بابائے تھل فاروق روکھڑی

تحریک قیام پاکستان کے رکن اور اردو اور سرائیکی کے ممتاز شاعر کا احوالِ زیست

فاروق روکھڑی ایک ایسی شخصیت کا نام ہے جس نے اپنے گیتوں کے ذریعے سرائیکی زبان کو دوام بخشا ہے۔ ان کے گیتوں نے اس وقت عالم گیر شہرت حاصل کی جب سرائیکی زبان نے اپنی شناخت کا سفر خطے سے باہر شروع کیا تھا۔ ان کی شاعری نے نہ صرف سرائیکی زبان کی ترویج کی بلکہ سرائیکی موسیقی کو بھی عروج بخشا۔

ان کی شاعری جب سرائیکی کے سپوت عطاء اللّہ خان عیسیٰ خیلوی کی زبان اور گلے کی زینت بنی تو شہرت نے دونوں کو اپنے کاندھے پر بٹھایا اور دنیا بھر کی محبتیں سرائیکی اور عطاء اللّہ خان عیسیٰ خیلوی کی جھولی میں ڈال دیں۔ بابائے تھل فاروق روکھڑی مرحوم کو ہم سے بچھڑے 15برس بیت گئے ہیں مگر ان کے گیت اور شاعری آج بھی زبان زد عام ہیں۔

خاندانی پس منظر: فاروق روکھڑی کے اپنے تحریرکردہ سوانحی خاکے کے مطابق ان کے دادا سردار حضور بخش سنگھ ضلع بنوں کے شہر لکی مروت سے ہجرت کرکے میانوالی کے نواحی قصبے روکھڑی میں رہائش پذیر ہوگئے۔ وہ زبردست حکیم تھے۔ بعدازآں انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔ ان کے بیٹے سردار دین محمد کے بطن سے دو بھائی پیدا ہوئے۔ ان کے علاوہ فاروق روکھڑی کا سارا خاندان تقسیم کے وقت بھارت ہجرت کرگیا۔

فاروق روکھڑی 7 مئی 1929کو میانوالی کے قصبہ روکڑی جسے بعد میں روکھڑی کہا جانے لگا، میں پیدا ہوئے۔1947ء میں رام گمبھیر اسکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ میٹرک کی تعلیم سے فارغ ہوئے تو دادا کے دوست کی وساطت سے 1949ء میں محکمۂ ریلوے میں ''تار بابو'' بھرتی ہوگئے۔1970ء میں بہ طور سپروائزر ترقی ہوئی اور ملک وال ریلوے اسٹیشن پر تعینات ہوگئے۔ ہری پور ہزارہ، میانوالی، لیہ سمیت متعدد علاقوں میں محکمانہ خدمات سر انجام دیں اور کندیاں میں مقیم ہوگئے۔ 1984ء میں محکمہ ریلوے سے ریٹائرمنٹ حاصل کی۔

شاعری کا آغاز: شاعری کا شوق تو انہیں لڑکپن سے ہی تھا مگر ابتدا میں یہ شوق اشعار سننے اور پڑھنے ہی تک محدود رہا۔ وہ بتاتے تھے کہ زمانۂ طالب علمی میں جب وہ مڈل اسکول روکھڑی میں زیرتعلیم تھے تو ہیڈ ماسٹر حافظ سلطان محمود علامہ اقبال کے اشعار بانگ درا سے پڑھ کر سنایا کرتے۔ جب وہ ان کی وضاحت کرتے تو انہیں بہت لطف آتا۔ وہیں سے شاعری کا شوق پیدا ہوا۔1947ء میں جب میٹرک کلاس میں داخلہ لیا تو ٹوٹے پھوٹے اشعار کہنے لگے لیکن کسی کو سنانے کی جرأت پیدا نہیں ہوئی۔

