
میں منافق نہیں سو رکھتا ہوں
لمبی فہرست اپنے دشمن کی
چھت ٹپکنے کا حل نہیں نکلا
اور جھڑی لگ رہی ہے ساون کی
میں نے پگڑی اُسے بنا لی ہے
ماں کی ساڑی تھی ایک کاٹن کی
تم کو ہنستا ہوا لگوں گا فیضؔ
سر پہ بوری مگر ہے نو من کی
(فیض الامین فیض۔ کلٹی، ویسٹ بنگال، بھارت)
۔۔۔
غزل
خون سے سینچا ہم نے شجر کو اس پر گل لہرانے تک
دکھ دریا اک پار کیا تھا خود کو راہ پہ لانے تک
جھیل سی ان گہری آنکھوں کی ماپی جو گہرائی تھی
ہجر نے سانس ہی ساکن کر دی جھیل سے اوپر آنے تک
یاس خوشی میں ڈھل جائے اور ہر سو باغ بہاراں ہو
جانے کب وہ دن ہم دیکھیں اس کی انشا پانے تک
بج اٹھتا ہے دل کا سرگم یار کو جب جب دیکھیں ہم
چھیڑیں گے یہ تار تو ہم بھی گیت نیا اک گانے تک
وہ بھی مٹی میں بھی مٹی، مٹی میں مل جانا ہے
مٹی کا یہ کھیل رچا ہے مٹی کو سمجھانے تک
دل دروازہ بند کیا، پھر ہجر کا تالا ڈال دیا
پہلے اس نے لوٹا دل کو دل سے باہر جانے تک
ابھی بہاراں ہے سو تم بھی ناز کرو انداز کرو
گل اترائے پھرتے تھے یاں کتنے ہی مرجھانے تک
دن بھر کی یہ دھوپ بدن کو دھیرے دھیرے کھا جاتی ہے
حسن یہ پھیکا پڑ جاتا ہے جیون کے ڈھل جانے تک
رعب ہے اتنا حسن کا یارو ادب سکھائے بے ادبوں کو
اس کی محفل میں چپ بیٹھیں دیکھو تو دیوانے تک
(عامرمعانؔ۔ کوئٹہ)
۔۔۔
غزل
سلیقے سے چمکتا آئینہ خانہ بناتا ہوں
فصاحت سے بھرے اسلوب سے مصرع بناتا ہوں
قبیلے میں فقط مجھ کو ملا فنِ سخن سازی
فقط میں ہی یہاں اپنا سخن خستہ بناتا ہوں
مری موجودگی شاداب رکھتی ہے گلستاں کو
میاں باغِ سخن میں اس طرح سبزہ بناتا ہوں
بھی غزلوں کی صورت میں مخاطب ہوتا ہوں خود سے
بھی اپنی طرف سے خامشی نغمہ بناتا ہوں
تعلق مجھ کو کوئی راس آتا ہی نہیں شاید
بچھڑ جاتا ہے مجھ سے وہ جسے اپنا بناتا ہوں
تبھی تو منفرد جانا مجھے احباب نے حمزہؔ
جہاں چھیدے کوئی مجھ کو، وہاں رخنہ بناتا ہوں
(امیر حمزہ سلفی۔ اسلام آباد)
۔۔۔
غزل
اب یہ قصہ لگے پرانا مجھے
اس کا رو کر گلے لگا نہ مجھے
اس کی آواز جب نہیں آتی
زہر لگتا ہے ہر ترانہ مجھے
لفظ آرے ہیں چیر ڈالیں گے
شعر کہنے کا فن سکھا نہ مجھے
حال غربت نے کر دیا ایسا
لوگ سمجھے مگر دوانہ مجھے
اب درختوں سے لگ کے روتا ہوں
اب میسر نہیں وہ شانہ مجھے
میں ترے بعد بھی رہوں زندہ
حوصلہ یہ بھی دے خدا نہ مجھے
اس نے روتے ہوئے لپٹ کے کہا
خود سے کرنا کبھی جدا نہ مجھے
میں جو کہتا ہوں کر بھی جاتا ہوں
کر بھی جاتا ہوں، آزما نہ مجھے
بخت ڈھلنے کی دیر تھی بابرؔ
پھر سمجھ آ گیا زمانہ مجھے
(بابرعلی۔ویرووال زریں۔سرگودھا)
۔۔۔
غزل
میں دل وجان سر نہیں لوں گا
کوئی تاوان سر نہیں لوں گا
عشق کی قید سے رہائی دے
اور زندان سر نہیں لوں گا
اب تو اپنے ہی گھر میں دحشت ہے
اب بیابان سر نہیں لوں گا
فاعیلاتن کا بحر کافی ہے
اور اوزان سر نہیں لوں گا
میں فرشتہ صفت سا بندہ ہوں
کوئی شیطان سر نہیں لوں گا
مجھ پہ تم فاتحہ بھی مت پڑنا
تیرا احسان سر نہیں لوں گا
کھا کے ٹھوکر سنبھل چکا ارسلؔ
اور نقصان سر نہیں لوں گا
(ارسلان شیر۔ کابل ریور، نوشہرہ)
۔۔۔
غزل
ستارگی ستارگی لباس میں
وہ کہکشاں انڈیلتی گلاس میں
کسی کے طاق پر جلا چراغِ دل
تمام شہر آ گیا حواس میں
کٹے ہوئے پھٹے ہوئے ڈٹے ہوئے
سیہ گلاب نیلگوں کپاس میں
لہو میں تر لبوں پہ لب مرادِ شب
نمک سا ذائقہ ملا مٹھاس میں
تمام لفظ اس کو دیکھتے رہے
کتاب پڑھ رہی تھی وہ کلاس میں
سمجھ میں آ نہیں سکا معاملہ
میں مر نہیں سکا کسی کی پیاس میں
چنبیلیوں کو دیکھنا اے باغباں
چھپا ہے سانپ کب سے نرم گھاس میں
(فیض محمد شیخ۔کوئٹہ)
۔۔۔
غزل
نین تالاب ہو رہے ہوں گے
اشک غرقاب ہو رہے ہوں گے
نیندیں بے خواب ہو گئی ہوں گیں
قلب بے تاب ہو رہے ہوں گے
وہ چمن سے گزر گیا ہے ابھی
پھول شاداب ہو رہے ہوں گے
جب میں برباد ہو رہا ہوں گا
شاد احباب ہو رہے ہوں گے
لوگ اتر آئے ہیں بغاوت پر
لہجے تیزاب ہو رہے ہوں گے
میں بتدریج مر رہا ہوں عمرؔ
ریزہ سب خواب ہو رہے ہوں گے
(محمد عمر۔ چارسدہ، پشاور)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی