سسی کی بے خبری
رومانوی داستان والی سسّی کا جب شہر بھنبھور لُٹ رہا تھا تو وہ بے چاری اس کے بارے میں ہرگز بے خبر تھی۔
رومانوی داستان والی سسّی کا جب شہر بھنبھور لُٹ رہا تھا تو وہ بے چاری اس کے بارے میں ہرگز بے خبر تھی۔ اسی لیے تو جب کوئی درد بھری آواز والا پورے دل سے اس کی داستان سناتا ہے تو آنکھوں سے آنسو چھلکنے کو بے قرار ہوجاتے ہیں۔ شہباز شریف کو جالب وغیرہ کے شعر تو کافی یاد ہیں مگر وہ سسّی جیسی بے خبری کے دعوے دار تو بالکل نہیں ہوسکتے۔ ان کے والدِ گرامی بہت زیرک انسان تھے۔ مرحوم نے جبلی طور پر دریافت کرلیا تھا کہ ''بڑے'' کے مقابلے میں ''چھوٹے'' کا ذہن کاروباری معاملات کو بہتر انداز میں سمجھ سکتا ہے۔ اسی لیے انھوں نے اپنی کاروباری ضروریات کے حوالے سے شہباز شریف صاحب پر زیادہ توجہ دی۔ انھیں جرمنی، جاپان وغیرہ بھجواکر نئی ٹیکنالوجی کو سمجھنے کے پورے مواقع فراہم کیے۔
بہتر یہی ہوتا کہ شہباز شریف صاحب اپنے خاندانی کاروبار پر ہی اپنی تمام تر صلاحیتیں مرکوز رکھتے۔ ان کے ساتھ مگر زیادتی اس وقت ہوئی جب 1990ء میں انھیں قومی اسمبلی کا رکن بنوا دیا گیا۔ اسلام آباد پہنچ کر شہباز صاحب نے ایک وفادار بھائی کی طرح نواز شریف صاحب کی حکومت کو مستحکم کرنے میں دن رات ایک کردیا۔ میری ان سے پہلی ملاقات بھی ان ہی دنوں ہوئی تھی اور ایمان داری کی بات ہے کہ ان کے ساتھ پہلی ملاقات کے دوران میں ان کی چستی، مستعدی اور سخت سے سخت بات کو خندہ پیشانی سے سننے کی صلاحیت سے بڑا متاثر ہوا تھا۔
پھر نواز شریف صاحب کے اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان سے اختلافات شروع ہوگئے اور اپنے بھائی کی محبت میں سرشار شہباز شریف نے Damage Controlکی کوششیں شروع کردیں۔ چوہدری نثار علی خان اس سلسلے میں ان کے معتمدِ اوّل ہوا کرتے تھے۔ مجھے ان دنوں نواز شریف سے کوئی محبت بھی نہیں تھی۔ ان کے دربار پر چند ایسے لوگ قابض ہوچکے تھے جو کہنے کو تو صحافی تھے مگر اصل میں خود کو نواز شریف کے پہلے دورِ حکومت کے نورتنوں میں شمار کیا کرتے تھے۔ مختلف وزارتوں کے جہاندیدہ افسران کو ان کا فون چلاجاتا تو حکم کی فوراً تعمیل ہوتی۔ ایسے ہی لوگوں کی مہربانی سے مجھے صحافی کے بجائے نواز شریف دربار میں بے نظیر بھٹو کا جیالا بناکر ''عبرت کا نشان'' بنانے والی وارداتیں ہوتی رہیں۔
میری تذلیل کی انتہا وہ لمحات تھے جب پہلے جرمنی اور پھر جاپان کے سرکاری دورے پر روانہ ہونے والے وزیر اعظم کے خصوصی طیارے میں ایک نشست پر بیٹھنے کے لیے مجھے اسلام آباد ایئرپورٹ بلواکر گھر واپس بھیج دیا گیا۔ جوانی کے دن تھے۔ اس لیے ڈھیٹ بھی ضرورت سے زیادہ تھا۔ قطعی غصے میں نہ آیا اور بس خبریں اکٹھا کرنے پر توجہ مرکوز رکھی۔ خبروں کی اسی تلاش کی وجہ سے میں نے یہ بھی دریافت کرلیا کہ اپنے تئیں شہباز اور نثار ''بابے'' یعنی غلام اسحاق خان کو جب بھی ''رام کرنے والی'' کسی ملاقات سے واپس لوٹتے ہیں تو اس وقت کے صدرِ مملکت جسے قومی اسمبلی توڑنے کا اختیار بھی حاصل تھا نواز شریف کے معاملے میں مزید سخت گیر ہوجاتے ہیں۔
میں آج تک یہ بات ہرگز نہیں سمجھ پایا کہ شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان خود کو Crisis Managementکا اتنا بڑا ماہر کیوں گردانتے ہیں۔ غلام اسحاق خان کے ہاتھوں ان کے لیڈر یعنی نواز شریف کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے بعد تو بلکہ ان دونوں کو Crisis Managementکا نام سنتے ہی اپنے کانوں کو ہاتھ لگاکر ایسے معاملات کسی دوسرے کے حوالے کرنے کی راہیں ڈھونڈنے کی عادت اپنا لینا چاہیے تھی۔