فاروق روکھڑی اپنی کتاب ''ہم کو بھی نیند آئے'' کے دیباچے میں لکھتے ہیں:''میں ریلوے میں بھرتی ہوا تو اردو شاعری میں طبع آزمائی کرتا رہا وہاں مرزا امجد بیگ جالندھری سے اصلاح لی۔ والد صاحب کو میری شاعری کا علم ہوا تو انہوں نے بڑے خوب صورت انداز میں مجھے شاعری سے منع کردیا۔ کہا کہ پہلے زندگی کی جنگ لڑو، بڑے ہونے کی وجہ سے گھر کی تمام ذمہ داریاں تمہارے کاندھے پر ہیں۔ جس پر شاعری چھوڑ دی۔'' یوں انھوں نے 1952سے 1971ء تک شاعری چھوڑے رکھی۔ مزید لکھتے ہیں:''1971 میں میرا تبادلہ ملک وال سے کندیاں ہوا تو میانوالی میں ادبی سرگرمیاں عروج پر تھیں۔ میانوالی کے ادبی افق پر سید انجم جعفری، سالار نیازی، سید انوار الحق ظہوری، سید نصیر شاہ کا ادب میں طوطی بولتا تھا۔

ابتدا میں سید انوارالحق ظہوری سے اردو غزلوں کی اصلاح لی جب وہ لاہور منتقل ہوگئے تو سید نصیر شاہ سے اردو غزلوں کی اصلاح لینا شروع کردی۔'' فاروق روکھڑی لکھتے ہیں: ''1971 سرائیکی شاعری کا آغاز کیا اور پھر مادری زبان میں گیت نگاری کی صنف میں زیادہ کام کیا۔'' فاروق روکھڑی نے نہ صرف اردو غزلیات لکھیں بلکہ سرائیکی اور پنجابی گیت بھی لکھے۔

تحریک پاکستان میں کردار: فاروق روکھڑی جب1947ء میٹرک کی تعلیم حاصل کر رہے تھے تو ان دنوں تحریک قیام پاکستان عروج پر تھی۔ برصغیر میں مسلم علاقوں میں پاکستان کے قیام کے لیے جلسے جلوس نکالے جا رہے تھے۔ فن کار اور شاعر اپنی تخلیقات کے ذریعے مسلمانوں کا لہو گرما رہے تھے۔ ان دنوں فاروق روکھڑی بھی میانوالی کے جلسوں جلوسوں کی رونق ہوا کرتے تھے۔

اللّہ پاک کی طرف سے ترنم کی نعمت ملی تھی۔ وہ اپنی اور دیگر شعراء کی نظمیں اور اشعار جلسوں میں پڑھا کرتے۔ فاروق روکھڑی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: ''1947میں میانوالی میں مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے خان امیر عبداللّہ روکھڑی (جو فاروق روکھڑی صاحب کے رضائی بھائی بھی تھے) اور مولانا عبدالستار نیازی کی قیادت میں جلوس نکالے اور جلسے منعقد کیے جا رہے تھے۔ ان جلسوں میں کسی کی نظم 'مسلم ہے تو لیگ میں آ' بہت مشہور ہوئی تھی اسے ترنم کے ساتھ پڑھا کرتا تھا۔'' فاروق روکھڑی کو اعزاز حاصل ہے کہ ضلع کچہری میانوالی جا کر انہوں نے انگریز سرکار کا جھنڈا اتار کر پاکستان کا پرچم لہرا دیا۔ ڈاکٹر اجمل نیازی کے مطابق ''تحریک قیام پاکستان کے دوران حبیب جالب، جمیل الدین عالی کے علاوہ فاروق روکھڑی سے بہتر مقام اور کسی شاعر کو نصیب نہیں ہوا۔''

سرائیکی اور اردو گیت نگاری کا آغاز: فاروق روکھڑی نے شاعری کا آغاز تو 1952سے کیا مگر سرائیکی شاعری 1971سے شروع کی۔ وہ روکھڑی لکھتے ہیں:


''یہ 1975ء کی بات ہے جب متعدد گلوکاروں کی آواز میں میرے گیت علاقائی سطح پر گائے جارہے تھے۔ ایوب نیازی، شفیع اختر وتہ خیلوی مسعود ملک کی آواز میں گیت مشہور ہوچکے تھے۔ مسعود ملک کی آواز میں اردو غزل: ہم تم ہوں گے بادل ہوگا،رقص میں سارا جنگل ہوگا۔۔۔ملک گیر شہرت حاصل کرچکی تھی۔ ایک دن عطاء اللّہ عیسیٰ خیلوی میرے محلے زاد فاروق ہاشمی کے ہم راہ میرے غریب خانے پر گیت لینے کے تشریف لائے۔ اس دن سے ایسا تعلق قائم ہوا کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔''