پھر نوازشریف 1997ء میں ''بھاری مینڈیٹ'' کے ساتھ اس ملک کے دوبارہ وزیر اعظم بنے تو شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ بن گئے۔ امید اس عہدے کی اگرچہ چوہدری پرویز الٰہی کئی برسوں سے اپنے دل میں پال رہے تھے۔ انھیں پنجاب اسمبلی کا اسپیکر بناکر Side Lineکردیا گیا۔ چوہدری شجاعت حسین کو مرکز میں وزارتِ داخلہ تو ملی مگر FIAاور IBوالے احکامات صرف اور صرف سیف الرحمن سے لیتے۔ ان ہی سیف الرحمن نے مجھے بھی ''سبق سکھانے'' کے لیے FIAکے چند ہٹے کٹے مشٹنڈوںکو دوٹیوٹا کرولا گاڑیوں میں بٹھاکر میرے گھر کے باہر کئی ہفتوں تک تعینات رکھا۔
میری بیوی اپنی شیر خوار بچی کے ساتھ سوزوکی آلٹو میں کسی مارکیٹ جاتی تو ایک ٹیوٹا گاڑی اس کا پیچھا بھی کرتی۔ چوہدری شجاعت حسین جیسے وضع دار آدمی اس معاملے میں میری کوئی مدد کرنے سے بالکل قاصر تھے۔ سیف الرحمن سے مجھے جیسے تیسے اپنے طور پر ہی نبردآزما ہونا پڑا اور اس ضمن میں یقینا مشاہد حسین صاحب نے ان دنوں کے وزیر اطلاعات ہوتے ہوئے مجھے وزیر اعظم کی جانب سے مدد فراہم کروائی۔ اپنے ذاتی تجربات کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں اس وقت ہرگز حیران نہ ہوا جب 12اکتوبر 1999ء کے بعد چوہدری برادران نے جنرل مشرف سے اپنے روابط استوار کرنا شروع کردیے۔
شہباز شریف کی شخصیت پر میں ایک لمبا چوڑا Thesisلکھ سکتا ہوں۔ موضوع وہ اس وقت مگر ایک کالم کے ہیں۔ لہذا کالم کی تنگ دامنی کو نظر میں رکھتے ہوئے زور اس بات پر دیتے ہیں کہ شہباز شریف سسّی کی طرح معصوم اور بے خبر نظر آنے کی کوشش نہ کریں۔ تیسری بار پاکستان کے آبادی کے حوالے سے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ بنے ہیں۔ ایک حوالے سے یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک ریکارڈ بھی ہے۔ اٹک سے رحیم یار خان تک اتنے برسوں تک مکمل بادشاہی سے آشنا ہوجانے کے بعد انھیں اب کم از کم اتنا تو سمجھ ہی لینا چاہیے کہ ''اصل گیم'' کیا ہے۔
وہ اور چوہدری نثار علی خان یہ گمان کرنے میں سراسر غلط ہیں کہ اگر کسی نہ کسی طرح نواز شریف کو جنرل مشرف کے معاملے پر ''مٹی پائو'' والا رویہ اختیار کرنے پر قائل کردیا جائے تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔ شریف الدین پیرزادہ کے جہاں دیدہ اور زرخیز ذہن کی بدولت جنرل مشرف کی گلو خلاصی کے راستے تو کسی نہ کسی صورت پہلے ہی رہے ہیں۔ مگر اس کے بعد بھی علامہ ڈاکٹر طاہر القادری اپنا ''انقلاب'' برپا کرنے کی کوشش ضرور کریں گے۔ عمران خان کے 14اگست 2014ء والے ملین مارچ کو ارسلان افتخار کی سادگی وپرکاری ہرگز نہ روک پائے گی۔ ان دونوں حضرات کی کاوشوں کے بدلے اور کچھ برآمد ہو نہ ہو ایک بات ثابت ہوجائے گی اور وہ یہ کہ پنجاب اب شریف برادران کا ناقابل تسخیر قلعہ نہیں رہا۔
معاملہ کم از کم ''ایک دھکا اور دو'' تک ضرور پہنچ گیا ہے۔ ٹھوس سیاسی حوالوں سے شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے پاس ابھی تک اپنی جماعت کی پنجاب پر بالادستی والے تاثر کو Retrieveکرنے کے ہزار ہا امکانات موجود ہیں۔ وہ دونوں ان کو ڈھونڈنے کا مگر تردد ہی نہیں کر رہے۔ صرف گزشتہ ہفتے پورے چار دن شہباز شریف بجائے ان امکانات پر توجہ دینے کے ہر شام اسلام آباد تشریف لاکر چوہدری نثار علی خان کو رام کرتے رہے۔ بظاہر چکری سے آیا راجپوت پیا اب رام ہوگیا ہے۔ مگر تخت لہور، شہر بھنبھور کی طرح اب بھی لٹنے کو تیار نظر آرہا ہے اور شہباز شریف کے اندر بیٹھی سسّی اسے دیکھ ہی نہیں پا رہی ہے۔