معروف نغمے: فاروق روکھڑی کے لکھے گیتوں اور غزلوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ ان کے لکھے گیتوں کو نہ صرف پاکستانی گلوکاروں نے گایا بلکہ بھارت کے گلوکاروں نے بھی کاپی کیا۔ جن گلوکاروں نے ان کا کلام گایا ان میں سب سے زیادہ کلام عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی نے گایا ہے جب کہ دیگر گلوکاروں میں مادام نورجہاں، شمسہ کنول، افشاں بیگم، نصیبولعل، سائرہ نسیم، مسعود ملک، ایوب نیازی، شفیع وتہ خیلوی، عطاء محمد نیازی داؤدخیلوی، اعجاز راہی، شفاء اللہ روکھڑی، ذیشان روکھڑی، منصور علی ملنگی، اللّہ دتہ لونے والا، شوکت علی، احمد نواز چھینہ، عارفہ صدیقی، بنجمن سسٹرز، عبدالستارزخمی، امجد کارلو سمیت درجنوں پاکستانی گلوکار شامل ہیں۔ بھارت میں ہنس راج، ببو مان، اور دیگر نے فاروق روکھڑی کا کلام کاپی کیا ہے۔ ان کے مشہور نغمے یہ ہیں:

ہم تم ہوں گے بادل ہوگا، کھول صراحی پیارے ساقی، جنوں کو ضبط سکھا لوں، خود پر نہ کسی اور پہ احسان ہے یارو، دل کے معاملات سے انجان تو نہ تھا، تمہیں تو علم ہے کیا خوب وہ زمانہ تھا، ان رت جگوں کا یارب کب تک عذاب دیکھیں، جیون میں ایسے لمحات بھی آتے ہیں، یہ بات الگ تم سے جدا ہو نہیں سکتا، کنڈیاں تے ٹر کے آئے، اساں گٹ پیتی ہے تے مچ گیا شور وے، اے تھیوا مندری دا تھیوا، اک پانڑی ڈلیا تے ڈوجھا گھڑا ٹٹیا، آ میڈا جانی ہک گل کراں ہا، ایویں نہ لکیراں آتے مار توں لکیر وے، اے ارمان نہ دل میڈے دا جاندا وے،پیار دی شراب اساں پیار نال پیتی ہے، ساڈا کی اے دنیاں دے نال سوہنڑیاں دی خیر منگدے، بیر میں گھنساں کنڈے پڑائے، پھلاں دی چنگیر ڈل گئی،ہتھ روک نہ میڈا دربان آ، کہڑے سمے آنویں گا او ڈس جانیاں،تیڈے کول کول راہندے، مردے وی رہے ہاں تے جیندے وی رہے ہاں، تیڈی سانول اگلی ٹور تے نہیں۔ ان کے علاوہ سیکڑوں گیت ایسے ہیں جو آج بھی سرائیکی ثقافت اور تہذیب کے دلدادہ شائقین موسیقی کے دل و دماغ پر راج کر رہے ہیں۔

کتابیں: فاروق روکھڑی نے ابتدائی سالوں میں گیت نگاری اور مشاعروں پر توجہ دی جس کی وجہ سے ان کی کتابیں ان کی آخری زندگی میں شائع ہوئیں۔ ان کی چار کتابیں شائع ہوئیں: ہم کو بھی نیند آئے (اردو)، کاغد دی بیڑی (سرائیکی)، میں کوئی پارسا نہیں فاروق (اردو)، قربتیں (اردو)۔



فاروق روکھڑی بابائے تھل کیسے بنے: قیام پاکستان کے وقت میانوالی سے بھارت ہجرت کرنے والے ممتاز ادیب رام لعل اپنی جنم بھومی دیکھنے فروری 1980ء میں پاکستان آئے۔ ایک رات ممتاز پروڈیوسر ستارسید، جن کا تعلق میانوالی سے ہے، نے اپنے گھر انگوری باغ لاہور میں رام لعل کے اعزاز میں عشائیے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ اس نشست میں میانوالی سے ڈاکٹر اجمل نیازی، فاروق روکھڑی، محمد سلیم احسن، استاد امیرحسین، مسعود ملک، استاد امیرحسین بھی شریک ہوئے اس رات محفل موسیقی میں فاروق روکھڑی کے گیت پیش کیے گئے۔ انہوں نے ایسا سماں باندھا کہ وہاں موجود سب شرکاء نے فاروق روکھڑی کے لیے ''بابائے تھل'' کا خطاب تجویز کیا، جو بعدازآں فاروق روکھڑی کے نام کا حصہ بن گیا۔ اس سے قبل فاروق روکھڑی کی خوش طبعی کی وجہ سے انہیں لالہ فاروق، بعد ازآں انہیں ماما فاروق کے نام سے پکارا جاتا رہا۔ یہ دونوں نام وسیب کی ان سے محبت میں گندھے ہوئے تھے۔

اپنے ہم عصر ادیبوں کی نظر میں: فاروق روکھڑی کی ایک خاصیت انہیں اپنے ہم عصر ادیبوں میں ممتاز کرتی تھی۔ وہ یہ کہ انہوں نے حسد کے بجائے رشک کی پالیسی اپنائی۔ انہوں نے کبھی اپنے کسی جونیئر، سنیئر یا ہم عصر کے ساتھ حسد نہیں کیا۔ وہ سب کے ساتھ محبت کرتے تھے۔ ملک کے ممتاز ادیب و کالم نگار ڈاکٹر محمد اجمل نیازی فاروق روکھڑی کی بابت لکھتے ہیں: ''فاروق روکھڑی کی شاعری میں رومانوی فضا کے ساتھ ساتھ انقلابی ادا بھی دکھائی دیتی ہے۔ انہوں نے ایسی نظمیں بھی لکھی ہیں جو سیاست اور صحافت کے اندر پیدا ہوجانے والے منفی رحجانات کی نشان دہی کرتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فاروق روکھڑی کو بہت بڑا سرائیکی شاعر تسلیم کیا جاتا ہے، لیکن ان کے اردو کلام نے بھی بہت متاثر کیا ہے۔ باطن کے اظہار کے لیے فاروق روکھڑی کے ہاں موضوعات کا بے پناہ ذخیرہ موجود ہے۔

چھوٹے موٹے انسانی مسائل سے لے کر حیات و کائنات کے اسرارورموز تک تمام ان کے احاطۂ شاعری میں شامل ہیں۔ اس نے وقار و عظمت کے ان خزانوں کی نشان دہی کی ہے جو انسان کے اندر موجود ہیں۔ وہ اپنی شاعری میں وقارِآدمیت کی بقا کی خاطر تخت وتاج کو ٹھوکر مارتا ہوا ملتا ہے۔ اس لیے میں نے اسے 'وقار آدمیت' کا شاعر قرار دیا ہے۔'' رام لعل بھارت کے ممتاز لکھاری ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت میانوالی سے بھارت ہجرت کرگئے۔ بعد ازآں وہ پاکستان آئے اور میانوالی اپنی جنم بھومی کا دورہ کیا۔ واپسی پر انہوں نے پاکستان کا سفر نامہ ''زرد پتوں کی بہار'' لکھا اس میں رام لعل فاروق روکھڑی بارے لکھتے ہیں:''16 اور 17فروری کی درمیانی شب میانوالی سے لاہور کا سفر کافی معنوں میں دل چسپ ثابت ہوا۔ رات کے وقت ٹرین واں بھچراں اسٹیشن سے آگے گزری تو ساتھ والے ڈبے سے کچھ عورتوں کے گیت گانے کی آواز سنائی دینے لگی۔ رات کے سناٹے میں یہ آواز گاڑی کے شور پر بھی حاوی ہوگئی۔ ''تیڈے کنڑ پا کے آئی ونگاں نہ تروڑ وے بانہہ بھنی ویسی ڈھولا وینڑی نہ مروڑ وے۔''

یہ گیت میرے دوست فاروق روکھڑی کاہی تھا۔ مجھے خوشی ہوئی یہ عوام کی زبان پر چڑھ گیا تھا۔''

فاروق روکھڑی سرائیکی وسیب کے خطۂ تھل کا ایسا بخت مند ادیب تھا جس کے نغموں نے نہ صرف سرائیکی زبان کو دوام بخشا بلکہ ان نغموں کے سحر نے دنیا بھر کو عطاء اللّہ عیسیٰ خیلوی اور سرائیکی زبان کا گرویدہ بنا دیا۔ جب تک سرائیکی موسیقی موجود ہے فاروق روکھڑی کے نغمے شائقین موسیقی کے قلوب و اذہان پر راج کرتے رہیں گے۔
Load Next Story